گزشتہ دو تین صدیوں میں رائے عامہ کا موضوع علمی حلقوں میں متعدد پہلوؤں سے زیر بحث رہا ہے۔ سیاسیات (Political Science)، سماجیات(Sociology)، سماجی نفسیات(Social Psychology)،تاریخ (History)،ابلاغیات(Communication Studies) وغیرہ متعدد شعبہ ہائے علوم میں یہ موضوع زیر بحث رہا ہے کہ رائے عامہ کسے کہتے ہیں؟ وہ کیسے بنتی اور بدلتی ہے؟ کیا عناصر اس پر اثرانداز ہوتے ہیں؟ اس کو بنانے اور بگاڑنے والی قوتیں کون سی ہوتی ہیں؟
رائے عامہ افراد کی آراء کے مجموعے کو نہیں کہتے بلکہ اُس بااثر رائے کو کہتے ہیں جو سماج کے احوال پر اثرانداز ہوتی ہے۔ کسی بھی سماج میں مختلف آراء رکھنے والے چھوٹے چھوٹے اقلیتی گروپ ہوتے ہیں اور اُن کے ساتھ عظیم اکثریت ہوتی ہے جس کی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ مختلف عوامل کی وجہ سے کسی ایک بااثر اقلیتی گروپ کی رائے سماج کو متاثر کرتی ہے اور یہی رائے عامہ کہلاتی ہے۔
رائے عامہ کسی مسئلے یا موضوع(Issue) کو بنیاد بناکر تشکیل پاتی ہے۔ رائے عامہ بننے کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اس مسئلے کو اہمیت دے اور اس پر بات کرنے کے لیے تیار ہو۔ پھر ایک قابلِ لحاظ تعداد اس مسئلے پر خاص رائے رکھے، اور وہ رائے سماج کے احوال پر اثرانداز ہو۔
سماجی نفسیات کے ماہرین یہ مانتے ہیں کہ رائے عامہ اکثر صورتوں میں اقلیتی رائے ہوتی ہے۔ ایک بااثر اقلیت جو بعض دفعہ بہت چھوٹی اقلیت ہوتی ہے، اپنے نقطہ نظر کو اس طرح عام کردیتی ہے کہ وہ پورے سماج کی رائے محسوس ہونے لگتی ہے۔ بعض اوقات رائے عامہ کسی بڑے بحران کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ کوئی سنگین سماجی مسئلہ، حادثہ یا بڑا واقعہ سماج میں شدید ردعمل پیدا کرتا ہے۔ اس ردعمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات و احساسات کا بااثر اقلیت استحصال کرتی ہے۔ انہیں علمی زبان اور توجیہات فراہم کرتی ہے۔ اس طرح رائے عامہ تشکیل پاتی ہے۔ عوام میں اس کی ترویج، اس مباحثے sے ہوتی ہے جو بااثر طبقات سماج میں چھیڑتے ہیں۔
رائے عامہ کا انحصار کچھ اعتقادات (Beliefs)پر ہوتا ہے۔ مثلاً یہ اعتقاد کہ ہماری قوم دنیا کی بہترین قوم ہے، یا یہ کہ ملک کی معاشی ترقی آزاد مارکیٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے، یا یہ کہ دنیا میں دہشت گردی کا سبب کچھ خاص مذہبی عقائد ہیں وغیرہ۔ چھوٹے اقلیتی گروپ ایسے معتقدات کو عام کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں احوال و واقعات کو دیکھنے کا ایک خاص زاویہ عام ہوجاتا ہے۔ مثلاً آزاد مارکیٹ کے نظریے میں یقین رکھنے والی رائے عامہ، کساد بازاری اور معاشی بدحالی کے اسباب ہمیشہ اُن حکومتی پالیسیوں میں تلاش کرتی ہے جو غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ اس نقطہ نظر کی بنیاد پر مستقبل کو دیکھنے کا ایک خاص زاویہ وجود میں آتا ہے اور کچھ اجتماعی ارادے وجود میں آتے ہیں۔ مثلاً انتہاپسندانہ قوم پرستی کا عقیدہ اس فاشسٹ اور استعماری ارادے کو جنم دیتا ہے کہ ہمیں اپنی قوم کو ہر صورت میں دنیا بھر میں غلبہ دلانا ہے۔
رائے عامہ ہمیشہ نازک اور غیر مستحکم ہوتی ہے۔ اسے ریت((Shifting Sands سے تشبیہ دی جاتی ہے جو مستقل ایک شکل میں نہیں رہتی۔ ایک واقعہ یا حادثہ برسوں کی محنت سے بنی رائے عامہ کو بدل کر رکھ سکتا ہے۔
ماہر معاشیات تیمور کرن نے اپنی کتاب Private Truths, Public Lies میں ایک مشہور نظریہ پیش کیا ہے جسے تغلیط ترجیح (Prefernce Falsification) کی تھیوری کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق جدید جمہوری معاشروں میں زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت جو رائے ظاہر کرتی ہے وہ اُن کی حقیقی رائے نہیں ہوتی۔ لوگ وہ رائے ظاہر کرتے ہیں جس کے بارے میں ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ یہ سماجی طور پر زیادہ قابلِ قبول ہے۔
کسی رائے کو سماجی طور پر قابلِ قبول بنانا ایک چھوٹی سی بااثر اقلیت کا کام ہوتا ہے۔ اگر ایک چھوٹی اقلیت اپنی رائے میں ثابت قدم اور بے لچک ہو تو بالآخر وہ رائے سماجی طور پر قابلِ قبول ہوجاتی ہے۔ چونکہ اکثریت کی اپنی کوئی پائیدار رائے نہیں ہوتی اس لیے وہ اس اقلیتی رائے کو اپنی رائے کے طور پر بیان کرنے لگتی ہے، اور جیسا کہ اوپر تغلیط ترجیح کے نظریے کے حوالے سے کہا گیا، اکثر صورتوں میں اکثریت کا یہ اظہارِ رائے، اس کے دل کی حقیقی آواز کے خلاف ہوتا ہے۔ بعض سماجی سائنس دانوں نے ریاضی کے ترقی یافتہ ماڈلز کے ذریعے اس فارمولے کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے جس کے مطابق ایک چھوٹی سی اقلیت کی رائے پورے سماج کی رائے بن جاتی ہے۔ اس ریاضیاتی ماڈل کے مطابق کسی رائے پر استقامت کے ساتھ قائم لوگوں کی تعداد جب تک دس فیصد سے کم ہوتی ہے، وہ رائے اقلیتی رائے رہتی ہے۔ جیسے ہی دس فیصد کی حد پار ہوتی ہے (یعنی کسی رائے پر قوت و استقامت کے ساتھ جمے رہنے والوں کی تعداد سماج کی مجموعی آبادی کے دس فیصد سے متجاوز ہوتی ہے) وہ رائے جنگل کی آگ کی طرح تیزی سے پورے سماج میں عام ہوجاتی ہے۔
رائے عامہ کو بنانے میں بااثر اقلیت کا اہم کردار ہوتا ہے۔ انہیں رائے عامہ کے واسطے Agencies of Public Opinion کہا جاتا ہے۔ یہ درج ذیل افراد اور اداروں پر مشتمل ہوتے ہیں:
1) عوامی بحث کے ذریعے رائے عامہ کو متاثر کرنے والے: ان میں مصنفین، محققین، شاعر، ادیب، صحافی، فلم ساز، گیت کار وغیرہ ہوتے ہیں جو آئیڈیا کو زبان عطا کرتے ہیں اور عوام تک پہنچاتے ہیں۔
2) عمل کے ذریعے رائے عامہ کو متاثر کرنے والے: یہ وہ باخبر اور سرگرم لوگ ہوتے ہیں جو سماج کی سیاسی اور سماجی زندگی میں فعال حصہ لیتے ہیں۔ اپنے اقدامات اور سرگرمی کے ذریعے رائے عامہ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
3) رائے عامہ کو بیدار کرنے والے: یہ وہ جہدکار ہوتے ہیں جو اپنی مہمات، احتجاج، پُرجوش تقریروں، نعروں اور تحریکوں کے ذریعے رائے عامہ کو بیدار کرتے ہیں۔
رائے عامہ کو بنانے میں ان تینوں واسطوں کا اہم رول ہوتا ہے۔
اس موضوع کے ان تکنیکی پہلوئوں کو یہاں چھیڑنے کا مقصد یہ ہے کہ ان سے ہمارے ملک کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور اس سے اس صورت حال کو بدلنے کے طریق کار کے سلسلے میں بھی رہنمائی ملتی ہے۔ ہمارے ملک کی اکثریت آج بھی فرقہ پرست نہیں ہے لیکن ایک چھوٹی سی فرقہ پرست اقلیت کی پامردی اور جہدِ مسلسل نے ایسی عارضی صورت حال پیدا کردی ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد، اس اقلیت کے نقطہ نظر کے ساتھ خود کو وابستہ کرنے پر سماجی لحاظ سے مجبور ہوچکی ہے۔ اس صورت حال کو بدلنے کا فارمولا بھی یہی ہے کہ اسلام کی ہم نوا اقلیت، اسی ثبات و پامردی کے ساتھ اکثریتی نقطہ نظر کو متاثر کرے۔ اس کے لیے ہم کو اپنے رویّے اور حکمت عملی میں تبدیلیاں لانی ہوں گی۔
(سید سعادت اللہ حسینی، اشارات ”زندگی نو“، دہلی۔ ستمبر2019ء)
تقلیدِ فرنگی
جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دَور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اُس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک!
ہے جس کے تصّور میں فقط بزمِ شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ
عالمِ ایجاد: دنیا۔ تقلید: لغوی معنی پیروی۔ اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی فرد یا جماعت کی پیروی کسی شرعی یا عقلی دلیل کے بغیر کی جائے۔ تجدید: لغوی معنی نیا اور تازہ کرنا۔ اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی قوم یا جماعت میں زندگی کی نئی روح پھونکی جائے۔ مجددین اسی غرض سے پیدا ہوتے ہیں۔ تجدید کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، یعنی نئے طور طریقے رائج کرنا۔ یہاں ان ہی معنی میں مستعمل ہوا ہے۔
(1) جو شخص اس دنیا میں نئی چیزیں پیدا کرتا رہتا ہے، زمانہ اپنے ہر دور میں اسی کے گرد چکر لگاتا ہے۔ اس دنیا میں قدر و منزلت انہی لوگوں کی ہوتی ہے جو موجد کہلاتے ہیں، یعنی جنہوں نے نئے علوم، نئے ہنر، نئی چیزیں وغیرہ ایجاد کیں۔
(2)تُو اپنے پیش روئوں کی اندھی پیروی میں اپنی خودی کو برباد نہ کر۔ یہ بڑا قیمتی موتی ہے اور اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔
(3)اس قوم کو نئے طور طریقوں اور نئی زندگی کا پیغام مبارک ہو، جو صرف رات کی بزم کا تصور اپنے دماغ میں جمائے بیٹھی ہے۔ یعنی جس نے کبھی اپنے پرانے طور طریقوں سے اِدھر اُدھر ہونا گوارا نہیں کیا۔ اب اسے تجدید کا پیغام ملا ہے تو یہ واقعی مبارک باد دینے کا موقع ہے۔
(4) مگر آج کل تجدید کا جو شور بپا ہوتا ہے، ایشیا میں اسے صرف اہلِ یورپ کی اندھی پیروی کا بہانہ بنالیا جاتا ہے، لہٰذا مجھے ڈر یہ ہے کہ کہیں یہ پیغامِ تجدید بھی یورپ ہی کے رسم و رواج کو پھیلانے کا ذریعہ بن کر نہ رہ جائے۔