امان اللہ کنرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد

بلوچستان ہائی کورٹ کے بینچ نے عدم اعتماد کے حکم نامہ کو معطل اور اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کردیا

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی متنازع کردار کے حامل شخص ہیں۔ خودنمائی اور سولو فلائٹ کے اندازِ سیاست و قیادت کے قائل ہیں۔ لمبا عرصہ نواب محمد اکبر بگٹی کے ساتھ ان کی جمہوری وطن پارٹی میں شامل رہے۔ مرکزی سیکریٹری اطلاعات تھے۔ جمہوری وطن پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹ آف پاکستان کے رکن بنے۔ نواب بگٹی کی ہلاکت تک اس جماعت سے وابستہ رہے۔ جب ڈیرہ بگٹی میں حالات غیر یقینی تھے تو امان اللہ کنرانی نواب بگٹی اور جمہوری وطن پارٹی کا مؤقف ذرائع ابلاغ کو دیتے اور تنِ تنہا پریس کانفرنس کرتے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کی برطرفی کے خلاف وکلا کی زبردست تحریک چلی تھی۔ امان اللہ کنرانی اس دوران جمہور وکلا کے مؤقف، رائے اور تحریک سے ہٹ کر افتخار محمد چودھری کے خلاف عدالت میں گئے۔ گویا جنرل پرویزمشرف اور ان کی قبیل میں شامل تھے۔ امان اللہ کنرانی یکم نومبر 2018ء کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بنے، اور بہت جلد تنازعات بھی اٹھے۔ اپنی صدارت کے قلیل عرصے میں انہوں نے پرانی روش اپنائے رکھی۔ چناں چہ ہوا یہ ہے کہ 16 ستمبر2019ء کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی خصوصی جنرل میٹنگ ہوئی جس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد منظور کرلی گئی۔ ان پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے کہ انہوں نے اسلام آباد میں قائم وکلا کے ہاسٹل کی 85 لاکھ روپے سے زائد رقم بار کے اکائونٹ میں جمع نہیں کرائی، اور سپریم کورٹ بار کمپلیکس کے کرائے اور ملازمین کی تنخواہوں کی رقوم جمع کروانے میں بھی ناکام رہے۔ انہوں نے خود پر اٹھنے والے سوالات کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ جنرل اجلاس میں اس معاملے کو قومی احتساب بیورو اور ایف آئی اے کو بھجوانے کی منظوری بھی دی گئی، اور تھانہ سیکریٹریٹ اسلام آباد میں امان اللہ کنرانی کے خلاف اندراجِ مقدمہ کے لیے بھی درخواست دے دی گئی ہے۔ چناں چہ 18 ستمبر کو بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس روزی خان بڑیچ پر مشتمل بینچ نے لاہور میں 16 ستمبر 2019ء کو اسپیشل جنرل ہائوس میٹنگ کے نام پر سیکریٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عظمت اللہ چودھری کی جانب سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی کے خلاف عدم اعتماد پر ان کو برطرف کرکے صلاح الدین گنڈاپور کو قائم مقام صدر مقرر کرنے کے آرڈر کو معطل کردیا۔ عدالت نے سپریم کورٹ بار کے سیکریٹری عظمت اللہ چودھری کو اس سلسلے میں اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے اُن سے جواب طلب کیا ہے کہ وہ 8 اکتوبر کو ذاتی طور پر پیش ہوکر عدالتِ عالیہ کو مطمئن کریں کہ کس اختیار کے تحت انہوں نے یہ آرڈر جاری کیا ہے۔ 18 ستمبر کو امان اللہ کنرانی نے حسبِ مزاج یکا و تنہا کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے ذریعے سیکریٹری سپریم کورٹ بار عظمت اللہ چودھری اور صلاح الدین گنڈاپور کے خلاف مقدمات درج کرانے کا اعلان کیا۔ ان کے مطابق بار کے سیکریٹری جنرل نے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے ان کی شہرت کو نقصان پہنچایا، اپنی ہتک عزت پر وہ سول فوجداری مقدمات درج کرائیںٖ گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’’میں گزشتہ انتخابات میں سب عہدیداروں سے زائد 1300 ووٹ حاصل کرکے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن منتخب ہوا۔ قواعد کے مطابق ہمارا الیکشن بورڈ انتخابات کراتا ہے، جس کے چیئرمین ایک سینئر وکیل چودھری افراسیاب ہیں، اگر انتخابی عمل میں کسی کو شکایت ہو تو وہ اس کو نمٹاتے ہیں ، اگر انتخابی نتائج پر کسی کو اعتراض ہو تو اس کے لیے پاکستان بار کونسل میں الیکشن عذرداری داخل ہوتی ہے جس کے چیئرمین اٹارنی جنرل پاکستان ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے قواعد و ضوابط مجریہ 1989 کے تحت کسی بھی عہدیدار کو کوئی بھی برطرف نہیں کرسکتا، سوائے اس کے کہ وہ خود استعفیٰ دے، یا کوئی منافع بخش ملازمت اختیار کرے، یا فوت ہوجائے تو اس کی جگہ پر چیئرمین الیکشن بورڈ اس اسامی کو پُر کرنے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ملک بھر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ سینئر ترین وکلا پر مشتمل ہے، 2018-19ء کے انتخابات میں وکلا جن کی تعداد تین ہزار تھی جو آج بڑھ کر چار ہزار پہنچ گئی ہے، مگر افسوس کہ گزشتہ دنوں لاہور میں مخالف فریق کے چند وکلا نے جن کی تعداد ایک سو سے بھی کم تھی، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یعنی میرے خلاف خودساختہ تحریک اعتماد محض اس وجہ سے پیش کی کہ میں اجلاس میں نہیں آیا، جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی باڈی کے عہدیدار ہر سال منتخب ہوتے ہیں۔ اب اگلے انتخابات کے لیے شیڈول جاری ہوچکا ہے۔ یہ سارا عمل قواعد وضوابط مجریہ 1989 کے تحت مکمل ہوتا ہے۔ افسوس ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے اخبارات کے ذریعے ایسا تاثر دیا کہ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو برطرف کرکے سینئر نائب صدر صلاح الدین گنڈاپور کو قائم مقام صدر بنادیا گیا، جس کی نہ قواعد میں گنجائش ہے، نہ ہی الیکشن بورڈ نے صدر کی برطرفی اور کسی کی نامزدگی کا کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، اور نہ ہی پاکستان بار کونسل میں کوئی عذرداری زیر التواء ہے۔ ہماری ایگزیکٹو کمیٹی کے 23 میں سے 13 اراکین نے سیکریٹری سپریم کورٹ بار عظمت اللہ چودھری اور صلاح الدین گنڈاپور کے خلاف عدم اعتماد کردیا ہے اور ان کو کام سے روک دیا ہے۔ سیکریٹری سپریم کورٹ بار عظمت اللہ چودھری اور صلاح الدین گنڈاپور کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے شہرت کو نقصان پہنچانے کے عمل پر ان کو قذف، ہتک عزت سمیت شہرت کو داغدار کرنے کے جرم میں سول فوجداری مقدمات درج کرانے کا اعلان کرتا ہوں اور اخبارات اور میڈیا سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایسی خبروں کو جاری کرنے سے قبل متعلقہ افراد چیئرمین الیکشن بورڈ، چیئرمین پاکستان بار کونسل، اٹارنی جنرل اور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل سمیت متاثرہ فریق سے اس کا مؤقف جاننے سے پہلے کوئی خبر جاری نہ کریں، کیوں کہ میڈیا میں خبر اڑانے کی وجہ سے مجھے ذاتی طور پر تکلیف ہوئی ہے، اگرچہ میں ان کے آزادیٔ صحافت کے حق کو تسلیم ضرور کرتا ہوں مگر ذمہ دار صحافت کی ان سے توقع بھی رکھتا ہوں۔‘‘۔