عظیم رفیقہ حیات کے صبر و استقامت کی کہانی

سید مودودیؒ کی بڑی صاحبزادی سیدہ حمیرا کی کتاب ’’شجرہائے سایہ دار‘‘ کی تلخیص

سید مودودیؒ کی سب سے بڑی صاحبزادی سیدہ حمیرا ’’شجرہائے سایہ دار‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’اماں جان کی علالت کے موقع پر ماموں خواجہ محمد شفیع مرحوم عیادت کے لیے آئے ہوئے تھے تو اباجان نے اُن سے کہا تھا کہ ’’جب لوگ نعرے لگاتے ہیں مولانا مودودی زندہ باد… جماعت اسلامی زندہ باد… تو میں اپنے دل میں کہتا ہوں ’’محمودہ بیگم زندہ باد‘‘۔ جب کوئی فوج فتح مند ہوتی ہے اور اس کے سالار کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں تو اُس وقت اُس گمنام سپاہی کو کوئی یاد نہیں کرتا جس نے اپنی جان کی بازی لگاکر فتح کو ممکن بنایا ہوتا ہے۔ زندہ باد کے فلک شگاف نعروں میں کسی کی بے نفسی، خودداری، وفاداری، دل داری اور اپنی ذات کی نفی کس کو یاد رہتی ہے‘‘۔
استقامتِ کردار
سید مودودیؒ کے انتقال کے بعد جنرل ضیاء الحق صاحب نے ان کی بیوہ محترمہ محمودہ بیگم کو سینیٹ کی ڈپٹی چیئرپرسن بننے کی پیش کش کی۔ اس مقصد کے لیے پہلے عطیہ عنایت اللہ صاحبہ کو اور بعد میں آپا نثار فاطمہ کو بھیجا۔ عطیہ عنایت اللہ صاحبہ کو تو پیار سے ٹال دیا گیا لیکن جب آپا نثار فاطمہ آئیں تو انہیں اپنا پسندیدہ شعر ’’سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے‘‘ سنایا اور کہا کہ یہ قرآن و حدیث کا علم دنیا کمانے اور دنیاوی عہدے حاصل کرنے کے لیے نہیں ہے، یہ تو آخرت کمانے کا ذریعہ ہے۔ پھر کہا ’’میں اپنے خاوند کے نام اور کام کو کیش کرانے کے لیے وہاں نہیں جاسکتی۔ لوگ اپنی اور اپنی اولاد کی دنیا بنانے کے لیے جیتے ہیں لیکن مولانا نہ اپنے لیے اور نہ اپنی اولاد کے لیے جیے۔ وہ تو بس اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور خدمت کے لیے جیتے تھے! ایسے نیک نفس شوہر کے نام کو میں ’’جنسِ بازار‘‘ نہیں بناسکتی۔ ان کے انکار کے بعد ضیاء الحق صاحب نے یہی عہدہ محترمہ نورجہاں پانیزئی کو پیش کیا تھا جو انہوں نے منظور کرلیا۔
صبر و برداشت والی بے مثل خاتون
سیدہ حمیرا خاتون لکھتی ہیں: ’’جب اباجان پہلی مرتبہ جیل گئے اور ہاتھ بالکل تنگ ہوگیا تو اماں جان نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے بچوں کی تعلیم جاری رہنی چاہیے۔ ہماری اماں جان کی ایک نہایت مخلص دوست خورشید خالہ جب ان سے ملنے آئیں تو اماں جان نے اپنا کچھ زیور انہیں دیا کہ اسے فروخت کرلائو۔ اس طرح وہ بچوں کے تعلیمی اور گھر کے اخراجات پورے کرتی رہیں۔ بڑی جزرسی کے ساتھ بہت سنبھل کر خرچ کرتی تھیں۔ اماں جان کہا کرتی تھیں ’’دنیا میں ہر چیز کے بغیر گزارا ہوسکتا ہے، گزارا ہوتا نہیں بلکہ کیا جاتا ہے‘‘۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی مدد سے وہ مشکل وقت بھی گزر ہی گیا اور 28 مئی 1950ء کو 19 ماہ اور 25 دن کی نظربندی کے بعد ابا جان پھولوں کے ہاروں سے لدے رہا ہوکر گھر آگئے اور سارا گھر مبارک باد دینے والوں سے بھر گیا۔
28 مارچ 1953ء کو اباجان دوبارہ مارشل لا کے تحت گرفتار کرلیے گئے۔ پھر وہی گنے چنے پیسے تھے اور چھوٹے چھوٹے آٹھ بچوں کے ساتھ دمے کی مریضہ، انتہائی کمزور صحت والی ہماری اماں جان تھیں، جنہوں نے بڑے حوصلے سے ان حالات کا مقابلہ کیا۔ کبھی چوڑی اور کبھی انگوٹھی بیچنے کا سلسلہ جاری رہا (یہ کام خورشید خالہ مرحومہ انجام دیتی تھیں)۔ حسبِ سابق پھر خود کھانا پکانا اور گھر کے سارے کام کرنے شروع کردیے۔
پھانسی کی سزا کی خبر سننے کے بعد
مارشل لا کے تحت فوجی عدالت میں سید مودودیؒ پر مقدمہ چل رہا تھا۔ 9 مئی کو مقدمے کی کارروائی مکمل ہوگئی۔ یہ مقدمہ ایک پمفلٹ ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھنے کے سلسلے میں چل رہا تھا۔ 11 مئی کی صبح مولانا کے سب بچے اسکول جانے کے لیے تیار ہوکر ناشتے کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ یکدم عمر فاروق ہاتھ میں اخبار لیے بڑے گھبرائے ہوئے اندر آئے اور محترمہ محمودہ بیگم کو ایک طرف لے جاکر اخبار دکھایا۔ اس اخبار میں نہ جانے کیا تھا کہ اسے دیکھتے ہی ان کا چہرہ زرد ہوگیا اور دوسرے ہی لمحے انہوں نے اخبار چھپا دیا اور ایک لفظ کہے بغیر بچوں کے لیے اسی دلجمعی اور اسی رفتار سے پراٹھے پکانے شروع کردیے۔ سب کو ناشتا کرواکر اسکول روانہ کردیا۔
سیدہ حمیرا لکھتی ہیں: ’’میں اور اسما جب اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلیں تو ہاکروں کی صدائیں کان میں پڑیں ’’مولانا مودودیؒ کو پھانسی کی سزا سنادی گئی‘‘۔ اُس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ بھائی اخبار ہاتھ میں لیے کیوں گھبرائے ہوئے اماں جان کے پاس آئے تھے اور اس اخبار میں کیا تھا کہ اسے دیکھتے ہی اماں جان کا چہرہ زرد پڑگیا تھا… لیکن ہم دونوں بہنیں گھر واپس نہیں آئیں بلکہ سیدھی اسکول چلی گئیں۔
ہم 60 فیروزپور روڈ والے سرکاری اسکول میں پڑھتی اور پیدل جاتی تھیں، اسکول میں ہمیں جو دیکھتا حیران رہ جاتا تھا۔ ہماری ہیڈمسٹریس صاحبہ ایک عیسائی خاتون تھیں۔ انہوں نے جب اسکول اسمبلی میں ہمیں دیکھا تو سب سے کہا ’’دیکھو رہنما ایسے ہوتے ہیں کہ باپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے اور بیٹیاں صاف ستھرے یونی فارم پہنے بالکل پُرسکون اسمبلی میں کھڑی ہیں، اور شاباش اس ماں کو ہے جس نے ایسے دن ایسے موقع پر بھی اپنی بچیوں کو صاف کپڑے پہناکر، بال بناکر، کھلاپلا کر اسکول روانہ کردیا۔ یہ لڑکیوں کا کمال نہیں ہے، یہ تو ان کی ماں کی عظمت ہے کہ ایسے موقع پر بھی انہوں نے اپنی بچیوں کی تعلیم کو مقدم جانا۔ کوئی اور جاہل عورت ہوتی تو اس وقت اس نے رو رو کر اور بین کرکرکے سارا محلہ سرپر اٹھایا ہوا ہوتا‘‘۔ ہیڈمسٹریس صاحبہ نے کہا ’’عام لوگوں اور لیڈروں میں یہی فرق ہوتا ہے‘‘۔ اس وقت میں نویں جماعت میں تھی اور اسماء ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ وہ ہیڈ مسٹریس صاحبہ تو عیسائی تھیں اور ایسی باتیں کررہی تھیں، جبکہ ہماری دوسری اسکول ٹیچرز جو مسلمان تھیں، کہہ رہی تھیں کہ یہ کہاں سے لیڈر بن گئے! یہ تو غدار ہیں، پاکستان کی مخالفت کرنے والے ہیں، لڑکیاں بھی دیکھو کتنی مکار ہیں، یہ سب ایکٹنگ ہے، چالاک ماں کی چالاک لڑکیاں۔
سیدہ محمودہ بیگم… خاندانی پس منظر
سیدہ محمودہ بیگم بنتِ سید نصیر الدین کا تعلق بخاری خاندان سے تھا، ان کے آباو اجداد شاہجہاں کے دور میں بخارا سے نقل مکانی کرکے دہلی آئے تھے اور جامع مسجد دلّی کی امامت پر فائز کیے گئے تھے۔ ان شاہی امام کے چوتھے بھائی سیدہ محمودہ بیگم کے پردادا کے دادا تھے، یعنی لکڑ دادا تھے۔ سیدہ محمودہ بیگم کے والد سید نصیر الدین شمسی پانچ بھائی تھے، سب نماز روزوں کے سخت پابند اور فقیر منش انسان تھے۔ دنیوی حرص و طمع سے بہت دور۔ ان کی والدہ کا تعلق کشمیری خواجہ خاندان سے تھا۔ سیدہ محمودہ بیگم شعبان المعظم کے مبارک مہینے میں 1914ء میں پیدا ہوئیں۔ دہلی کے معروف اور اعلیٰ اسکول کوئن میری اسکول میں داخلہ ہوا جو ایک مشنری اسکول تھا۔ تحریک ِخلافت میں اکثر مسلم خاندانوں نے اپنے بچوں کو مشنری اسکولوں سے نکال لیا، چنانچہ بعد میں ان کی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ ان کے ماموں خواجہ عبدالحمید دہلوی اورینٹل کالج لاہور میں فارسی کے پروفیسر تھے، انہوں نے ان کو فارسی پڑھائی اور جلد ہی انہیں فارسی میں اتنی دسترس حاصل ہوگئی کہ ان کو اردو کی طرح فارسی میں بولنا، لکھنا اور پڑھنا آگیا۔ اس کے بعد عربی کی تدریس بھی ماموں کے ذریعے ہوئی، جن کے ذریعے ان کے علمی ذوق کی بنیاد رکھی گئی۔
سید مودودیؒ کے خاندان سے ان کی قرابت داری اس طرح تھی کہ مولانا صاحب کی والدہ ان کی دادی کی سگی خالہ تھیں اور خاندانی روابط مسلسل قائم رہے۔ مولانا صاحب کی والدہ رشتہ لے کر آئیں اور سیدہ محمودہ بیگم کے دادا سید جمال الدین اور ماموں سے رشتے کی درخواست کی۔ جانے بوجھے اور ہر وقت کے ملنے جلنے والے رشتے دار تھے، لہٰذا کسی پوچھ گچھ کی ضرورت نہ تھی، چنانچہ رشتہ فوراً طے ہوگیا۔ سیدہ محمودہ بیگم نے فرزانہ چیمہ کو بتایا تھا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بڑے صاف گو انسان تھے۔ نسبت کے بعد اور شادی سے پہلے انہوں نے میرے دادا کو ایک خط کے ذریعے اپنے سارے حالات لکھ کر بھیجے تھے اور اپنے مشن سے آگاہ کیا تھا کہ اقامتِ دین کی جدوجہد ان کا مشن ہے جس سے وہ بدترین حالات میں بھی دست بردار نہیں ہوں گے۔ دادا ابا نے جو جواب دیا وہ میرے والدین کے سامنے مجھے سنانے کے لیے پڑھ کر سنایا۔ اس جوابی خط میں ایک جملہ یہ بھی تھا کہ ہماری بیٹی محل میں بھی تمہارا ساتھ دے گی اور جھونپڑی میں بھی۔ شادی کے بعد بیاہ کر سیدہ محمودہ بیگم اپنے شوہر کے ہمراہ اورنگ آباد حیدرآباد دکن سدھار رہی تھیں جہاں سید مودودیؒ ایک دارالترجمہ میں ملازم تھے۔ آسودہ اور آرام دہ زندگی تھی۔ گاڑی، نوکر چاکر سب کچھ تھا۔
سید مودودیؒ بہت مہربان اور شفیق شوہر تھے
محمودہ بیگم اپنے خوبصورت ماضی اور سید مودودی کے ساتھ گزرے ہوئے خوشگوار لمحات کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ میرا عقد مسنونہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ساتھ 2 ذی الحجہ 1355ھ بمطابق 5 مارچ 1937ء کو دہلی میں سرانجام پایا۔ اس وقت میری عمر 20 سال اور سید ابوالاعلیٰ کی عمر 34 سال تھی (یعنی مولانا ان سے 14 سال بڑے تھے)۔ امام عبداللہ بخاری مرحوم کے دادا نے نکاح پڑھایا جو دہلی کی شاہی مسجد کے موجودہ امام کے پردادا تھے۔ مہر دو ہزار سکہ رائج الوقت مقرر ہوا جو مولانا نے فوراً ہی شادی کے بعد ادا کردیا۔
حیدرآباد کی پانچ ماہ کی عائلی زندگی بہت خوشگوار اور آرام دہ تھی۔ دو منزلہ گھر تھا، نیچے والے حصے میں مولانا کے بڑے بھائی ابوالخیر مودودی رہتے تھے۔ اوپر بھی ایک مکمل اور کشادہ مکان تھا۔ تین چار کمرے تھے، صحن، باورچی خانہ، غسل خانہ بالکل الگ۔ گاڑی، نوکر چاکر اللہ کا بڑا فضل تھا۔ ہم دو میاں بیوی تھے اور تین نوکر۔ ان میں ایک کھانا پکانے والی، دوسری آیا اور ایک مرد ملازم، جو باہر کے کام کاج کے لیے تھا۔ ویسے آیا ہمیشہ میرے پاس رہی جسے میں دِلّی سے اپنے ساتھ لائی تھی۔ حیدرآباد دکن کے بعد ابتلا اور آزمائش کا دور شروع ہوگیا۔ حیدرآباد جیسے مردم خیز شہر اور گنجان آبادی میں ساری آسائشوں سے مزین سہولتیں تھیں، جبکہ وہاں سے پنجاب میں پٹھان کوٹ کے علاقے میں منتقل ہوئے جو بالکل جنگل اور نسبتاً غیرآباد تھا۔
جمال پور دارالاسلام کے شب و روز اور مولانا کا حسنِ سلوک
پٹھان کوٹ کا علاقہ بالکل جنگل تھا۔ سانپ، بچھو، بھڑیں، تتّیے بکثرت تھے۔ نہ بجلی نہ پانی۔ ایک نوکر تھا جو کنویں سے پانی لاکر اندر بھر دیتا تھا۔ پہلے تو صرف میں تھی، پھر میاں صاحب ( طفیل محمد صاحب) کی شادی ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو لے آئے تھے۔ مشرقی صاحب کی فیملی بھی دوسری دفعہ جانے پر آئی۔ پہلی دفعہ جب ہم پٹھان کوٹ گئے تو شروع میں صرف اکیلے تھے یا ایک مسجد تھی اور کچھ نہ تھا۔ گیدڑ گھر کے ساتھ ساتھ پھرا کرتے۔ ان کی آوازیں رات رات بھر آیا کرتیں۔ سامنے ہندوؤں کا مرگھٹ تھا، وہاں مُردے جلتے دکھائی دیتے تھے۔
سچ تو یہ ہے کہ مولانا صاحب کی اپنی شخصیت اتنی اچھی تھی اور ان کا اپنا سلوک میرے ساتھ اتنا عمدہ تھا کہ وہ جنگل اور کانٹے مجھے چبھنے نہیں دیتے تھے۔ انھی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ ہمارے پاس چولہے کے لیے لکڑی نہ تھی، مولانا صاحب صبح ناشتا کرکے دفتر چلے گئے۔ میں حیران بیٹھی تھی کہ کیا کروں! گھر آئے تو پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے کہا لکڑی نہیں ہے، کھانا پکانے والی بیٹھی ہوئی ہے۔ آپ نے کہا ’’بس اتنی سی بات کے لیے پریشان ہو!‘‘ یہ کہا اور ہاتھ میں کلہاڑی اٹھا کر باہر چلے گئے۔ گھر کے سامنے بغیر چری لکڑی پڑی تھی، خود جاکر پھاڑنے لگے۔ ابھی انھوں نے دو ایک ہاتھ مارے ہوں گے کہ آس پاس سے کئی آدمی دوڑے ہوئے آئے اور آن کی آن میں لکڑیوں کا ایک ڈھیر لگ گیا۔ اسی طرح پانی بھرنے والا ایک دن کسی وجہ سے نہ آیا۔ گرمی سخت تھی، مولانا گھر میں آئے تو میں پریشان بیٹھی تھی۔ پوچھا کیا با ت ہے؟ میں نے کہا پانی نہیں ہے۔ سنتے ہی دو بالٹیاں اٹھا کر کنویں پر پہنچ گئے اور پانی بھرنا شروع کردیا۔ لوگ دیکھتے ہی دوڑ پڑے اور ذرا سی دیر میں کافی سارا پانی بھر دیا۔
مولانا میرے آرام کا بہت خیال رکھتے تھے۔ میں کچھ زیادہ صحت مند نہ تھی۔ پھر دِلّی کی آرام دہ زندگی کے بعد دار الاسلام کا دیہاتی طرزِ حیات اپنانا پڑا۔ میری صحت خراب ہوگئی۔ مولانا نے لاہور سے ڈاکٹر پر ڈاکٹر منگوائے، اور تین مہینے تک میرے علاج اور آرام و آسائش میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ مجھے پچاس کے قریب انجکشن لگنے تھے، چنانچہ پٹھان کوٹ خود تانگہ چلا کر لے جاتے اور انجکشن لگوا کر لاتے۔ اس طرح ان کا پورا دن ضائع ہوجاتا۔ اس روز وہ لکھنے کا کوئی کام نہ کرسکتے تھے۔
وہ بڑے شفیق اور مہربان شوہر تھے۔ اس کے باوجود اس جنگل میں جب کبھی مجھے زیادہ ہی گھبراہٹ محسوس ہوتی تو دادا جان کی کہی ہوئی وہ بات مجھے بہت سہارا دیتی کہ ’’ہماری بیٹی محل میں بھی تمھارا ساتھ دے گی اور جھونپڑی میں بھی‘‘۔ سو میں ان کٹھن حالات سے خوش دلی سے گزرنے کی کوشش کرتی کہ میرے دادا نے مجھ سے ایک توقع کی تھی۔ مجھے ان کی توقعات پر پورا اترنا ہے۔ حالانکہ اس زمانے میں میرے والدین مجھ سے کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے پاس آکر رہو، جب ابوالاعلیٰ شہر میں گھر لے لے گا پھر چلی جانا، وہاں کیسے رہ رہی ہو جہاں نہ پانی ہے نہ بجلی، اور نہ ہی نوکر چاکر۔ مگر میں ان کے ہاں نہیں گئی، وہیں گزارا کرتی رہی۔ سچ تو یہ ہے کہ چھ سال کا عرصہ مودودی صاحب کی شخصیت اور دادا جی کے بھرپور اعتماد کے سہارے گزر گیا۔
چار ہجرتیں
ہم نے ایک نہیں، چار ہجرتیں کی ہیں۔ پہلی ہجرت 1938ء میں حیدر آباد سے پٹھان کوٹ ( دارالاسلام) کی طرف۔ پھر 1939ء میں دارالاسلام سے لاہور کی طرف۔ پھر لاہور، اسلامیہ پارک میں تین سال قیام کرنے اور جماعت کی تشکیل کے بعد واپس دارالاسلام کی طرف۔ یہ 1941ء کی بات ہے۔ اور چوتھی ہجرت 1947ء میں پھر دارالاسلام سے لاہور کی طرف کی۔
ہر ہجرت میں ہم ہاتھ جھاڑ کے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ حیدرآباد سے آئے تو کار، گھر، فرنیچر سب وہیں چھوڑ چھاڑ آئے۔ بس پہننے کے کپڑے ساتھ تھے۔ پھر پٹھان کوٹ سے لاہور آئے۔ یہاں بھی صرف ضرورت کی اشیاء ساتھ لائے۔1941ء میں جب دارالاسلام گئے تو پورے گھر کا فرنیچر لے کر گئے تھے۔ لیکن 1947ء میں جب وہاں سے آئے تو بھی بے سروسامانی کے عالم میں اٹھ آئے۔ گھر میں پکا ہوا کھانا تک چھوڑ آئے۔ بس بچوں کو ساتھ لے کر جلدی سے آگئے تھے۔ کیونکہ مولانا صاحب نے کہا تھا کہ جلدی سے نکلنے کی کرو، سکھ کسی بھی وقت حملہ کرسکتے ہیں۔ البتہ بیت المال کا صندوق مولانا صاحب نے مجھے دے دیا تھا کہ یہ لے جاؤ، جسے میں نے آکر اُس وقت کے امیر لاہور عبدالجبار غازی صاحب کے حوالے کردیا تھا۔ ہمارے تن پر وہی تین کپڑے تھے، حتیٰ کہ میرے بچوں نے لاہور آکر مولوی ظفر اقبال کے بچوں کے کپڑے پہنے اور میں نے نسیم (بنت الاسلام) کے کپڑے پہنے۔ ایک مہینے تک نہ ہمیں مولانا صاحب کی خبر تھی کہ وہ زندہ سلامت ہیں کہ نہیں، اور نہ انھیں ہماری کچھ خبر تھی۔ کوئی مہینہ ڈیڑھ مہینہ بعد مسلمان ملٹری نے دارالاسلام کے پناہ گزینوں کو جب اپنی تحویل میں لے لیا تب مودودی صاحب نے وہاں سے پاکستان کا رخ کیا۔
مولانا کی گرفتاریاں اور بیماریاں
مولانا کی پہلی گرفتاری قائداعظم کی وفات کے چند دنوں بعد اکتوبر 1948ء میں سیفٹی ایکٹ کے تحت ہوئی۔ دوسری گرفتاری 1953ء میں تحریک ختم نبوت کے دنوں میں ’’قادیانی مسئلہ‘‘ نامی کتابچہ لکھنے پر ہوئی، مارشل لا کی فوجی عدالت نے انہیں موت کی سزا سنادی جو بعد میں عمر قید اور 14 سال قید میں تبدیل ہوگئی اور دو سال بعد رہا کردیے گئے۔ تقریباً دس سال بعد تیسری گرفتاری 1963ء میں ایوب خان کے دور میں ہوئی اور جماعت اسلامی پر پابندی اور جماعت اسلامی کے تمام اثاثے ضبط کرلیے گئے۔
پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں مولانا کی دو طویل گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ اس دوران گھریلو معاشی زندگی انتہائی کٹھن ہوگئی تھی۔ بس ہم نے بہت سادہ زندگی اختیار کرلی تھی۔ تمام اخراجات گھٹا دیے تھے۔ میں نے جو خرچ چلایا، وہ اپنے زیورات بیچ کر چلایا۔ میری والدہ نے مجھے کافی اور بڑے بھاری بھاری زیورات شادی پر دیے تھے۔ بس انھی میں سے فروخت کرکے زکوٰۃ بھی دیتی رہی اور گھریلو اخراجات بھی پورے کرتی رہی۔ میں نے جماعت پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا۔
مولانا صاحب ایک طویل عرصہ بیماریوں کی لپیٹ میں رہے۔ شدتِ تکلیف میں بھی ان کا رویہ صبر و برداشت والا ہوتا تھا۔ مودودی صاحب پر بڑی بڑی سخت بیماری کے دور آئے۔ کوئی اور ہوتا تو چیخ اٹھتا، مگر وہ بڑے صابر اور متحمل تھے، قوتِ برداشت بھی بہت تھی۔ ایسی حالت میں بھی حتی الوسع لکھنا پڑھنا اور آنے والوں سے ملنا جلنا جاری رکھتے تھے۔
جب انھیں دل کا پہلا دورہ پڑا تھا تب وہ میرے ساتھ والے پلنگ پر تھے۔ اُس وقت پہلی بار ان کے منہ سے ہلکی سی ہائے سنی۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ کہنے لگے دل میں بڑی سخت تکلیف ہورہی ہے، اور پھر بس۔ بڑے ضبط کرنے والے اور ہمت والے تھے۔
پرانی پیچش اور السر، یہ دو بیماریاں وہ جیل سے لے کر آئے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ جیل میں جو روٹی کھانے کو ملا کرتی تھی اس میں آٹے سے زیادہ ریت اور پتھر ہوا کرتے تھے جس کے نتیجے میں پیچش اور السر ہوگیا۔ میں انھیں پرہیزی کھانا کھلاتی رہی مگر مستقل آرام نہ آسکا، بلکہ انھی دو بیماریوں سے بالآخر ان کی جان چلی گئی۔ پیچش سے آنتیں پھٹ گئی تھیں۔ بفیلو میں جب ڈاکٹروں نے پیٹ کھولا تو ڈیڑھ فٹ لمبی آنت نکلی جو جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی اور السر سے معدے کا منہ بند ہوگیا تھا۔ اور یہی دو بیماریاں وہ جیل سے لائے تھے، ورنہ ان کی صحت تو قابلِ رشک ہوا کرتی تھی۔ کبھی بخار، سردرد تک نہ ہوتا تھا۔ رہائی کے بعد تقریباً ایک مہینہ رات کو بھی آرام سے سو نہیں سکتے تھے۔
1979ء میں امریکہ میں علاج اور انتقال
سید مودودی کے انتقال کے بہت عرصے بعد محترمہ سیدہ محمودہ بیگم نے محترمہ فرزانہ چیمہ کو اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ
’’1979ء میں ایک بار پھر مولانا صاحب کی صحت بگڑنے لگی تو میں نے احمد کو خط لکھا اور ان کی صحت کی تفصیل بتائی۔ چنانچہ خط پاکر احمد امریکہ سے پاکستان آئے اور ابا کو ساتھ لے جانے کے لیے اصرار کرنے لگے۔ سو اس کے مسلسل اصرار پر مولانا صاحب مان گئے اور ہم لوگ امریکہ چلے گئے۔ وہاں ہارٹ اٹیک اور میجر آپریشن ہوا۔ انھیں آخری بار بخار ہوا جس سے دماغ پر اثر ہوا۔ اسی دوران ایک رات اچانک طبیعت اور بگڑ گئی، پھر فوراً اسپتال لے جانا پڑا۔ میں روزانہ صبح چلی جاتی اور شام کو واپس آتی۔ اس دوران انھیں وضو کرواکر نماز پڑھواتی۔ اخبار بھی ساتھ لے جاتی۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ پھر آپریشن ہوا۔ آپریشن کے بعد دل کا بڑا حملہ ہوا۔ اس پر ہم انھیں بڑے اسپتال میں لے گئے جہاں بجلی سے ان کے دل کوچلایا گیا، تب وہ بول بھی نہیں سکتے تھے۔ اس کے بعد ’کوما‘ میں چلے گئے۔ تین دن، تین رات یہی کیفیت رہی۔ کوما میں جانے کے تیسرے دن کی بات ہے کہ صبح میں نماز ادا کرنے اٹھی تو امن میاں گھر میں نہیں تھے۔ بہو سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ رات ابا کی طبیعت بہت بگڑ گئی تھی، اسپتال سے فون آیا تھا، احمد فوراً چلے گئے ہیں۔ میں نماز سے فارغ ہوکر قرآن پاک کی تلاوت کررہی تھی کہ امن میاں میرے پاس آکر چپ چاپ رونے لگے۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ تو کب سے اسپتال سے آکر باہر سیڑھیوں پہ بیٹھے روئے جارہے تھے، مگر اماں کا سامنا کرنے کی اپنے میں ہمت نہیں پارہے تھے۔
خیر، جب میرے پاس امّن میاں روتے ہوئے آئے تو میں صورت حال فوراً سمجھ گئی۔ قرآن پاک بند کیا اور امن میاں کو دلاسہ دینے لگی کہ دیکھو بیٹے ہر ذی روح کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ تم لوگ تو خوش نصیب ہوکہ تمھارے ابا اتنے سال تمھارے درمیان رہے، آخر جانا ہی تھا اور ہر کسی کو جانا ہے۔ اب یوں کرو کہ ان کو گھر لانے کا کوئی انتظام کرو، میں خود انھیں غسل دوں گی۔
وہاں اسپتال میں وفات پانے والے کو گھر لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی، مگر احمد میاں چونکہ خود اسی اسپتال میں ڈاکٹر تھے، پھر مودودی صاحب کا اپنا ایک مقام بھی تھا اس لیے جب احمد نے متعلقہ عملے سے کہا کہ اماں کی خواہش ہے کہ انھیں گھر لایا جائے تو وہ رضامند ہوگئے۔
مودودی صاحب آگئے تو میں نے بہو سے کہا ’’شمی! تم فوراً بازار جاکر تین سفید چادریں لے آؤ‘‘۔ میں نے اور احمد نے ایک بڑی میز کو کمرے کے وسط میں کرکے اس پر مودودی صاحب کو لٹا دیا اور احمد کو ساتھ ملاکر انھیں آخری غسل دیا۔ بڑا ملائم جسم تھا، جدھر کو موڑو مڑجاتا تھا۔ نہلا دھلا کر کفن پہنایا۔ اتنے میں خاصے لوگ تعزیت کرنے آچکے تھے۔ کیونکہ ریڈیو امریکہ کے ساتوں چینل پر صبح سے ہی وقفے وقفے سے ان کے انتقال کا اعلان کیا جارہا تھا۔ پہلی نمازِ جنازہ گھر میں ہی ادا کی گئی۔ پھر تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ کتنی بار ان کی نمازِ جنازہ پڑھی گئی۔
یہ راز آج تک نہیں سمجھ سکی کہ ان کا چہرہ انتقال کے پانچ دن بعد بھی ایسا ترو تازہ تھا جیسے کسی زندہ شخص کا چہرہ ہو۔ یہاں پاکستان لاکر جب تابوت کھولا گیا تو مجھے یوں لگا جیسے ان کے چہرے پہ پسینہ ہو۔ میں نے رخساروں اور پیشانی پر ہاتھ پھیرا تو وہ بھیگے ہوئے تھے۔ میں نے عائشہ سے کہا دیکھو! تمھارے ابا کو پسینہ آرہا ہے۔ اس نے پنکھا کھول دیا۔ اس کے بعد پسینہ خشک ہوگیا۔ ‘‘۔
(جاری ہے)