مودی اور عمران خان کا دورۂ امریکہ اور کشمیر

جمعہ 22 ستمبر کو ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے پاکستانی ہم منصب امریکہ پہنچے۔ عمران خان سعودی طیارے میں نیویارک آئے، جبکہ نریندر مودی کا سرکاری طیارہ توانائی کے عالمی مرکز (Energy Capital) یعنی ہیوسٹن اترا۔ اتفاق سے جس روز شری مودی ہیوسٹن تشریف لائے اس سے ایک دن پہلے یہاں LNGکی ایک 4 روزہ بین الاقوامی کانفرنس GASTECH 2019 ختم ہوئی جس کا اہتمام اسی nrg سینٹر میں کیا گیا تھا جہاں اتوار کو مودی جی نے ہندوستانیوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ GASTECH میں پاکستانی وزیراعظم کے مشیر پیٹرولیم ندیم بابر کی زیر قیادت ایک بھاری بھرکم وفد نے شرکت کی تھی۔نریندر مودی کے دورۂ ٹیکساس کو Howdy Modi کا نام دیا گیا۔ احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ امریکہ اور انگریزی بولنے والے معاشروں میں استقبال کے لیے hello! how are you? کہا جاتا ہے۔ اہلِ ٹیکساس اپنے مخصوص تلفظ میں Hello اور how are you?کوملا کر howdyکہتے ہیں۔ مودی کے لیے اپنائیت پیدا کرنے کی غرض سے مقامی ثقافت کا تڑکا لگایا گیا۔
ہیوسٹن کی پہچان 14لاکھ مربع فٹ پر مشتمل nrg سینٹر ہے، جس کا تلفظ ’انرجی‘ کیا جاتا ہے۔ مشہورِ زمانہ Offshore Technology Conference (OTC) سمیت تمام اہم نمائشیں، کھیل اور اجتماعات یہیں منعقد ہوتے ہیں۔ عیدین کی مرکزی نماز بھی اسی جگہ اداکی جاتی ہے۔
وزیراعظم مودی کی ہیوسٹن آمد کا بنیادی مقصد توانائی کمپنیوں کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات تھا، جسے Corporate Summit کا نام دیا گیا۔ اس چوٹی کانفرنس میں ایکسون موبل (Exxon Mobil)، فرانس کی Total، خدمت رساں ادارے بیکر ہیوز اور شلمبرڑے سمیت تمام بڑی کمپنیوں کی اعلیٰ قیادت نے شرکت کی۔ اپنے گزشتہ دورے میں ہندوستانی وزیراعظم نے آئی ٹی کے شعبے میں صفِ اوّل کی 20 سے زیادہ کارپوریشنوں کے سربراہوں سے ملاقات کی تھی جن میں Apple, Amazon, Google, Twitterکے علاوہ امریکہ کے سب سے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹور Walmart، بجلی سے چلنے والی کار کمپنی Tesla اور اسلحہ ساز ادارے Lock Heed Martin کے سی اوز شامل تھے۔ دخترِ اوّل ایوانکا ٹرمپ بھی تھوڑی دیر کے لیے اجلاس میں آئیں اور اعلان کیا کہ اِس سال کے آخر میں نریندر مودی نے دنیا بھر کی کارپوریشنوں کا جو سربراہی اجلاس ہندوستان میں طلب کیا ہے اس میں وہ خصوصی طور سے شریک ہوں گی۔ عوامی سطح پر بھارت کے چہرے کو مزید ملائم بنانے اور ترقی و خوش حالی کی دھاک بٹھانے کے لیے عوامی جلسے کا اہتما م بھی کیا گیا۔ جلسے کے لیے ہیوسٹن کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ بھارت تجارتی حجم 140 ارب ڈالر کے قریب ہے جس میں سے 60 ارب کے سودے ٹیکساس میں ہوتے ہیں۔
مودی جی ہندوستان کو 5000 ارب ڈالر کی معیشت بنانے کا دعویٰ کررہے ہیں، جس کے لیے انھیں توانائی کے نت نئے وسائل کی ضرورت ہے۔ ہیوسٹن آتے ہی انھوں نے بھارتی LNG درآمد کنندہ پیٹرونیٹ (Petronet) اور LNG بنانے والے امریکی ادارے Tellurian کے درمیان مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی، جس کے تحت پیٹرونیٹ Tellurian سے 50لاکھ ٹن LNG سالانہ خریدنے کی خواہش مند ہے۔
سیاسی اعتبار سے ہیوسٹن میں ہندوستانی وزیراعظم کی سب سے اہم مصروفیت 22 ستمبر کو nrg سینٹر میں ہندوستانی امریکیوں سے خطاب تھا، جس میں امریکی صدر ٹرمپ اور ٹیکساس سے امریکی سینیٹ کے دونوں اراکین یعنی سینیٹر جان کورنن (John Cornyn) اور ٹیڈ کروز(Ted Cruz) نے شرکت کی۔ ریاست ٹیکساس ری پبلکن پارٹی کے قدامت پسندوں کا گڑھ ہے۔ یہاں کے گورنر، دونوں سینیٹر اور 36 میں سے 23 ارکانِ کانگریس کا تعلق ر ی پبلکن پارٹی سے ہے۔ تاہم بڑھتی ہوئی ہسپانوی اور مسلم آبادی کی وجہ سے سیاسی جغرافیہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ 2018ء کے وسط مدتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی کارکردگی بہت بہتر رہی تھی اور رائے عامہ کے حالیہ جائزوں کے مطابق 2020ء کے انتخابات کے حوالے سے ری پبلکن پارٹی دبائو میں ہے جب صدر ٹرمپ کے ساتھ سینیٹر کورنن کو بھی ووٹروں کا سامنا ہے۔
ہندوستانیوں نے گزشتہ انتخابات میں صدر ٹرمپ کی پُرجوش حمایت کی تھی اور ری پبلکن پارٹی نے ٹیلی ویژن پر ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کے عنوان سے ہندی میں ایک اشتہار بھی جاری کیا تھا۔ اب اس حمایت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ہندوستان کے کئی مندروں نے صدر ٹرمپ کے بت بھی تراشے ہیں۔ nrg میں ہونے والی تقریب پر ری پبلکن پارٹی کے انتخابی جلسے کا گمان ہوا۔ جب صدر ٹرمپ اور نریندر مودی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے وسیع و عریض اسٹیج پر ٹہل کر ہاتھ ہلارہے تھے اُس وقت ہال پس منظر میں بندے ماترم کی موسیقی کے ساتھ ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ ٹیکساس صدر ٹرمپ کے سیاسی مستقبل کے لیے بے حد اہم ہے کہ اب یہ 38 انتخابی یا electoral ووٹوں کے ساتھ کیلی فورنیا کے بعد دوسری بڑی ریاست ہے جسے کھوکر ری پبلکن پارٹی کے لیے وہائٹ ہائوس جیتنا بہت مشکل ہے۔ امریکہ میں ہندوستانی سفیر کی کوششوں کا کمال کہ ری پبلکن پارٹی کے اس ’اجتماع‘ میں ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہیوسٹن کے رئیسِ شہر سلویسٹر ٹرنر اور امریکی کانگریس میں پاکستانی پارلیمانی گروپ کی سربراہ محترمہ شیلا جیکسن لی بھی موجود تھیں۔ رئیسِ شہر نے مہمان کو شہر کی روایتی کنجی بھی پیش کی۔
وزیراعظم مودی کے دورۂ امریکہ کی کامیابی میں کسی بھی مرحلے پر کوئی شبہ نہ تھا۔ اس کی بنیادی وجہ اسلام مخالف نظریات پر صدر ٹرمپ اور ہندوستانی وزیراعظم کا کامل اتفاق ہے۔ یہ دونوں رہنما قوم پرست اورگہرے مذہبی رجحان کے حامل ہیں۔ اپنی تقریر کے دوران جب صدر ٹرمپ نے دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے مشترکات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں اسلامک ٹیررازم(Islamic Terrorism) کا ذکر کیا تو مجمع فرطِ مسرت سے بے قابو ہوگیا۔ نریندر مودی نہ صرف تالی بجانے کے لیے کھڑے ہوگئے بلکہ وہ اچھلتے نظر آئے۔ ان کا خوشی سے گلنار چہرہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
وزیراعظم مودی نے لکھی ہوئی تقریر میں نہ صرف ہندوستان کا روشن چہرہ پیش کیا بلکہ نئے ہندوستان کی تصویرکشی کرتے وقت وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوگئے کہ کشمیر کی صورتِ حال کی بنا پر وہ نہ تو کسی پریشانی یا دبائو کا شکار ہیں اور نہ ہی یہ مسئلہ ان کے سر پر سوار ہے۔ اپنی 50 منٹ کی تقریر میں انھوں نے 2 منٹ سے بھی کم وقت کشمیر پر صرف کیا اور وہ بھی ’نئے ہندوستان‘ کے پس منظر میں۔ کشمیر تک پہنچنے سے پہلے انھوں نے ہندوستانیوں کو آگاہ کیا کہ مودی سرکار عوام کی بھلائی یا ویلفیئر کے ساتھ خراب روایات اور قوانین کوالوداع (Farewell) کہہ رہی ہے۔ انھوں نے بہت سے ان غیر ضروری قوانین کے خاتمے کا ذکر کیا جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ سلسلۂ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے مودی جی بہت جذباتی انداز میں بولے: ایسی ہی farewell پارٹی آئین کے آرٹیکل 370 کے اعزاز میں بھی سجائی گئی جو جموں و کشمیر اور لداخ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور وادی میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہا تھا۔ انھوں نے صدر ٹرمپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’اس فیصلے سے دقت اُن لوگوں کو ہورہی ہے جن سے اپنا ملک نہیں سنبھل رہا۔ ان لوگوں نے بھارت سے نفرت کو اپنی سیاست اور حصولِ اقتدار کی بنیاد بنایا ہے۔ یہ بدامنی پھیلاتے اور دہشت گردوں کو پالتے پوستے ہیں۔ دنیا انھیں جان چکی ہے۔ امریکہ کا/11 9 ہو یا ممبئی کا 26/11، سب کے تانے بانے اور ڈانڈے وہیں ملتے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا کہ انسانیت دشمن دہشت گردوں اور اُن کے سرپرستوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا وقت آچکا ہے۔ انھوںنے امریکی صدرکو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر ٹرمپ! دہشت گردی کے خلاف آپ کے ثبات و قرار کو میں دل کی گہرائیوں سے خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس موقع پر مودی جی کی درخواست پر سارے مجمع نے کھڑے ہوکر صدر ٹرمپ کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اپنی تقریر کے اختتام پر بارگاہِ ٹرمپ میں گلہائے عقیدت نچھاور کرتے ہوئے مودی جی بولے کہ مول تول کے حوالے سے صدر ٹرمپ مجھے good negotiator کہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ فن معاہدہ یا Art of Dealکے ماہر ہیں اور میں ان سے بہت کچھ سیکھ رہا ہوں۔ تعریف کے خوگر ٹرمپ نریندر مودی کا یہ جملہ سن کر پھڑک اٹھے۔
نریندر مودی کی اس تقریب کی ریاستی حکومت، ری پبلکن پارٹی اور خود صدر ٹرمپ کی جانب سے جو پذیرائی کی گئی اس کی بنیادی وجہ تو وہ مسلم مخالف بیانیہ ہے جس پر ری پبلکن پارٹی اور امریکہ کے قدامت پسند دل و جان سے ہندوستان، مودی اور بی جے پی کے حامی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کی پھلتی پھولتی منڈی اور بھاری بھرکم معیشت دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو بے حد پُرکشش محسوس ہورہی ہے جسے مودی صاحب5ہزار ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بحرالکاہل اور بحرہند میں چینی بحریہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے بھی امریکہ کو بھارت کی ضرورت ہے۔ جلسے میں صدر ٹرمپ نے بہت فخر سے اعلان کیا کہ اس سال نومبر میں ہندوستان اور امریکہ کی بحریہ، فضائیہ اور بری افواج تاریخ کی پہلی tri- services مشترکہ مشقیں کریں گی۔
نظریاتی ہم آہنگی، اقتصادی مفادات اور مشترکہ عسکری حکمت عملی اپنی جگہ، لیکن کشمیری بیانیے اور پاکستان کی بے وقعتی میں بڑا ہاتھ حکومت اور پاکستانی وزارتِ خارجہ کا بھی ہے۔ اپنے گزشتہ دورے میں پاکستانی وزیراعظم نے جو رویہ اختیار کیا وہ کسی طور مناسب نہ تھا۔ ان کے طرزعمل سے صاف ظاہر تھا کہ عمران خان وزیراعظم کے بجائے تحریک انصاف کے سربراہ کی حیثیت سے امریکہ آئے ہیں۔ نریندر مودی کی طرح کارپوریشنوں کے سربراہان سے ملنے کے بجائے پاکستانی تاجروں کے نام پر انھوں نے تحریک انصاف کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں اورگفتگو بھی ’انجمنِ ستائشِ باہمی‘ کے اجلاس سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ امریکی دارالحکومت ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ ہے۔ اس کی دونوں مضافاتی ریاستیں میری لینڈ اور ورجینیا میں ڈیموکریٹس کا زور ہے۔ دونوں ریاستوں کے چاروں سینیٹر ڈیموکریٹ ہیں اور ارکانِ کانگریس کی اکثریت بھی صدر ٹرمپ کی مخالف ہے۔ اس علاقے میں اسلام فوبیا سمیت تمام نفرت انگیر بیانیوں کے بارے میں منفی رائے پائی جاتی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کی میئر موریل باوزر (Muriel Bowser)صدر ٹرمپ کی سخت مخالف ہیں اور ٹرمپ مودی دوستی کی بنا پر انھیں ہندوستان بھی بہت زیادہ پسند نہیں۔ اگر موریل صاحبہ سے بروقت رابطہ کیا جاتا تو واشنگٹن کا جلسہ عام میئر کی جانب سے استقبالیہ بن سکتا تھا، لیکن اس کے لیے عمران خان کو سنجیدگی اختیار کرنی پڑتی، جبکہ انھیں کنٹینر پر کھڑے ہوکر فی البدیہہ تقریر زیادہ پسند ہے۔
اگر عمران خان کے واشنگٹن اور مودی کے ہیوسٹن خطاب کا موازنہ کیا جائے تو یہاں بھی فرق بہت واضح ہے۔ اگرچہ مودی جی نے بھی اپنے مخالفین کا نام لیے بغیر ان پر طنز کے تیر داغے اور دوسری مرتبہ کامیابی پر روایتی سیاست دانوں کی طرح شیخی بگھاری، لیکن ان کی پوری تقریر بھارت کی ترقی و کمال کی مثبت کہانی تھی۔ حتیٰ کہ انھوں نے ٹوائلٹ کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے مطلع کیا کہ اب 99 فیصد ہندوستانیوں کو سینیٹری کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں ہندوستانیوں کو خوش خبری دی کہ ’’دیش میں سب اچھا ہے‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے یہ جملہ پنجابی، گجراتی، مراٹھی، بنگالی، ملیالم سمیت بھارت کی تقریباً ہر زبان میں دہرایا۔ ملک کو درپیش پریشانیوں کا ذکر تو کیا لیکن اس کے بعد ساری گفتگو حکومت کے اصلاحی اقدامات اور روشن مستقبل کے بارے میں تھی۔ باربار وہ ہندی کے ساتھ انگریزی میں کچھ ایسے نعرے دہراتے رہے جس سے ہندوستان کے بارے میں مثبت تاثر ابھرا، مثلاً Aiming high and achieving higher یا ’’آپ دیش سے دور ہیں لیکن آپ کی سرکار آپ کے قریب ہے کہ نیا انڈیا Digital انڈیا ہے‘‘۔ امریکہ سے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اسے ’مشترک خواب اور پُرجوش مستقبل‘ قراردیا۔
اس کے مقابلے میں عمران خان کی تقریر سے تاثر ابھرا تھا کہ ڈاکو سارا قومی خزانہ چٹ کرچکے ہیں اور لوگ خوشی و خوش حالی کا خواب دیکھنے کے بجائے سخت فیصلوں کی کڑوی گولیاں حلق سے اتارلیں کہ ان پر چینی چڑھانے کے لیے بھی قومی خزانے میں پیسے نہیں۔ وہ اپنی تقریر میں اچھے مستقبل کی خوش خبری دینے کے بجائے مخالفین کو نشانِ عبرت بنانے کی دھمکی دیتے رہے۔ ایک ایک کو بند کرنے، نوازشریف کے سیل کا AC اتارنے، مولوی ڈیزل کے احتساب اور NO NROکا پہاڑا پڑھتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ مقامی میڈیا نے ان کے جلسے کو کوئی کوریج نہ دی کہ ان کی تقریر میں مقامی قارئین اور ناظرین کی دلچسپی کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ حتیٰ کہ مقامی صحافیوں کے لیے وزیراعظم کی تقریر کے انگریزی ترجمے کا بھی کوئی انتظام نہ تھا۔ اس کے برعکس نریندر مودی کے ہندی خطاب کے رواں انگریزی اور ہسپانوی ترجمے کا مؤثر بندوبست کیا گیا تھا۔

پاکستان کے تعلق سے نریندرمودی کے جلسے کا سب سے روشن پہلو nrg سینٹر کے باہر کشمیر کی حمایت میں زبردست عوامی مظاہرہ تھا جس کے لیے شہر کی تمام مساجد سے بعد فجر بسیں روانہ ہوئیں۔ ٹیکساس کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور قرب و جوار کے لوگ اس مظاہرے میں شرکت کے لیے گھنٹوں کا سفر کرکے ہیوسٹن آئے۔ پاکستانیوں اور کشمیریوں کے ساتھ اس مظاہرے میں عرب، فلسطینی، افریقی، بنگالی اور ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف مقامی امریکی بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے بلکہ سیکولر و لبرل مزاج امریکی بھی سخت گرمی میں نعرہ زن رہے۔ ہم جنس پرست LGBTکے کارکنان بھی کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے موجود تھے۔ سکھوں میں زبردست جوش و خروش پایا گیا۔ شہر کی ٹرانسپورٹ پر سکھ حضرات کا خاصا اثر ہے۔ کئی ہفتوں سے کشمیر اور خالصتان کے بینر و بورڈ آویزاں کیے درجنوں ٹرک سارے شہر میں تشہیری مہم چلاتے رہے۔ مصروف شاہراہوں پر ہندوستانی مظالم کے خلاف بڑے بڑے بل بورڈ نصب کیے گئے تھے اور سارے شہر میں جگہ جگہ کارنر میٹنگ منعقد کی گئیں۔
ٹیکساس کا جلسہ اور صنعت کاروں سے ملاقات تو ہندوستان کی معاشی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے، لیکن پاکستانیوں کے لیے دلچسپی کا محور عمران خان اور نریندر مودی کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ہے۔ عمران خان کشمیریوں کا مقدمہ اقوام عالم کے سامنے رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں، جبکہ مودی کی حکمت عملی اس معاملے پر بحث کو غیر مؤثر بنانا ہے۔ سفارتی جنگ دراصل بیانیے کی لڑائی ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ کشمیر میں بدامنی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے دنیا کا امن خطرے میں پڑسکتا ہے، جبکہ ہندوستانی بیانیے کے مطابق یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں، کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے جہاں دراندازی کی وجہ سے امن و امان کی صورت حال ’کچھ‘ خراب ہوگئی ہے اور اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے دہلی مؤثر اقدامات کررہا ہے۔ بدقسمتی سے اومان کے سوا پاکستان کے سارے خلیجی اتحادی بھی بھارت کے مؤقف کو درست سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی (UNHRC) میں قرارداد ہی پیش نہیں کی کہ شکست کا خوف تھا، حالانکہ رائے شماری سے پہلے بحث مباحثے کے دوران ہندوستانی مظالم سے دنیا کو دستاویزی ثبوت کے ساتھ آگاہ کرنے کا یہ اچھا موقع تھا۔ اب اگر اسلام آباد UNHRC میں قرارداد پیش کرنے کی ہمت نہ کرسکا تو سلامتی کونسل میں تو اس کی نوبت آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جہاں ہندوستان کے اتحادی ویٹو سے مسلح بیٹھے ہیں۔ بقول حضرتِ انور مسعود

تمہاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے
اس اور اس لاٹھی کی زد میں جو بھی آئے سو ہماراہے
مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے
تمہارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے