آزادکشمیر کو موضوع بحث بنانے کی بھارتی حکمت عملی

بھارت کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی بحالی کی خفیہ پیشکش پاکستان کی طرف سے مسترد کی جاچکی ہے

پانچ اگست کے بعد سے دنیا کی نظریں سری نگر پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ نریندر مودی نے اس فیصلے کے ذریعے عالمی بدنامی کی دلدل میں پہلا قدم رکھا ہے۔ اب وہ اس دلدل میں دھنستے ہی چلے جارہے ہیں۔ عالمی ادارے، شخصیات اور ذرائع ابلاغ مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتِ حال کو دھماکا خیز تسلیم کرتے ہوئے بھارت سے حالات کو معمول پر لانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ پاکستان بھارت کے ساتھ سفارتی اور تجارتی روابط نہ ہونے کی سطح پر لاکر بگڑ بیٹھا ہے۔ بھارت کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی بحالی کی خفیہ پیشکش پاکستان کی طرف سے مسترد کی جاچکی ہے۔ ہر روز دنیا کے کسی مرکز سے کشمیریوں کی حمایت میں بلند ہوتی آواز، یا کسی اخبار یا خبر رساں ادارے کی رپورٹ دنیا کو کشمیر کے حالات کی سنگینی کا پتا دیتی ہے۔
سری نگر سے دنیا کی توجہ ہٹانے اور بٹانے کے لیے بھارت آزادکشمیر کو موضوع بنانے کی حکمت عملی اپنا رہا ہے۔ بھارت بالخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی بہت عرصے سے یہ منصوبہ بنائے بیٹھی تھی کہ مقبوضہ کشمیر کو ضم کرتے ہی آزادکشمیر چھیننے کی بات کرکے پاکستان کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیا جائے۔ آزاد کشمیر کو اس حد تک موضوعِ بحث بنایا جائے کہ پاکستان تنگ آکر مقبوضہ کشمیر کی بات کرنا چھوڑ کر آزادکشمیر کی خیر منانے پر صاد کرلے۔ دہلی میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے ایک انٹرویو میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس سوچ کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی لیڈر کے ساتھ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ گھنٹے بھر کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ پاکستان اب حریت کانفرنس کے ساتھ مذاکرات اور کشمیر کی بات بھول جائے اور آزادکشمیر کی فکر کرے، ہم جلد ہی یہ علاقہ بھی چھیننے والے ہیں۔ یہ تقریباً پانچ سال پرانی بات ہے جو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ بھارت منظم منصوبہ بندی کے ساتھ مرحلہ وار اپنے طے کردہ اہداف کی طرف بڑھتا رہا ہے۔ اب بھارت مقبوضہ کشمیر کو منہ میں ٹھونستے ہوئے آزاد کشمیر آزادکشمیر چلّا کر دنیا کی توجہ تقسیم کررہا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور جلد ہی اس پر بھی قبضہ کرلیا جائے گا۔ اس سے پہلے بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور فوجی سربراہ جنرل بپن راوت بھی آزادکشمیر پر قبضے کے دعوے اور اعلانات کرچکے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارتی وزیر خارجہ کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے اس طرزِ تکلم کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے اور دنیا سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے بھارت آزادکشمیر کو موضوعِ سخن بنانے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ جوں جوں دنیا مقبوضہ کشمیر کے حالات کی وجہ سے بھارت کی لعنت ملامت کرتی ہے، اسی رفتار سے بھارت آزادکشمیر پر قبضے کے دعوے تیز کرتا ہے۔ اس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر سفارتی سطح پر فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے پاکستان کو آزادکشمیر کے معاملے پر دفاعی پوزیشن میں دھکیل کر حالات کو دوبارہ ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ والی سطح پر لانا ہے۔ بھارت کی حکمت عملی ہے کہ آزادکشمیر کا منتر اس حد تک جَپا جائے کہ پاکستان دفاعی پوزیشن اختیار کرکے نہ صرف مقبوضہ کشمیر پر اُس کے غیر قانونی قبضے کو تسلیم کرلے بلکہ کشمیریوں کی حمایت سے رسمی طور پر بھی دستکش ہوجائے۔ بھارت کا میڈیا دنیا کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ آزادکشمیر میں ایک طاقتور لابی نہ صرف پاکستان کے کنٹرول کا خاتمہ چاہتی ہے بلکہ بھارت کو خوش آمدید کہنے کو بھی تیار ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت یہاں پانی اور بجلی کے لیے ہونے والے مظاہروں کو بھی بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف مظاہرے بناکر پیش کرتا ہے۔ اسی حکمتِ عملی کے تحت پونچھ ہجیرہ کے علاقے میں کنٹرول لائن کی طرف بڑھنے والے ایک مارچ کو جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی بہت بڑی تعداد بھی شامل تھی، بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف مارچ قرار دیتے ہوئے جم کر پروپیگنڈا کیا۔ مارچ میں خودمختار کشمیر کے حق میں لگنے والے نعروں کو بھارت کی حمایت کے طور پر پیش کرنا چانکیائی سیاست کا ایک انداز تھا۔ خودمختار کشمیر کا مطلب اگر بھارت کی حمایت ہے تو وادی میں اس نظریے کے سب سے بڑے مناد اور مبلغ محمد یاسین ملک کو تہاڑ جیل دہلی میں سلوپوائزننگ کے ذریعے ایک اور ’’یاسرعرفات‘‘، ایک اور ’’مقبول بٹ‘‘کیوں بنایا جارہا ہے؟ حقیقت میں اس مہم کا مقصد وادی کشمیر کے بہادر اور آزادی پسند عوام کے حوصلے توڑنا ہے، مگر بھارت کے ساتھ 71 سال سے نباہ کرنے والے کشمیری بھارتی ذہنیت کو پہچان چکے ہیں، وہ بھارت کی کسی چال میں نہیں آرہے۔
وادی کے بہادر عوام نے جرأت اور بہادری کو ہی ایک نیا نام اور نیا عنوان نہیں دیا، مزاحمت کی تاریخ کو بھی نیا رنگ وآہنگ دیا ہے۔ وادی کشمیر کے عوام شاہ میری سلطنت ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے حکمران بڈشاہ کے عظیم تر کشمیر کے خواب ذہنوں میں بسائے ہوئے منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ شاہ میری سلطنت کے ایک کردار سلطان شہاب الدین نے ہندوستان میں فیروز شاہ تغلق کی فوج کو شکست دے کر اپنی سلطنت کو سرہند تک پھیلایا تھا۔ وادیٔ کشمیر اس عظیم سلطنت کا دل رہی ہے اور آنے والے زمانوں میں بھی وادی کشمیر ہی ریاست کے اعصابی مرکز کو کنٹرول کرتی رہے گی۔ آج آزادی کی اصل اور حقیقی جدوجہد کے بدلے سارے عذاب اور عتاب یہی وادی سہہ رہی ہے۔ اس قائدانہ کردارکو کوئی مصنوعی کوشش ختم نہیں کرسکتی۔ مدتِ دراز تک کشمیریوں کے اپنے روشن اور خوش حال مستقبل کے لیے تاریخ کا رول ماڈل سلاطینِ کشمیر میں سے ایک کردار سلطان زین العابدین رہے ہیں، جنہیں کشمیری زبان میں بڈشاہ یعنی ’’بڑا بادشاہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اب بھارتی سرمائے سے کشمیریوں کا رول ماڈل اس تاریخی کردار کے بجائے ڈوگرہ مہاراجا گلاب سنگھ کو بنایا جارہا ہے۔ پہاڑی علاقوں کو زبان اور علاقے کی بنیاد پر کشمیریوں کے جذبات کے مجموعی دھارے سے کاٹ کر گلاب سنگھ کی لگیسی کا حصہ بنانے کی مہم زوروں پر ہے۔ گلابو کے نام سے مشہور یہ کشمیر کی تاریخ کا ایک ایسا ناپسندیدہ کردار ہے جس نے کشمیری عوام کو 75 لاکھ نانک شاہی سکہ رائج الوقت میں انگریز سے خریدکر اپنی ذاتی جاگیر کا حصہ بنایا تھا، جس پر فرزندِ کشمیر علامہ اقبال نے ’’قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند‘‘ کہا تھا۔ اسی گریٹر کشمیر کے گیت علامہ نے یوں گائے تھے: ۔

در زمانے صف شکن ہم بودہ است
چیرہ و جاں باز و پردم بودہ است

(ترجمہ:ایک زمانے میں یہ قوم بہت بہادر،دلیر،جانباز،باہمت اورصف شکن رہی ہے)
آج تیس برس سے وادی کے چنار جو شعلے اُگل رہے ہیں علامہ نے ’جاوید نامہ‘ میں اس کی پیش گوئی یوں کی تھی:

باش تا بینی کہ بے آوازِ صور
ملتِ برخیز و از خاک قبور

(ترجمہ: تُو ذرا انتظار کر اور دیکھ کہ کس طرح صورِِ اسرافیل کے بغیر اس قبرستان کی خاک سے ایک قوم نیا جنم لیتی ہے)
علامہ اقبال فرزندِ زمین کے طور پر جس کشور کشمیر کی بات کرتے ہیں وہ ہندو مہاراجا کے دور سے بہت پچھلے زمانوں کی بات ہے۔ یہ درست ہے کہ اِس وقت تنازع مہاراجا گلاب سنگھ کی قائم کردہ ریاست کے دائرے کے اندر گھوم رہا ہے، مگر مہاراجا نے جو ریاست جموں و کشمیر تشکیل دی اس کی مسلمان آبادی اُس کے اقتدار سے کبھی مطمئن نہ ہوسکی، اور کسی نہ کسی علاقے میں ڈوگرہ حکمرانی کے خلاف مزاحمت اور بغاوت کی تحریکیں پھوٹ پڑتی رہیں۔ 13جولائی 1931ء کا سانحہ اسی مزاحمت کا عکاس تھا جس میں 22 کشمیریوں نے سری نگر سینٹرل جیل کے سامنے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ 13 جولائی کا واقعہ مہاراجا کے آبائی علاقے جموں سے توہینِ قرآن کے واقعے کے خلاف اُٹھنے والی چنگاری کا شعلہ تھا۔ پونچھ راولاکوٹ کے علاقے میں سبز علی خان، ملی خان اور شمس خان نے مزاحمت کے بدلے اپنی کھالیں کھنچوانا قبول کیا تھا۔ سلطان زین العابدین شاہ جیسے کردار کے بجائے گلاب سنگھ کو رول ماڈل بنانا کشمیریوں کو نظریاتی طور پر زوال آشنا اور دیوالیہ بنانے کی منظم کوشش ہے۔ دونوں کے درمیان موازنے پر’’چہ نسبت خاک را‘‘ہی کہا جاسکتا ہے۔
کنٹرول لائن کو مستقل سرحد قرار دینا بھارت کے پاس ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر کے ’’مک مکا‘‘ کا آسان حل رہا ہے۔ کبھی کبھار بھارت کی جانب سے اس حل میں ترمیم کرکے کنٹرول لائن کو سیدھا کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے لیے قابلِ انتظام بنانے کی پیشکش ہوتی رہی۔ پاکستان نے اس حل کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ انتہائی مجبوری اور بے بسی کے دنوں میں بھی اس حل کو قبول نہیں کیا، جبکہ آج پاکستان ماضی کے کسی بھی دور کی نسبت زیادہ طاقتور اور جدید اسلحہ سے لیس ہے۔ آزادکشمیر پر قبضہ بھارت کا وہ مجنونانہ خواب ہے جس کی قیمت برصغیر کی تباہی کی شکل میں ہی چکائی جاسکتی ہے۔ آزادکشمیر کے عوام نے مار مارکر ڈوگرہ راج کو یہاں سے بھگایا ہے۔ آزادکشمیر کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے سردار ابراہیم خان، سردار عبدالقیوم خان اس تحریک کی اگلی صفوں میں شامل تھے۔ ریاست کا پہاڑی علاقہ سردار ابراہیم خان اور سردار عبدالقیوم خان جیسے رول ماڈلز کو چھوڑ کر سوشل میڈیا پر پلندری سے نقل مکانی کرنے والے ہندو خاندان کی ایک لڑکی رومی شرما کی پہاڑی زبان میں چکنی چپڑی باتوں میں آکر اپنے عظیم ماضی سے تعلق توڑ دے گا ایسا ممکن نہیں۔ یہ خاتون’’را‘‘ کا پروجیکٹ چلاتے ہوئے جموں میں بیٹھ کر آزادکشمیر کے پہاڑی علاقوں بالخصوص پونچھ میں تقسیم کی 1947ء کی لکیروں کو مٹا کر زبان وعلاقے کے نام پر یہاں تقسیم کی نئی لکیریں اُبھار رہی ہیں، جس کا مقصد آزادکشمیر کے عوام کو وادیٔ کشمیر کے عوام کی مقبول تحریک اور جذبات کے دھارے سے کاٹنا ہے۔