پاکستانی معیشت آئی ایم ایف کے سفّاک سُود خوروں کے شکنجے میں

پاکستان کی معیشت آنے والے دو سال میں شدید دباؤ کا شکار رہے گی

گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچا۔ یہ وفد ارنسٹو رمیریزو کی سربراہی میں 4 روزہ دورے پر پاکستان آیا ہے جو وزیراعظم عمران خان، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور معاشی ٹیم کے دیگر سینئر ارکان سے ملاقاتیں کرے گا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کے تحت موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی معاشی کارکردگی پر بات چیت ہوگی۔ آئی ایم ایف سے سالانہ ٹیکس ہدف سمیت بعض مشکل معاشی اہداف پر نظرثانی کی درخواست بھی کی جا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کو کرنٹ اکائونٹ خسارے اور تجارتی خسارے میں کمی، اخراجات میں کفایت شعاری اور ٹیکس محاصل سے متعلق بریفنگ دی جائے گی۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ایکشن پلان پر عمل درآمد پر بھی بریفنگ دی جائے گی۔ وفد 20 ستمبر تک پاکستان میں قیام کرے گا۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وفد پاکستان کو دیے گئے معاشی اہداف کا ہوم ورک چیک کرنے آیا ہے۔ یہ بات پہلے دن سے ہی طے تھی کہ جیسے جیسے آئی ایم ایف مطمئن ہوگا اسی حساب سے اگلی قسط ملتی چلی جائے گی۔ آئی ایم ایف کا وفد اپنے مطالبات پورے کیے جانے اور ایف اے ٹی ایف کے تحت اقدامات اٹھانے کا جائزہ لینے اسلام آباد پہنچا ہے، اسے اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ پاکستان کی معیشت مشرقی سرحدوں پر بھارت اور مغربی سرحد پر امریکہ کی وجہ سے غیر معمولی دبائو میں ہے، حالیہ تین ہفتوں میں ان سرحدوں پر پاک فوج کے درجنوں فوجی شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ وفد کے ارکان اپنے دورے کے دوران پاکستان کے مختلف محکموں کا دورہ کرنے کا پروگرام اپنے ساتھ لائے ہیں۔ پاکستان کے دورے پر آنے والے وفد کی حیثیت غیر معمولی ہے، اسے اسٹاف لیول کا نام دیا جاسکتا ہے۔ وفد پاکستان اس لیے آیا کہ معاہدے کے وقت جن بنیادی شرائط کے تحت ضروری اہداف دیے گئے تھے وہ پورے ہوئے یا نہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا پیکیج لیا تھا جس کی پاکستان کو 99 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط جولائی میں موصول ہوئی تھی، اور دوسری قسط اُس وقت ملے گی جب پاکستان کا دورہ کرنے والا یہ وفد اپنی مثبت رپورٹ دے گا۔ حکومت نے اس وفد کی آمد کا مقصد معاشی مشاورت بتایا ہے، لیکن وفد کو سب سے پہلے اکٹھے کیے جانے والے ٹیکس پر بھی بریفنگ دی جائے گی۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو مالی خسارہ کم کرنے کا ہدف دیا تھا۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دو سال میں شرح سود ساڑھے سات فیصد بڑھی ہے اور حکومتی بانڈز کی شرحِ سود بھی مسلسل بڑھ رہی ہے، شرحِ سود بڑھنے سے مقامی قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف کا یہ ایس او ایس مشن ہے، جو بجٹ خسارے، ٹیکس وصولی، معاشی اصلاحات پر تجاویز دے گا، اور بجٹ اہداف کے حصول میں معاونت فراہم کرے گا۔ آئی ایم ایف کا وفد توانائی کے شعبے میں پاکستان کو درپیش نقصانات کم کرنے کا بھی جائزہ لے گا اور اقدامات تجویز کرے گا۔ آئی ایم ایف یہ بات کررہا ہے کہ پاکستان کو خسارہ کم کرنا اور آمدن بڑھانا ہوگی۔ آئی ایم ایف کے خیال میں ٹیکس آمدن بڑھے گی تو ترقیاتی منصوبوں کو فنڈز ملیں گے۔ آئی ایم ایف کا مشن وفد ڈائریکٹر جنوبی اور وسطی ایشیا کی سربراہی میں پہنچ کر اپنی جائزہ رپورٹ کی تیاریوں میں مصروف ہوچکا ہے۔ وہ مالی خسارہ کم کرنا چاہتا ہے، جب کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک معاشی بحران سے نکل رہا ہے۔ سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ حکومت نے مالی سال 19-2018ء میں 3 ہزار 440 ارب روپے قرض لیا، حکومت نے قرضہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے لیا۔ جب کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ گزشتہ سال 500 ارب روپے قرض سرکاری اداروں کی مالی ضروریات کے لیے لیا گیا، بھاری کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے روپے کی قدر میں کمی کرنا پڑی۔ جبکہ مالی سال 19-2018ء میں قرضوں اور ادائیگیوں کی مد میں 10 ہزار 330 ارب روپے اضافہ ہوا۔ حکومت کا مؤقف جو بھی ہو، لیکن حکومت اسلام آباد پہنچنے والے آئی ایم ایف کے اس وفد کی رپورٹ سے خوف زدہ ہے۔ اگر رپورٹ مثبت نہ دی گئی تو اگلی قسط جاری کرانے کے لیے حکومت کو اپنا نیا معاشی پلان دینا پڑے گا۔ کیونکہ حکومت اس وقت ٹیکس محاصل کے اہداف کو حاصل نہیں کرپائی اور تین ماہ میں اس میں مزید کمی کا امکان ہوسکتا ہے، اسی لیے حکومت نے نج کاری کی جانب بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے اور 20 اداروں کی تشکیل ِنو اور 10اداروں کی نجکاری کی جائے گی، جن میں نیشنل بینک اور اسٹیٹ لائف جیسے ادارے ابتدائی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔ یہ ضرورت اس لیے بھی پیش آئی ہے کہ حکومت اس وقت کرنٹ اکائونٹ خسارے میں الجھی ہوئی ہے، اگرچہ اس میں 73فیصد کمی دیکھنے کو ملی ہے لیکن بجلی اور گیس چوری نے حکومت کو مسلسل گھاٹے میں رکھا ہوا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایک سو ارب روپے کی بجلی چوری پر قابو پالیا ہے، لیکن حیدر آباد، سکھر، کے پی کے، لاہور اور بلوچستان میں بجلی چوری ابھی تک نہیں ختم نہیں ہوسکی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے وقت یہ بات طے پائی تھی کہ ٹیکس اصلاحات کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک حکومت کو قرض دے گا، لیکن ابھی تک اس جانب کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے، ابھی بات چیت ابتدائی مرحلے میں ہے۔
حکومت ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے شدید دبائو میں ہے، اور اہداف سے کم ٹیکس اکٹھا ہونے کی وجہ سے دبائو بڑھ رہا ہے۔ ایک سال ہوچکا ہے، تحریک انصاف حکومت میں ہے، لیکن آج بھی یہی کہہ رہی ہے کہ مسائل ورثے میں ملے ہیں، جب کہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ پیپلزپارٹی کے دور میں کابینہ کا حصہ تھے، وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مسائل ورثے میں ملے۔ یہ حکومت یوٹرن کی آکاس بیل میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کو ایک اچھی حکمت عملی سمجھتی ہے۔ بجٹ کے وقت کہا گیا کہ ٹیکس اہداف آٹھ ہزار ارب روپے تک لے جائیں گے، اب کہا جارہا ہے کہ ریونیو کے لیے پانچ ہزار پانچ سو ارب روپے کا ہدف ہے۔ حکومت کی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ ساڑھے 13 ارب ہے۔ وزارتِ خزانہ دعویٰ کررہی ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 73 فیصد کمی کی گئی ہے۔ سالانہ بجٹ کے بعد پہلے چار ماہ کے دوران حکومت اب تک گیارہ سو ارب ٹیکس اکٹھا کر سکی ہے، اور رفتار یہی رہی تو سال کے آخر تک چوالیس سو ارب ہی ٹیکس اکٹھا ہوسکے گا جبکہ ہدف پچپن سو ارب کا رکھا گیا ہے۔ اگر یہی نتائج ملے تو حکومت کو سال کے آخر میں ٹیکس اہداف میں ایک ہزار ارب کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ملک کے معاشی حالات دیکھ کر اندازہ یہی ہے کہ سال کے آخر میں نتائج مختلف نہیں ہوں گے۔ حکومت ٹیکس اہداف میں پندرہ فی فیصد اضافے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن یہ نہیں بتارہی کہ ڈالر کی قیمت بڑھ جانے کے باعث وہ پہلے سے بھی آدھا ہدف حاصل کرسکی ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ٹیکس فائلر 19 لاکھ تھے، اب 25 لاکھ ہوگئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ٹیکس ایمنسٹی سے فائدہ اٹھایا ہے، اس کے بعد کتنے نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں آئے ہیں وہ اعدادو شمار تو بتائے نہیں جارہے۔ آئی ایم ایف کے وفد کی آمد سے ایک روز قبل یہ اعلان کیا گیا کہ حکومت متعدد اداروں کی نج کاری کرنے جارہی ہے جن میں نیشنل بینک اور اسٹیٹ لائف انشورنس بھی شامل ہے۔ نج کاری کے لیے 10 کمپنیاں نشانے پر رکھ لی گئی ہیں۔ بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو بھی نجکاری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ حکومت اگلے تین ماہ کے اہداف کے لیے جس 200 ارب کی اضافی رقم مل جانے کی امید لگائے بیٹھی ہے یہ رقم ملک میں معاشی سرگرمی کی وجہ سے نہیں بلکہ دو سیلولر کمپنیوں کے لائسنس کی میعاد میں تجدید کے بعد ملنی ہے۔ اور نج کاری سے 300 ارب روپے ملنے کی امید ہے، یوں نج کاری اور نان ٹیکس ریونیو کو ملا کر ہمیں1000 ارب روپے حاصل ہوں گے، اور دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ملک میں انوسٹمنٹ آ رہی ہے۔
ملکی معیشت کو اس حد تک پہنچانے میں جہاں ہماری حکومتوں کی نااہلی کا دخل ہے، وہیں عالمی مالیاتی اداروں کے غیر سودمند مشوروں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان اداروں کے ڈکٹیشن نما احکام اور ان کے ناروا قرضوں کے باعث ہی ہمیں مالی خسارے کا سامنا ہے۔ ٹیکسوں کا سارا بوجھ عام آدمی کی طرف منتقل ہورہا ہے۔ اس وقت اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو ملک زراعت اور ترسیلاتِ زر کی وجہ سے چل رہا ہے، حکومتوں نے کاروباری طبقے کے ساتھ حریف سیاست دانوں جیسا سلوک کیا، نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے اپنے کارخانے اور فیکٹریاں بند کردیں اور سرمایہ باہر لے گئے۔ پاکستان سی پیک کی 45 بلین ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کو سب سے بڑی سرمایہ کاری قرار دے رہا ہے، جب کہ چین نے ایران میں توانائی، ٹرانسپورٹ اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں 410 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، اس پر ایران میں کسی قسم کا شور نہیں ہے۔ باور کیا جارہا ہے کہ عالمی سطح پر معاشی بحران کی بڑی وجہ چین امریکہ تجارتی تنازع ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں چین کی 300 ارب ڈالر کی الیکٹرونکس اور دیگر مصنوعات پر یکم ستمبر 2019ء سے 10 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی لگا دی ہے۔ ردعمل میں چین نے وہی فیصلہ کیا جس کے نتیجے میںعالمی کساد بازاری بڑھ رہی ہے۔ رہی سہی کسر بریگزٹ اور امریکہ کے عالمی تنازعات نے پوری کردی ہے۔ اس وقت دنیا کی معیشت کو عالمی معاشی بے یقینی کے باعث شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا، تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں، کرنسیوں کی قیمت میں عدم استحکام، امریکہ اور چین کے مابین تجارت اہم فیکٹر ہیں اور پاکستان بھی اس وجہ سے براہِ راست متاثر ہوا ہے۔ حکومتی قرضوں اور غیر ملکی قرضوں میں اضافے کی وجہ بھی یہی ہے۔ حکومتی اداروں میں پاکستان اسٹیل ملز، واپڈا، ریلوے اور پی آئی اے معاشی دبائو کا ایک بڑا سبب ہیں۔رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں سرگرمی تھی، ایف بی آر کے نئے قانون کی وجہ سے اس شعبے سے تعلق رکھنے والا سرمایہ کار اب اپنے غیر ظاہر شدہ پیسے رئیل اسٹیٹ کاروبار میں استعمال نہیں کر سکتا جس کی وجہ سے یہ شعبہ اور اس سے منسلک 40دیگر شعبے بھی مندی کا شکار ہیں۔ آزاد معاشی رائے کے مطابق اگر پاکستان نے اس عرصے میں مؤثر اصلاحات نہیں کیں تو آئندہ پانچ سال میں ہماری قومی پیداوار 2.5فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ 13.25فیصد ہونے کی وجہ سے بینکوں کے لینڈنگ ریٹس 16سے 17فیصد تک ہوگئے ہیں جس پر کوئی نئی صنعت لگانا ممکن نہیں، لہٰذا آنے والے وقت میں نئی صنعتوں میں سرمایہ کاری نہایت مشکل نظر آتی ہے جس سے نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا نہیں ہو سکیں گے اور ملک میں بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوگا۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی پیش گوئیاں بھی اس بات کا عندیہ دیتی ہیں کہ پاکستان کی معیشت آنے والے دو سال میں شدید دبائو کا شکار رہے گی۔پاکستان کی معیشت اس وقت آئی ایم ایف کے سودخوروں کے شکنجے میں ہے جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ مؤثر معاشی اصلاحات کرکے پاکستان کو تیز جی ڈی پی گروتھ والے ممالک میں شامل کرے۔ آئی ایم ایف نے عالمی تجارتی تنازعات اور معاشی بے یقینی کی بنیاد پر 2020ء میں دنیا میں معاشی سست روی کی پیشگوئی کی ہے۔ آئی ایم ایف نے ممبر ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ آپس کے تنازعات کو ٹیرف کے ذریعے ہدف بنانے کے بجائے اِنہیں باہمی مذاکرات سے حل کریں۔ آئی ایم ایف کی عالمی سرگرمیوں کے باعث پوری دنیا میں رواں سال معاشی گروتھ 3.2 فیصد اور اگلے سال 2020ء میں 3.5فیصد متوقع ہے۔