آئین کی دفعہ 19 آزادیٔ صحافت کو تحفظ فراہم کرتی ہے
سعودی عرب اور امریکہ روانگی سے قبل وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں جو اہم فیصلے کیے گئے اُن میں سے ایک ’خصوصی میڈیا ٹریبونلز‘ کے قیام کا ہے۔ یہ ٹریبونلز 90 روز میں شکایات کا فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ بظاہر ان خصوصی عدالتوں کے قیام میں کوئی حرج نظر نہیں آتا، مگر اس فیصلے کے پسِ پردہ جو سوچ کارفرما ہے اس کا اندازہ اُس بریفنگ سے بخوبی کیا جا سکتا ہے جو کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے دی۔ ڈاکٹر صاحبہ کا ارشاد بڑا واضح تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے بعض عناصر کی جانب سے آزادیٔ اظہار کی آڑ میں اعلیٰ حکومتی شخصیات پر بغیر کسی ثبوت کے الزامات لگانے اور وزیراعظم سمیت وزراء کی زندگی کو پروپیگنڈے کا نشانہ بنانے پر کابینہ میں اظہارِ تشویش کیا، اور کابینہ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مثبت تنقید کسی بھی معاشرے کی بہتری بالخصوص حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے میں معاون ہوتی ہے، مگر بعض عناصر کی جانب سے آزادیٔ اظہار کو ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے بقول وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ حکومت پر بے جا تنقید اور حکومتی عہدیداروں اور وزراء کی نجی زندگیوں کو من گھڑت اور منفی پروپیگنڈے کا نشانہ بنانے کا مقصد حکومت اور عوام کے درمیان پائے جانے والے اعتماد کو ہدف بنانا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی کامیابیوں کے لیے عوام کا اعتماد نہایت ضروری ہے جسے ٹھیس پہنچانے کے لیے بعض عناصر کی جانب سے جان بوجھ کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے گمراہ کن معلومات پھیلائی جارہی ہیں اور اس ضمن میں بدقسمتی سے میڈیا کو آلہ کار بنایا جارہا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم نے اجلاس میں باور کرایا کہ میڈیا کا غلط استعمال روکنے کے لیے متعلقہ قوانین میں بین الاقوامی سطح پر رائج قوانین کی طرز پر اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ میڈیا مفاد پرست عناصر کے ہاتھوں آلۂ کار نہ بن سکے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ میڈیا سے متعلق ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد یقینی بنانے کے حوالے سے متعلقہ ادارے بشمول پیمرا بعض وجوہات کی بنیاد پر اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا نہیں کر پا رہے۔ ان کے بقول ان وجوہات کا جائزہ لے کر اس حوالے سے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی کابینہ کے اجلاس کی مندرجہ بالا بریفنگ کے الفاظ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وزیراعظم محترم عمران خان کے لیے ذرائع ابلاغ کی جانب سے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں تنقید ناقابلِ برداشت ہوچکی ہے اور وہ ہر صورت ذرائع ابلاغ کو لگام ڈالنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنے لیے تو ہر قسم کی آزادیوں کا طلب گار ہوتا ہے مگر دوسروں کو یہ حق دینے پر کسی طور آمادہ نہیں ہوتا۔ یہ بہت زیادہ پرانی بات نہیں جب وزیراعظم حکومت میں نہیں تھے تو وہ حکومتی ذمہ داران کے بارے میں کیا کیا کچھ ارشاد نہیں فرمایا کرتے تھے، اور کون سا الزام تھا جو انہوں نے اپنے مخالفین پر عائد نہیں کیا تھا؟ اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ آج حکومت میں بااختیار اور سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے باوجود مخالفین پر اپنے ماضی میں عائد کردہ الزامات ثابت نہیں کرسکے۔ اسی طرح جلسوں میں اور کنٹینر پر کھڑے ہوکر جو زبان وہ اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں، وہ اگرچہ ان کے بارے میں آج استعمال نہیں کی جارہی، مگر جو معمولی نوعیت کی تنقید ان کی حکومت کے بارے میں کی جاتی ہے اور حکومت سے باہر ہوتے ہوئے جو وعدے وہ کرتے رہے ہیں اُن کی روشنی میں جب انہیں آئینہ دکھایا جاتا ہے تو یہ ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے، اور وہ اس پر ذرائع ابلاغ کو گردن زدنی سمجھتے ہیں۔ اپنی اسی خواہش کی تکمیل کی خاطر وہ ذرائع ابلاغ کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کے خواہاں ہیں، حالانکہ ان کو ذرائع ابلاغ سے جو شکایات ہیں ان کا ازالہ ملک میں پہلے سے موجود عدالتوں اور قوانین کے ذریعے بھی ممکن ہے۔ ہتک عزت کے قوانین کے علاوہ پریس کونسل اور پیمرا قوانین خاص طور پر ذرائع ابلاغ سے متعلق شکایات کے ازالے کے لیے موجود ہیں، اور اگر ان قوانین میں کوئی سقم حکمرانوں کو دکھائی دیتا ہے تو ذرائع ابلاغ کے متعلقہ نمائندگان کو اعتماد میں لے کر ان کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کابینہ اجلاس کی بریفنگ دیتے ہوئے جو تاثر دیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کسی بھی قسم کی تنقید برداشت کرنے کو تیار نہیں، اور اس کو روکنے کے لیے ذرائع ابلاغ کی آزادی کو سلب کرنے کے درپے ہے جو موجودہ حالات میں معاشرہ قبول کرے گا اور نہ ذرائع ابلاغ سے وابستہ مختلف فریق اسے برداشت کریں گے، کیونکہ اب مارشل لا ہے اور نہ آمریت… صحافی برادری نے اپنے حقوق کے تحفظ اور صحافتی آزادیوں کے حصول کے لیے آمریت کے دور میں ہر طرح کی قربانیاں دیں اور صعوبتیں برداشت کی ہیں، چنانچہ ان آزادیوں کو سلب کرنا اب اتنا آسان نہیں ہوگا۔
جہاں تک آئین کا تعلق ہے، اس کی دفعہ 19 اور 19 اے کے ذریعے ذرائع ابلاغ اور اظہارِ رائے کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ دفعہ 19 کے تحت ذرائع ابلاغ کو مکمل آزادی حاصل ہے ماسوائے اس کے کہ اس سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ، پاکستان کے وقار، سلامتی اور دفاع اور دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات کے معاملات، اور اسی طرح شائستگی، اخلاقیات اور توہینِ عدالت سے متعلق معاملات پر کوئی زد پڑتی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ آئین کی دفعہ 19 ۔ اے کے تحت ملک کے شہریوں کو مفادِ عامہ سے متعلق ادارہ جاتی معاملات تک رسائی کا حق دیا گیا ہے۔
اخبارات کے مالکان کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) ، انجمن مدیرانِ جرائد (سی پی این ای) اور وفاقی انجمنِ صحافیان (پی ایف یو جے۔ دستور) نے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ان خصوصی میڈیا ٹریبونلز سے متعلق شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور انہیں کسی صورت قبول نہ کرنے کے عزم کے ساتھ تمام تنظیموں کی جانب سے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو کسی عملی اقدام سے قبل تمام متعلقہ فریقین کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ اس ضمن میں اسپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر کا یہ اعلان حوصلہ افزا ہے کہ ذرائع ابلاغ سے متعلق کابینہ کا اعلان کردہ خصوصی عدالتوں کا مسودۂ قانون جب قومی اسمبلی میں پیش ہوگا تو صحافیوں، مدیرانِ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندگان کو قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں مدعو کیا جائے گا اور اس مسودۂ قانون کو حتمی شکل دینے سے قبل ان کی رائے اور مؤقف معلوم کرکے اس کی روشنی میں ایسا قانون تیار کیا جائے گا جس سے آزادیٔ صحافت پر کوئی حرف نہ آئے۔ امید ہے حکومت اسپیکر قومی اسمبلی کی اس رائے کو اہمیت دے گی اور اس ضمن میں قانون سازی کرتے ہوئے متعلقہ فریقین کے مؤقف کا احترام کرے گی تاکہ کسی بحران سے بچا جا سکے۔