حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے اپنی سیاسی حکمت عملی یا مزاحمتی سیاست کے تناظر میں سخت فیصلے کریں۔ دھرنا یا لاک ڈائون جیسے فیصلے بھی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہوتے ہیں اور ان کی مخالفت کوئی مناسب بات نہیں۔ البتہ حزبِ اختلاف کے سامنے دو پہلو اہم ہونے چاہئیں:
(1) جو بھی تحریک چلائی جائے وہ سیاسی اور جمہوری فریم ورک میں ہو۔
(2) سیاسی و جمہوری تحریک میں تشدد یا ریاستی ٹکرائو کی صورت نہیں ہونی چاہیے۔ پُرامن سیاسی جدوجہد میں مختلف طریقِ کار ہونے چاہئیں اور ان کی حمایت بھی ہونی چاہیے۔
جہاں تک مولانا فضل الرحمان کے لاک ڈائون کا معاملہ ہے اس کا بھی سیاسی تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ پہلی بات یہ تسلیم کرنی ہوگی کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کاغذوں میں تو متحدہ حزبِ اختلاف موجود ہے، مگر عملی طور پر تقسیم شدہ حزب اختلاف کا ایک نکاتی ایجنڈا عمران خان حکومت کی مخالفت اور اس کا خاتمہ ہے۔ لیکن یہ مشترکہ حزبِ اختلاف کاغذوں یا اجلاسوں کی حد تک تو متحد ہے مگر عملی طور پر سب کا اپنا اپنا سیاسی ایجنڈا اور ترجیحات ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اگرچہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ لاک ڈائون میں حزب اختلاف کی تمام جماعتیں شریک ہوں۔ لیکن مولانا پہلے یہ تو تسلیم کریں کہ لاک ڈائون کا فیصلہ اُن کا ذاتی یا جماعتی فیصلہ ہے۔ اگر واقعی مولانا حکومت مخالف سب جماعتوں کی شرکت کے متمنی تھے تو یہ فیصلہ بھی مشترکہ حزب اختلاف کی کمیٹی میں ہونا چاہیے تھا، جو ممکن نہیں ہوسکا۔
اس لیے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ لاک ڈائون مولانا فضل الرحمان کا سیاسی فیصلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتیں اس لاک ڈائون میں شرکت کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف ان کا مؤقف ہے کہ وہ دھرنے یا لاک ڈائون کی سیاست کے نہ تو ماضی میں حامی تھے اور نہ اب ہیں۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم سسٹم کو چلانے کے حامی ہیں اورحکومت طاقت کے زور پر گرانا ہماری سیاست نہیں، تو پھر دوسری طرف حکومت کے خاتمے کی بات کرکے بھی تضاد دکھایا جاتا ہے۔ حکومت کو گرانے کا ایک سیاسی طریقہ تو وزیراعظم اورحکومت پر عدم اعتماد کی تحریک اور عددی اکثریت کی بنیاد پر حکومت کی تبدیلی ہوتا ہے۔ دوسرا طریقہ ہے سڑکوں پر ایک بڑی سیاسی تحریک کا منظر پیدا کرنا اور عوامی مزاحمت سے حکومت کو مجبور کرنا کہ وہ استعفیٰ دے یا نئے انتخاب پر مجبور ہوجائے۔ پیپلز پارٹی کیا چاہتی ہے، یہ واضح نہیں ہے۔ایک طرف وہ حکومت مخالف تحریک چلانا چاہتی ہے اور دوسری طرف وہ اسی حکومت اوراسٹیبلشمنٹ سے پسِ پردہ معاملات کو طے کرنے کے کھیل کا بھی حصہ ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کے بقول مولانا فضل الرحمان کے لاک ڈائون میں عدم شرکت کو بھی اسی پسِ پردہ مفاہمت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے تو وہ اس وقت لاک ڈائون یا مزاحمت یا مفاہمت کی سیاست کے درمیان واضح طور پر تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک طرف نوازشریف اور اُن کے قریبی ساتھی ہیں، اور دوسری طرف شہبازشریف اوران کے ساتھی ہیں۔ اس وقت عملی طور پر ووٹ بینک نوازشریف کا ہے، لیکن پارٹی پر کنٹرول عملاً شہبازشریف کا زیادہ ہے۔ نوازشریف اور مریم کی گرفتاری کے بعد شہبازشریف پارٹی معاملات میں زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ شہبازشریف کبھی بھی مزاحمتی سیاست کے کھلاڑی نہیں رہے، وہ خود بھی مفاہمت سے چلنا چاہتے ہیں اور ہر سطح پر نوازشریف کو پہلے بھی اور اب بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ ٹکرائو کی سیاست سے گریز کیا جائے۔ یہ سب کو پتا ہے کہ شہبازشریف اب بھی پسِ پردہ معاملات چلا رہے ہیں اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے۔ ایسے میں اُن کو کسی بھی طور پر مولانا فضل الرحمان کا سیاسی لاک ڈائون قبول نہیں ہوگا۔
شہبازشریف، خواجہ آصف اور احسن اقبال کی نوازشریف سے جیل میں ہونے والی ملاقات کا موضوع مولانا فضل الرحمان کا لاک ڈائون بھی تھا، اور نوازشریف کو یہی سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ ہمیں فوری کسی بڑے اقدام کے بجائے وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) لاک ڈائون کا حصہ نہیں بنے گی، اور اگر شرکت کا فیصلہ کیا بھی گیا تو یہ چند افراد کی شرکت تک محدود ہوگا۔ بطور سیاسی جماعت اس لا ک ڈائون کا حصہ نہیں بنا جائے گا۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے مجموعی ارکانِ پارلیمنٹ بھی لاک ڈائون کی سیاست کے حامی نہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں لاک ڈائون کا حصہ بننا پہلے سے بحران کا شکار مسلم لیگ (ن) کے لیے مزید مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ البتہ مسلم لیگ (ن) کا ایک دھڑا یہ سمجھتا ہے کہ شہبازشریف کی مفاہمتی سیاست نے ہمیںکچھ نہیں دیا، بلکہ اسے پارٹی کی کمزوری سمجھا جارہا ہے۔ اس لیے اس طبقے کا خیال ہے کہ ہمیں حکومت پر دبائو ڈالنے کی سیاست ہی کرنی ہے، اور اس گروہ کو نوازشریف اور خاص طور پر مریم نواز کی حمایت حاصل ہے۔ مگر بظاہر لگتا ہے کہ آخری فیصلہ شہبازشریف ہی کا ہوگا۔ اب شہبازشریف نے مولانا فضل الرحمان کو مشورہ دیا ہے کہ لاک ڈائون سے قبل پہلے ہمیں تمام جماعتوں پر مشتمل اے پی سی کرنی چاہیے۔ کیونکہ شہبازشریف کا خیال ہے کہ اے پی سی کا مشترکہ فیصلہ لاک ڈائون کے حق میں نہیں ہوگا۔ مگر اس کے لیے مولانا فضل الرحمان تیار نہیں ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں حکومت اور خاص طور پر عمران خان کو سیاسی رعایت دینے کے حق میں نہیں۔ حالانکہ مولانا ایک زمانے میں عمران خان کے دھرنے کے مخالف تھے اور کہتے تھے کہ یہ جمہوریت کے خلاف ہے، اور اب وہی کام وہ خود کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ساتھ اس تحریک میں شدت پیدا کرنے کے لیے وہ مذہبی کارڈ بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں جو بہت سی جماعتوں کو قبول نہیں ہے۔
دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) یقینی طور پر چاہتی ہیں کہ حکومت تبدیل ہو، مگر ان کو لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا فیصلہ جذباتی ہے، اورکیونکہ وہ اور اُن کی جماعت پارلیمنٹ میں زیادہ نمائندگی نہیں رکھتیں اس لیے ہمیں مولانا فضل الرحمان کی سیاست میں اندھا دھند شامل ہونے کے بجائے اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنا چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی عدم شرکت کے باوجود لاک ڈائون کریں گے؟ ۔اگر مولانا فضل الرحمان کی لاک ڈائون کی کال مؤثر ثابت نہ ہوسکی تو اس کا سیاسی نزلہ حزبِ اختلاف کی سیاست کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔
حکومت کو اندازہ تھا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) موجودہ صورتِ حال میں لاک ڈائون کی سیاست کا حصہ نہیں بنیں گی، اور ان کو خطرہ یقینی طور پر پہلے بھی مولانا فضل الرحمان سے تھا اوراب بھی ہوگا۔ کیونکہ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مولانا کی طاقت مذہبی سیاسی کارکنوں اور مدارس کے طلبہ پر مشتمل ہے اوروہ بڑی تعداد میں لوگوں کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔اس لیے اس وقت حکومت کی کوشش ہوگی کہ مولانا فضل الرحمان پر مختلف محاذوں سے دبائو بڑھایا جائے کہ وہ لاک ڈائون کی سیاست سے گریز کریں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت حکومت اورمولانا دو مخالف سمتوں میں کھڑے ہیں اوربہت زیادہ بداعتمادی کا شکار ہیں۔ایسے میں ان میں مصالحت کا امکان بہت کم نظر آتا ہے۔جہاں تک مولانا کا پندرہ سے بیس لاکھ لوگوں کو جمع کرنے کا دعویٰ ہے، اسے محض سیاسی بیان بازی ہی سمجھا جائے، مگر یقینی طو رپر وہ بڑا مجمع کرسکتے ہیں، مگر لاک ڈائون سے حکومت ختم کرنا خواہش تو ہوسکتی ہے مگر عملی طور پر ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔
اس وقت وزیراعظم عمران خان کو بڑا خطرہ حزبِ اختلاف سے کم اور اپنی سیاسی اور معاشی پالیسیوں سے زیادہ ہے۔ بالخصوص اگر وہ اگلے ایک برس میں معاشی معاملات میں بہتری پیدا نہ کرسکے تو صورتِ حال ان کے خلاف جاسکتی ہے۔ اصولی طور پر تو جیسے پہلے عرض کیا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کسی بڑی عددی اکثریت سے نہیں بنی، اور اس کو ختم کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں ہی عددی اکثریت کی بنیاد پر حزبِ اختلاف کو حکومت ختم کرنے کا کھیل کھیلنا چاہیے۔ماضی کی سیاست کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ سڑکوں پر حکومت گرانے کے کھیل کا فائدہ سیاسی قوتوں کو کم اورغیر جمہوری قوتوں کو زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے فوری طو رپر لاک ڈائون مسئلے کا حل نہیں، بلکہ زیادہ حکومت مخالف جدوجہد اورتبدیلی کا عمل پارلیمنٹ کے اندر سے ہی ہونا چاہیے۔