مقبوضہ کشمیر کا حصار،کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے؟۔

مقبوضہ کشمیر کے محاصرے اور عوام کی قید کو ڈیڑھ ماہ ہوچکا ہے، بھارت ابھی تک عالمِ خوف میں مقبوضہ عوام کے سروں سے جبر کا کوڑا ہٹانے کو تیار نہیں۔ بھارت کو کچھ ہوجانے کا خوف ہے۔ اور خوف کیوں نہ ہو؟ بھارت نے جو قدم اُٹھایا ہے اُس نے کشمیر کے ہر فرد اور پیرو جواں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ آزادی پسندوں کی تو بات ہی کیا، وہ پوری زندگی ہی قید وبند میں گزار چکے ہیں، مگر بھارت کے ہمنوا سیاست دان بھی آج قیدی بن کر گلہ گزار اور اپنے ماضی پر برملا شرمسار اور نادم ہیں۔ دنیا محاصرے اور پابندیوں پر تشویش کا اظہار تو کررہی ہے، مگر تشویش سے محاصرہ ختم ہوتا ہے نہ عوام کو کھانا اور صحت کی سہولت مل سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کا محاصرہ ختم کرانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس تنظیم اس حوالے سے فعال کردار ادا کرسکتی ہیں۔
ایک بڑی آبادی کو یوں قید میں رکھنا بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں کہلا سکتا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور سیز فائر معاہدے کے تحت بھارت صرف کشمیری عوام کی دیکھ بھال کا ذمہ دار تھا، یہی ذمہ داری پاکستان کی آزاد کشمیر کے حوالے سے ہے، مگر بھارت نے کشمیریوں کو اجتماعی طور پر قتل کرنے کا منصوبہ بناکر اس ذمہ داری سے انحراف کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اقوامِ عالم اس خطرے کا نظارہ کررہی ہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ بھارت دبائو سے آزاد ہو۔ ایسے میں برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے کشمیری اور پاکستانی تارکینِ وطن نے ایک تاریخی مظاہرہ کیا ہے۔ ہزاروں افراد نے برٹش پارلیمنٹ اور بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے طاقت اور جذبات کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ مظاہرین آزادی اور حقِ خودارادیت کے نعرے بلند کررہے تھے۔ مظاہرین میں عورتیں، بچے اور بزرگ بھی شامل تھے جو برطانیہ کے طول وعرض سے اس احتجاج میں شریک ہونے آئے تھے۔ کشمیری تارکینِ وطن مسئلہ کشمیر کے سفارتی محاذ کے سپاہی ہیں، ماضی میں ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اب بھی یہ تارکینِ وطن صرف جذبۂ حب الوطنی سے مغلوب ہوکر گھروں سے باہر نکل کر تاریخ کے اس نازک موڑ پر اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ ایک ماہ میں برطانیہ میں کشمیریوں اور پاکستانی عوام کا دوسرا بڑا مظاہرہ ہے۔ امریکہ کے تارکینِ وطن بھی مختلف شہروں میں مسلسل مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ احتجاج کا یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں۔ تارکینِ وطن کے عزم وحوصلے کو داد دینا چاہیے جو مصروفیت کے دوران قومی کاز کے لیے وقت نکال رہے ہیں۔ مغربی ملکوں میں غمِ روزگار میں مبتلا لوگوں کا یوں وقت نکال کر دوردراز سے شہروں تک پہنچنا اور وہاں گھنٹوں گزارنا بہت بڑا جہاد ہے۔ اس قربانی اور ایثار کو وہی سمجھ سکتا ہے جو اس دنیا کی مصروف زندگی سے واقف ہو۔ اس جذبے کی قدر ہونی چاہیے۔
امریکہ و برطانیہ کے علاوہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی تارکینِ وطن پوری قوت سے سرگرمِ عمل ہیں۔ دنیا کے بڑے مراکز اور رائے ساز شہروں میں کشمیریوں کے احتجاج کا یہ منظم سلسلہ حالات کے دھارے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رواں ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر کشمیری اپنا غم وغصہ پوری دنیا کے سامنے عیاں کرکے رکھ دیں گے۔ مودی جنرل اسمبلی میں بن بن کر خطاب کررہا ہوگا اور باہر فضائیں لندن کی طرح ’’ٹیررسٹ ٹیررسٹ، مودی ٹیررسٹ‘‘ کے نعروں سے گونج رہی ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے محصور عوام کے بعد اگر کوئی جرأت اور پامردی کے ساتھ میدان میں کھڑا ہوکر حالات کا مقابلہ کررہا ہے تو وہ تارکینِ وطن ہیں جو اس وقت اپنی تمام صلاحیتیں کشمیر کاز کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں۔ تاریخ میں یہ کردار سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
نریندر مودی نے جس کشمیر کو ہڑپ کرکے اپنی طاقت میں بدلنے کی کوشش کی تھی وہ کشمیر اُس کے لیے ایک عارضہ بن رہا ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کشمیری نریندر مودی کا تعاقب کرنے لگے ہیں۔کشمیر اب بھوت بن کر نریندر مودی کو راتوں کو خواب میں ڈرا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تین بار ثالثی کی پیشکش کرچکے ہیں۔ امریکہ کے 27 ارکانِ کانگریس مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہارکرچکے ہیں، ان میں 25 کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، اور ان میں اگلے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کے مخالف امیدوار برنی سینڈرز بھی شامل ہیں۔ ان ڈیموکریٹک ارکان میں سابق نائب صدر جوبائیڈن بھی شامل ہیں۔ کانگریس کے تین مسلمان ارکان آندرے کارسن، رشیدہ طلیب اور ایلہان عمر نے بھی بھارتی رویّے پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو فوجی زون بنادیا گیا ہے، مساجد بند ہیں اور ہر قسم کی آزادی سلب کردی گئی ہے۔ امریکی کانگریس کی واحد چینی نژاد رکن جوڈی چئیو نے بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقوق بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چینی وزیر خارجہ بھارت کا دورہ منسوخ کرکے پاکستان آکر مسئلے کی سنگینی پر بحث کرچکے ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ کی امورِ خارجہ کمیٹی نے کشمیر کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کے پانچ اگست کے اقدام کی مذمت کی ہے۔ اجلاس میں بھارت سے فوری کرفیو ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ کمیٹی نے پانچ اگست کے اقدامات واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ جبکہ یورپی یونین سے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر ردعمل ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ بھارت نے اس اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو زیربحث آنے سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے برسلز کا ہنگامی دورہ کرکے اپنے ہم منصب سے ملاقات کی، مگر یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ کمیٹی کی طرف سے اس کوشش کو پذیرائی نہیں ملی، اور ایس جے شنکر کو چار گھنٹے بعد ہی بے نیل و مرام لوٹنا پڑا۔ ملائشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کے ساتھ نریندر مودی کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے حوالے سے ملائشیا کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سب سے اہم موضوع کشمیر ہی رہا۔ ایران کے راہبر آیت اللہ علی خامنہ ای کے کشمیر کے حوالے سے دوٹوک بیانات پر بھارت کا میڈیا حیر ت کا اظہار کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میچیل بیچیلیٹ نے بھی مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال میں نرمی لاکر عوام کے بنیادی حقوق بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ ہائی کمشنر کا یہ جملہ معنی خیز تھا کہ یہ اہم ہے کہ ایسی فیصلہ سازی میں کشمیریوں کی رائے لی جائے جس سے اُن کا مستقبل جڑا ہو۔ ہائی کمشنر کا یہ جملہ انسانی حقوق سے آگے کی بات ہے جو مسئلے کے سیاسی پہلو کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر ہونے والی بحث نے بھارت کو مزید دفاعی پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔ اس فورم پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کا مقدمہ زوردار انداز سے پیش کیا، جبکہ بھارتی وفد کی سربراہ وجے ٹھاکر سنگھ پابندیوں میں نرمی کرنے کی یقین دہانیاں اور وضاحتیں کرتی رہیں۔
سفارتی محاذ پر بھارت کو پے در پے شکست کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کو یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ ایک طرف بھارت مقبوضہ کشمیر کو جیل بنائے ہوئے ہے اور اب اس عمل کو ڈیڑھ مہینہ ہونے کو ہے، تو دوسری طرف وہ خود کو عالمی برادری میں معصوم اور مظلوم بناکر پیش کررہا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر اس وقت بھی دنیا سے کٹا ہوا ہے، بلکہ گلی محلوں کو باہم کاٹ دیا گیا اور لوگ ایک دوسرے کے حالات سے قطعی بے خبر ہیں۔ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ بھارت اس کی معقول وجہ بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ بھارت نے اس حوالے سے جو عذرہائے لنگ تراش رکھے ہیں دنیا انہیں اہمیت نہیں دے رہی۔ مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز قیادت کی گرفتاری نے بھارت کو مزید بے نقاب کردیا ہے کہ جو ملک اپنے حامیوں کو بھی مخالفین کی طرح ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خرابی دوسرے میں نہیں خود اس ملک کی پالیسیوں میں ہے۔ بھارت حالات پر اپنی گرفت قائم کرنے کا دعویٰ کررہا ہے مگر بھارت کے مشیر برائے قومی سلامتی اور کشمیر میں اسرائیل اسٹائل کے حکمت کار اجیت دوول کا یہ کہنا کہ کشمیر میں پابندیوں میں کمی پاکستان کے رویّے پر منحصر ہے۔ اجیت دوول کے اس اندازِ فکر پر خود بھارت کے دانا وبینا حلقوں نے سوال اُٹھایا ہے کہ کیا اب بھارت کشمیر کو اپنی پالیسی کے بجائے پاکستان کے زاویے سے دیکھ رہا ہے ؟اس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کے حالات پر بھارت کے بجائے پاکستان کی گرفت ہے۔یہ حالات پر گرفت کے دعوے کا مذاق ہے۔حقیقت میںکشمیر بھارت کے ہاتھوںسے مچھلی کی طرح پھسل رہا ہے۔بھارت اس حقیقت سے غافل نہیں، یہی وجہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ختم کرنے سے گریز کررہا ہے۔