بلوچستان کا مسئلہ سیاسی نہیں معاشی ہے

پاکستان پریس کونسل کے سابق چیئرمین صلاح الدین مینگل کی فرائیڈے اسپیشل سے گفتگو

فرائیڈے اسپیشل: آپ کا تعلق بلوچستان سے ہے، ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے ہیں، ایک سینئر قانون دان بھی ہیں، اور پاکستان پریس کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں بتائیے کہ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے؟
صلاح الدین مینگل: بلوچستان ایک اہم صوبہ ہے۔ یہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا نصف ہے، اور آبادی کے لحاظ سے دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس صوبے میں صنعت نہیں ہے۔ زراعت لوگوں کے کاروبار کا اہم ذریعہ ہے، وہ اسی سے روٹی روزی کماتے ہیں۔ میری نظر میں صوبے کا اصل مسئلہ سیاسی نہیں بلکہ معاشی ہے۔ یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے ہمیں سنجیدہ ہونا پڑے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: سنجیدہ ہونے کی کوئی علامت بتائیے کہ جس سے اندازہ ہوجائے کو اگر کوئی کام شروع ہوا ہے تو اسے سنجیدہ کوشش کہا جائے؟
صلاح الدین مینگل: صوبے اور بلوچ علاقوں میں بچوں کو، نوجوانوں کو تعلیم اور اس کے لیے مناسب ماحول دینا ہوگا۔ اس وقت یہاں نہ اسکول ہیں اور نہ کالج۔ اور جہاں اسکول اور کالج ہیں وہاں مناسب ماحول اور سہولتیں نہیں ہیں۔ زیادہ گرمی ہو تب بھی، اور زیادہ سردی ہوجائے تب بھی اسکول، کالج بند ہوجاتے ہیں، کیونکہ طلبہ موسم کی سختی برداشت نہیں کرسکتے۔ نہ اسکولوں کی عمارتیں ہیں اور نہ یہاں پانی میسر ہے، ایسے ماحول میں طلبہ کیسے اپنی تعلیم مکمل کرسکتے ہیں یا جاری رکھ سکتے ہیں! لہٰذا ان کا ذہن کسی اور طرف چل پڑتا ہے۔ ضرورت ہے کہ یہاں ماڈل اسکول بنائے جائیں، کالج بنائے جائیں، یہاں انگلش میڈیم کی تعلیم بھی دی جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ کام جنگی بنیادوں پر کریں اور اس کے لیے وسائل دیے جائیں۔ تعلیم کے بعد روزگار کا مرحلہ ہے، وفاقی حکومت نے کہا تھا کہ ’’آغاز حقوقِ بلوچستان‘‘ میں یہ بات لکھی گئی کہ نوجوانوں کے لیے نوکریوں کی تعداد بڑھاکر چھ فی صد کردی گئی ہے۔ لیکن یہ ہدف کیسے پورا ہوگا؟ پہلے یہاں تعلیم دینے کا بندوبست تو کیا جائے، پھر کہیں جاکر یہاں کا نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد روزگار کے قابل ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: صوبے میں روزگار کے مواقع کیا ہیں؟
صلاح الدین مینگل: یہاں بندرگاہ بنائی جائے، اسے ترقی دی جائے۔ سیاحت کا شعبہ ہے، اسے ترقی ملنی چاہیے۔ یہاں آئل ہائوسز تعمیر ہونے چاہئیں، درآمدات اور برآمدات ہونی چاہئیں، یہیں سے روزگار بھی نکلے گا اور نوجوان بھی اس میں کھپ جائیں گے۔ اس وقت ہم بندرگاہ کے لیے کراچی پر ہی انحصار کررہے ہیں، اسی لیے سرمایہ کار بھی وہیں آرہا ہے۔ جب کہ گوادر قدرتی بندرگاہ ہے، گہرے پانی والی ہے، یہاں بڑے جہاز بھی لنگرانداز ہوسکتے ہیں۔ اس وقت ہمارا کراچی پر ہی انحصار ہے جبکہ ہمیں مستقبل میں گوادر اور دیگر مزید بندرگاہوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اورماڑہ اور جیوانی بھی ہماری ضرورت پوری کرنے کے قابل ہیں۔ اورماڑہ کو ترقی دینی چاہیے۔ یہاں پاک بحریہ کا صدر دفتر بھی بن سکتا ہے۔ چونکہ بلوچستان زرعی صوبہ ہے لہٰذا یہاں پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے چھوٹے ڈیم تعمیر ہونے چاہئیں۔ لسبیلہ کے قریب سارا پانی سمندر میں چلا جاتا ہے، اس پانی کو روکا جائے اور ڈیم بنایا جائے۔ ہمیں کوئٹہ شہر میں پانی کی قلت کو دور کرنا چاہیے، اس کے لیے ڈیم بنایا جائے۔ پانی نہ ہونے سے باغات خشک ہورہے ہیں، لوگ نقل مکانی کررہے ہیں، اور یہ نئے مسائل ہیں۔ کاریز بند ہورہی ہیں اور زمین میں کہیں بارہ سو فٹ پر جاکر پانی مل رہا ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چیک ڈیم بنانے بہت ضروری ہیں، اگر ڈیم بن جائیں تو پانی ذخیرہ ہوجانے سے ہمارے بند ٹیوب ویل بھی چل پڑیں گے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے پاس وقت کم تھا لیکن انہوں نے ڈیم کے لیے کام کیا، چندہ بھی لیا اور نگرانی بھی کی۔ لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اب یہ کام سست ہوا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: صوبے میں اب تک سردار، نواب اور سیاست دان ہی وزیراعلیٰ بنتے رہے ہیں، وہ کیوں اس جانب توجہ نہیں دے سکے؟
صلاح الدین مینگل: یہ سب لوگ نامزد تھے، ووٹ کے ذریعے منتخب بھی تھے مگر بے اختیار تھے اس لیے کام نہیں کرسکے۔ صوبے کی مشینری کام نہیں کرتی۔ صوبے میں پانی کی فراہمی اور زراعت کو ترقی دینا بہت ضروری ہے۔ یہاں ترقی کے لیے صنعتوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ تعلیم کا ماحول ہونا چاہیے اور وسائل بھی ملنے چاہئیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ پاکستان پریس کونسل میں رہے، چیئرمین کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ تاثر یہ ہے کہ وزارت کے تمام ادارے کارکنوں کی کم اور اداروں کے مالکان کی زیادہ طرف داری کرتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟
صلاح الدین مینگل: ایسا اس لیے ہے کہ مالک خود ہی ایڈیٹر ہے اور کبھی کبھی خود ہی رپورٹر بھی ہوتا ہے، لہٰذا جس فورم میں مالک کو بیٹھنا ہے وہیں ایڈیٹر بھی بیٹھتا ہے۔ سی پی این ای میں صرف ایڈیٹر ہونا چاہیے، یہاں مالک نہیں ہونا چاہیے، لیکن یہاں وہی ہورہا ہے جس کی آپ نے نشان دہی کی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملازمین کے فورم مضبوط ہوں۔ مالک کو صرف اے پی این ایس میں ہونا چاہیے۔ ملازمین کی دادرسی کے لیے آئی ٹی این ای کورٹ ہے، وہ اس سے رجوع کریں۔ وہاں قانون کے مطابق ان کی دادرسی ضرور ہوگی۔ ہمارے ہاں تو ایک کلچر یہ بھی ہے کہ ریٹائرڈ جج ہی بعد میں کسی کمیشن کا سربراہ بن جاتا ہے، نیب کا چیئرمین بن جاتا ہے۔ اسی طرح شرعی عدالت ہے، وہاں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ اس کے پاس ایک کیس ہے سود کا، جس کا آج تک فیصلہ نہیں ہوسکا۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ سی پیک ایک بڑا منصوبہ ہے، اسے صوبے کی ترقی کے حوالے سے کیسے دیکھ رہے ہیں؟
صلاح الدین مینگل: فی الحال تو صوبے کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ اس کے روٹس پر کام ہوگا تو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کس قدر اہم منصوبہ ہے۔ اس کا ایک روٹ ہے جو فتح جنگ سے ژوب، اور وہاں سے ڈی آئی خان سے ملتا ہوا کوئٹہ جاتا ہے، اور وہاں سے گوادر۔ لیکن اس پر کام ہی نہیں ہوا۔ یہ چھوٹا روٹ ہے جبکہ دوسرے لمبے ہیں۔ اسلام آباد سے جس کو بھی بائی روڈ کوئٹہ جانا ہو اُسے چھ گھنٹے تو اسلام آباد سے نکل کر میانوالی تک لگ جاتے ہیں، مگر کوئی بھی اس روٹ پر ابھی تک توجہ نہیں دے رہا۔
فرائیڈے اسپیشل: اس پر کام تو ہوا جو سابق حکومت نے کیا تھا؟
صلاح الدین مینگل: صرف افتتاح کیا تھا، اور اس کے بعد مزید بھی ہونا چاہیے۔ بلوچستان میں سونا ہے، تیل ہے، اسے بھی نکلنا چاہیے اور ملکی معیشت کے کام آنا چاہیے۔ کیوں نہیں ہورہا یہ کام؟ اس صوبے کا ایک منصوبہ تھا سینڈک، اسے متاثر کیا ہے جسٹس افتخار چودھری نے ایک فیصلے سے۔ مسقط نے پاکستان کو متعدد بار پیشکش کی تھی کہ وہ یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے لیکن اُس کی کسی نے نہیں سنی، اُس نے ایک بہت بڑا پلاٹ دیا ہوا ہے کہ پاکستان یہاں اپنا سفارت خانہ بنائے، لیکن یہ پلاٹ ابھی تک خالی پڑا ہے، اس پر کسی نے توجہ نہیں دی۔
فرائیڈے اسپیشل: حکومت کی معاشی پالیسی کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے؟
صلاح الدین مینگل: موجودہ حکومت نے تقریباً تیرہ ماہ قبل اقتدار سنبھالا تو معیشت کی حالت سخت ابتر تھی، خزانہ خالی تھا اور ملک اندرونی و بیرونی قرضوں تلے دبا ہوا تھا۔ نئی حکومت کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج تھا، اتنے بڑے چیلنج کے مقابلے میں مضبوط سے مضبوط حکومت کے اعصاب بھی جواب دے جاتے۔ لیکن خوش قسمتی سے تمام مقتدر ادارے حکومت کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ وزیراعظم نے اس سلسلے میں دوست ممالک سے رابطے کیے، مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اس مہم میں شریک ہوگئے۔ اعلیٰ عدالتوں اور نیب نے کرپٹ عناصر کے خلاف بلا رو رعایت کارروائی شروع کردی، ان تمام کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ وزیراعظم نے اپنی معاشی ٹیم تبدیل کردی، نئی ٹیم عالمی سطح کے ماہرینِ مالیات پر مشتمل تھی۔ ان اقدامات نے نئی حکومت کی ساکھ میں اضافہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے دل میں پاکستان کے لیے نرم گوشہ پیدا کیا۔ جیسا کہ عالمی مالیاتی اداروں کا وتیرہ ہے کہ وہ قرضہ دیتے ہوئے ترکیبِ استعمال کا پرچہ بھی ساتھ تھما دیتے ہیں، اور ساتھ ہی ’’مسلسل نظر‘‘ رکھنے کے لیے سہ ماہی ’’امتحانات‘‘ کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ آئی ایم ایف مشن کا حالیہ دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ بظاہر اس کے اعلامیے میں حوصلہ افزا باتیں کہی گئی ہیں، لیکن حکومت آئی ایم ایف کو اپنی کمزوری بنانے کے بجائے ملکی معیشت کی ضروریات کے مطابق اصلاحی اقدامات اٹھائے اور کوشش کی جائے کہ درآمدات میں کمی کی جائے اور برآمدات میں اضافے پر پورا زور صرف کردیا جائے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے مشوروں کو قبول اور احکام کو مسترد کرنے کی پالیسی اپنالی تو امید ہے کہ ایک دو سال میں معیشت سنبھل جائے گی۔