کشمیر پر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی! ۔

وزیراعظم عمران خان نے دورۂ نیویارک کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب سے قبل وہاں موجود جن عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں اُن میں سے ایک اہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات تھی، جس کے دوران وزیراعظم عمران خان کے توجہ دلانے پر کہ کشمیر میں انسانی المیہ جنم لے چکا، امریکی صدر بڑے اور طاقت ور ملک کے سربراہ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کریں، صدر ٹرمپ نے اپنی اس پیشکش کا اعادہ کیا کہ دونوں ملک راضی ہوجائیں تو وہ ثالثی کے لیے تیار ہیں۔ یہی پیشکش انہوں نے دو ماہ قبل وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے موقع پر بھی کی تھی اور یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے خود انہیں مسئلہ کشمیر حل کرانے کی درخواست کی ہے۔ اس پیشکش پر ہم نے خوب شادیانے بجائے اور اسے دورے کی کامیابی کی دلیل قرار دے کر وزیراعظم عمران خان نے اپنی مسرت کا اظہار یوں کیا گویا وہ ایک بار پھر کرکٹ ورلڈ کپ جیت کر پاکستان لائے ہیں۔ مگر پھر بھارتی وزیراعظم نے کشمیر کو اپنا اندرونی مسئلہ قرار دے کر کسی ملک کو ثالثی کی زحمت نہ دینے کا اعلان کرکے ہماری ساری خوشیوں پر پانی پھیر دیا، بلکہ اس کے فوری بعد اپنے مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست کو انتہائی سخت کرفیو نافذ کرکے بھارتی آئین میں ترامیم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور اسے دوسری بھارتی ریاستوں کی طرح بھارتی یونین کا حصہ قرار دے دیا۔ مقبوضہ کشمیر میں وہ کرفیو اور فوجی محاصرہ تاحال جاری ہے، مقبوضہ کشمیر میں زندگی محال ہوچکی، جس کے نتیجے میں وہ انسانی المیہ جنم لے چکا جس کا ذکر وزیراعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے ملاقات میں کیا… مگر امریکہ اور اُس کے صدر کو ہر طرح کے انسانی حقوق کی پامالی اور انسانیت کی انتہا درجے کی تذلیل کے باوجود بھارتی درندگی کے خلاف ایک حرفِ مذمت زبان پر لانے کی توفیق نہیں ہوئی، اور ہم اسی امریکی صدر سے کسی کردار کی ادائیگی اور مسئلے کے منصفانہ حل کے لیے ثالثی کی توقع لگائے بیٹھے ہیں!
معاملے کا ایک لحاظ سے اطمینان بخش پہلو تو یہ ہے کہ مودی ہی ثالثی قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ گویا ’نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘… یوں بظاہر ٹرمپ کی ثالثی کا کوئی امکان فی الحال دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم فرض کیجیے بھارتی وزیراعظم مودی، امریکی صدر ٹرمپ کی خوشنودی کی خاطر اُن کی ثالثی قبول کرنے کا اعلان کردیں اور امریکی صدر بطور ثالث اُسی قسم کا کوئی حل ہم پر مسلط فرما دیں جیسا امریکہ نے اہلِ فلسطین پر تھوپا تھا، تو پھر ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟
ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ’’ اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدۃٌ‘‘ اس کے مظاہر ہم آئے روز دیکھتے رہتے ہیں۔ ابھی عمران ٹرمپ ملاقات سے ایک روز قبل اتوار 22 ستمبر کو امریکی شہر ہیوسٹن میں امریکہ میں مقیم ہندوئوں کے اجتماع میں صدر ٹرمپ نے نریندر مودی کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر بھارت کو اپنا بہترین دوست قرار دیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ دونوں ملک ’’اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی‘‘ کے خلاف مل کر لڑیں گے۔ جب کہ نریندر مودی نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’نائن الیون‘‘ اور ’’ممبئی حملوں‘‘ کا ذمہ دار ایک ہی ملک ہے، دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا وقت آگیا ہے، دہشت گرد بھارتی آئین کی دفعہ 370 کا غلط استعمال کررہے تھے، میں نے اسے اٹھاکر آئین سے باہر پھینک دیا ہے۔ نریندر مودی نے اس موقع پر آئندہ امریکی صدارتی انتخابات میں دوسری مدت کے لیے صدر ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے نعرہ لگوایا ’’اب کی بار… ٹرمپ سرکار‘‘۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مغرب کی روایت کے عین مطابق اسلام اور مسلمانوں کے خلاف واضح متعصبانہ طرزِعمل، اور مودی کے ساتھ مل کر ’’اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی‘‘ کے خلاف لڑنے کے عزائم کے اظہار کے باوجود اُن سے کسی خیر اور ثالثی کی توقع لگانا آخر کہاں کی عقل مندی ہے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ جن پہ تکیہ ہے وہی پتے ہوا دینے لگیں۔ مومن ہونے کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم ایک سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے سے بچیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ٹرمپ نے مودی کے ساتھ مل کر ’’اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی‘‘ کے خلاف جو جنگ لڑنے کا اعلان جلسۂ عام میں کیا ہے اُس کا اصل ہدف کون ہے؟ یہ کہاں اور کس کے خلاف لڑی جائے گی؟ کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوئے بغیر ہمیں خود کو اس جنگ کے لیے تیار کرنا ہوگا۔
جہاں تک مسئلہ کشمیر پر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کا تعلق ہے، پاکستان کے سنجیدہ حلقے تو اوّل روز ہی سے اس کے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق ایک سے زائد بار اسے پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول اور نقصان دہ قرار دے چکے ہیں۔ اب آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے بھی اسی مؤقف کا اظہار کیا ہے کہ مقبوضہ وادی میں ثالثی کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جھکائو بھارت کی طرف ہے۔ ان حالات میں پاکستانی حکمرانوں کو بھی سنجیدہ طرزِعمل اپنانا چاہیے اور امریکی صدر کے سامنے بچھے چلے جانے اور بعد میں پچھتانے کے بجائے ابھی سے ثالثی کی پیشکش سے یہ کہہ کر جان چھڑا لینی چاہیے کہ ’’بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘۔
(حامد ریاض ڈوگر)