چولہے پر چڑھی ہنڈیا، افروختہ

اردو میں استعمال ہونے والے کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے لغوی معنیٰ کچھ اور ہوتے ہیں اور ان کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے۔ ایسے الفاظ زیادہ تر عربی اور فارسی کے ہیں جو اردو میں آئے ہیں، مثال کے طور پر ’’برافروختہ‘‘۔ اس کا مطلب ’’غصے میں بھرا ہوا‘‘ لیا جاتا ہے۔ فارسی کا لفظ ہے لیکن اس کے لغوی معنیٰ ہیں ’’آگ پر رکھا ہوا، جلتا ہوا‘‘۔ آگ پر تو ہنڈیا بھی رکھی جاتی ہے لیکن اسے کوئی برافروختہ نہیں کہتا۔ ’بر‘ سابقہ ہے جس کے متعدد معنیٰ ہیں۔ عربی میں ’بّر‘ بحر کی ضد ہے یعنی خشکی، بیابان، زمین وغیرہ۔ ایک مطلب ہے: بڑا نیک، احسان کرنے والا، مہربان، فرماں بردار۔ جمع اس کی ابرار ہے۔ بحری کی ضد کے طور پر ’برّی‘ بطور صفت آتا ہے۔ یہ لفظ فارسی میں بھی ہے اور برافروختہ میں یہی استعمال ہوا ہے۔ اتصال کے واسطے دو فارسی لفظوں کے بیچ میں آتا ہے جیسے دوش بردوش۔ اوپر، بلند، غالب جیسے برتر۔ کلمات کے شروع میں آتا ہے جیسے برعکس، برحق، برخوردار۔ ’بر‘ جسم، تن بدن، سینہ، بغل، کنار، آغوش کے لیے بھی آتا ہے، جیسے ’’دل آرام دربر، دل آرام جو۔ یاد کرنا، جیسے سبق ازبر کرلو۔ برآمد، روانگی، نکاسی مال کی، اُبھار، ظہور، طلوع، خروج، نکلنا جیسے آفتاب برآمد ہوا۔ رشکؔ کا مصرع ہے ’’عجز کو طنز، خوشامد کو برآمد سمجھا‘‘۔ یہاں برآمد نمائش اور ظاہر داری کے معنوں میں آیا ہے۔ بر آنا یعنی مراد پوری ہونا۔ غرض یہ ’بر‘ بڑے کام کا ہے۔ ’بردکھوّا‘ تو سنا ہی ہوگا، ممکن ہے تجربہ بھی ہو۔ جس کا رشتہ دیا جائے وہ بر کہلاتا ہے معلوم نہیں کیوں۔ شادی میں لڑکے کی طرف سے جو سامان جاتا ہے اسے ’بری‘ کہتے ہیں، گویا اب لڑکا ذمے داری سے بری ہوگیا۔ برآمد سے ہم نے برآمدہ بنالیا ہے۔ ویسے تو اس کا مطلب برآمد ہونے والی کسی شے سے ہے، لیکن گھروں میں کمروں اور صحن کے درمیان جو جگہ چھوڑ دی جاتی ہے اسے برآمدہ کہتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ گھر والے اپنے کمرے سے اسی جگہ برآمد ہوتے ہیں۔ اب فلیٹوں میں اس کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ ’فلیٹ‘ کا مطلب ہی سپاٹ ہے۔
ایک بڑا دلچسپ لفظ ہے ’’برخوردار‘‘۔ مطلب سبھی جانتے اور بلاتکلف استعمال کرتے ہیں۔ لیکن لغت کچھ اور کہتی ہے۔ فارسی کا لفظ ہے اور تلفظ ہے ’برخُردار‘۔ اس کا ایک مطلب ہے برخورد یعنی نفع پانا۔ دار کا آرکلمہ نسبت ہے جیسے خریدار میں ہے۔ برخور معنی مصدری میں مرکب اسم اور امر سے۔ دار بمعنی درخت یعنی متمتع ہونے والا۔ فائدہ اٹھانے والا۔ ایک اور وضاحت یہ کہ خور بمعنی کھا۔ دار بمعنی رکھ۔ برخوردار کے آسان معنیٰ ہیں ’پھل‘۔ برخوردار کے اتنے مشکل معنیٰ کو برخاست کرنا ہی اچھا ہے۔ تاہم برخوردار مذکر، مونث دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، لڑکی کے لیے ’برخورداری‘ صحیح نہیں ہے۔ بعض لوگ نورِچشم کی مونث ’چشمی‘ بنالیتے ہیں۔ برخوردار لائق فائق ہوں تو اس کھکیڑ میں نہیں پڑنا چاہیے کہ لغوی معنیٰ کیا ہیں۔ ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ’لغوی‘ میں ’ی‘ غیر ضروری معلوم ہوتی ہے یعنی اسے ’لغو‘ کہنا چاہیے۔ لغو کا تلفظ کچھ لوگ بروزن و ضو کرتے ہیں۔ عربوں کو بھی ہم نے ’سہو‘ کا تلفظ وضو کے وزن پر کرتے سنا ہے۔ لغو ہو یا سہو، ان میں وائو ساکن ہے۔ اسی طرح ’’نشوونما‘‘ کا تلفظ غلط سننے میں آتا ہے۔ ’نشو‘ میں بھی وائو ساکن ہے اور ’نما‘ کے نون پر زبر ہے، پیش نہیں۔ یہ نمو سے ہے، نمایش سے نہیں۔
شروع میں ذکر کیا تھا کہ بعض الفاظ کا اردو میں آکر مطلب بدل گیا ہے۔ ایسا ہی ایک لفظ ’رعایت‘ ہے۔ عربی میں اس کا مطلب ہے دیکھ بھال۔ سعودی عرب کے اسپتالوں میں لکھا ہوتا ہے ’’یہاں شوگر کے مریضوں کی رعایت کی جاتی ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ شوگر رعایتی قیمت پر دستیاب ہے۔ اس تفصیل میں افروختہ پیچھے رہ گیا۔ اس کا مطلب ہے: روشن، بھڑکایا ہوا۔ مجازاً: غصّے میں بھرا ہوا، آگ بگولا۔ افروختہ کرنا: غصّہ دلانا۔ عربی ہی کا ایک لفظ ہے ’سماجت‘۔ اردو میں منت کے ساتھ آتا ہے جیسے ’’اس کی بہت منت سماجت کی‘‘۔ مگر عربی میں اس کا مطلب ہے عیب دار ہونا، زشتی۔ زشتی فارسی کا لفظ ہے۔ زشت اردو میں خوب کے ساتھ آتا ہے یعنی خوب وزشت۔ (’ز‘بالکسر)۔ اس کا مطلب ہے: بُرا، بدشکل، بدنما۔ زِشت خو یعنی بدخصلت۔ اب منت کے ساتھ سماجت کرنے سے بچنا چاہیے۔
رعایت کا مطلب دیکھ بھال بہت درست ہے۔ تاہم اردو میں اس کا مطلب خیال، لحاظ، مہربانی، توجہ، قیمت میں کمی چاہنا، رویّے میں نرمی لانا وغیرہ ہیں۔ مثلاً ’’قیمت زیادہ ہے کچھ رعایت کریں‘‘۔ یا ’’آپ کو عمر کا لحاظ کرتے ہوئے کچھ رعایت کرنی چاہیے تھی‘‘۔ اس کا مادہ غالباً ’راعٍ‘ ہے۔ اس سے راعی اور رعایا ہے۔ راعی چرواہے کو کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی بھیڑ، بکریوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کرتا ہے۔ اور رعایا کا مطلب ہوا: جس کی دیکھ بھال کی جائے جیسے ایک چرواہا اپنے مویشیوں کی کرتا ہے۔ یہ کام حکمران کو کرنا چاہیے کہ وہ رعیت کی دیکھ بھال کرے۔ کچھ منافقین، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ’’راعینا‘‘ کہتے تھے جس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہماری طرف نظر کیجیے۔ لیکن دل میں ان کے یہ تھا کہ وہ رسولؐ اللہ کو راعی کہتے تھے یعنی چرواہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمان جاری کیا کہ صحابہ کرامؓ ’’انظرنا‘‘ کہا کریں۔ منافقین اپنے دل میں تبرا بھیج کر خوش ہولیتے تھے۔ بھیڑ، بکریاں چرانا انبیاء کی سنت رہی ہے۔ سیّدنا ابراہیمؑ کے پاس بہت بڑا ریوڑ تھا اور وہ بکریوں کا دودھ تقسیم کیا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق شام کے شہر کا نام حلب اسی لیے پڑا۔ عربی میں دودھ کو ’حلیب‘ کہتے ہیں۔ سیّدنا موسیٰؑ جب مصر سے نکل کر مدین پہنچے تو وہاں اللہ کے نبی شعیبؑ کی بیٹیاں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے سب کے فارغ ہونے کے انتظار میں تھیں۔ موسیٰؑ نے آگے بڑھ کر ان کی مدد کی، جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے والد شعیبؑ سے کیا۔ انہوں نے موسیٰؑ کو پیشکش کی کہ اگر وہ 8 سال تک ان کی بکریاں چرائیں تو وہ اپنی ایک بیٹی کی شادی ان سے کردیں گے، اور اگر 10 سال یہ کام کرو تو تمہاری مرضی ہے (القصص)۔ موسیٰؑ نے 8 سال بکریاں چرائیں اور اپنے حصے کی بکریاں اور اہلیہ کو لے کر مصر کی طرف واپس روانہ ہوگئے۔ دوسرے انبیاء نے بھی یہ کام کیا ہوگا۔ شاید اس طرح راعی کی حیثیت سے رعیت کی دیکھ بھال اور نگرانی کی مشق بھی ہوجاتی ہو۔ خلیفۂ دوم سیدنا عمرؓ نے بھی اسلام قبول کرنے سے پہلے معاوضے پر بکریاں چرائیں۔ مزے کی بات ہے کہ ’بزدار‘ بھی بکریوں والے کو کہتے ہیں۔ بعض علاقوں میں یہ بکر وال کہلاتے ہیں۔ زردار اور مال دار کی اصطلاح بھی ان لوگوں کے لیے ہے جن کے پاس مال، مویشی ہوں۔ پہلے دولت اور ثروت کا پیمانہ مال، مویشی ہی ہوتے تھے اس لیے لوگ مال دار کہلاتے تھے۔ ممکن ہے ’بزدار‘ کے اجداد بھی بھیڑ، بکریاں رکھتے ہوں۔
بے باق اور بے باک میں کچھ لوگوں کو اشتباہ ہوجاتا ہے۔ ’ق‘ ویسے بھی مظلوم ہے کہ اس کا تلفظ مختلف ملکوں اور خطوں میں مختلف ہے۔ مصر میں یہ ’ع‘ کی طرح ادا ہوتا ہے۔ حیدرآباد دکن میں ’خ‘ ہوجاتا ہے، اور پنجاب میں بولنے کی حد تک ’ک‘ ہوجاتا ہے، محض اس لیے کہ ’ق‘ کی صحیح ادائیگی مشکل لگتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عرب میں ’گ‘ نے ’ق‘ کی جگہ لے لی ہے حالانکہ عربی میں حرف ’گ‘ ہے ہی نہیں۔ محترم مفتی منیب الرحمن نے مکہ مکرمہ میں مصری ٹیکسی ڈرائیوروں کو جدہ کی جگہ ’’گدہ، گدہ‘‘ کی آواز لگاتے سنا۔ ’ج‘ کو ’گ‘ میں بدلنا مصریوں کی پرانی روش ہے۔ وہ اپنے صدر جمال عبدالناصر کو بھی ’گمال‘ کہتے تھے۔ لیکن سعودیوں نے بھی کچھ کم نہیں کیا۔ انہوں نے ’ق‘ کو ’گ‘ میں بدل دیا۔ ’اقل لک‘ کو ’’اگل لک‘‘ اور قُداّم کو ’’گدام‘‘ کردیا۔ پتا نہیں نمازوں میں یہ عرب ’ج‘ اور ’ق‘ کا کیا تلفظ کرتے ہوں گے۔ ’ث‘ صحیح طرح ادا نہیں ہوتی تو اسے ’ت‘ میں بدل دیا، مثلاً غبار کتیر، مویا کتیر۔ اہلِ پنجاب اگر ’ق‘ کا تلفظ ’ک‘ سے کریں تو کیا عجب۔ عربوں میں علماء اور پنجاب کے اہلِ علم بہرحال صحیح تلفظ ادا کرتے ہیں۔
بے باق کو یاد رکھنے کا آسان طریقہ ہے کہ باقی، بقیا اور بقایا کو یاد رکھا جائے۔ ان الفاظ کا مصدر ’باق‘ ہی ہے۔ بقی کا مطلب ہے رہنا، جوبچ رہے۔ باقی صفت ہے یعنی قائم، غیرفانی، زندہ، موجود… جیسے اللہ باقی من کل فانی۔ اور بے باک میں باک کا مطلب ہے ہراس، خوف، اندیشہ، ڈر۔ بے باک جس کو کوئی اندیشہ نہ ہو۔ علامہ اقبالؒ کی نظم کا مصرع ہے ’’آسماں چیر گیا نالۂ بے باک مرا‘‘۔
ww