کبھی آپ نے اندازہ کیا کہ ہم خود کتنا کچرا پھینک رہے ہوتے ہیں؟۔
سید سرفراز علی
سائنس کے فروغ اور صنعت کی ترقی نے جہاں حضرتِ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے بے شمار آسائشیں فراہم کیں، وہاں دنیا میں فضائی آلودگی، کیمیاوی فضلہ اور کوڑے کچرے کا بھی بے تحاشا اضافہ کیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہونے والی تیز رفتار ترقی، صنعتی انقلاب اور معاشی تبدیلیوں نے لوگوں کو گائوں سے شہروں کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور کردیا، کیونکہ شہروں میں قائم ہونے والی جدید ملوں اور فیکٹریوں میں نوکریاں بھی آسانی سے مل جاتی ہیں اور پھر شہری زندگی کی رونقیں اور بہاریں گائوں میں کہاں میسر! رفتہ رفتہ شہروں کی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا اور شہروں میں آبادی کے اضافے کی وجہ سے بے شمار معاشی، معاشرتی اور صحتِ عامہ کے مسائل پیدا ہوگئے۔ جگہ جگہ جھونپڑیاں، کچے مکان اور بے ترتیب تجاوزات وجود میں آتے چلے گئے۔ شہروں میں پائی جانے والی صفائی اور خوب صورتی متاثر ہوتی چلی گئی اور اب یہ حال ہوگیا ہے کہ صاف اور تازہ ہوا ناپید ہے۔ گلیوں اور سڑکوں پر کچرے اور غلاظت کے انبار ہیں۔ فیکٹریوں سے خارج ہونے والے دھویں، موٹر گاڑیوں، بسوں، رکشوں کے دھویں اور شور نے نہ صرف فضا کو گندا کردیا ہے جس میں سانس لینا بھی دوبھر ہے، بلکہ کیمیاوی فضا نے دریائوں اور سمندر کے پانی کو بھی آلودہ کردیا ہے۔
اگر ہم صرف کراچی شہر ہی کی مثال لیں تو آج سے چالیس سال پہلے والا کراچی کتنا صاف ستھرا اور خوب صورت شہر ہوتا تھا، جسے واقعی عروس البلاد کہنے کو دل چاہتا تھا۔ آج حالت یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر، صنعتی مرکز اور تجارتی منڈی ہونے کے باوجود اس کا شمار دنیا کے چند گندے ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال ہمارے دوسرے شہروں کا بھی ہے۔ کہیں کسی شہر میں وقتی طور پر کچھ صفائی اور لیپاپوتی کا کام سیاسی مصلحت یا کسی کی ذاتی خواہش پر ہوجاتا ہے، مگر چونکہ یہ سارا کام کسی منصوبہ بندی اور مستقل نظام کے طور پر نہیں ہوتا، اس لیے کچھ عرصے بعد پھر وہی حالت ہوجاتی ہے، بلکہ بعض دفعہ پہلے سے بھی بدتر حالت ہوجاتی ہے۔
آپ کوئی سا اخبار پڑھ لیجیے۔ اکثر مراسلات اور اداریے اسی موضوع پر ملیں گے۔ آپ کسی بھی شہر کا جائزہ اس نظر سے لیں، گندگی اور بدانتظامی میں اضافہ ہی پائیں گے۔ ہر شہر میں سڑکوں پر غلاظت کے انبار، جگہ جگہ گندے پانی کے تالاب اور فضا میں گاڑیوں اور فیکٹریوں کا دھواں اور بدبو… سانس لینا دشوار۔ آنکھوں میں جلن کی شکایت، دن میں مکھی اور رات کو مچھر… گویا شہر کی زندگی اور گندگی لازم و ملزوم ہوگئے ہیں۔ مگر اس گندگی کو پھیلانے میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں۔ صرف بلدیاتی اداروں اور سرکاری محکموں پر الزام تراشی درست نہیں۔
کبھی آپ نے اندازہ کیا کہ ہم خود کتنا کچرا پھینک رہے ہوتے ہیں اور اپنے پڑوسیوں اور شہریوں کی زندگی ضیق کررہے ہوتے ہیں! اور پھر اس میں کمی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، روز افزوں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ سگریٹ، پان، صابن کوئی بھی چیز خریدیں، آپ کو دو یا تین قسم کے کاغذوں اور رنگین پنّوں میں لپٹی ہوئی ملے گی۔ چیز تو آپ نے استعمال کی اور وہ ختم بھی ہوجائے گی، مگر یہ پیکنگ کا کاغذ آپ نے باہر پھینک دیا۔ آپ بازار سے کوئی بھی چیز خریدیں، کسی نہ کسی ڈیزائن کے ڈبے، بوتل یا تھیلی میں ملے گی۔ اب تو پاکستان میں دودھ، دہی اور تیل جیسی رقیق اشیاء بھی دکان دار پولی تھین کی تھیلی میں بھر کر دے دیتا ہے۔ گھر سے دودھ، دہی کے لیے برتن لے جانے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اس خالی تھیلی کو بھی آپ باہر کچرے میں پھینکتے ہیں۔ لاتعداد خالی ڈبے، بوتلیں اور کاغذ ہم روزانہ گھر سے باہر پھینک کر کچرے میں اضافہ کررہے ہوتے ہیں۔
منٹو نے ایک افسانہ لکھا تھا ’’خالی ڈبے، خالی بوتلیں‘‘ جس میں اس نے ایک نفسیاتی مسئلے کی نشاندہی کی تھی، مگر آج کے ترقی یافتہ دور میں یہ خالی بوتلیں اور خالی ڈبے معاشرتی اور معاشی مسئلہ بن گئے ہیں۔ آخر ان سے کیسے چھٹکارا پایا جائے؟ اس کا حل افسانوں اور کہانیوں میں نہیں مل سکتا۔ اس کے لیے سنجیدگی سے سائنسی بنیادوں پر حل ڈھونڈنا پڑے گا۔
صنعت کار یا کارخانے دار نے تو اپنی مصنوعات کو خوب صورت بنانے کے لیے ان کو رنگین کاغذ اور ڈبے ہی میں بند نہیں کیا بلکہ اس ڈبے یا رنگین کاغذ پر اس چیز کی تعریف اور توصیف میں بھی چند الفاظ لکھے ہیں۔ اور اس سارے اضافی خرچ کو لاگت میں شامل کرکے اس اشتہار بازی کا خرچ (قیمت میں اضافہ کرکے) آپ ہی کی جیب سے نکالتے ہیں۔ آپ نے اس پر لکھی ہوئی عبارت، ہدایات اور اعلیٰ کوالٹی کے دعوے پڑھے یا نہیں پڑھے؟ اس پیکنگ کے لوازمات کو پھینک کر گلی کے کچرے میں اضافہ ضرور کردیا۔ اب پہلے تو خاکروب اسے اٹھائے، جمع کرے اور پھر بلدیاتی ادارے کی مہیا کردہ گاڑی میں سارے شہر کا کچرا اور گند بلا شہر سے باہر لے جائے۔ جہاں مختلف شہروں میں اسے مختلف طریقوں سے ضائع کیا جاتا ہے۔ بعض شہروں میں اس کچرے کو کسی گہرے کھڈ یا کھائی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بعض شہروں میں اسے آگ لگا کر ضائع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور بعض جگہ شہر سے باہر اس گندگی کے ڈھیر میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
عام شہری بلدیاتی اداروں کو برا بھلا کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے پاس مناسب فنڈ اور فنی مہارت کی کمی ہوتی ہے۔ ویسے بھی ہم لوگ بڑی جذباتی قوم ہیں، اس لیے ہر کام میں نعرے بازی اور ہلڑ بازی سے کام لیتے ہیں۔ صحیح منصوبہ بندی سے کم ہی کام لیتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں عام طور پر اور یورپین ممالک میں خاص طور پر اس شہری کچرے کو ٹھکانے لگانے کے کام (Waste Disposal) کو باقاعدہ علم کی حیثیت دی گئی ہے۔ عام طور پر جمع ہونے والے کچرے (Solid Waste) کو ٹھکانے لگانے کے لیے سائنسی بنیادوں پر کام ہورہا ہے۔ پاکستان میں ابھی اس طرف اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنا کہ یہ مسئلہ توجہ کا مستحق ہے۔
اس مضمون میں قارئین کی توجہ اسی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے- بعض جگہ اس کچرے کو جلاکر صرف اس کی حرارت استعمال ہوتی ہے۔ بعض جگہ اس حرارت سے بجلی بھی پیدا کی جاتی ہے۔ جی ہاں بجلی!
بعض شہروں میں ایسے بجلی گھر بلدیاتی اداروں کی ملکیت ہیں، اور بعض بلدیاتی اداروں نے اتنے بڑے فنی منصوبے کے بجائے صرف شہروں میں جمع ہونے والے کچرے کو بیچنا شروع کردیا۔ اب پاور ہائوس الگ کمپنی کا ہوتا ہے جو بلدیہ سے کچرا خرید کر بجلی بناکر فروخت کرتی ہے۔ بعض بلدیاتی ادارے ایسے بھی تیز نکلے کہ انہوں نے کچرا فروخت کرنے کے معاہدے میں شہر سے کچرا جمع کرنے کی شق بھی رکھ دی۔ اب بجلی کمپنی شہر سے خود ہی کچرا جمع کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔ خاکروب ملازم رکھنا اور کچرا گاڑیوں کا انتظام بھی اب بلدیہ کی ذمہ داری نہیں رہی۔
انگلینڈ (برطانیہ) کے شہر کووینٹری (Coventry) کی بلدیہ نے 1975ء میں ایک ایسا پلانٹ لگالیا تھا جس میں تقریباً 10,0000 Year ٹن (ایک لاکھ ٹن) سالانہ کچرے کو جلا کر توانائی (حرارت اور بجلی) حاصل کی جاتی ہے۔ 1991ء میں اس پلانٹ کی سالانہ گنجائش 1,75000 T/Y (ایک لاکھ پچھتر ہزار ٹن سالانہ) تک بڑھا دی گئی تھی۔ اس طرح پہلے جہاں صرف 13MW توانائی پیدا کی جارہی تھی وہ بڑھ کر 39MW ہوگئی۔ اس طرح کچرے کی طلب میں بھی اضافہ ہوا اور پتا چلا کہ کووینٹری شہر میں تو اتنا کچرا جمع نہیں ہوتا، اس لیے کچرے کی اضافی طلب کو پورا کرنے کے لیے ایک نزدیکی شہر برمنگھم سے بھی کچرا خریدنے کا معاہدہ کیا گیا۔ اس پلانٹ سے اتنی بجلی پیدا ہورہی ہے کہ کووینٹری شہر میں پانی اور گٹر کے نظام (Water and Sewerage System) کے لیے اپنی ہی پیدا کردہ بجلی استعمال کی جاتی ہے۔ کچھ بھاپ (Steam) سردیوں میں دفتروں اور گھروں کو گرم کرنے میں استعمال کی جاتی ہے اور فاضل بجلی عام لوگوں کو بیچی جاتی ہے۔ شہر بھی صاف ہوگیا، بجلی کے بل کا مسئلہ بھی حل ہوا اور بلدیہ کو کچھ زائد آمدنی بھی ہوگئی۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر شہر کی بلدیہ نے اپنا بجلی گھر خود بنایا ہو، بلکہ بعض جگہ بلدیہ اپنا کچرا نزدیکی بجلی کمپنی کو فروخت کردیتی ہے جہاں پہلے ہی سے تھرمل پاور ہائوس چل رہے ہوں۔ تھرمل پاور ہائوس ایسے بجلی گھر ہوتے ہیں جن میں کسی بھی قسم کا ایندھن جلاکر پہلے بھاپ (Steam) بنائی جاتی ہے اور پھر بھاپ کی قوت سے بجلی کا جنریٹر (Generator) چلایا جاتا ہے۔ اب ان تھرمل بجلی گھروں میں مخصوص اضافی بھٹیاں (Kiln) لگائی گئی ہیں جن میں کچرا بھی بطور ایندھن جلایا جاسکتا ہے۔ ان بھٹیوں میں کچرا جلنے سے جو حرارت پیدا ہوتی ہے وہ اضافی بھاپ پیدا کرنے کے کام میں لی جاتی ہے۔ اس طرح قیمتی ایندھن (تیل، گیس) کے خرچ میں کمی کرلی جاتی ہے اور بجلی گھر کی مجموعی استعداد میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
جرمنی میں تو ایسا بجلی گھر کامیابی سے چل رہا ہے جس میں گاڑیوں کے پرانے ناقابلِ استعمال ٹائر جلاکر اس کی حرارت سے بجلی حاصل کی جارہی ہے۔
آبادی اور جغرافیائی محلِ وقوع کے لحاظ سے شہروں میں پائے جانے والے کچرے کی مقدار اور قسم بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں جمع ہونے والا کچرا اس میں موجود چیزوں کی وجہ سے بھی مختلف قدر حرارہ کا ہوتا ہے۔
کاغذ کی تھیلیوں اور جوٹ کی بوریوں کی جگہ اب پولی تھین کی تھیلیاں اور بورے استعمال ہونے لگے ہیں، اور شیشے کی بوتلوں کی جگہ اب عام طور پر ایلمونیم کے ڈبے یا پلاسٹک جار استعمال ہوتے ہیں۔ کاغذ اور ٹین ڈبے پہلے گلی گلی آواز لگا کر کباڑی خرید کر لے جاتے تھے، مگر ان نئی اشیاء کے تو خریدار بھی نہیں ملتے۔ پولی تھین کی تھیلیاں آپ کو اکثر سڑکوں پر اڑتی پھرتی دکھائی دیں گی یا پھر کسی تار یا کانٹے میں الجھی پھڑ پھڑا رہی ہوں گی۔ اس کو ٹھکانے لگانے کا ابھی کوئی طریقہ اتنا کامیاب نہیں ہوا ہے۔ پولی تھین کی ان تھیلیوں کی وجہ سے کبھی کبھی گٹر کی لائنیں بھی بند ہوجاتی ہیں اور بعض دفعہ جانور (گائے، بھینس اور بکریاں وغیرہ) اس کو کھا کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ کچرے میں موجود تقریباً ہر شے جل کر کچھ نہ کچھ حرارت پیدا کرتی ہے اور دھویں میں تبدیل ہوجاتی ہے اور کچھ راکھ رہ جاتی ہے۔ کچرے کی مقدار کا اندازہ کیا جائے اور کچرے میں موجود عناصر کی تحلیل (Analysis) کرکے اس کی قدر حرارہ معلوم کی جاتی ہے تب اس کے مطابق بھٹی (Klin) ڈیزائن کی جاتی ہے۔
امریکہ کے ادارےEnvironmental Protection Agency،(E.P.A) کے ایک سروے کے مطابق بڑے شہروں میں ایک آدمی تقریباً پانچ پائونڈ روزانہ (5-16/day) کچرا پھینکتا ہے جو تقریباً 180016/Year سالانہ بنتا ہے۔ پھر جس رفتار سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اور مصنوعات کی پیکنگ کا معیار بڑھ رہا ہے، شہروں میں جمع ہونے والے کچرے کی مقدار اور قدر حرارہ بڑھتی ہی رہے گی۔ یورپی ممالک کی مشترکہ منڈی کے اجلاس میں ماحول کے متعلق پیش کردہ ایک سروے رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک سالانہ 170 Million Ton کچرا پھینکتے ہیں یا جمع کرتے ہیں اور اس میں روزافزوں اضافہ ہی ہورہا ہے۔
ہم معیارِ زندگی بلند کرنے کی دوڑ میں مغربی ممالک کی نقل کرنا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ ان اقوام کی اچھی عادتوں کو تو کم اپناتے ہیں ہاں بری عادتوں کو جلد اپنالیتے ہیں۔ اس لیے کچرا پھینکنا بھی ہماری شان ہے اور اس میں اضافے کا ہی امکان ہے۔
عام طور پر شہر میں جمع ہونے والے کچرے میں مندرجہ ذیل چیزیں پائی جاتی ہیں:
(1)کاغذ،(2)کپڑا،(3) پولی تھین۔ پلاسٹک۔ فوم۔ ربڑ، (4) شیشہ، (5) دھاتی اشیاء (ٹین۔المونیم۔لوہا)، (6) نباتاتی اشیاء، (7) جھوٹا، باسی کھانا، (8) اسپتالوں کا کچرا (روئی، دوائیں، سرنج)، (9) مٹی، (10) لکڑی، (11) مرے ہوئے پرندے اور چھوٹے جانور، (12) پانی، (13) دیگر کیمیائی اشیاء مثلاً تیل، تیزاب، چکنائی۔
ان میں سے دھات، شیشہ اور مٹی کے سوا سب کچھ جل سکتا ہے اور حرارت پیدا کرسکتا ہے۔ مختلف چیزیں مختلف حرارت پیدا کرتی ہیں۔ اس حرارت کو کسی بھی کار آمد کام میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں عام طور پر شہر کے مختلف علاقوں اور کالونیوں میں کچرا جمع کرکے خاکروب اس کو وہیں آگ لگا دیتے ہیں۔ اس طرح جلانے سے جو حرارت پیدا ہوتی تھی وہ بھی ضائع ہوگئی۔ مغربی ممالک میں اس حرارت کو کارآمد طریقوں سے استعمال کیا جانے لگا ہے۔
سائنس کی اصطلاح میں حرارت ناپنے کی اکائی کیلوری (Calorie)ہے۔ کچرے کو ایسے گلیوں، محلوں میں جلانے سے حرارت کی کیلوری کا زیاں ہوگیا جو کسی کارآمد مصرف میں آسکتی تھی۔ ویسے بھی موجودہ دور ’’دورِ کیلوری شناس‘‘ (Calorie Conscious Age) ہے چاہے وہ خوراک کی کیلوری ہو یا حرارت کی کیلوری، آج کل یہی فیشن ہے۔ کچرے کی مقدار حرارہ (Calorific Value) مختلف ہوتی ہیّ مقدار حرارہ کے لحاظ سے کچرے کو مکمل طور پر جلانے کے لیے بھٹی بنائی جاتی ہے۔
بعض ملکوں میں کچرا براہِ راست جلایا جاتا ہے، بعض ملکوں میں کچرے میں پائی جانے والی نمی پہلے دور کی جاتی ہے، اور بعض ملکوں میں کچرے کے ساتھ ایک اور کوئی ایندھن مثلاً تیل یا گیس ملاکر بھٹی کا درجہ حرارت بڑھایا جاتا ہے۔ بھٹی کو ڈیزائن کرنے سے پہلے کچرے کی مکمل تحلیل کرکے اس کی صحیح قدر حرارہ معلوم کرنا پڑتی ہے۔
پاکستان میں بھی بلدیاتی ادارے اپنے علاقے میں جمع ہونے والے کچرے کی مقدار اور قدر حرارہ معلوم کرکے اس کچرے میں چھپی ہوئی حرارت کو بہتر کام میں لانے کے طریقے وضع کرسکتے ہیں۔ شہر میں موجود یونیورسٹی اور کالج کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے یا کسی مشاورتی فرم کو بھی ٹھیکہ دیا جاسکتا ہے۔
امریکہ کے چند بڑے شہروں کے کچرے کی کیمیاوی تحلیل کے بعد جو اوسط نتائج معلوم ہوئے وہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے جدول میں دیئے گئے ہیں۔ یہ نتائج اس کچرے کے ہیں جس کی قدر حرارہ سب سے کم ہے۔ کچرے کے جلنے کی صلاحیت کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والی چیز اس میں موجود نمی (پانی) کی مقدار ہوتی ہے۔ مختلف نمی کے حامل کچرے کو جلانے سے کتنی حرارت حاصل ہوتی ہے اس کو بھی تجربات سے معلوم کیا گیا ہے، اور اس طرح بھٹی کی کارکردگی کا پتا چلایا گیا ہے۔ نیچے دیئے گئے کچرے کی کیمیاوی تحلیل کے نتائج دیئے گئے ہیں۔
کچرے کی کیمیاوی تحلیل (جدول)
Hydrogen 3.4% Carbon 25.5%
Nitrogen 0.80% Oxygen 21.4%
Water 22.10% Sulpher 0.20%
Ash 26.80% کل 100.00%
اگر نمی کا تناسب 50 فیصد سے زیادہ ہوجائے یا راکھ کا تناسب 60فیصد سے زیادہ ہو تو ایسا کچرا جلانے سے بھٹی کی مجموعی کارکردگی بہت گر جاتی ہے۔ ایسی صورت میں یا تو کچرے کو پہلے سُکھایا جاتا ہے، یا پھر بھٹی میں کچرے کے ساتھ ساتھ کوئی دوسرا ایندھن (تیل یا گیس) بھی جلانا پڑتا ہے، اس کو اضافی برنر یا Auxiliary Firing کہتے ہیں۔
جب پاکستان میں لاکھڑا کے کوئلے کو استعمال کرنے کا خیال آیا تھا تو اس کی مخالفت بھی اسی وجہ سے کی گئی تھی کہ اس کی قدر حرارت تقریباً 12500KJ/KG/KC ہے اور دوسرے اس میں گندھک (Sulpher) کی آمیزش بہت زیادہ ہے۔ مگر جب برآمداتی تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور ملک میں توانائی کا شدید بحران پیدا ہوگیا تو واپڈا کو اس غیر معیاری کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کو کہا گیا۔ آخر کئی سال کی محنتِ شاقہ کے بعد واپڈا اس کم قدر حرارہ اور پست معیار کے کوئلے کو جلانے کے لیے نئی فنی مہارت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔