زندگی کا مقصد

زندگی کے مقصد کی تلاش دراصل اپنی ذات سے آگے کی جستجو ہے، جو زندگی سے بھرپورہوتی ہے

مارک مینسن/ترجمہ:ناصر فاروق
مجھے اپنی زندگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟ اگرتم یہ مضمون پڑھ رہے ہو، تب توتم خوش نصیب ہو کہ کم از کم خود سے یہ اہم سوال کررہے ہو، کہ زمین پر ’میرے وجود کا مقصد ہی کیا ہے؟‘
ذرا سوچو: انسانی تاریخ کے طویل زمانے میں اکثر ان سوالوں پر غور ہوتا آیا ہے۔ یقینا انسان اپنی زندگیاں محض شیرکی کھالوں سے لباس تیارکرنے، تیرکی نوک بنانے، اور بیریاں جمع کرنے میں صرف نہیں کرتے رہے۔ زندگی مختصر اور مشکل تھی، مگر سادہ تھی۔ محض وہ کچھ کرنا پڑتا تھا جو بقاء کے لیے ضروری تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ہم ہوشیار ہوتے گئے۔ زندہ رہنے کے کئی نئے راستے تلاش کرلیے۔ صحت مند رہنے کے کئی طریقے ایجاد کرلیے۔ زندگی مزید آرام دہ اوردلچسپیوں سے بھرپور ہوگئی۔ اور جب ہماری نوع زندگی کی ساری آسائشوں میں کھوگئی، توکہیں سے یہ سوال اُبھرکر پھر سامنے آگئے کہ آخر ’ہم اس دنیا میں کیوں ہیں؟ کیا کررہے ہیں؟ اور کیوں کررہے ہیں؟ اور ہمیں کرنا کیا چاہیے؟‘
ہم میں سے اکثر لوگ اس سوال پر حیران پریشان ہیں کہ واقعی ہمیں اپنی زندگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟ یہ سوال اُس وقت بھی ساتھ ہوتا ہے جب ہم اسکول پاس کرتے ہیں۔ یہ سوال اُس وقت بھی پیچھا نہیں چھوڑتا جب ہم نوکری پر لگ جاتے ہیں۔ جب بہت دولت بنالیتے ہیں، تب بھی یہ سوال آس پاس ہی منڈلاتا رہتا ہے۔
اٹھارہ سے پچیس سال عمر کے دوران میں نے اتنے کپڑے نہیں بدلے جتنے کیرئیر بدلے، اورکاروبار شروع کرنے کے بعد بھی چار سال یہ سمجھنے میں لگے کہ زندگی میں کرنا کیا ہے۔ ہر نوجوان تقریباً ان ہی حالات سے گزرتا ہے۔ اپنی زندگی کے ساتھ کرنا کیا ہے؟ یہ سوال ابتدائی عمر میں ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ میں کبھی کبھی ایسی ای میل بھی وصول کرتا ہوں، جس میں چالیس اور پچاس سال تک کی عمرکے افراد یہ سوال کرتے ہیں کہ زندگی کی کوئی سمت نہیں ، اسے کیسے متعین کیا جائے؟
مقصدِ حیات کا تصور بھی اس مسئلے کا ایک پہلو ہے۔ ہم میں سے ہر فرد یہ خیال کرتا ہے کہ کسی کائناتی مشن پر ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم زمین پر کچھ وقت کے لیے قیام کرتے ہیں۔ کچھ چیزیں ہمارے لیے اہم ہوتی ہیں، کچھ غیر اہم ہوتی ہیں۔ اہم چیزیں ہماری زندگی کو اہم بناتی ہیں۔ انھیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمیں معنی اور خوشی عطا کرتی ہیں۔ غیر اہم چیزیں صرف ہمارا وقت ضائع کرتی ہیں، ہمیں ضائع کرتی ہیں۔
اس لیے جب لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ’میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ مجھے اپنی زندگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟‘ تو وہ دراصل یہ پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ ’مجھے اپنے اہم وقت اور توانائی کو کس طرح صرف کرنا چاہیے؟‘
کائنات کی وسعتوں میں اپنی اہمیت پر غورکرنا اُس وقت نامناسب ہے کہ جب تم سارا دن کاؤچ پر پڑے پاپ کارن چباتے رہے ہو۔ اس کے بجائے تمہیں متحرک ہونا چاہیے، اور زندگی میں تمہارے لیے کیا اہم ہے، اسے سمجھنا چاہیے اور کرنا چاہیے۔ آگے بڑھنے سے پہلے مجھے اور تمہیں چند باتوں میں ایک صفحے پر آجانا چاہیے تاکہ کسی نتیجے پر پہنچا جاسکے۔ آزمائش کی قدر، بے چینی اور پریشانی، اور موت وغیرہ کیا ہیں؟ تمہاری موت سے شروع کرتے ہیں۔
ہم سب مرنے والے ہیں، کیسا تماشا ہے! ہمیں ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے۔ مگر ہم چھوٹی چھوٹی خواہشات اور مادی آسائشات کی خاطر ایک دوسرے کو خوفزدہ رکھتے ہیں، بے بس بناتے ہیں۔ ہم سب کب مریں گے؟ یہ اہم سوال نہیں ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ ہم کس حالت اور حیثیت میں مرتے ہیں؟ تم موت تک پہنچنے کے لیے کون سا رستہ اختیار کرتے ہو؟ اگر وہ سب کچھ جو تم روزمرہ زندگی میں کرتے ہو، تمہیں موت سے قریب تر اس طرز پر کرے کہ بہترین ہو یا کسی حوالے سے منفرد و مفید ہو، تو تم کون سا ایسا کام کرنا چاہو گے؟
کامیابی آزمائش ساتھ لاتی ہے
شاعر چارلس بکوسکی کہتا تھا ’’اپنی عزیز ترین شے تلاش کرو اور اُس پر قربان ہوجاؤ!‘‘ بکوسکی ایک بے شرم شرابی اور عورت باز شخص تھا۔ وہ اسٹیج پر شاعری سناتے سناتے اپنے سننے والوں کو مغلظات بکنا شروع کردیتا تھا۔ جوئے میں بڑی بڑی رقمیں ہار جاتا تھا۔ مگر یہ بداعمال شخص اپنے اندر بہت سے پارساؤں سے بہترتھا، منافق نہیں تھا، جو محسوس کرتا تھا وہی ظاہر کرتا تھا۔ بہت سوں سے بہتر کردار کا مالک تھا۔ اُس نے بیشتر زندگی ناکام ونامراد گزاری۔ اکثر نوکریوں سے نکال باہر کیا گیا۔ اُس کی آخری نوکری ایک پوسٹ آفس میں خطوط کی ترتیب وترسیل تھی۔ بکوسکی ساری زندگی بے کار ادب تخلیق کرتا رہا تھا۔ تیس سال ضائع کرنے کے بعد اُس نے پہلی کامیاب کتاب لکھی، اور پوسٹ آفس چھوڑدیا۔
میری رائے میں بکوسکی کی تحریروں میں اُس کی دیانت داری، خدشات، ناکامیاں، پچھتاوے، اور جذبات لاثانی ہیں۔ وہ تمہیں بلاجھجک بہترین اور بدترین بات بتادیتا ہے۔ اُس نے شرم اور عزت دونوں پر بغیر کسی’شرطِ اہلیت‘ لکھا ہے۔ اُس کی تحریریں بظاہر مکروہ مگرایک اچھے آدمی کو گلے لگانے جیسی ہیں۔
بہت سارے لوگ وہ بات نہیں سمجھ سکے تھے جو بکوسکی نے سمجھی، کہ زندگی میں بہترین چیزیں بعض اوقات بدنما یا بدحال نظرآتی ہیں۔ اُس نے جانا کہ کسی بھی شے یا معاملے کو جاننے کے لیے تصویر کے دونوں رخوں کا بھرپور ادراک لازم ہے۔ تم آزمائش کے بغیر آسودگی کا احساس حاصل نہیں کرسکتے۔ تم قربانی کے بغیر معنویت کی گہرائی نہیں پاسکتے۔ زندگی کے مقصد کا تصور چند دہائیوں سے دولت وشہرت میں مضمر سمجھا جارہا ہے۔ ہم صرف پیسہ بنانے اور مستقبل محفوظ بنانے میں ہی مگن نہیں ہیں، بلکہ شہرت کے بھی بے حد بھوکے ہوچکے ہیں۔ بہت اہم سمجھے جانا چاہتے ہیں۔ سب کی بھرپور توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مرکز نگاہ بننا چاہتے ہیں۔
معنویت کی لگژری
کسی بھی اور آسائش کی مانند ہم معنویت کی لگژری بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ کچھ ایسا کرنے کی ضرورت ہے جو معنی رکھتا ہو۔ اس طرح سب کچھ جگہ پر آجائے گا۔ تم ہمیشہ جیب میں لاکھوں کروڑوں ڈالر ٹھونس کر خوش وخرم محسوس کرتے ہو، جب کہ یہ بھی چاہتے ہو کہ محبتوں کی قوسِ قزح کے رنگ تمہارے آس پاس ہوں۔ لوگ تمہیں ہر دل عزیز بھی رکھتے ہوں۔ حالانکہ ضرورت صرف ایک ایسی معنویت کی ہے جو تمھارے لیے مفید ہو۔ ایسے نظریے یا فلسفۂ زندگی کی ضرورت ہے جو تمھیں معنی فراہم کرے، ایسی تحریک پیدا کرے جومیدانِ عمل میں نکتہ آغاز ثابت ہو۔ یہ کوئی پانچ روزہ کورس نہیں ہے۔ زندگی کیچڑ میں لت پت قدموں اور پسینے میں شرابور وجود کے ساتھ ہے، جسے تمہیں دل سے قبول بھی کرنا ہے۔ بکوسکی کہتا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تم کس طرح اس آگ سے گزرتے ہو۔ زندگی میں مقصدیت کی تلاش آزمائشوں کی آگ سے گزرنا ہے۔
ایسا ممکن نہیں کہ تم ایک صبح اٹھو اور خود کو خوش و خرم پاؤ۔ ایک ہی طرح کے کام کرو اور زندگی ایک ہی ڈگر پر چلتی رہے۔ جیسا کہ موت، یہ مسلسل عمل میں ہے، بالکل اسی طرح تمہیں بھی کچھ نہ کچھ مسلسل آزمانا ہوگا۔ اشیاء اور معاملات کو سمجھنا اور محسوس کرنا ہوگا۔ ان کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہوگا۔ کوئی بھی پہلی کوشش میں کامیاب نہیں ہوتا، بار بار کوشش کرنی پڑتی ہے۔ بعض اوقات یہ کوششیں دس بار، سوبار یا دوسوبار سے بھی آگے جاسکتی ہیں۔ اور جب تم یہ کرلیتے ہو، تو مطلوبہ تبدیلی کا دن طلوع ہوجاتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ تم نے خود کو بدل دینے کی تگ ودو کی ہوتی ہے۔
لکھنا آسان ہے۔ محض سیدھے بیٹھ کر سادہ صفحے پرنظر مرکوز کرنی ہوتی ہے، یہاں تک کہ خون کے قطرے تمہارے ماتھے سے الفاظ کی صورت میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ جس بات پر بکوسکی نے زور دیا ہے وہ یہ کہ جو کچھ کرنا تمہیں محبوب ہو وہ ہمیشہ باعثِ تسکین بھی ہونا چاہیے۔ ہر اہم کام میں قربانی کا تقاضا بھی چھُپا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے بیوی یا شوہر کا انتخاب، یہ محض کسی فرد کا ایسا انتخاب نہیں ہے جو تمہیں ہمیشہ مطمئن رکھ سکے۔ یہ ایک ایسا انتخاب ہوتا ہے جس میں بُرے مزاج اور حالات کے ساتھ بھی گزارا کرنا ہوتا ہے، ورنہ یہ گاڑی نہیں چل سکتی۔
تمہاری زندگی کا اہم ترین سوال
موت پر بات ہوئی۔ آؤ ذرا زندگی کا جائزہ بھی لیں، تمہاری زندگی پر بات کریں۔ چند لمحے سوچو تم زندگی سے کیا چاہتے ہو؟ خوشی چاہتے ہو؟ مزید دولت چاہتے ہو؟ بہتر روزگار؟ مزید دوست؟ دیکھو، ہرکوئی اچھا محسوس کرنا چاہتا ہے۔ ہرکوئی بے فکری کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ ہر کوئی شہرت اور مقبولیت چاہتا ہے۔ دولت اور محبت چاہتا ہے۔ معزز اور پسندیدہ نظرآنا چاہتا ہے۔
اگر میں تم سے پوچھوں تم زندگی سے کیا چاہتے ہو؟ اور تم کچھ اس طرح جواب دیتے ہو کہ ’میں خوش ہونا چاہتا ہوں اور اچھا خاندان بنانا چاہتا ہوں، اور ایک اچھا ذریعہ روزگار چاہتا ہوں‘۔ چلو میں تم سے مزید دلچسپ سوال کرتا ہوں کہ ’کون سی آزمائش یا تکلیف تم زندگی میں اٹھانا چاہو گے؟‘ کوئی بھی ایسا نہیں چاہے گا۔ لوگ بغیر کسی رسک کے امیر بننا چاہتے ہیں۔ بغیر کسی قربانی کے سب کچھ حاصل کرلینا چاہتے ہیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ مسرت کا حصول محنت طلب ہے۔ منفی صورتِ حال کا سامنا کرنے پر ہی مثبت صورت حال سامنے آتی ہے۔ تم منفی تجربات سے اُتنی ہی دیر جان چھڑا سکتے ہو کہ جتنی دیر میں وہ پلٹ کر پھر زندگی کے سامنے آجائیں۔
انسانی رویّے کی سرشت ہے کہ ہماری ضرورتیں تھوڑے بہت فرق سے ایک جیسی ہیں۔ مثبت تجربہ آسان ہوتا ہے۔ منفی تجربہ آزمائش طلب ہوتا ہے۔ اس لیے زندگی میں جو کچھ ’اچھا‘ حاصل ہوتا ہے وہ آسان تجربات اور احساسات سے برآمد نہیں ہوتا، بلکہ مشکل تجربات اور آزمائش طلب حالات سے برآمد ہوتا ہے۔ مگر یہ سب ایک حیرت انگیز نفسیات کا کام ہے۔ جب تک تم آزمائش اور جسمانی مشقت کو دل ودماغ سے قبول نہیں کرتے، یہ حصول ممکن نہیں ہے۔ لوگ نیا کاروبار شروع کرتے ہیں اور مالی طور پر خودمختار ہونا چاہتے ہیں، مگر یہ تب تک ممکن نہیں ہوتا جب تک رسک نہ لیا جائے، متواتر ناکامیوں کا سامنا نہ کیا جائے، اور انتھک محنت نہ کی جائے۔ اور یہ سب کرنے کے باوجود بھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہو کہ آیا کامیابی ملے گی یا نہیں۔ تمہاری زندگی کے معیار کا انحصارآسان مثبت تجربات پر نہیں بلکہ مشکل منفی تجربات پر ہے۔ یعنی جو فرد آزمائشوں اور مشکلات پر صبر کرتا ہے، اور شکایتیں نہیں کرتا، وہی زندگی کے معنوں سے آشنا ہوتا ہے۔ ہر ایک کچھ نہ کچھ چاہتا ہے، مگر ہر چاہت کی ایک قیمت ہے۔ اگر تم خود کو کسی ایسی چاہت میں مبتلا کرنا چاہتے ہو جو مہینوں اور برسوں پوری نہیں ہوتی، یہاں تک کہ تم اُس کے قریب بھی نہیں پہنچ پاتے، تب ہوسکتا ہے کہ تمہاری یہ چاہت محض تصوراتی یا تخیلاتی ہو۔
مگر سوال یہ ہے کہ لوگ اپنے لیے آزمائش یا مشقت کا انتخاب کس طرح کریں؟ اس سوال کا جواب لوگوں کی چاہتوں سے زیادہ اُن کی اپنے بارے میں رائے آسان بناتا ہے۔ کیونکہ تمھارا انتخاب ہی تمہیں واضح کرتا ہے۔ تم چاہو تو بے فکری کی زندگی بھی بسر کرسکتے ہو۔
خوشی پر سوال خوشگوار اور آسان ہے، مگر آزمائش پر سوال آزمائش میں ڈال دینے جیسا ہے۔ وہ کون سی آزمائش ہے جو تم جھیلنا پسند کروگے؟ یہ سوال تمہیں کہیں اور ہی لے جائے گا۔ یہ سوال تمہاری زندگی بدل سکتا ہے۔ یہ ہے وہ سوال جو مجھے ’میں‘ اور تمہیں’تم‘ بناسکتا ہے۔ یہ سوال ہمیں واضح کرتا ہے، یہ ہمیں علیحدہ کرتا ہے، جمع کرتا ہے، اور جوڑتا ہے۔
سب اچھے نتائج چاہتے ہیں۔ کوئی بھی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔ اچھے نتیجے تک پہنچنے کے ناگزیر عمل سے کوئی گزرنا نہیں چاہتا۔ لوگ لڑے بغیر فتح چاہتے ہیں۔ افسوس زندگی اس طرح کام نہیں کرتی۔ تم جو کچھ ہو، یہ واضح ہوتا ہے اُن اقدار سے، جن کے لیے تم جدوجہد کرتے ہو۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے سادہ اوراہم ترین اصول ہے: ہماری کوششیں ہماری کامیابیوں کا تعین کرتی ہیں۔ اس لیے میرے دوست درست سمت میں کوششیں کرو!
انوکھے سوال مقصد ِزندگی کی تلاش میں مدد دیتے ہیں
اب تم زندگی میں جدوجہد کے عمل سے گزرنے کی تیاری کرو، بغیر کسی کی مدد کے، کیونکہ کوئی دوسرا تمہارے لیے یہ نہیں کرسکتا۔ چند سوالوں کی جانب چلتے ہیں۔ یہ اس عمل کو آسان کردیں گے۔
تمہارا آج کا سچ کیا ہے؟ ایسا سچ جو آٹھ سال کی عمر میں تم سے وابستہ رہا ہو؟
جب میں بچہ تھا، چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھا کرتا تھا، اپنے کمرے میں گھنٹوں بند رہا کرتا تھا۔ اپنے دوست اور دشمن کرداروں کے بارے میں لکھتا رہتا تھا۔ یہ سب اس لیے نہیں تھا کہ کوئی انہیں پڑھے۔ میں والدین اور اساتذہ کو متاثر کرنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ یہ سب بس ذاتی خوشی اور تسکین کے لیے تھا۔ پھرکچھ ایسا ہوا کہ میں نے لکھنا بند کردیا۔ یہ یاد نہیں کہ کس وجہ سے لکھنا بند کیا۔
ہم سب ہی بچپن کی کسی محبوب عادت کو بھول جانے یا ترک کردینے کا رجحان رکھتے ہیں۔ نوجوانی میں کوئی معاشرتی سرگرمی یا پیشہ ورانہ دباؤ یہ ولولہ، یہ شوق نکال باہرکردیتا ہے۔ ہمیں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ کچھ بھی اس لیے کرو کہ کچھ انعام یا صلہ ہاتھ آئے۔ یوں سودے بازی کی اس دنیا میں ہمارا ولولہ، شوق، اور جذبہ سرد پڑجاتا ہے۔
زندگی کی تیسری دہائی میں پہنچ کر میں نے بازیافت کیا کہ مجھے بچپن سے لکھنے کا کتنا شوق تھا۔ جب میں نے کاروبار شروع کیا، تب یہ یاد آیا کہ نوجوانی میں مجھے ویب سائٹس بنانے کا کس قدر جنون تھا۔ اب اگر میرا آٹھ سال کا اپنا آپ میرے بیس سال کے وجود سے پوچھے کہ ’تم کیوں نہیں لکھتے؟‘ میں اسے جواب دیتا ہوں کہ ’مجھے اچھا لکھنا نہیں آتا!‘، یا ’کیونکہ میں جو لکھتا ہوں وہ کوئی پڑھتا ہی نہیں‘، یا ’کیونکہ لکھنے سے کوئی مالی فائدہ مشکل ہے‘، نہ صرف یہ کہ میرے یہ جوابات بالکل غلط ہوں گے، بلکہ میرا آٹھ سال کا اپنا آپ اس بات پرروپڑے گا۔
تمہارے آٹھ سالہ وجود کو اس سے کچھ غرض نہ ہوگی کہ گوگل ٹریفک کیا بلا ہے؟ سوشل میڈیا کا بخارکیا ہے؟ یا تصنیف وتالیف کا فن آج کہاں پہنچ چکا ہے؟ وہ بس اپنے شوق کا جویا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے شوق، لگن، اور ولولہ شروع ہوتا ہے۔
وہ کیا شے ہے جو تم سے تمھارا کھانا پینا بھُلادے؟
ہم سب کا تجربہ ہے کہ کبھی کسی شے سے یوں وابستہ ہوجاتے ہیں یا کسی کام میں یوں لگ جاتے ہیں کہ منٹ گھنٹے میں اورگھنٹے گھنٹوں میں ڈھل جاتے ہیں، تب کہیں جاکر یاد آتا ہے کہ کھانا توکھانا ہی بھول گئے… مثال کے طور پر فرض کرتے ہیں کہ نیوٹن کی والدہ کو روز روز اُسے آکر یہ بتانا پڑا ہوگا کہ ’کھانا کھالو‘ کیونکہ وہ اپنے کام میں اس قدر مگن رہا کرتا تھا کہ سب کچھ بھول جاتا تھا۔
یہی کیفیت میری وڈیو گیمز کے معاملے میں ہوا کرتی تھی۔ یہ غالباً کوئی اچھی بات نہ تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کئی سال تک یہ ایک مسئلہ بنی رہی۔ میں پڑھائی، نہانے دھونے، یا کسی دوست سے گفتگو کے بجائے بیٹھا گیم کھیلتا رہتا تھا۔ جب تک گیمزکھیلنے چھوڑ نہ دیے یہ احساس نہ ہوسکاکہ گیمنگ میرا جنون یا اصل شوق نہ تھا۔ مجھے کسی بھی ایسی چیز میں بہتر سے بہتر بننے کا جنون تھا، جو مجھے ہمیشہ کے لیے خود سے وابستہ کرلے۔ پھر میں نے خود کو انٹرنیٹ بزنس اور لکھنے میں لگادیا۔ اور پھر معاملات درست سمت میں چل پڑے۔
تمہارے لیے ہوسکتا ہے کہ کوئی اور شے ہو، جو تمھیں خود سے ہمیشہ کے لیے وابستہ کرلے۔ یہ پڑھنا لکھنا یا پڑھانا ہو، یا تکنیکی کام ہو، جو بھی کام طبیعت میں تحریک اور لگاؤ پیدا کرے اور کمال تک لے جائے، اُسے اپناؤ۔
تم خود کو کیسے بہتر طور پر شرمندہ کرسکتے ہو؟
اس سے پہلے کہ تم کسی کام میں کمال حاصل کرو اور وہ کام تمہارے لیے اہمیت اختیار کرجائے، پہلے شرمندگی کے مراحل سے گزرو۔ تم جو کرنا چاہتے ہو یا کرنے کا خواب دیکھتے ہو، وہ تم نہیں کرپاتے، یوں شرمندگی کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ یہ فطری ہے۔ اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ اسے ناکامی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ کامیابی تک جانے کی سیڑھی سمجھنا چاہیے۔
شروع شروع میں تم شرمندگی سے بچنے کے لیے جواز گھڑتے ہو، کہ نہ جانے لوگ کیا سوچیں گے؟ اگر تم لوگوں کی آراء پر جاتے ہو تو رستہ کھوٹا کرتے ہو۔ اگر تم کہوگے کہ اس کام سے ’والدین روک دیں گے‘، یا ’دوست مذاق اڑائیں گے‘، یا ’دنیا کیا کہے گی؟‘، یا ’اگر میں ناکام ہوگیا تو؟‘، یہ سارے بہانے نقصان دہ ہیں۔ یہ سارے خدشات کامیابی کی صورت میں اپنی صورت بھی بدل لیتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ثابت ہوتا ہے کہ جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ اصل شرمندگی یہ ہونی چاہیے کہ جو تمھارا کام ہے، جس میں تمھارے کمال کے امکانات ہیں، جس میں تمھاری طبیعت کی صحت مندی ہے، وہ تم کیوں لوگوں کے سبب یا مایوسی کے باعث ترک کربیٹھے؟اس قسم کی شرمندگی سے بچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ریت میں سرچھپانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
عظیم کام اپنی فطرت میں غیر روایتی اور لاثانی ہی ہوتے ہیں۔ انھیں کرنے کے لیے بھیڑ چال ذہنیت کے خلاف جانا ہوتا ہے۔ مفید شرمندگی کے لیے پیشانی ہمیشہ خندہ رکھنی چاہیے۔
تم دنیا کو کیسے محفوظ بناسکتے ہو؟
فرض کرتے ہیں کہ تم نے حال کی خبریں نہیں سنیں یا دیکھیں۔ دنیا چند سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ میرا مطلب ہے کہ سب ستیاناس ہورہا ہے اور ہم سب مرنے جارہے ہیں۔
میری تحقیق کہتی ہے کہ ہمیں کچھ ایسی اقدار اختیار کرنی چاہئیں، جو ہماری خوشیوں اور خواہشات سے بلند تر اور عظیم تر ہوں۔ اس لیے چاہیے کہ دنیا کا کوئی ایک مسئلہ چُنیں اور اُس کے حل میں جُت جائیں۔ یہ بڑا مسئلہ نہیں۔ بے شمار مسائل تمہاری راہ تک رہے ہیں۔ خراب تعلیمی نظام، غیر مساوی معاشی نظام، شعبہ صحت کے مسائل، یا حکومت کی کرپشن وغیرہ۔ یقینا تم دنیا کے سارے مسائل حل نہیں کرسکتے۔ مگر تم ان میں اپنا اہم حصہ ڈال سکتے ہو۔ یہ تمہاری اپنی خوشی اور اطمینان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ یہ بطور مقصدِ زندگی بہت اہم ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ اب تم کیا سوچ رہے ہو! ’مسٹر مارک یہ سب باتیں ہی ہیں جو تم کررہے ہو، ان پر عمل کیسے کیا جائے؟‘ اچھا لگا کہ تم نے پوچھا۔ چلو فرض کرتے ہیں کہ تمھیں سارا دن گھر سے باہر رہنے پر مجبور کردیا جائے، یہاں تک کہ رات سونے کے وقت تمھیں گھر میں گھسنے کی اجازت ملے۔ تم سارا دن گھر سے باہر رہ کر کیا کروگے؟ اگر کچھ سمجھ نہیں آتا تو چند چیزیں لکھ لو اور انھیں انجام دینے کی کوشش کرو۔ اگر ان کاموں کے کرنے سے ناکامی یا شرمندگی کے امکانات زیادہ ہوں تو انھیں بونس ہی سمجھو۔
اگر تم یہ جان جاؤ کہ ایک سال بعد مرجاؤ گے، تواس ایک سال میں کیا کروگے؟ کیسے یاد رہنا چاہو گے؟
ہم میں سے اکثر موت کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتے۔ یہ ہمیں بے چین اور خوف زدہ کرتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنی موت کے بارے میں غور کرنا زندگی کے عملی فائدے سامنے لاتا ہے۔ پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی زندگی سے فضول اور بے کار چیزوں کو نکال باہر کرتے ہیں اور فائدہ مند چیزوں پر سنجیدگی سے توجہ دیتے ہیں۔ آخرکار موت ہی وہ شے ہے جو سنجیدگی پر آمادہ کرتی ہے۔ اپنے عدم وجود کا تصور اپنے وجود کی اہمیت واضح کردیتا ہے۔
تم کیا میراث چھوڑ کر مرنا چاہتے ہو؟ کس طرح سے یاد کیا جانا پسند کروگے؟ تم کیا کہنا چاہوگے؟ کیا تم آج سے اس پر کام کرنا شروع کردوگے؟
زندگی کے مقصد کی تلاش دراصل اپنی ذات سے آگے کی جستجو ہے، جو زندگی سے بھرپورہوتی ہے۔ یہ محض کسی صلے کے لیے نہیں، زندگی خوبی اور عظمت سے بسرکرنے کے لیے ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا تخلیق کرنے کی کوشش ہوتی ہے جس میں تمھارا عظیم کردار شامل ہو، اور اس طرح شامل ہو کہ تم ہو نہ ہو، یہ اپنا کردار ادا کرتا رہے۔