سینیٹر سراج الحق کا دورۂ کوئٹہ

جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق 15 ستمبر کو کوئٹہ پہنچے اور 17 کو لوٹ گئے۔ کشمیر مارچ کے حوالے سے ماحول کو گرمانے کے لیے جماعت اسلامی نے ان کا پروگرام بنایا تھا۔ ائرپورٹ پر کارکنوں نے ان کا استقبال کیا، اور جماعت اسلامی یوتھ کے نوجوانوں نے انہیں ائرپورٹ سے موٹر سائیکلوں کے جلوس میں مختلف شاہراہوں سے گزرتے ہوئے فیڈرل لاج پہنچایا۔ امیر محترم نے صوبائی قیادت سے ملاقاتیں کیں اور حالات سے آگاہی حاصل کی۔ جماعت اسلامی یوتھ کے لیڈر اور جماعت اسلامی کوئٹہ کے ذمہ داران ملاقاتیں کرتے رہے۔ شام کو امیر جماعت اسلامی نے مشوانی قبائل کے جرگے سے خطاب کیا۔ اس جرگے کا اہتمام جناب جمیل احمد مشوانی نے کیا تھا۔ سراج الحق نے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اور صدرِ محترم کشمیریوں کے حوالے سے کوئی واضح پیغام نہیں دے سکے۔ 13 ماہ سے ملک معاشی ابتری کی جانب تیزی سے گامزن نظر آرہا ہے۔ آئی ایم ایف نے اعلان کردیا ہے کہ اگلے سال اور مشکل ہوں گے۔ حکومت ضد چھوڑ کر ملک کی معاشی حالت کو درست کرنے کی طرف توجہ دے۔ ملک گمبھیر مسائل میں گھر گیا ہے، ہم سب کو مل بیٹھنا ہوگا تاکہ بحران سے نکل سکیں۔ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور مظلوم کشمیریوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے، اور اب مودی مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا صوبہ بنانے کے بعد آزاد کشمیر کے خلاف سازشیں کررہا ہے جبکہ ہماری حکومت کوئی واضح پیغام نہیں دے سکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے اور دنیا خاموش ہے۔ انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کو 20 سال کے لیے ٹیکس فری صوبہ بنایا جائے تاکہ تاجر برادری اس طرف آسکے۔ امیر صوبہ نے بھی اس جرگے سے خطاب کیا۔
15 ستمبر کو امیر محترم کا دن زیادہ مصروفیت کا رہا۔ صبح سے ہی مختلف وفود ملاقاتیں کرتے رہے۔ 11 بجے ان کا ایک طویل انٹرویو ’آزادی‘ کے لیے ریکارڈ کیا گیا۔ ’آزادی‘ نے اپنی نئی ویب سائٹ کھولی ہے۔ روزنامہ آزادی اور انگلش روزنامہ بلوچستان ایکسپریس نے صدیق بلوچ کی زیر ادارت آغاز کیا، اُن کی وفات کے بعد اُن کے صاحبزادگان نے اس کی اشاعت کو جاری رکھا ہے۔ روزنامہ آزادی بلوچستان کے حقوق اور مسائل کے حوالے سے بہتر ترجمانی کررہا ہے۔ آزادی کی ویب سائٹ نے جناب سراج الحق کا انٹرویو لیا، اس کی ریکارڈنگ 40 منٹ سے زیادہ رہی۔ اس ریکارڈنگ کے دوران میں بھی موجود تھا اور سوالات اور جوابات کو غور سے سنتا رہا۔ اس دلچسپ انٹرویو کا ایک سوال بلوچستان کے حوالے سے تھا کہ جماعت اسلامی نے اس حوالے سے کیا کردار ادا کیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں میری تقاریر موجود ہیں، بلوچستان کے مسائل اور حقوق کے حوالے سے پوری ترجمانی کی ہے، کوئی اس حوالے سے جماعت اسلامی پر اعتراض نہیں کرسکتا ،اور نہ موردِ الزام ٹھیرا سکتا ہے کہ ہم صرف کشمیر کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، ہم نے بلوچستان کے مسائل پر بھی آواز اٹھائی ہے، ریکوڈک کے حوالے سے ہمارا مؤقف بہت واضح ہے۔ میرا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کو 20 سال کے لیے ٹیکس فری زون قرار دیا جائے تاکہ صنعت کار اس حصے کا رُخ کریں۔ اس سے بلوچستان کی معاشی حالت درست ہوجائے گی اور یہاں کے لوگوں کو بہترین روزگار فراہم ہوگا۔ یہ ایک دلچسپ انٹرویو تھا۔ اس کے بعد فیڈرل لاج میں ظہرانے کا اہتمام تھا۔ امیر محترم کے ساتھ فیڈرل لاج کے کینٹین کی طرف گیا تو وہاں رند قبیلے کے سردار یار محمد رند کو موجود پایا۔ وہ شاید پہلے سے یہاں مقیم تھے۔ ان کے مسلح باڈی گارڈ بھی موجود تھے۔ انہوں نے کھانے سے پہلے اپنی کہانی شروع کردی۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں قبائلی تصادم اور دشمنی میں بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ بگٹی رئیسانی کشمکش، رند اور رئیسانی کشمکش اور تصادم، جتک اور رئیسانی کشمکش۔ نواب ثناء اللہ اور مینگل تصادم۔ ان قبائلی نفرتوں اور خونریزی کی داستان سے صوبہ آشنا ہے۔ یار محمد رند دبے دبے الفاظ میں نواب غوث بخش رئیسانی کے حوالے سے اپنی داستان سنا رہے تھے۔ محترم سراج الحق خاموشی سے اس کو سنتے رہے۔ میرا خیال ہے کہ سراج الحق صاحب بلوچستان کی ان قبائلی رنجشوں اور تصادم سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں، اس لیے اس داستان کو سن بھی رہے تھے اور خاموشی سے ظہرانے سے بھی لطف اندوز ہورہے تھے۔ ان کا کھانا پر تکلف تھا، باقی مہمانوں کو شاید اس گفتگو سے زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ انہوں نے زیادہ توجہ گفتگو کے بجائے کھانے پر مرکوز رکھی۔ سردار یار محمد رند مسلسل اپنی ہی کہانی سناتے رہے، یوں امیر محترم نے اجازت لی اور نمازِ ظہر ادا کرنے مسجد کی طرف چلے گئے۔
15 ستمبر کو کشمیر اور بلوچستان کے حوالے سے کشمیر مارچ تھا۔ گھر پہنچا، کچھ آرام کیا، اور اس کے بعد موٹر سائیکل پر جلسے کو دیکھنے نکلا تو ریلوے ہاکی گرائونڈ کے چوک کے قریب لوگ جمع ہورہے تھے۔ وہ بلوچستان کے دور دراز ضلعوں سے اس لانگ مارچ میں شریک ہونے آرہے تھے اور گاڑیاں ریلوے اسٹیشن کے اطراف کھڑی کررہے تھے، اور ویگنوں پر جماعت اسلامی کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ گوادر کے ساحل سے لے کر ژوب، ڈیرہ بگٹی سے لے کر تربت تک کارکنان اپنے اپنے امیر کی قیادت میں جمع ہورہے تھے۔ یہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ جماعت اسلامی کے اکثر و بیشتر اضلاع کے ارکان اور کارکنان کوئٹہ کی طرف محوِ سفر تھے۔ اس کشمیر مارچ میں شرکت کے لیے جعفر آباد سے آنے والے کارکنوں کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا۔ اُن کی ویگن ٹائر پھٹنے سے الٹ گئی اور ایک کارکن خدا بخش موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے، جبکہ دیگر 10 کے قریب زخمی ہوگئے تو انہیں فوراً لاڑکانہ روانہ کردیا گیا تاکہ بروقت علاج ہوسکے۔ امیر محترم نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے کارکن کو شہید قرار دیا اور اُن کی مغفرت کے لیے اجتماعی دعا کی۔ کارکن خدا بخش جماعت اسلامی بلوچستان کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری عبدالمجید کے قریبی عزیز تھے۔
اس جلسے کا انتظام ضلع کچہری کوئٹہ کے چوک پر کیا گیا تھا۔ امیر محترم جناب سراج الحق کی سربراہی میں مارچ کرتا ہوا جلسہ گاہ پہنچا تو اس سے قبل نمازِ عصر جلسہ گاہ میں ادا کی گئی۔ لانگ مارچ کا جلوس 6 بجے کے قریب پہنچ گیا۔ قائدین اسٹیج پر بیٹھ گئے تو جلسے کی کارروائی تلاوتِ قرآن کریم سے شروع کی گئی۔ نائب امراء خطاب کرتے رہے۔ مغرب سے کوئی 20 منٹ پہلے امیر محترم نے خطاب شروع کیا اور وقت ڈھلنا شروع ہوگیا، اور دھیرے دھیرے اندھیرا چھانے لگا۔ مغرب کی اذان فضا میں بلند ہونا شروع ہوئی تو امیر محترم نے خطاب کو سمیٹ لیا۔ اُن کی تقریر کشمیر، حکومت کی معاشی اور داخلہ پالیسی سے متعلق تھی۔ شرکاء بڑے احترام سے تقریر سنتے رہے۔ جلسہ گاہ میں بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے آئے لوگوں سے رونق نظر آرہی تھی۔ اب جلسوں میں عام شہری شریک نہیں ہوتے بلکہ جو پارٹی جلسہ کرتی ہے اس کے کارکنان ہی نظر آتے ہیں۔ اب 1970ء والی رونق ختم ہوگئی۔ اب عوام اس قسم کے جلسوں میں دلچسپی نہیں لیتے۔ جلسے کے اختتام پر اعلان ہوا کہ اضلاع سے آئے کارکنان اپنی اپنی بسوں کی طرف چلے جائیں اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجائیں۔ جلسے کے بعد امیر محترم فیڈرل لاج پہنچے تو وہاں بھی یوتھ فورس کے نوجوان ہی نظر آرہے تھے۔ اس لحاظ سے اس کی اہمیت تھی کہ پورے صوبے سے اضلاع کی اکثریت شامل تھی۔ اور پھر جلسہ ختم ہوا تو یہ تمام لوگ اپنی اپنی منزل کی جانب رات کی سیاہی میں محوِ سفر ہوگئے۔