سعودی عرب آئل تنصیبات پر ”پراسرار حملے”۔

مشرقِ وسطیٰ کا امن خطرے میں!فائدہ امریکہ کو ہو گا؟۔

مئی میں سعودی آرامکو کی دو تنصیبات پر حملے کے ٹھیک چار ماہ بعد 14 ستمبر کو خودکش ڈرون حملوں سے دنیا میں خام تیل کا سب سے بڑا پراسیسنگ پلانٹ شعلوں کی نذر ہوگیا۔
14 مئی کو ’’نامعلوم‘‘ ڈرونز نے الشیبہ کے قریب خام تیل کے دو پمپنگ اسٹیشنوں کو نشانہ بنایا تھا جو بحر احمر پر واقع ینبوع آئل ٹرمینل جانے والی تیل پائپ لائن کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ بعد میں یمن کے حوثیوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ان کے 7 مسلح خودکش ڈرونز کی کارروائی ہے جس کا مقصد ’دشمن‘ کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنانا تھا۔ سعودیوں کی خوش قسمتی کہ نقصان بہت زیادہ نہ ہوا اور بہت جلد اس کی مرمت کرلی گئی۔ اس واقعے سے صرف دو دن پہلے متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ الفجیرہ پر 4 ٹینکروں کو نشانہ بنایا گیا جن میں سے دو کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ اس حملے کے پیچھے ایران تھا، لیکن یہ الزام اب تک ثابت نہ ہوسکا۔ اس کے ایک ماہ بعد 14 جون کو نامعلوم میزائلوں نے خلیج اومان میں متحدہ عرب امارات اور سعودی آئل ٹینکروں کو نشانہ بنایا۔
اب ہفتے کو صبح سویرے ابقیق اور الخریص میں تیل کی تنصیبات پر تباہ کن حملہ کیا گیا ہے۔ یہ اتفاق کے سوا اور کچھ نہیں، لیکن سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات اور اثاثوں پر بڑے حملوں کے لیے 14 تاریخ کا انتخاب کیا گیا۔ ابقیق خلیج عرب کے کنارے ظہران سے 37 میل جنوب مغرب میں ہے۔ سعودی آرامکو کا عظیم الشان صدر دفتر ظہران ہی میں ہے، جبکہ الخریص سعودی دارالحکومت ریاض سے 100 میل کے فاصلے پر ہے۔ 1940ء میں دریافت ہونے والے ابقیق کے میدان سے 4 لاکھ، اور الخریص سے 14 لاکھ بیرل تیل روزانہ نکالا جاتا ہے۔ تیل کی پیداوار سے زیادہ ابقیق کی اہمیت یہاں واقع دنیا کے اس سب سے بڑے پراسیسنگ پلانٹ کی بنا پر ہے جہاں روزانہ 70 لاکھ بیرل خام تیل کو برآمد کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ بعض اخبارات میں اسے ابقیق ریفائنری کہا گیا ہے جو درست نہیں۔ حملہ ریفائنری پر نہیں بلکہ پراسیسنگ پلانٹ پر ہوا ہے۔
سعودی تیل میں گندھک کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو پائپ لائن کے لیے اچھی نہیں، کہ گندھک لوہے کو گلانے کا سبب بن سکتی ہے۔ ابقیق پلانٹ پر خام تیل سے گندھک نکال کر مائع کو پائپ لائن کے لیے مضر کثافتوں سے کسی حد تک پاک کرلیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر اس پلانٹ کو تیکنیکی اصطلاح میں Stabilization Facility کہا جاتا ہے۔
دوسری طرف خریص کی ترقی و بہتری پر سعودی آرامکو نے حال ہی میں 3 ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی ہے۔ اس میدان سے تیل کے علاوہ 32 کروڑ مکعب فٹ گیس یومیہ حاصل کی جاتی ہے۔ سعودی حکومت کی نئی حکمت عملی کے تحت تیل کی برآمدات بڑھانے کے لیے مقامی سطح پر گیس کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، اور گیس پلانٹ پر بھی تیل کے بجائے گیس سے چلنے والے انجن نصب کیے جارہے ہیں۔ الخریص سے حاصل ہونے والی گیس میں گندھک کی مقدار خاصی زیادہ ہے جس کی وجہ سے یہ چولہوں کے لیے مناسب نہیں، چنانچہ اسے قریب ہی واقع شدقم گیس پلانٹ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ابتدائی خبروں میں کہا گیا کہ مسلح ڈرونز نے ابقیق پراسیسنگ پلانٹ اور الخریص کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جس سے زبردست آگ بھڑک اٹھی۔ امریکہ کے خلائی مرکز NASA نے سیٹلائٹ کی مدد سے لی ہوئی جو تصاویر جاری کی ہیں اُن کے مطابق 50 میل کے علاقے سے دھویں کے بادل اور شعلے بھڑکتے نظرآرہے ہیں۔ ابقیق دنیا میں تیل کے سب سے بڑے میدان غوار کے بہت قریب واقع ہے۔ غوار سے حاصل ہونے والے خام تیل کا مجموعی حجم 80 لاکھ بیرل روزانہ ہے۔ اس خبر کے فوراً بعد المسیرہ ٹیلی ویژن پر حوثیوں کے بریگیڈیئر جنرل یحییٰ سریع نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہاکہ یمن سے اڑان بھرنے والے حوثیوں کے 10 مسلح ڈرونز سے دشمن کو کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک سعودی عرب یمن پر فضائی حملے ختم نہیں کردیتا، حملے جاری رہیں گے۔ جنرل صاحب نے دعویٰ کیا کہ تیل کے میدانوں اور تنصیبات سمیت سارا سعودی عرب ان کے نشانے پر ہے۔
سعودی عرب نے ابقیق اور الخریص پر حملے کا اعتراف تو کیا لیکن نقصانات کے بارے میں کوئی حتمی بیان جاری نہیں ہوا۔ آرامکو کے سربراہ حسن نصر کا کہنا ہے کہ آگ پر قابو پانے کے بعد مرمت کا کام جاری ہے۔ جناب نصر پُراعتماد ہیں کہ تیل کی برآمد جلد ہی دوبارہ شروع ہوجائے گی۔ پیر کی صبح صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے پُرعزم لہجے میں کہا کہ ابقیق پلانٹ کی ایک تہائی گنجائش آج شام یا کل صبح تک بحال کرلی جائے گی۔ اس دعوے کی تصدیق بہت مشکل ہے کہ صحافیوں کو پلانٹ تک رسائی حاصل نہیں۔
توانائی سے وابستہ سیانوں کا خیال ہے کہ ابقیق کی آتش زدگی سے عالمی منڈی میں 57 لاکھ بیرل یومیہ یا 6 فیصد کی کمی واقع ہوگئی ہے، لیکن اِس بار دنیا میں وہ افراتفری نہیں دیکھی گئی جو 1973ء کے عرب بائیکاٹ یا 1978ء میں ایرانی انقلاب کے دوران نظر آئی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ اُن دنوں کے برعکس آج امریکہ تیل کی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ یورپ کو فراہم کی جانے والی LNGکی بڑی مقدار امریکہ ہی سے برآمد کی جاتی ہے۔ آج صبح صدر ٹرمپ نے بڑی بے نیازی سے کہا ’’سعودی تنصیبات پر حملے سے تیل کی فراہمی میں جو خلل واقع ہوا ہے اُس سے امریکہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کہ اب ہم تیل و گیس کے حوالے سے خودکفیل ہیں‘‘۔ انھوں نے اپنے یورپی و ایشیائی اتحادیوں کو اطمینان دلاتے ہوئے ضرورت پڑنے پر تیل کے محفوظ ذخائر کے دہانے کھول دینے کا عندیہ بھی دیا۔ یہ محفوظ ذخیرہ کیا ہے، اس پر چند سطور:
امریکہ نے 1973ء کے عرب بائیکاٹ کے بعد برے وقتوں کے لیے تیل کا ایک عظیم الشان Strategic Petroleum Reserve (SPR) یا ذخیرہ تعمیر کیا ہے جس کے تحت 72 کروڑ بیرل تیل لوزیانہ (Louisiana) اور ٹیکساس (Texas)کے زیرزمین ذخائر یا Depleted Reservoir میں محفوظ کیا گیا ہے۔ یوں سمجھیے کہ جن چٹانوں سے تیل اور گیس کی قابلِِ پیداوار مقدار حاصل کرلی گئی ان کی مسام دار چٹانوں کو خام تیل سے بھردیا گیا۔ خیال ہے کہ صدر ٹرمپ سعودی تیل کی غیر موجودگی میں عالمی طلب کو پورا کرنے کے لیے SPR سے کچھ تیل بازار میں لے آنے کی منظوری دے دیں گے۔ لیکن ان کے وزیر توانائی رک پیری نے جرمنی میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ منڈی میں طلب کے مطابق تیل موجود ہے لہٰذا فی الحال SPRکا منہ کھولنے کی ضرورت نہیں۔ دوسری طرف سعودی تیل کی بندش نے امریکہ میں سلیٹی چٹانوں سے تیل کی کشید کو منافع بخش کاروبار بنادیا ہے۔ روایتی میدانوں کے مقابلے میں سلیٹی چٹانوں سے حاصل ہونے والے تیل کی پیداواری لاگت زیادہ ہوتی ہے، لیکن 60 ڈالر فی بیرل پر سلیٹی چٹانوں کا سینہ چیرکر تیل کشید کرنا پُرکشش ہوگیا ہے۔ اسی کے ساتھ متاثرہ پلانٹ کی ہنگامی بنیادوں پر مرمت کی شکل میں امریکی کمپنیوں کے لیے بھاری معاوضے پر کاروبار کے نئے مواقع میسر آگئے ہیں۔ ابقیق حملے کے نتیجے میں تیل اور سونے کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ امریکی بازارِ حصص دبائو میں آگیا لیکن تیل اور خدمت رساں اداروں کے ساتھ اسلحہ بنانے والے اداروں لاک ہیڈ مارٹن (Lockheed Martin)، ریتھیان (Raytheon)، جنرل ڈائنامکس (General Dynamics)، بوئنگ حصص کی قیمتوں میں واضح اضافہ ہوا۔
ابقیق اور الخریص پر حملوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا ایک سنگین انسانی پہلو بھی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ابقیق پلانٹ کا بنیادی مقصد خام تیل سے گندھک کی علیحدگی ہے۔ پلانٹ کی جزوی تباہی کی بنا پر فضا میں گندھک سے بننے والی ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس یا H2Sکا تناسب خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ یہ گیس انسانی جان کے لیے کتنی خطرناک ہے اس کا اندازہ محض اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص 48 گھنٹوں تک ایسی فضا میں سانس لے جہاں H2Sکا تناسب 100 فی ملین یا 100/1000000کے قریب ہو تو اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ سڑے انڈے کی ناگوار بو اس گیس کی پہچان ہے، لیکن قوتِ شامہ یا سونگھنے کی قوت ہی اس نامراد گیس کا پہلا ہدف ہے، اور اگر فضا میں اس کا تناسب 3 فی ملین (3/1000000)سے بڑھ جائے تو اس کا ناگوار تعفن محسوس نہیں ہوتا۔ یعنی تعاقب کرتے قاتل کی آہٹ بھی محو ہوجاتی ہے۔
یہ تو تھا اس معاملے کا تیکنیکی و معاشی رخ۔ اب اس واقعے کے عسکری پہلو اور سیاسی محرکات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس واقعے کی غیر مشروط ذمہ داری یمن کے حوثیوں نے قبول کرلی ہے، لیکن اتوارکو عراقی خفیہ ایجنسی کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ ابقیق اور الخریص پر ہونے والا ڈرون حملہ شیعہ عراقی ملیشیا الحشد الشعبی (PMF) کی کارروائی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ مسلح جوانوں پر مشتمل ایران نواز PMF عراقی فوج کا حصہ ہے۔ گزشتہ ماہ اسرائیل نے ان کے ٹھکانوں پر پانچ فضائی حملے کیے تھے جس میں مبینہ طور پر پاسدارانِ انقلاب ایران کے کئی اعلیٰ افسران جاں بحق ہوئے جو PMF کے جوانوں کو میزائل اور ڈرون کے استعمال کی تربیت دے رہے تھے۔ حشد الشعبی نے الزام لگایا تھا کہ ان کے ٹھکانوں پر حملے کے مالی اخراجات سعودی عرب نے اسرائیل کو ادا کیے تھے جس کا انتقام لینے کے لیے 5 حملوں کے جواب میں جنوبی عراق سے 10 ڈرون سعودی عرب کی طرف داغے گئے۔ عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے اس خبر کی سختی سے تردید کی ہے۔
اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ یہ ڈرون حوثیوں نے یمن سے داغے ہیں تو اس سے امریکہ کے جدید ترین پیٹریاٹ دفاعی نظام پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں کہ یمن سے اڑان بھرنے والے 10 ڈرونز نے سعودی حدود میں پانچ سو میل دور جاکر اپنے اہداف کو نشانہ بنایا اور اُڑتی چڑیا کی شناخت کا دعویٰ کرنے والے پیٹریاٹ کو اس کی خبر تک نہ ہوسکی۔ جبکہ یہ کوئی پہلا حملہ نہ تھا۔ اس سے پہلے بھی اس قسم کے ڈرون آرامکو کی تنصیبات کو نشانہ بنا چکے ہیں اور تازہ حملہ کسی بھی اعتبار سے غیر متوقع نہیں تھا۔ سعودیوں نے پیٹریاٹ کی تنصیب پر 5 ارب 40 کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں۔ تاہم اس عطار سے دوا لینے والوں کی کمی نہیں۔ پیر کی دوپہر واشنگٹن آئے بحرین کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن حمدالخلیفہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اور فخر سے اپنے ملک کے لیے پیٹریاٹ نظام خریدنے کا اعلان کیا۔ صدر ٹرمپ سیاست دان اچھے ہیں یا نہیں، لیکن سیلزمین وہ غضب کے ہیں۔
امریکیوں کا اصرار ہے کہ حملہ ایرانیوں نے کیا ہے۔ امریکی وزیر خاجہ مائیک پومپیو کا خیال ہے کہ اس حملے میں ڈرون کے علاوہ ایرانی کروز میزائل بھی استعمال ہوئے ہیں۔ سیاروں کی مدد سے حاصل کی جانے والی تصویروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتہائی مہارت سے تنصیبات کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا ہے اور دس میں سے ایک بھی ڈرون کا نشانہ خطا نہیں ہوا۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ جزیات کی ایسی موزونیت اور کمال کی درستی حوثیوں کے بس کی بات نہیں، یا یوں کہیے کہ ایسی سادگی و پرکاری کا مظاہرہ صرف ایرانی کرسکتے ہیں۔ پیر کی صبح اپنے ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا ’’ہمیں سعودی عرب پر حملہ کرنے والے ’مجرموں‘ کے بارے میں کچھ اندازہ ہے۔ ہم کیل کانٹو ں سے لیس (Locked and loaded) تصدیق کا انتظار کررہے ہیں‘‘۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ محترمہ کیلی کرافٹ نے بھی ایران کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا۔ مزے کی بات کہ شعلہ افشانی کے ساتھ بات چیت کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔ امریکی صدر چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کے دوران ان کی اپنے ایرانی ہم منصب سے غیر رسمی بات چیت ہوجائے۔
بحرینی ولی عہد کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ایران پر براہِ راست الزام لگانے سے گریز کیا اور ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ لگتا تو ہے لیکن
ابھی تک ایران کے ملوث ہونے کی تصدیق نہیں ہوئی۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ اگر تحقیقات کے نتیجے میں ایران حملہ آور ثابت ہوگیا تو امریکہ کا ردعمل کیا ہوگا۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا اس واقعے سے سب سے زیادہ امریکہ کو فائدہ پہنچا ہے۔ اس کی تیل کی صنعت نے دنیا میں پہلا مقام حاصل کرلیا، اسلحہ کی تجارت عروج پر ہے، تیل کے حوالے سے چین اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہوگیا ہے کہ بیجنگ کی صنعت درآمدی تیل کے رحم و کرم پر ہے۔ گویا چین سے تجارتی جنگ میں امریکہ کو واضح برتری حاصل ہوگئی ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کے ساتھ اس کے خلیجی حلیف بھی بے حد پریشان ہیں۔ حوثی (یا ایرانی) ڈرون کا بظاہر کوئی مؤثر توڑ نظر نہیں آرہا۔ حالیہ حملے نے سعودی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے جو 2015ء سے جاری جنگ، السیسی کی کفالت اور بحر احمر کے کنارے دورِ حاضر کے جدید ترین سیاحتی مرکز کے تعمیراتی اخراجات کی بنا پر شدید دبائو میں ہے۔ پہلے عراق میں تیل کی تنصیبات کو تہس نہس کیا گیا۔ عراقی تیل کی پیداواری لاگت دنیا میں سب سے کم تھی۔ اس کے بعد بدقسمتی نے لیبیا کا رخ کیا، جس کا انتہائی لطیف اور کثافتوں سے پاک سدرہ لائٹ (Sidra Light)تیل سب سے مہنگا فروخت ہوتا تھا۔ خاکم بدہن اب کہیں سعودی عرب کی باری تو نہیں! عراق اور لیبیا کی تباہی کے اخراجات عربوں نے برداشت کیے اور اب لگتا ہے کہ نادیدہ قوتوں نے یہ علَم عجم کے انقلابیوں کو تھمادیا ہے۔

………٭٭٭………
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم
masoodabdali.blogspot.com
اور ٹویٹر @MasoodAbdali بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔