نفسِ مطمئنہ سائبان سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ

بیسویں صدی عیسوی میں مسلم دنیا خصوصاً جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو اسلامی فکر سے سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہے جنھوں نے پوری دنیا میں اسلام کا آفاقی اور انقلابی پیغام پہنچایا، امتِ مسلمہ کا مقدمہ مدلل انداز میں پیش کیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کا فکری شعور دیا، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اسلامی انقلاب کے لیے تیار کیا اور قرآن کا آسان ترین ترجمہ اور سہل ترین تفسیر کردی، جس کی وجہ سے مسلم امہ ہی نہیں غیر مسلم دنیا بھی ان کی علمی وجاہت اور فکری بالیدگی کی آج بھی معترف ہے۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی برسی آجکل منائی جارہی ہے، دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کو فکری مواد فراہم کرنے کے علاوہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پاکستانی عوام خصوصاً نوجوانوں کی فکری تربیت میں بھی کلیدی کردار اداکیا۔بانیِ جماعت اسلامی کے طور پر وہ پاکستانی سیاست کا ایک ایساکردار تھے کہ جس کی حمایت اور مخالفت اس ملک کی سیاست کا کئی دہائیوں تک مرکز و محور رہی۔ان پر مر مٹنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے اوران کی مخالفت میں حدیں پار کر جانے والوں کی بھی کمی نہیں۔ انھوں نے اپنی تحریر اور تقریر سے ایک زمانے کو متاثر کیا مگر دلیل اور تحمل کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ بد ترین سیاسی مخالفت میں بھی اصول اور صبر کا دامن تھامے رکھا۔دینی جماعتوں، سیاسی حلقوں اور حکومتوں کی شدید ترین مخالفت میں بھی ان کے چہرے پر ایک اطمینان دیکھا جا سکتا تھا۔1960ء کے عشرے میںجیل سے رہائی کے موقع پر ان کے چہرے پر راقم نے جو غیر معمولی اطمینان دیکھا تھاوہ ایوبی آمریت کا مقابلہ کرتے ہوئے، عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے مادر پدر آزاد کارکنوں کی گالی گلوچ برداشت کرتے ہوئے، حتیٰ کہ موت کے بعد بھی ان کے چہرے پر موجود تھا۔شاید جرأت اور صبر و تحمل ان کی شخصیت کے لازمی اجزاء تھے۔ان سے ملاقات کرنے والوں کو ہر بار ان کی شخصیت کا ایک نیا اور جاندار پہلو دیکھنے کو ملتا۔ اُس زمانے میں مولانا ہر اتوار کی صبح مبارک مسجد عبدالکریم روڈ لاہورمیں درسِ قرآن دیا کرتے تھے جس میں عام آدمی سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، نوجوان طالب علم اور خواتین سب شریک ہوتے تھے۔ مولانا ٹھیرے ٹھیرے لہجے میں قرآنِ پاک کی آیات پڑھتے، پھر مدلل انداز میں اس کا مفہوم بیان کرتے، اور آخر میں سوالوں کے بڑے تحمل اور حوصلے کے ساتھ جواب دیتے۔ درسِ قرآن میں بعض اوقات نازک معاملات بھی زیر بحث آتے، لیکن مولانا اس موقع پر بھی اتنے شائستہ اور پاکیزہ الفاظ استعمال کرتے کہ آدمی حیران رہ جاتا۔
5 اے ذیلدار پارک میں عصر سے مغرب تک ہونے والی ان کی مجلس جس میں ہر شخص کو آنے اور سوال کرنے کی کھلی اجازت تھی، ایک زبردست علمی مجلس ہوتی تھی جس میں مولانا دین، عالمی و قومی سیاست، معیشت اور اہم بین الاقوامی اور قومی معاملات پر اپنی رائے کااظہار فرماتے۔ زیادہ تر فقہی مسائل پر بات ہوتی جن کا جواب مولانا انتہائی مدلل اور مؤثر انداز میں دیتے۔ یہ محفل کبھی کبھی مولانا کے چھوٹے چھوٹے جملوں سے کشت ِزعفران بن جاتی
ایسی ہی ایک مجلس میں سوال کیا گیاکہ مولانا کچھ علماء مسلسل آپ کے خلاف بہتان طرازی کررہے ہیں، مگر آپ بالکل خاموش ہیں؟ سوال مکمل ہوا تو مولانا نے نہایت تحمل سے جواب دیا کہ علمی اعتراضات کا جواب میں نے ہمیشہ دیا ہے مگر گالیوں کا جواب میں نہیں دے سکتا۔ انہوںنے کہا کہ مخالفین کے ذمے صرف یہی کام ہے، مگر مجھے کچھ اور کام بھی کرنے ہیں۔اُس زمانے میں مولانا کوثر نیازی اور ان کا اخبار ”شہاب“ مولانا مودودیؒ کے خلاف مہم میں تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ گئے تھے۔ ایک صاحب مولانا کوثر نیازی پر سخت برہم تھے۔ مگر مولانا نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اسی دوران مغرب کی اذان ہو گئی۔ لوگ نماز کے لیے اٹھنے لگے تو مولانا نے ان صاحب کوروک کر کہا: آپ وضو دوبارہ کر لیجیے گا۔ مولانا کے اس چھوٹے سے جملے سے پوری محفل کشتِ زعفران بن گئی۔
مولانا مودودیؒ کی ذات کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ غلط بات کو برملا غلط کہتے تھےچاہے اُس کے کرنے والے ان کے اپنے ساتھی یا حامی ہی کیوں نہ ہوں۔ غالباً 1970ء میں کئی سال کی پابندی کے بعد پنجاب یونیورسٹی یونین کے انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی پاکستان کے موجودہ رہنماءحافظ محمد ادریس کی قیادت میں اسلامی جمعیت طلبہ کے حمایت یافتہ پینل نے سابق وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے رہنما جہانگیر بدر مرحوم اور اُن کے پینل کو شکست دی۔ شکست خوردہ پینل نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کامیاب پینل کو اختیارات منتقل کرنے میں ہچکچا رہی تھی۔ اگلے روز حافظ ادریس اور جمعیت طلبہ کےبعض دوسرے سرکردہ رہنما اُس وقت کے وائس چانسلر علامہ علاالدین صدیقی مرحوم سے اس مسئلے پر بات کرنے اُن کی رہائش گاہ پر گئے۔ دورانِ گفتگو مبینہ طور پر کچھ تلخی اور بدمزگی ہو گئی۔ یہ خبر اخبار میں چھپی تو سب سے پہلا ردّعمل مولانا مودودیؒ نے ظاہر کیا۔
1970ء کی انتخابی مہم شروع ہوئی تو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی ساری مہم مولانا مودودیؒ کی ذات کے گرد گھوم رہی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا اِن جماعتوں کا انتخابی منشور مولانا مودودیؒ کی ذات پر رکیک حملے کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ مگر مولانا نے اس قدر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا کہ ایک جلسۂ عام میں شورش کاشمیری مرحوم کو یہاں تک کہنا پڑا کہ قافلۂ سادات میں حسینؓ کے بعد اسلام کا سب سے بڑا مظلوم سید مودودیؒ ہے۔
مولانا کو صرف ایک بار میں نے سخت غصے اور اضطراب میں دیکھا۔ گو اس موقع پر بھی انہیں اپنے اوپر پورا کنٹرول تھا، مگر ان کی اندرونی کیفیت چھپی نہ رہ سکی۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے میاں طفیل محمد جیسے درویش صفت انسان کو گرفتار کرکے ان کے ساتھ انتہائی بد سلوکی کا مظاہرہ کیا۔ مولانا نے اس موقع پر یہ تاریخی الفاظ کہے:
’’جب ظالم اور جابر لوگ برسرِاقتدار ہوتے ہیں تو لوگ گھنٹوںسر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اتنے مضبوط لوگوں سے چھٹکارا کیسے ہو گا۔ مگر جب وہ اقتدار سے علیحدہ ہوجاتے ہیں اور اصل حقائق لوگوں کے سامنے آتے ہیں تو لوگ اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ اتنے کمزور اوربودے لوگ اتنے دن اقتدار پر قابض کیسے رہ گئے!‘‘
ستمبر 1979ء میں مولانا اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ میت لاہور پہنچی اور عام زیارت کے لیے تقریباً اُسی جگہ رکھی گئی جہاں 32 سال سے،بعد عصر کی مجلس میں مولانا کی کرسی ہوا کرتی تھی۔ مولانا کا دیدار کرنے والوں کی قطار کا ا ٓخری سرا شمع سینما تک پہنچا ہوا تھا۔ رات تقریباً 12 بجے میں مولانا کی میت کے قریب پہنچ سکا۔ ایک لمحے کے لیے میت کے سرہانے رک کر میں نے نظر اٹھائی تو سید مودودیؒ کے چہرے پر وہی اطمینان تھا جو میں نے پہلی بار جیل سے رہائی کے موقع پر اُن کے چہرے پر دیکھا تھا۔