حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے عرس کے موقع پر بہشتی دروازے سے گزرنے کے خواہش مند لوگوں کے ہجوم میں بھگدڑ کی وجہ سے ساٹھ سے زائد یا اس سے کچھ کم افراد کچل کر یا دم گھٹ جانے کے سبب ہلاک ہوگئے۔ اس بھگدڑ کے لیے سجادہ نشین خاندان انتظامیہ کو، اور انتظامیہ سجادہ نشین کو مورد الزام قرار دے رہی ہے۔ قصوروار کون ہے؟ اس کی تو عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ آخر لوگ اس قدر جاہل کیوں ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک خاص دروازے سے گزر جانے کے بعد جنت کے حق دار ہوجائیں گے! جنت تو صرف اعمالِ صالحہ کے نتیجے میں ہی مل سکتی ہے، یہ نہ ہو تو خانہ کعبہ کا طواف بھی کوئی رسم کے طور پر ادا کرے، مگر اس کی نجات اخروی ممکن نہیں۔ دنیا کے تمام مذاہب نے عملِ صالح پر زور دیا ہے، قرآن میں بھی جہاں جہاں ایمان کا تذکرہ ہے، عملِ صالح کے ساتھ ہے۔ لیکن رسمی و رواجی مذہب نے نجات کا دارو مدار اچھے اعمال کے بجائے خاص خاص رسومات پر رکھا، اور اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ نئی نئی رسمیں ایجاد ہوتی رہیں، اور رسموں کے اس گورکھ دھندے کا نام مذہب ہوگیا، اور سمجھا گیا کہ جنت میں اپنے لیے جگہ الاٹ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ مقامات ِخاص کی زیارتیں کرلی جائیں، اور مسلمان بھی اس طرح کی زیارتوں کے لیے مکہ، مدینہ، نجف اور کربلا بغداد سے لے کر اجمیر شریف اور پاک پتن تک مختلف مقامات پر جاتے ہیں۔ پھر کچھ خاص دعائیں، وظیفے اور ورد ہیں، سمجھا جاتا ہے کہ ان کے پڑھنے سے جنت میں داخلہ مل جائے گا۔ آپ نے مجموعہ روایات میں ایسی روایات دیکھی ہوں گی جس میں کوئی چھوٹی سی دعا یا تسبیح پڑھنے والے کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ایسے آدمی پر دوزخ حرام ہوجاتی ہے۔ لیکن اعمالِ صالحہ کے بغیر جنت حاصل کرنے کا یہ عقیدہ اسلام کا نہیں، اس لیے محدثین نے کہا ہے کہ ایسی تمام احادیث موضوع ہیں۔ ہندوئوں کے پاس البتہ یہ تصور ہے کہ انسان کوئی خاص منتر، جاپ یا پھر کسی خاص دریا میں اشنان کرکے یا کسی مقدس مقام کی زیارت سے اخروی نجات حاصل کرسکتا ہے، لیکن اسلام میں نجات عملِ صالح کے بغیر نہیں، اور یہ عقیدہ بھی ہمارے درمیان فساد کی جڑ ہے کہ اعمالِ حسنہ کے بغیر کسی کی شفاعت کام دے گی، یا کسی بزرگ کے سلسلے سے وابستگی کے نتیجے میں وہ بزرگ خود اپنے عقیدت مند کے لیے جنت میں رہائش کا انتظام کردیں گے، یا کسی دعا سے کام بن جائے گا۔
اسلام کی رو سے جو ایمان عملِ صالح پیدا نہ کرے وہ محض ایک زبانی اقرار ہے، اور اس زبانی اقرار کی وقعت نہیں اگر عمل سراسر اس کے خلاف ہے۔ اور ایسا ایمان جو آدمی کو پابندِ رسومات تو بنادے لیکن اس میں نیکی اور اخلاق کا جوہر پیدا نہ کرے حقیقی ایمان نہیں۔ دنیا کی دیگر امتوں کی طرح امت ِ مسلمہ کے بگاڑ کا بھی سبب یہی ہے کہ نجات کا دارو مدار چند عقائد پر رکھ دیا گیا اور سمجھ لیا گیا کہ آدمی کا عقیدہ صحیح ہے تو اعمال برے بھی ہیں تو اللہ غفور اور رحیم ہے۔ اور پھر عملِ صالح سے بے نیاز کرنے کے لیے اپنے مذہب پر اس کے اصل عقائد کے علاوہ اور بہت سے خود ساختہ عقائد کا بوجھ بھی لاد دیا گیا، اور ان کو بھی اصل عقائد کے برابر درجہ دیا گیا۔ حالانکہ آخرت میں پرسش عقائد کی موشگافیوں کے بارے میں نہیں ہوگی، پرسش اعمال کی ہوگی۔ وہاں اعمال تولے جائیں گے۔ کراماً کاتبین ہر شخص کا اعمال نامہ پیش کریں گے۔ جسم کے اعضا ان اعمال کی گواہی دیں گے جو دنیا میں کیے گئے، اور کسی کی کسی سے نسبت کام نہیں آئے گی۔ جب سے مسلمانوں میں دیگر اہلِ مذاہب کی طرح یہ تصور آیا کہ عمل کے بغیر بھی ایمان ہوسکتا ہے تو وہ بے عمل ہوتے چلے گئے، اور بے عملی کی حالت میں مختلف جھوٹے سہارے ایجاد کرلیے گئے، انہی میں ایک بہشتی دروازے سے گزر کر جنت حاصل کرنے کا مضحکہ خیز عقیدہ ہے۔ لیکن اس مضحکہ خیز عقیدے کی قائل خلقت عرس کے موقع پر ٹوٹی پڑتی ہے اور ہجوم میں لوگ کچلے اور مارے جاتے ہیں۔ اس بار بھی دو لاکھ آدمی بہشتی دروازے سے گزرنے کے لیے پہنچے تھے۔
اب تو خدا کا شکر ہے کہ بہت سے جاہلانہ عقائد ختم ہوگئے ہیں لیکن پھر بھی بہت باقی ہیں، اور مسلمانوں کو باعمل بنانے میں یہ بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس طرح کے عقائد کے خلاف جہاد ہونا چاہیے۔ لیکن اصلاحِ عقائد کے اس طریقے نے فائدہ نہیں دیا کہ مناظروں کا بازار گرم ہو اور نئی نئی لڑائیاں شروع کردی جائیں۔ اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دین کی تعلیم مثبت طریقے سے لوگوں کے سامنے رکھی جائے اور بتایا جائے کہ اسلام دنیا میں مسلمان سے کس طرح کے عمل یا اعمال کا تقاضا کرتا ہے، اور یہ اعمال ہی مسلمانیت کا مدار ہیں۔ ایک صاحب نے کہاکہ جو لوگ اسلام کو اِس دنیا کے ایک اچھے نظامِ حیات کے طور پر پیش کرتے ہیں اُن کا اسلام ’’سیکولر اسلام‘‘ ہے کیونکہ ان کی نظر میں دنیا ہے، اور مذہب کو بھی وہ دنیا میں کامیابی کے ذریعے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اُن کی اس بات نے مجھے چونکا بھی دیا اور چکرا بھی دیا، لیکن پھر مجھے یاد آیا کہ مسلمانوں کی دعا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ کی ہے۔ مسلمان کو دنیا چھوڑنے کی تعلیم نہیں ہے، اسے اس دنیا کو بہتر بنانے کا مشن سونپا گیا ہے، اور اسلام کے اس مشن کی تکمیل اُس وقت ہوگی جب ہر مسلمان اپنے اعمال کا احتساب کرے اور عمل کی اصلاح کرے، اور یہ بات ذہن نشین کرلے کہ اس کے لیے جنت جہنم جو بھی بنے گی اس کے عمل سے بنے گی۔