جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کا ذمہ دار کون؟۔

۔ “ایک قومی نظریہ” یا “دو قومی نظریہ”۔

بھارت کے وزیراعظم نے پاکستان کی نظریاتی اساس پر حملہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو قومی نظریہ علاقے میں دہشت گردی کا ذمے دار ہے۔ دو قومی نظریہ اسلام کے سوا کچھ نہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ مودی نے اسلام کو خطے میں دہشت گردی کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ بدقسمتی سے ہندو قیادت صدیوں سے ظلم اور جھوٹ کا کاروبار کررہی ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کا ذمے دار ’’ایک قومی نظریہ‘‘ ہے، ’’دو قومی نظریہ‘‘ نہیں۔
عمران خان نریندر مودی کو ہٹلر کا مماثل قرار دے رہے ہیں، اور بلاشبہ ہٹلر اور مودی میں مماثلت موجود بھی ہے، مگر ہمیں مودی کو ہندو تاریخ کے اندر سے پکڑنا چاہیے۔ ہندو تاریخ کے دو مرکزی کردار ہیں: رام اور راون۔ رام خیر کے نمائندے ہیں اور راون شر کا ترجمان ہے۔ راون ہندو اور سری لنکا کا بادشاہ تھا۔ وہ رام کی بیوی سیتا پر عاشق ہوا اور سیتا کو اغوا کر کے سری لنکا لے گیا۔ راون نے رام کی بیوی کو اغوا کیا، اور مودی رام کے ورثے ہندوستان کی روح کو اغوا کیے ہوئے ہے۔ چنانچہ ہندو تاریخ کے تناظر میں وہ عہدِ حاضر کا راون ہے۔ عمران خان مودی کو عہدِ حاضر کا راون کہہ کر پکاریں گے تو ہندوستان کے کروڑوں لوگ گواہی دیں گے کہ مودی واقعتاً عہدِ جدید کا راون ہے۔ اگر رام آج کے زمانے میں ہوتے تو وہ مودی کے خلاف اسی طرح جنگ لڑتے جیسے انہوں نے راون کے خلاف جنگ لڑی۔ غور کیا جائے تو راون ایک قومی نظریے کی تاریخ کا پہلا بڑا جنسی دہشت گرد تھا۔ لیکن یہ تو گفتگو کی محض ابتدا ہے۔
ہندوازم میں چار ذاتیں ہیں: برہمن، شتریہ، ویش اور شودر۔ اصل ہندو ازم میں ذاتوں کی یہ تقسیم روحانی یا نفسیاتی ہے۔ یعنی برہمن انسان کی ایک روحانی یا نفسیاتی قسم ہے۔ شتریہ بھی انسان کی ایک روحانی اور نفسیاتی قسم کا نام ہے۔ ویش اور شودروں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ مگر جس طرح یہودیوں نے ذاتی اور طبقاتی اغراض کے لیے اپنی مذہبی تعلیمات کو مسخ کیا، اسی طرح ہندوئوں نے ذات پات کے نظام کو اس کی اصل سے کاٹ کر ’’نسلی‘‘ بنادیا۔ حالانکہ مہا بھارت میں صاف لکھا ہے کہ ایک برہمن کے گھر شودر اور شودر کے گھر برہمن پیدا ہوسکتا ہے۔ برہمن ہندوازم میں تقویٰ اور علم کی یکجائی کی علامت ہے، اور یہ علامت کسی بھی برہمن، شتریہ، ویش یا شودر کے گھر میں پیدا ہوسکتی ہے۔ اسی طرح شودر روحانی اور نفسیاتی اعتبار سے وہ شخص ہے جس میں روحانی اور نفسیاتی ارتقا کا امکان نہیں، اور وہ صرف جسمانی محنت کرسکتا ہے۔ ایسا شخص برہمن کے گھر میں بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ شتریہ، ویش اور شودر کے گھر میں بھی اس کا ورود ہوسکتا ہے۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ برہمنوں نے تو اپنی مذہبی اور روحانی تعلیمات تک کو ’’تعبیری دہشت گردی‘‘ یا ’’علمی دہشت گردی‘‘ سے آلودہ کردیا۔ اس دہشت گردی کی ’’ہولناکی‘‘ کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ پانچ ہزار سال سے کروڑوں شودر اور دلت غلاموں سے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔
مہاتما بدھ کو خود ہندو بھی پیغمبر یا اوتار مانتے ہیں، مگر برہمنوں نے روحانی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہاتما بدھ کو ’’ملیچھ اوتار‘‘ یا ناپاک پیغمبر قرار دیا۔ چونکہ بدھ ازم میں ذات پات کا تصور موجود نہیں ہے، اور بدھ ازم سے ’’برہمن ازم‘‘ کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے تھے، اس لیے اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے بدھ ازم کے پیروکاروں کو ہندو ازم کے مرکز یوپی اور بہار میں قدم نہ جمانے دیے۔ یہی وجہ ہے کہ بدھ ازم کے مراکز کے پی کے میں ہیں، افغانستان میں ہیں… مگر یوپی، بہار اور بنگال میں ان کا کوئی مرکز موجود نہیں۔ برہمنوں نے روحانی، نفسیاتی اور نظریاتی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدھ ازم اور اس کے پیروکاروں کو جنوبی ایشیا کے ’’مضافات‘‘ میں دھکیل دیا۔ مودی کبھی ایک قومی نظریے کی اس دہشت گردی پر بھی تو غور کرے۔
مہاتما گاندھی ایک قومی نظریے کے سب سے بڑے علَم بردار تھے۔ وہ اہنسا یا ’’عدم تشدد‘‘ کے فلسفے پر یقین رکھتے تھے۔ مگر اس سلسلے میں اُن کا رویہ اس شعر جیسا تھا:۔

خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

اس کی ایک مثال گاندھی کے ساتھی اور گاندھی پر “Gandhi As I Know Him” کے مصنف اندولعل کنہیا لعل یاج نِک نے اپنی تصنیف میں پیش کی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ اردو میں ’’پیرسابرمتی‘‘ کے عنوان سے ہوچکا ہے جو ظفر احمد انصاری صاحب نے کیا ہے۔ اندولعل لکھتے ہیں:۔
۔’’گاندھی نے فرمایا: ہندوستان میں حکومتِ برطانیہ کی بدنظمیوں اور خرابیوں میں ان کا یہ کارنامہ سیاہ ترین ہے کہ انہوں نے پوری (ہندوستانی) قوم کو اسلحہ سے محروم کردیا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلحہ کے قانون کو منسوخ کیا جائے اور ہم ہتھیاروں کے استعمال سے واقف ہوجائیں تو یہ ہمارے لیے ایک زریں موقع ہے۔‘‘ ۔
(’پیر سابر متی‘۔ مترجم: ظفر احمد انصاری۔ صفحہ 92)
یہاں سوال یہ ہے کہ گاندھی جب تشدد پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے تو انہوں نے اسلحہ سے ہندوستانی قوم کی محرومی کا ماتم کیوں کیا ہے؟ اور وہ اس بات کی تمنا کرتے ہوئے کیوں پائے جاتے ہیں کہ کاش ہندوستانی قوم کے پاس اسلحہ ہو؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گاندھی کا عدم تشدد کا فلسفہ کوئی روحانی یا اخلاقی اصول نہیں تھا بلکہ یہ صرف گاندھی کی ’’مجبوری‘‘ تھا۔ ہندو قوم پر نسائی رجحانات کا غلبہ نہ ہوتا اور اس کے پاس مسلح مزاحمت کا راستہ ہوتا تو گاندھی عدم تشدد کے فلسفے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے۔ گاندھی کی یہ جعلی روحانیت اُس وقت پوری طرح آشکار ہوئی جب ہندوئوں نے شدھی اور سنگٹھن کی تحریکیں چلا کر مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی سازش کی۔ اس صورت حال پر مولانا محمد علی جوہر چیخ اٹھے اور انہوں نے 1930ء میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آخر گاندھی ان ہندو تنظیموں کی مذمت کیوں نہیں کرتے جو اسلام اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے کام کررہی ہیں۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ ایک قومی نظریے کے علَم بردار گاندھی اور ان کے پیروکار 1930ء کی دہائی میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی میں ملوث تھے۔ فرق یہ تھا کہ شدھی اور سنگٹھن کی تحریکیں مسلمانوں کے خلاف ’’پُرشور دہشت گردی‘‘ کررہی تھیں، اور گاندھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ’’خاموش دہشت گردی‘‘ میں ملوث تھے۔
گاندھی نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے خلاف ’’لسانی دہشت گردی‘‘ کا بھی بھرپور مظاہرہ کیا۔ انہوں نے فارسی اور اردو کو قومی زندگی سے خارج کرنے، اور ان کی جگہ ہندی رائج کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ چلیے فارسی تو ’’غیرملکی‘‘ تھی، مگر اردو تو جنوبی ایشیا میں ہی پیدا ہوئی۔ اس کی لغت میں جہاں عربی اور فارسی کا حصہ ہے وہیں اردو کے 30 سے 40 فیصد الفاظ ہندی سے آئے ہیں۔ مگر گاندھی نے اس کے باوجود اردو کو قبول نہ کیا اور اس کے خلاف سازشیں جاری رکھیں۔ یہ ایک قومی نظریے کے علَم بردار گاندھی کی ’’لسانی دہشت گردی‘‘ ہی کا تسلسل ہے کہ ہندوستان سے اردو مٹتی چلی جارہی ہے۔
ایک قومی نظریے کے علَم بردار گاندھی اور نہرو کی ذاتی زندگی بھی دہشت گردی سے پاک نہ تھی۔ اس زندگی میں کہیں جنسی دہشت گردی ہے، کہیں جذباتی دہشت گردی۔ قائداعظم کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ نے گاندھی پر بھی ایک کتاب لکھی ہے۔ کتاب کا عنوان ہے “Gandhi,s Passion”۔ اس تحقیقی کتاب میں والپرٹ نے لکھا ہے کہ گاندھی اپنے نفس کی آزمائش کے لیے عریاں لڑکیوں کو اپنے بستر پر سلاتے تھے اور وہ اپنی بیوی کستوریہ بائی کو ’’ماں‘‘ کہا کرتے تھے۔ یہ صنفی، جنسی، اخلاقی اور جذباتی تشدد کی صورتیں ہیں۔ نہرو ایک جانب لارڈ مائونٹ بیٹن کی بیوی لیڈی مائونٹ بیٹن سے افیئر چلا رہے تھے جس کے چرچے عام تھے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ایک ہندو عورت اور سروجنی نائیڈو کی بیٹی پدما پر بھی فریفتہ تھے۔ ایک دن نہرو نے حد کردی۔ وہ لیڈی مائونٹ بیٹن کو لے کر پدما کے گھر پہنچ گئے۔ پدما نے نہرو کو لیڈی مائونٹ بیٹن کے ساتھ دیکھا تو اس نے ناراض ہوکر خود کو کمرے میں بند کرلیا۔
۔(روزنامہ دنیا کراچی۔ 5 ستمبر 2019ء۔ صفحہ 10)۔
انسان کی اخلاقی زندگی اس لیے اہم ہوتی ہے کہ اخلاقی زندگی کا اثر انسان کی خواہشات، رویوں، طرزِعمل اور حکمتِ عملی پر بھی پڑتا ہے۔ یعنی انسان کی جیسی اخلاقی حالت ہوتی ہے اُس کی سیاست، یہاں تک کہ اُس کی محبت اور نفرت بھی ویسی ہی ہوتی ہے۔ گاندھی اور نہرو کی اخلاقی زندگی کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہونے والے مسلم کُش فسادات میں 10 لاکھ مسلمان کیوں شہید ہوئے۔ 80 ہزار سے زیادہ مسلم خواتین کیوں اغوا ہوئیں؟۔
ہم نے یہاں ان فسادات کو جنہیں ہمارا انگریزی اور اردو پریس بڑے شوق سے ’’ہندو مسلم فسادات‘‘ کہتا ہے، ’’مسلم کُش فسادات‘‘قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ تاریخی ہے۔ مسلمانوں کے مقابلے پر ہندو اتنی بڑی اکثریت تھے کہ اگر مسلمان چاہتے بھی تو وہ ’’ہندو مسلم فسادات‘‘ کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد جو فسادات ہوئے وہ ہندوئوں کی کارستانی تھے۔ یہ فسادات سیاسی دہشت گردی بھی تھے، مذہبی دہشت گردی بھی تھے، نسلی دہشت گردی بھی تھے۔ اس دہشت گردی کے درمیان مسلمانوں کا کردار دفاعی تھا۔ وہ تعداد میں اتنے کم تھے کہ دفاع کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ بہت کم مقامات ایسے ہیں جہاں مسلمانوں نے واقعتاً ہندوئوں یا سکھوں پر ظلم کیا ہو۔ یہ ظلم بھی بڑی حد تک ردعمل کی نفسیات کا حامل تھا۔ اتفاق سے اس منظرنامے میں بھی ایک قومی نظریہ ہی دہشت گردی میں ملوث نظر آتاہے۔
بھارت کی سیاسی، معاشی اور اقتصادی دہشت گردی سے پورا جنوبی ایشیا اور بھارت کے تمام پڑوسی سخت مشکل میں ہیں۔ بھارت پاکستان سے چار جنگیں لڑ چکا ہے۔ چین کے ساتھ اس کی جنگ ہوچکی ہے، اور اگر اس جنگ میں چین نے بھارت کو ہزیمت سے دوچار نہ کیا ہوتا تو بھارت چین سے بھی اب تک کئی جنگیں لڑ چکا ہوتا۔ بھارت سری لنکا کی خانہ جنگی میں ملوث رہا ہے، اسی لیے ایک تامل عورت نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو قتل کیا تھا۔ بھارت مالدیپ میں فوج اتار چکا ہے۔ نیپال ہندو ریاست ہے مگر بھارت کبھی اس کا پیٹرول بند کردیتا ہے، کبھی کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی روک دیتا ہے۔ نیپال نے نیا آئین بنایا تو بھارت نے کہا کہ آئین بھارت کی مرضی سے بنے گا۔ نیپال نے اس کا برا منایا تو بھارت نے نیپال کی ناکہ بندی کردی۔ بھارت بھوٹان کو اپنا صوبہ سمجھتا ہے۔ بنگلہ دیش کی تخلیق میں بھارت کا کردار فیصلہ کن ہے، مگر بھارت نے کبھی بنگلہ دیش کو آزاد نہ ہونے دیا۔ وہ آج بھی بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنائے ہوئے ہے۔ مودی بتائے کہ پاکستان سے اس کے کتنے پڑوسی پریشان ہیں؟ اور پاکستان نے اپنے کتنے پڑوسیوں کو اپنا صوبہ یا اپنی کالونی بنایا ہوا ہے؟ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کا ذمہ دار کون ہے؟ ایک قومی نظریہ یا دو قومی نظریہ؟۔
دو قومی نظریے کے علَم بردار قائداعظم سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ پاکستان بھارت تعلقات کا مستقبل کیا ہے؟ قائداعظم نے کہا کہ ہمارے تعلقات ویسے ہی ہوں گے جیسے کہ امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات ہیں۔ یہ دو قومی نظریے کے حامل رہنما کی رائے تھی۔ ایک قومی نظریے کی حامل کانگریسی قیادت کی رائے یہ تھی کہ پاکستان چلنے والی ریاست نہیں۔ یہ ریاست آٹھ دس مہینے میں ناکام ہوجائے گی اور مسلمان ہمارے پاس بھاگے بھاگے آئیں گے اور کہیں گے ہمیں دوبارہ انڈین یونین کا حصہ بنا لو۔ مگر چونکہ کانگریسی قیادت کا تجزیہ غلط ثابت ہوگیا اس لیے بھارت کی ہندو قیادت نے پاکستان کو توڑنے کے ہدف کو اپنا مستقل ایجنڈا بنا لیا، یہاں تک کہ 1971ء میں بھارت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا مرکزی حوالہ بن گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال میں دہشت گردی کا مرکز کہاں تھا؟ ایک قومی نظریے میں یا دو قومی نظریے میں؟۔
ایک قومی نظریے کی دہشت گردانہ سوچ کا ایک مظہر بھارت کے مظلوم مسلمان ہیں۔ بھارت نے ان مسلمانوں کو کچلنے کے لیے 72 سال میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کُش فسادات کرائے ہیں۔ ان فسادات کا ایک پہلو معاشی دہشت گردی سے متعلق ہے۔ ہندو قیادت بھارت کے جس علاقے میں مسلمانوں کو پھلتا پھولتا دیکھتی ہے وہاں فساد کراکے مسلمانوں کی تجارت، کاروبار اور ہنرمندی کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی 20 فیصد ہے، مگر بھارت کی پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی دو فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ سیاسی دہشت گردی بھی ہے اور جمہوری دہشت گردی بھی۔ ایک وقت تھا کہ بھارت کی سب سے پسماندہ اور عسرت زدہ کمیونٹی شودر تھے۔ اب مسلمان ہیں۔ اسی لیے بھارت کے مسلمانوں کو ’’نئے شودر‘‘ کہا جانے لگا ہے۔
مولانا آزاد نے اپنی تصنیف “India Wins Freedom” میں لکھا ہے کہ 1947ء کے دوران دِلّی میں مسلم کُش فسادات ہورہے تھے اور معزز سے معزز مسلمان کو بھی نہیں بخشا جارہا تھا۔ اس فضا میں مولانا آزاد مسلسل بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے کہہ رہے تھے کہ کچھ کرو۔ مگر نہرو ہمیشہ یہی کہتا: میں نے وزیرداخلہ سردار پٹیل سے کئی بار کہا ہے کہ فسادات کو روکو مگر وہ کچھ کرتا ہی نہیں۔ نہرو کی یہ بے بسی ’’اتفاقی‘‘ نہیں تھی۔ نہرو خود مسلم کُش فسادات رکوانا نہیں چاہتے تھے، ورنہ ایک وزیر داخلہ وزیراعظم کی بات کو کیسے ٹال سکتا تھا؟ نہرو کا یہی ورثہ اندرا گاندھی، نرسمہا رائو اور نریندر مودی کو منتقل ہوا۔ اندرا گاندھی نے کسی بڑے مسلم کُش فساد کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ جس دن بابری مسجد شہید ہوئی کانگریس کا وزیراعظم نرسمہا رائو اس روز پورے دن سوتا رہا۔ گجرات میں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا، حاملہ مسلم خواتین کے پیٹ چیر دیے گئے، مگر مودی نے کسی ریاستی ادارے کو فسادات میں مداخلت کرکے انہیں روکنے سے باز رکھا۔ چنانچہ دو ہزار مسلمان مار دیے گئے۔ مودی بھارت میں مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ سے ایک گجرات کیا، گجرات کا سایہ نکال کر دکھائے۔ ان معاملات سے بھی ظاہر ہے کہ دہشت گردی کا مرکز کہاں ہے؟۔
بدقسمتی سے ایک قومی نظریے کے علَم برداروں نے الفاظ تک کو تیروں، نیزوں، گولیوں اور بموں کی طرح استعمال کیا ہے۔ مودی سے ایک بار ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کے مرنے پر افسوس نہیں ہوتا؟ مودی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اگر آپ کی کار کے نیچے کتے کا پِلّا آجائے تو آپ کو افسوس تو ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مودی کے نزدیک تمام مسلمان کتے کے پلے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے یوپی کا وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ ایک جلسے میں موجود تھا۔ اس جلسے میں بی جے پی کے ایک رہنما نے کہا کہ اگر مسلمان خواتین کو قبروں سے نکال کر Rape کرنا پڑے تو ضرور کرنا چاہیے۔ پاک بھارت کشیدگی کے حالیہ دنوں میں بھارت کے کئی رہنمائوں نے کہا کہ ان کی ریاست میں خواتین کی کمی ہے، سنا ہے کشمیری خواتین خوبصورت ہوتی ہیں اس لیے ہم اب کشمیر سے دلہنیں لائیں گے۔ اب مودی نے فرمایا ہے کہ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کا ذمے دار دو قومی نظریہ یعنی اسلام ہے۔ 1971ء میں اندرا گاندھی کو دو قومی نظریہ شدت سے یاد آیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے آج دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ یہ لفظی، معنوی اور لسانی دہشت گردی کی بدترین مثالیں ہیں۔ مودی مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ سے کوئی ایسی ایک مثال نکال کر دکھائے۔
ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ فلم کا میڈیم صرف تفریح کے لیے ہے، بالخصوص ہالی وڈ اوربالی وڈ کی فلموں میں تفریح کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ مگر جس طرح امریکہ نے ہالی وڈ کی فلموں کو ابلاغی دہشت گردی کے طور پر استعمال کیا ہے اسی طرح بھارت نے بالی وڈ کی فلموں کو پاکستان کے خلاف ابلاغی دہشت گردی میں تبدیل کردیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہالی وڈ کی ایک ہزار فلموں میں مسلمانوں کا کردار منفی ہے۔ یہ تحقیق ہالی وڈ کی گزشتہ 100سالہ تاریخ سے متعلق ہے۔ بدقسمتی سے بھارت اس تاریخ سے بدتر تاریخ تخلیق کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بھارت نے گزشتہ دس پندرہ برسوں میں دو درجن سے زیادہ پاکستان مخالف فلمیں تخلیق کر ڈالی ہیں۔ ان میں سے ایک کردار مودی کی زبان استعمال کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ پاکستان اتنا چھوٹا سا ہے کہ اگر تمام بھارتی اس کی طرف منہ کرکے پیشاب کردیں تو پاکستان پیشاب سے پیدا ہونے والے سیلاب میں غرق ہوجائے گا۔ یہ ایک ڈائیلاگ نہیں گاندھی، نہرو، پٹیل، اندراگاندھی اور مودی کے ہندوستان کا باطن ہے… غلیظ، حقیر اور شیطانی۔ دو قومی نظریے کے حامل پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کی اخلاقی حالت بھی اچھی نہیں، مگر انہوں نے کبھی ایک قومی نظریے کے علَم برداروں کی پستی کو نہیں چھوا۔
کھیل سے زیادہ غیرسیاسی کام دنیا میں کوئی نہیں ہے، مگر بھارت نے کھیل کو بھی سیاسی بلکہ دہشت گردی بنا دیا ہے۔ پہلے بھارت نے پاکستان سے کرکٹ کھیلنا بند کی، آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کا داخلہ بند کیا، یہاں تک کہ اب سری لنکا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آرہی تھی تو بھارت نے سری لنکا کے اہم کھلاڑیوں کو دھمکی دی کہ تم پاکستان گئے تو آئی پی ایل نہیں کھیل سکو گے۔ چنانچہ سری لنکا کے دس کھلاڑیوں نے پاکستان آنے سے انکار کردیا۔ ان حقائق سے ثابت ہے کہ جدید بھارت گزشتہ 100 سال سے روحانی طور پر بیمار ہے، نفسیاتی طور پر بیمار ہے، ذہنی طور پر بیمار ہے، جذباتی طور پر بیمار ہے، تہذیبی اعتبار سے مریض ہے، تاریخی اعتبار سے سرطان زدہ ہے۔ تھوڑی بہت غلاظت دنیا کی ہر قوم کی قیادت میں ہوتی ہے، مگر لگتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی طرح بھارت کی قیادت کی ذہنیت بنی ہی غلاظت سے ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی ہر زمانے کی فوجی اور سول قیادت احمقوں پر مشتمل رہی ہے، اس لیے کہ اس قیادت نے بھارت کو “Normal” ملک سمجھا، حالانکہ بھارت گزشتہ 100 سال سے Abnormal ملک ہے۔ اس Abnormal ملک میں گائے محفوظ اور مسلمان غیرمحفوظ ہیں۔ اس منظرنامے میں ہمیں جنرل حمید گل مرحوم کی دختر نیک اختر عظمیٰ گل کے ایک حالیہ مضمون میں موجود قائداعظم سے منسوب فقرہ یاد آگیا۔ قائداعظم نے کہا تھا:
“We shall have India divided or India destroyed”
۔(روزنامہ جنگ کراچی۔ صفحہ 3۔ 13ستمبر 2019ء)۔
اگر یہ فقرہ قائداعظم ہی کا ہے تو ان کی بصیرت کی داد دینی پڑے گی۔ جس طرح انہوں نے چند مشاہدات اور تجربات سے دو قومی نظریے کی ضرورت اوراہمیت کو سمجھا اسی طرح انہوں نے صرف ایک سال کے تجربے سے یہ جان لیا کہ بھارت کا حجم نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے، یہاں تک کہ خود ہندوستان کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔ آج پاکستان ہی نہیں، پورا جنوبی ایشیا ہندوستان کی شیطنت اور ایک قومی نظریے کی دہشت گردی سے پریشان ہے۔ چنانچہ بھارت کی مزید تقسیم یا بھارت کی تباہی ہی پورے جنوبی ایشیا کو پُرامن اور پُروقار بنا سکتی ہے۔ اس مسئلے کا ایک اور حل ہے: پورے بھارت پر اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ۔ اسلام کے غلبے نے ایک ہزار سال تک برصغیر کو پُرامن اور خوشحال رکھا ہے، اور آئندہ بھی اسلام اور اسلام کے پیروکار ہی برصغیر کو پُرامن اور خوشحال رکھ سکتے ہیں۔ اتفاق سے اس غلبے کی منطق اور جواز خود ہندو قیادت کی سو سالہ تباہ کن سیاست نے پیدا کیا ہے۔