ریان علی
ناریل کا نباتاتی نام Coco Nucifera ہے۔ اس کی بے شمارغذائی اور ادویاتی خصوصیات کی بنا پر اسے “Wonder Food” کہا جاتا ہے۔ ناریل کے گودے میں 60 سے70فیصد آئل پایا جاتا ہے جسے روغنِ ناریل کہتے ہیں۔ یہ کھانے کا تیل ہے اور دنیا میں لاکھوں افراد کی بنیادی چکنائی کی ضرورت کو پورا کررہا ہے۔ ناریل کا تیل دنیا میں نباتاتی تیلوں کی کل پیداوار کا 2.5فیصد ہے۔
اس کی شیلف لائف تقریباً دو سال ہے، کیونکہ اس میں سیر شدہ چکنائی کی مقدار 92.1 فیصد ہے۔ اس کی تیز خوشبو اس میں موجود پولی فی نولز کی وجہ سے ہے۔ اسے بطور بناسپتی گھی بھی بیچا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں یہ Cophaکے نام سے ملتا ہے۔
ناریل کو حیرت انگیز غذا کہا جاتا ہے۔ یہ تقریباً مکمل غذا ہے کیونکہ اس میں وہ تمام ضروری غذائی اجزا پائے جاتے ہیں، جن کی انسانی بدن کو ضرورت ہوتی ہے۔ ہندو اسے انتہائی مقدس پھل سمجھتے ہیں اور اپنی مذہبی رسومات میں عقیدت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔
ناریل ہمارے لیے قدرت کی جانب سے بیش بہا عطیہ ہے۔ یہ خوش ذائقہ پھل اپنے تمام تر اجزاء کی صورت میں ہماری خدمت کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ اس کا گودا (مغز) ہمارے کھانوں کی لذت بڑھانے اور صحت و شفا بخشنے میں کام آتا ہے۔ اس کا پانی تسکینِ جسم و جاں کے علاوہ کئی امراض میں بھی مفید ہے اور اس پر چڑھے ہوئے مختلف حفاظتی خول طرح طرح کی بیماریوں سے ہمیں نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ناریل کا درخت زیادہ تر ایسے ساحلی علاقوں میں پیدا ہوتا ہے جہاں زمین نم رہتی ہو اور بارش خوب ہوتی ہو۔ سمندر کے کنارے کھاری ماحول میں پیدا ہونے والا یہ پھل میٹھا اور لذیذ ہوتا ہے۔ سری لنکا، مدراس، بنگال، آسام، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں ناریل کا درخت خودرو بھی ہے اور اس کی باقاعدہ کاشت بھی کی جاتی ہے۔ اب پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے نواحی علاقوں میں ناریل کو کامیابی کے ساتھ کاشت کیا جارہا ہے۔
ناریل کے پھل کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ قدرت نے اس پھل کی حفاظت کے لیے کس قدر محفوظ پیکنگ کی ہے۔ پھل کی بیرونی جانب کتھئی رنگ کا ایک چھلکا چڑھا ہوتا ہے۔ اسے اتارا جائے تو اندر سے ریشہ دار جٹائوں کی موتی تہہ برآمد ہوتی ہے جنہیں ناریل کی چھال بھی کہتے ہیں۔ ان جٹائوں کو ہٹائیں تب بھی ناریل کے گودے تک ہماری رسائی نہیں ہوتی۔ جٹائوں کے اندر سے بہت سخت لکڑی کا خول نمودار ہوتا ہے۔ اس خول کو توڑا جائے تو ناریل کے پھل میں بھرا ہوا شیریں پانی اور گودا حاصل ہوجاتا ہے۔ اس گودے پر بھی سرخی مائل سیاہ رنگ کا ایک ایسا چھلکا چڑھا ہوتا ہے جسے کھایا بھی جا سکتا ہے۔ ناریل جب تازہ ہو تو اس کا بیرونی چھلکا سبز اور اس میں جٹائوں کی رنگت سفید ہوتی ہے۔
’’ناریل پانی‘‘کچے، سبز اور نرم ناریل(Immature fruit)کے اندر موجود صاف، نمکیات سے بھرپور پانی جسے”Life Enhancer” اور”Nature’s Sports Drink” کہاجاتا ہے۔ یہ گرم (Tropic) علاقوں کا مشہور مشروب ہے جو تازہ، ڈبے یا بوتل میں بند ملتا ہے۔ ایشیا میں کچے سبز ناریل کو صرف پانی کے حصول کے لیے ہی پیک کیا جاتا ہے۔ بوتل میں بند ناریل پانی کی شیلف لائف 24 ماہ تک ہوتی ہے۔
پچھلے چند برسوں میں ناریل پانی کو بطور قدرتی انرجی ڈرنک یا اسپورٹس ڈرنک مارکیٹ میں متعارف کرایا گیا ہے۔ ناریل کو جب تک توڑا نہ جائے اس کا پانی جراثیم سے پاک (Sterile) ہوتا ہے، اسے بذریعہ ورید (Intravenous hydration fluid) بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ایک ناریل میں تقریباً 200-100 ملی لیٹر تک پانی ہوسکتا ہے جو کہ ناریل کے سائز اور قسم پر منحصر ہے۔ اسے تخمیر (Ferment) کرکے ناریل سرکہ بھی بنایا جاتا ہے۔
گرمی کے موسم میں ناریل پانی ایک بہترین قدرتی مشروب ہے، کیونکہ یہ قدرتی شوگرز، Electrolytes سوڈیم اور پوٹاشیم اور دوسرے نمکیات سے بھی بھرپور ہے جو گرمی کی شدت کو کم کرکے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی بھی پوری کرتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق ناریل پانی میں موجود Cytokinins میں عمر رسیدگی (Anti aging) کو روکنے والے دافع کینسر (Anti Carcinogenic)، دافع تھرمبوٹک (Anti Thrombotic) اثرات پائے جاتے ہیں۔
بی وٹامنز بھی اس میں پائے جاتے ہیں۔ اس کا استعمال نظام ہضم کو بہتر بناتا ہے، Digestive tractکو صاف کرتا ہے۔ قوتِ مدافعت کو بڑھاتا ہے۔ میٹابولزم کو تیز کرتا ہے۔ پی ایچ کو متوازن کرتا ہے۔ سست دورانِ خون کو تیز کرتا ہے۔ گرمی اور لو سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسے “Fluid for life”کہتے ہیں۔ بوڑھے اور بیمار لوگوں کے لیے بہترین ٹانک ہے۔ فالج (Stroke)، ہارٹ اٹیک اور خماری(Hangovers) سے محفوظ رکھتا ہے۔ اساسی ہے، تیزابیت کو ختم کرتا ہے۔Atherosclerosis سے بھی بچاتا ہے۔ کولیسٹرول لیول پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔
یہ بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے بھی مفید ہے۔ بچوں کے Processed milk سے بہتر ہے، کیونکہ اس میں Lauric acid پایا جاتا ہے جو ماں کے دودھ میں بھی ہوتا ہے۔ وزن کم کرتا ہے۔ دنیا میں شوبز سے تعلق رکھنے والے افراد دُبلا رہنے کے لیے اس کا روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ بطور دبلا کرنے والی پروڈکٹ(Slimming aid) بھی فروخت ہوتا ہے۔ جلد کو چمک دیتا ہے اور ایکنی کو بھی ختم کرتا ہے۔ ناریل پانی میں اورنج جوس کے مقابلے میں کم کیلوریز ہوتی ہیں۔ یہ قدرتی پیشاب آور ہے۔ اپھارہ(Bloating)کو بھی دور کرتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ ناریل پانی آنکھوں میں ڈالنے سے موتیا (Cataract) میں بھی فائدہ دیتا ہے۔ جسمانی کام یا ورزش کے بعد اس کا استعمال تھکن اور سستی کو دور کرتا ہے۔ اسے اسہال (ڈائریا) کے مریضوں کو پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ ORSکے مقابلے میں اس میں امینو ایسڈز، انزائمز، شوگرز اور دوسرے نمکیات بھی موجود ہیں، اس میں سوڈیم اور کلورائیڈ کم ہیں لیکن سوفٹ ڈرنکس کے مقابلے میں اس کا استعمال بہت بہتر ہے۔ گردوں پر بھی مثبت اثرات ڈالتا ہے۔ فلپائن کے ایک ہسپتال میں گردے کے ایک مریض کی بذریعہ مشین گردوں کی صفائی(Dialysis)کے عمل کو مؤخر کرنا پڑا جو باقاعدگی سے روزانہ ناریل پانی پی رہا تھا۔ فلپائن میں اسے Bukojuiceeکہتے ہیں۔ ڈاکٹرMacalalag نے اسے Bukolysis treatmentکا نام دیا اور اب وہاں یہ مقولہ مشہور ہے “A cocount a day keeps the urologist away” یعنی امراضِ گردہ کے ماہر کے پاس جانے سے بچنے کے لیے ایک ناریل روزانہ استعمال کریں۔ ناریل بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے۔ اس میں موجود Cytokinins اور Lauric acid جلدی ٹشوز کو نمی دیتے ہیں، پی ایچ کو برقرار رکھتے ہیں اور عمر رسیدگی سے بچاتے ہیں۔ لہٰذا ناریل پانی کا جلد پر استعمال ایکنی، جھریوں اور ایگزیما وغیرہ کے لیے مفید ہے۔
احتیاطیں:
1۔ناریل پانی میں کوئی اور چیز (چینی وغیرہ) ملائے بغیر پئیں۔
2۔ ٹیٹرا پیک میں ملنے والے ناریل پانی میں Preservative اور زائد چینی بھی ہوتی ہے جس میں کیلوریز زیادہ ہوں گی، لہٰذا تازہ ناریل پانی پینا ہی صحت کے لیے مفید ہے۔
3۔ جن لوگوں کو میوہ جات سے الرجی ہو، انہیں ناریل پانی سے بھی الرجی ہوسکتی ہے۔
4۔ ناریل پانی میں چونکہ پوٹاشیم زیادہ ہوتا ہے لہٰذا جو لوگ پوٹاشیم سپلیمنٹ لے رہے ہوں وہ اس کے استعمال کے دوران مقدارِ خوراک کو ایڈجسٹ کرلیں۔
سبز رنگ کا کچا ناریل جسے ڈاب بھی کہا جاتا ہے، یہ پانی سے بھرا ہوتا ہے اور اس کے اندر گری بالائی جیسی ہوتی ہے۔ اس ڈاب کا پانی بے شمار فوائد کا حامل ہوتا ہے۔ بعض ماہرین اسے دستیاب دودھ سے زیادہ مفید قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں کولیسٹرول نہیں ہوتا اور چکنائی بھی کم ہوتی ہے۔ ناریل پانی دورانِ خون کو بہتر بناتا ہے اور غذا ہضم کرنے والی نالی کی صفائی کرتا ہے۔ یہ قدرتی پانی انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف مدافعانہ نظام کو مضبوط بناتا ہے، جس کے باعث جسم زیادہ سے زیادہ وائرسز کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ گردے میں پتھری والے لوگ ناریل کا پانی پینا معمول بنائیں، کیونکہ یہ پانی پتھری توڑ کر خارج کرنے کی قوت رکھتا ہے۔
لوگ ناریل کو شجرِ حیات بھی کہتے ہیں۔ قدرت نے نباتات کی دنیا میں جتنے بھی اشجار روئے زمین پر اگائے ہیں ان میں بلاشبہ ناریل کا درخت سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ بھلا آپ ہی بتائیں کہ دنیا میں کون سا ایسا درخت ہے جو نہ صرف ایک مکمل مکان بنانے کے کام آسکتا ہو بلکہ مکان کے لیے آسائش و آرائش کا سامان بھی مہیا کرسکتا ہو مثلاً کرسیاں، پلنگ، میٹریس (گدے)، جھاڑو، کپ اور طشتری بھی۔ ساتھ ہی نہ صرف یہ، بلکہ مکان میں گرمی حاصل کرنے کے لیے آگ، ٹھنڈا رکھنے کے لیے چھت، سایہ اور پنکھے، روشنی کے لیے دئیے میں جلانے کے لیے تیل اور تیل کے لیے ناریل کے خول کی کٹوری بھی۔
اس درخت کے تنے کے اندرونی مہین ریشوں سے کپڑا بُنا جاسکتا ہے۔ ماہی گیروں کو مچھلی پکڑنے کا سامان، کشتی کے لیے بادبان اور رسیاں، اور مچھلی پکڑنے کے لیے ڈوری اور جالی یہی ناریل کا درخت مہیا کرتا ہے۔یہ نہ صرف کھانا پکانے میں (اپنے تیل سے) مدد دیتا ہے بلکہ بجائے خود ایک ’’کھانا ‘‘ہے جسے پکایا جاسکتا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک عدد عمدہ قسم کے ناریل میں چوتھائی پونڈ گوشت کے برابر پروٹین ہوتی ہے۔ انسان صرف اس ایک درخت سے حاصل کردہ اشیاء کے سہارے اپنی پوری عمر گزار سکتا ہے۔ کھوپرے میں غذائی اجزا کافی مقدار میں ہوتے ہیں۔ کھوپرا عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے یکساں مفید ہے، اسی لیے اس کو حلوے اور مٹھائیوں میں ڈال کر کھاتے ہیں۔ یہ اعلیٰ درجے کی غذا بھی ہے اور دوا بھی۔ یہ معجونوں اور حلووں میں بہ کثرت استعمال کیا جاتا ہے۔کھوپرا پیٹ کے بچے پر بڑا اچھا اثر ڈالتا ہے، اس لیے حمل کے دنوں میں کھوپرا اور مصری کھانے سے حاملہ کی عام جسمانی کمزوری دور ہوتی ہے اور بچہ خوبصورت اور تندرست پیدا ہوتا ہے۔ کھوپرا کھانے سے چیچک نہیں نکلتی۔ اگر چیچک کے زمانے میں بچے کی ماں روزانہ 20۔30 گرام تک کھوپرا کھلائے تو بچہ چیچک سے محفوظ رہے گا، جلد طاقتور اور موٹا بھی ہوگا۔ بڑی عمر کے دبلے پتلے لوگ بھی اگر کھوپرا زیادہ کھائیں تو انہیں بھی طاقتور اور موٹا کرتا ہے۔ کھوپرا دماغ اور آنکھوں کے لیے بڑی مفید چیز ہے۔ بینائی تیز کرتا ہے اور گردوں کو طاقت دیتا ہے۔ اس فائدے کے لیے اسے مصری کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ کھوپرا پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہے۔ اگرکھوپرے کے ساتھ مغز پلاس پاپڑہ برابر وزن میں پیس کر تھوڑا گڑ ملا کر 6گرام کھلائیں تو چند بار کے کھلانے سے کیڑے مرکر نکل جائیں گے۔ ناریل کا تیل گھی کی جگہ کھانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بدن میں قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ نیم گرم مالش کرنے سے دردوں کو دور کرتا ہے اور سر میں لگانے سے بالوں کو بڑھاتا اور ان کو نرم اور چمکیلا بناتا ہے۔ناریل کا تازہ تیل کالی کھانسی کے لیے اچھی دوا ہے۔ اگر بچے کی عمر ایک سال ہو تو ناریل کا خالص تیل تین تین ماشے دن میں تین بار پلائیں اور دس بارہ روز تک بلاناغہ پلاتے رہیں تو کالی کھانسی دور کردیتا ہے۔ ناریل کا تیل پلانے سے پیٹ کے کیڑے بھی مر جاتے ہیں۔پرانے کھوپرے کو باریک کوٹیں اور اس میں چوتھائی حصہ ہلدی ملا کر پوٹلی باندھ لیں، اور اس کو گرم چوٹ کی جگہ سینکیں۔ اوپر سے اسی کو ہلکا گرم کرکے باندھ دیں تو چوٹ کا درد اور سوجن دور ہوجائے گی۔
کھوپرے کے اوپر جو ریشہ دار چھلکا ہے اس کو جلا کر راکھ بنا لیں اور اس کے برابر وزن میں سرخ شکر ملا کر ایک ایک تولہ تین دن تک پانی کے ساتھ پھانکیں تو بواسیر کا خون بند ہوجائے گا۔ اگر کسی اور جگہ سے خون آتا ہے تو اس کے استعمال سے وہ بھی رک جاتا ہے۔
کھوپرے کے چھلکے کا اگر پتال جنتر سے تیل نکال لیا جائے تو وہ داد، خارش اور گنج کے لیے انتہائی مفید ہوتا ہے۔ یہ تیل دواخانوں سے بھی دستیاب ہوسکتا ہے۔ اگر یہ تیل نہ ملے تو روغن گندم استعمال کریں، وہ بھی اسی قدر مفید ہے۔
خونِ صالح پیدا کرتا ہے۔ کثیر الغذا ہونے کی وجہ سے بدن کو فربہ کرتا ہے۔ جسم کی حرارتِ اصلی کو قوت دیتا ہے۔ بینائی کو مضبوط کرنے کے لیے ہر روز نہار منہ کوزہ مصری ہم وزن کے ہمراہ کھانا بے حد مفید ہوتا ہے۔ پیٹ کے کیڑوں کو مارنے کے لیے پرانا ناریل تین ماشہ کھانا مفید ہوتا ہے۔ ناریل کا تیل سر پر لگانے سے بال ملائم ہوتے ہیں اور بڑھتے بھی ہیں۔ ناریل بخاروں اور ذیابیطس (شوگر)کے مرض میں پیاس بجھاتا ہے۔ ناریل کا تیل اگر روزانہ پلکوں پر لگایا جائے تو وہ بہت ملائم ہوجاتی ہیں۔ اگر نکسیر کی شکایت ہو تو تین ہفتے دو تولہ ناریل رات کو بھگو کر صبح نہار منہ کھانے سے یہ مرض ہمیشہ کے لیے دور ہوجاتا ہے۔ فالج، لقوہ، رعشہ اور وجع مفاصل میں اس کا استعمال بے حد مفید ہوتا ہے۔ ناریل کے چھلکوں کے جوشاندے سے غرارے کرنے سے دانت مضبوط ہوتے ہیں۔ قطرہ قطرہ پیشاب آنے میں بے حد مفید ہے اور اس مرض کو جڑ سے اکھاڑتا ہے۔ دردِ مثانہ میں بے حد مفید ہے۔کچا ناریل بھوک لگاتا ہے۔ کھانسی اور دمہ میں ناریل کا استعمال بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ گرتے ہوئے بالوں کی صورت میں کھوپرے یعنی ناریل کا تیل سر پر لگانا خاص طور پر رات کے وقت، اور صبح اٹھ کر کسی اچھے صابن سے سر دھو لینا مفید ہوتا ہے۔ ناریل کا پانی معدے کی سوجن کا بہترین علاج ہے۔ ناریل کا دودھ گلے کی خراش اور تمباکو نوشی سے ہونے والی خشک کھانسی کا بہترین علاج ہے۔ آدھا کپ ناریل کا دودھ، ایک کھانے کا چمچہ شہد اور گائے کا دودھ ملا کر رات کو سونے سے پہلے لینے سے خراش اور خشک کھانسی ختم ہوجاتی ہے۔ ناریل کا پانی دل، جگر اور گردوں کی بیماریوں میں بھی فائدہ مند ہے۔ ناریل استعمال کرنے سے پیٹ کے کیڑے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ناریل کا تیل جلی ہوئی جلد پر لگانے سے افاقہ ہوتا ہے۔ ناریل کے پانی میں ایک کھانے کا چمچہ لیموں کا رس ملا کر پینے سے ہیضے کی شکایت دور ہوجاتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے کئی کھانوں میں روغنِ ناریل بطور فرائنگ آئل استعمال ہورہا ہے۔ اسے بیکری کی اشیا میں استعمال کیا جارہا ہے۔ روغنِِ ناریل کے بطور ایندھن استعمال کے بھی تجربات کیے گئے۔ اسے فلپائن Vanuatu،Samosa وغیرہ میں گاڑیوں اور جنریٹرز میں بطور فیول استعمال کیا جارہا ہے۔ Pacific Island میں اس سے بجلی پیدا کرنے کے لیے بطور فیول استعمال پر تحقیق کی جارہی ہے۔ اسے بطور انجن Lubricant بھی ٹیسٹ کیا گیا۔
100گرام میں پائے جانے والے اجزاء: توانائی862کیلوریز، وٹامن ای 0.09 ملی گرام، وٹامن کے 0.5 مائیکرو گرام اور فولاد (آئرن) 0.04 ملی گرام۔
روغنِ ناریل کو مارجرین، صابن اور کاسمیٹکس بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ Industrial lubricantsکا اہم جزو ہے۔
روغنِ ناریل کوHealthiest oil on earthکہا جاتا ہے۔ اس میں دافع وائرل، دافع بیکٹیریل،Anti prozoal اور دافع مائیکرو بیل خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
اس میں موجود Lauric، Capric اور Carrylic، انٹی مائیکرو بیلLipids ہیں جو قوتِ مدافعت کو بہتر بناتے ہیں۔