سعودی تیل تنصیبات پر حملہ اور خطے پر منڈلاتے جنگ کے خطرات

سعودی عرب میں دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو پر ہفتہ 14 ستمبر کو ہونے والے ڈرون حملوں کے اثرات نہایت تیزی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں، اور عالمی امن کا ٹھیکیدار امریکہ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے اور خطے کو جنگ کے شعلوں کی نذر کرنے کے لیے بھرپور کوشش کررہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے حملے کے فوری بعد الزام عائد کردیا کہ آرامکو کے دو پلانٹس پر حملوں میں ایران براہِ راست ملوث ہے، امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو فون کرکے تیل تنصیبات کی حفاظت کے لیے مدد کی پیشکش کی، صدر ٹرمپ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ہمیں مجرم کا اندازہ ہے اور ہم حملوں کا جواب دینے کے لیے بھی ہر لمحہ تیار ہیں مگر ہم چاہتے ہیں کہ سعودی عرب حملوںکے مجرم کا تعین خود کرے۔ امریکہ نے اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر بھی جاری کردی ہیں۔ اسرائیل نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ابقیق میں آئل فیلڈ پر حملے میں عراق کی سرزمین استعمال کی گئی، عراقی ملیشیا نے ایرانی ساختہ ڈرون طیاروں کی مدد سے ابقیق کی تنصیب پر حملہ کیا۔ تاہم ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکی الزام کو مسترد کرتے ہوئے اسے صریحاً دھوکے بازی قرار دیا ہے۔ جب کہ دوسری جانب یمن کے حوثی باغیوں نے ان ڈرون حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے، مگر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ حملوں کا ذمہ دار ایران ہی ہے۔ اس پس منظر میں اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی ٹیلی فون پر سعودی تنصیبات کے تحفظ کے لیے مدد کی پیشکش پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اس قسم کی جارحیت سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چین نے اس صورتِ حال میں نہایت معقول رویہ اختیار کرتے ہوئے امریکہ اور ایران دونوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ نے بیان دیا کہ جامع تحقیقات کے بغیر الزام عائد کرنا غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے، چین کشیدگی کو بڑھانے والے تمام اقدامات کی مخالفت کرتا ہے۔ روس نے اس معاملے میں ایران کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ روسی صدر کے ترجمان نے اپنے ملک کا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ عالمی طاقتیں جلد بازی میں کوئی نتیجہ اخذ کرکے ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہو۔ ایران کے خلاف طاقت کا کسی بھی قسم کا استعمال قابلِ قبول نہیں۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے بھی معقولیت کا طرزِعمل اختیار کرتے ہوئے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو ذمے دار ٹھیرانے سے قبل حقائق کو جاننا انتہائی ضروری ہے، برطانیہ اس گھڑی میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے، سیٹلائٹ تصاویر حملے کے ذمے دار کے حوالے سے واضح نہیں ہیں، ہم چاہتے ہیں ہمارے سامنے تصویر واضح ہو۔ جرمن وزیر خارجہ ہیکوماس کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے خطے میں تنائو میں اضافہ ہوگا۔ فرانسیسی حکومت کے ترجمان نے بھی صورت حال کو پریشان کن قرار دیا، انہوں نے کہا کہ فرانس اس گھڑی میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔ امیر کویت شیخ صباح الاحمد الصباح اور فلسطینی صدر محمود عباس نے سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے اور سعودی عرب کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجیرک نے فریقین سے کہا ہے کہ وہ ضبط و تحمل سے کام لیں۔
یہ امر اطمینان بخش ہے کہ عالمی برادری نے اس نازک موقع پر آنکھیں بند کرکے امریکہ کی تائید کرتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے کے بجائے معقولیت کا رویہ اختیار کیا ہے، ورنہ ماضی گواہ ہے کہ اسی طرح کی فضا پیدا کرکے کس طرح عراق اور کویت میں جنگ کرائی گئی، پھر گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد فوری طور پر اسامہ بن لادن اور طالبان کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے پوری دنیا کو ساتھ لے کر افغانستان پر یلغار کردی گئی، اس طرح عراق پر حملے کے لیے زہریلی گیس کے استعمال کا بہانہ تراشا گیا۔ حالانکہ یہ تمام الزامات آج تک ثابت نہیں کیے جا سکے۔
موجودہ حالات میں پاکستان کی ذمہ داریوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے سعودی ولی عہد سے بروقت رابطہ کیا ہے۔ انہیں دیگر مسلم ممالک کے قائدین سے بھی رابطہ کرکے مؤثر سفارت کاری کے ذریعے فریقین کے جذبات ٹھنڈے کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اور جس طرح بھی ممکن ہو خطے کو جنگ کی آگ سے بچانے اور امن و استحکام کے لیے مؤثر اقدامات روبہ عمل لائے جانے چاہئیں، کیونکہ جنگ اسلحہ فروشوں کے سوا کسی کے مفاد میں نہیں۔ عراق، افغانستان، لیبیا اور شام وغیرہ میں ہونے والی تباہی سے سبق حاصل کیا جانا چاہیے، اور اس تباہی کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے فریقین کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنے پر متوجہ کیا جانا چاہیے۔

۔(حامد ریاض ڈوگر) ۔