۔’لغت‘ مذکر یا مونث؟۔

کشمیر کے مسئلے پر ایک جملہ عموماً سننے میں آتا ہے اور فرائیڈے اسپیشل کے ایک اداریے میں بھی جگہ پا گیا کہ ’’کشمیر پر کسی تیسرے ثالث کی ضرورت…‘‘ ضرورت ہے یا نہیں، یہ الگ مسئلہ ہے، لیکن ’’تیسرا ثالث‘‘ تو خود ایک مسئلہ ہے کہ ثالث کہتے ہی تیسرے کو ہیں۔ کہیں کوئی دوسرا ثالث اور چوتھا ثالث نہ لکھ دے۔ ثلث کا مطلب ہے تیسرا حصہ۔ عیسائیوں کا عقیدہ تثلیت تو سنا ہی ہوگا۔
لغت مذکر ہے یا مونث، ہم ایک عرصے سے اُلجھن میں ہیں۔ ایک بار لکھ دیا تھا کہ یہ مذکر ہے ایک ماہرِ لسانیات نے ڈانٹ دیا کہ کیا اس میں تائے تانیث نظر نہیں آرہی، یہ مذکر کیسے ہوگئی؟ ہم نے اپنے ہی کان دبا لیے۔ ویسے بعض لغات اتنی ضخیم ہوتی ہیں کہ انہیں مونث کہنا مناسب نہیں لگتا۔ اب اگر لغت دیکھیے تو اس میں بھی یہ مذکر ہے۔ ’نوراللغات‘ میں اس کے مذکر ہونے کی دلیل میں اساتذہ کے اشعار بھی دیے گئے ہیں۔ مثلاً بحرؔ کا شعر ہے:۔

خورشید میں نے اُس کو نہ لکھا تو کیا عجب
میری کتاب میں یہ لغت منتخب نہ تھا

ایک اور شعر ہے:۔

توحید کردگار کی فرہنگ ڈھونڈ دیکھ
ہرگز لغت نہیں ہے عدیل و سہیم کا

لغت کا مطلب ہے کسی قوم کی زبان۔ اصطلاح میں وہ الفاظ جن کے معنی مشہور نہ ہوں، بولی، زبان، لفظ وغیرہ۔ ممکن ہے درج بالا اشعار میں لغت بطور لفظ آیا ہو۔ لغت کی جمع لغات بھی مذکر ہے۔ اس اُلجھن کو سلجھانے کے لیے ہم نے اردو کے ایک مستند استاد جناب رئوف پاریکھ کی کتاب ’’لغوی مباحث‘‘ کا بڑی توجہ اور شوق سے مطالعہ کیا کہ اب تو برہانِ قاطع یا پکی دلیل مل جائے گی۔ یہ موقر کتاب بنیادی طور پر لغت نویسی اور اردو لغات کے تعارف و تبصروں پر مشتمل ہے۔ اس کے دیباچے میں ناشر جناب تحسین فراقی نے لغت کو مذکر لکھا ہے ’’بعد کے کئی اہم لغت‘‘۔ تحسین فراقی خود بھی سند ہیں۔ تاہم مصنف رئوف پاریکھ خود طے نہیں کرپائے کہ لغت مذکر ہے یا مونث۔ چنانچہ صفحہ 13 پر لکھتے ہیں ’’مختصر منظوم لغات تھیں‘‘۔ ’’ایسی منظوم لغت…‘‘ گویا لغت مونث ہے۔ صفحہ 113 پر بھی لغت کو مونث قرار دیا گیا ہے۔ جملہ ہے ’’فیلن کی مرتبہ لغات‘‘۔ اسی طرح صفحہ 169 پر ہے ’’ایسی ضخیم اور جامع لغات‘‘۔ اس سے ظاہر ہے کہ رئوف پاریکھ کے خیال میں لغات مونث ہے۔ ہماری اُلجھن اور بڑھ گئی جسے محترم رئوف پاریکھ سلجھا سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں پنجاب میں ایک وکیل احمد مختار نے اپنے اختیار کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ایک خاتون پولیس اہلکار کو تھپڑ مار دیا۔ پولیس نے رپورٹ تو درج کرلی لیکن مجرم کا نام غلط لکھا۔ اس بنیاد پر احمد مختار کی کھڑے کھڑے ضمانت ہوگئی۔ ایک گمان یہ کیا گیا کہ تھانہ محرر یا تھانہ انچارج نے دانستہ طور پر نام غلط لکھا، یا ممکن ہے کہ ’’دہ جماعت پاس ڈائرکٹ حوالدار‘‘ ہو۔ کبھی پولیس کی رپورٹیں دیکھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ لکھنے والے دہ جماعت (دسویں جماعت) پاس بھی نہیں۔ اس کی ایک مثال 10 ستمبر کو روزنامہ ڈان میں پولیس کی طرف سے شائع کیے گئے اشتہارات ہیں۔ ممکن ہے کچھ دیگر انگریزی اخبارات میں بھی شائع ہوئے ہوں۔ یہ مغویوں کی تلاش اور مجرموں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی درخواستیں تھیں۔ یہ یقین کرلیا گیا تھا کہ جن کے لیے اشتہارات شائع کیے جارہے ہیں وہ لازماً انگریزی جانتے ہوں گے۔ اشتہارات کا عنوان ہے ’’اخباری اشتہار‘‘۔ گویا صرف اشتہار لکھنا کافی نہیں تھا۔ اہم بات ان اشتہارات میں دیے گئے نام ہیں۔ مثلاً ’’محمد مصعود، مرزا عبدالمطین، عبدالسمی‘‘۔ اشتہارات ایک ڈی ایس پی وجاہت حسین کے نام سے جاری ہوئے ہیں۔ اس منصب پر فائز پولیس افسر کے بارے میں یہ توقع غلط تو نہیں کہ وہ پڑھے لکھے ہوں گے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے یہ کام کسی اور کے سپرد کردیا ہے۔ اب اگر اشتہارات میں مذکور افراد دستیاب بھی ہوجائیں تو کیا احمد مختار وکیل والا معاملہ نہیں ہوگا؟ اشتہارات میں ایک دلچسپ اصطلاح ’’پتہ رسی‘‘ کی ہے، یعنی کسی کو پتا ہو تو مطلع کرے۔ پتہ رسی زبان میں اہم اضافہ ہے۔
اخبارات خود بھی زبان میں اضافے کررہے ہیں، مثلاً الفاظوں، واقعاتوں۔ ’’غدودان معدہ‘‘ تو جسارت کے ایک کالم میں چھپا ہے، جب کہ غدود خود غدّہ کی جمع ہے۔ ’’کام کا دائرہ کار‘‘ تو عموماً پڑھنے میں آتا ہے۔ کیا ’’کار‘‘ کام ہی کو نہیں کہتے؟ اقبالؒ کا مصرع ہے ’’کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر‘‘۔ گوکہ ہمارے خیال میں یہ گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔ چلیے فارسی کا مصرع لے لیتے ہیں ’’ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کند‘‘۔ کوئی ہم سے مطلب نہ پوچھے کہ ہمیں فارسی نہیں آتی۔ ویسے فارسی میں کہتے ہیں ’’کاربکثرت‘‘۔ یعنی کام خوب کرنے سے آتا ہے۔ یہاں ’کسرت‘ نہیں ہے، گو کہ وہ بھی لگاتار کرنے سے کام دکھاتی ہے۔ چلیے ایک آسان سا شعر سن لیں: ۔

ہمیں بھی ناز ہے اس رحمدل کی کار سازی پر
بگڑ جائے جو بگڑا ہے سنبھل جائے گا کار اپنا

لیکن کیا ’’کارساز‘‘ کے لیے رحم دل کی ترکیب مناسب ہے؟ کار آزمودہ، کار آفریں وغیرہ اردو میں مستعمل ہیں۔
’اقدامات کرنا‘ کے بجائے ’’اقدامات اٹھانا‘‘ اخبارات میں عام ہے، جب کہ قدم اٹھائے جاتے ہیں۔ 16 ستمبر کے ایک اخبار میں ’’انتظامات اٹھانا‘‘ نظر سے گزرا۔ صحافی بھائی آزاد ہیں جو چاہے اٹھالیں۔ 16 ستمبر کے جسارت کی سرخی ہے ’’تیل صاف کرنے والی ریفائنریز‘‘۔ ریفائنری ریفائن سے ہے یعنی صاف کرنے والی۔ انگریزی کا لفظ ہے ری۔ فائن یعنی دوبارہ صاف کرنا۔ اس پر یاد آیا کہ یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے ’’دوبارہ ریپیٹ کریں‘‘، ’’دوبارہ ری رائٹ کریں‘‘۔ یہ انگریزی سے ہمارا انتقام ہے۔
آخر میں ایک جید عالم حضرت مفتی منیب الرحمن کی طرف سے حوصلہ افزائی کا شکریہ۔ انہوں نے روزنامہ دنیا اور جسارت میں شائع ہونے والے اپنے کالم بعنوان ’’زبان و بیان اور محاورات‘‘ میں نہ صرف ہماری تائید کی بلکہ مزید کئی ایسے محاورات کی نشاندہی کی جو عام ہوچکے ہیں لیکن ان کا استعمال ایک مسلمان کے لیے جائز نہیں۔ اسی میں اضافہ کرتے ہوئے ایک اور اصطلاح کی طرف توجہ دلانا مناسب ہوگا، اور وہ ہے ’’زید، بکر، عمر‘‘۔ یہ نام ایرے غیرے کے معنوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ انگریزی میں اس کے لیے ’’ٹام، ڈک اینڈ ہیری‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں یعنی کوئی بھی عام شخص۔ لیکن مسلمانوں کے لیے یہ تینوں نام نہایت محترم ہیں، اور یہ جید صحابہ کرام کے اسماء ہیں۔ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم تو پہلے اور دوسرے خلیفۃ الرسول تھے، اور سیدنا زیدؓ بھی صحابیِ رسولؐ تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی کی شرارت ہے جو ہم نے جوں کی توں قبول کرلی ہے۔ ان کی جگہ کوئی اور نام بھی لیے جاسکتے تھے، مثلاً جمن، کلن، لڈن وغیرہ۔ صحابہ کرام کی ایسی توہین گوارہ نہیں کی جاسکتی۔ ویسے تو جمن، کلن، لڈن نام بھی بعض لوگ رکھ لیتے ہیں، لیکن یہ بگڑے ہوئے نام ہیں، اصل نہیں۔ تو کیوں ناں ’’ہریا، چریا، پرسا‘‘ کہا جائے۔
محترم مفتی منیب الرحمن نے اس محاورے پر صحیح گرفت کی ہے کہ ’’محبت اور جنگ میں سب جائز ہے‘‘۔ یہ احمقانہ جملہ ذرائع ابلاغ میں بہت عام ہے، جب کہ رسولِؐ رحمت نے جنگ کے اصول وضع کردیے ہیں کہ اس میں بھی سب کچھ جائز نہیں۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سے تعرض نہ کیا جائے، دشمن کے پھل دار درخت اور کھیت نہ اجاڑے جائیں۔ فتحِ مکہ بہت بڑی فتح تھی، لیکن اُس وقت بھی یہ کہہ دیا گیا تھا کہ جو اپنے گھر کے دروازے بند کرلے اُس سے لڑائی نہ کی جائے۔ ایسے ہی محبت میں سب کچھ جائز ہونے کی بات گمراہ کن ہے جس کا پورے معاشرے پر منفی اثر پڑا ہے اور اس کے شواہد آئے دن نظر آتے ہیں۔
پچھلے کسی کالم میں ہم نے ’’تقاضہ‘‘ لکھ دیا تھا۔ صحیح املا ’’تقاضا‘‘ ہے۔ قارئین ہوشیارباش۔