سندھ میں دھن، دھونس اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے وفاق جو چال بھی چلے گا اس سے وفاق کو نقصان ہوگا، اور اس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچے گا
سوال یہ نہیں ہے کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 194(4) کے تحت کراچی میں کارروائی کرنے کا خیال وزیر قانون جناب فروغ نسیم کا ذاتی ہے، یا وزیراعظم کا، جنہوں نے اُن کی سربراہی میں کراچی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے۔ بلکہ بنیادی سوال یہ ہے کہ وفاق اس آرٹیکل کے نفاذ سے وہ مقاصد اور اہداف حاصل کر پائے گا، جنہیں حاصل کرنے کے لیے اس کا سہارا لینے کا شور و غوغا مچایا جارہا ہے؟ پاکستان میں اس طرح کے اقدامات کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ 1953ء میں جب کسی قانونی جواز کے بغیر منتخب وزیراعظم خواجہ ناظم الدین (مرحوم) کو برطرف کرکے امریکہ میں پاکستان کے سفیر چودھری محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم بناکر ایک غلط روایت کی بنیاد رکھی گئی تھی، تب سے اب تک پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں فرد کی ذاتی ’’دانش‘‘ اور خواہش کی بنیاد پر حکومتوں کو کرپشن سے پاک کرنے، اور خراب حکمرانی کی جگہ اچھی حکمرانی قائم کرنے کا ’’نسخہ‘‘ حکومتوں کو غیر مستحکم اور ختم کرکے بار بار آزمایا جاتا رہا ہے۔ نتیجہ ہر بار زیادہ کرپشن اور زیادہ خراب حکمرانی کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان قومی یک جہتی کو پہنچتا ہے۔ قائداعظم کا پاکستان 1971ء میں اسی خبط میں مبتلا ذاتی دانش اور خواہشات کی بھینٹ چڑھ کر دولخت ہوگیا تھا۔ دوسرا سوال جو آئینی اور قانونی ماہرین اٹھا رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہمارے وزیر قانون جو خود ایک بڑے وکیل اور پاکستان کے ایک بڑے نیک نام قانون دان کے بیٹے ہیں اس شق کے ایک شہر پر اطلاق کا جواز قانون کی اعلیٰ عدالتوں میں کیسے دے پائیں گے؟ کیونکہ آئین کی اس شق کا تعلق صوبے کے معاملات سے ہے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے تو ایک ٹی وی انٹرویو میں اس پر ہلکے پھلکے انداز میں یہ تبصرہ بھی کردیا ہے کہ جناب فروغ نسیم کے لیے ’’آئین کی یہ شق بڑی پسندیدہ ہے‘‘۔
سندھ کے حالات کے حوالے سے اس زمینی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ بدنصیب صوبہ آج سے نہیں بلکہ چار عشروں سے خراب حکمرانی کا شکار ہے ۔ ابتدا اس کی 1971ء کے بعد سے ہوگئی تھی۔
1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد بننے والی تمام حکومتیں اس کی ذمہ دار ہیں، خاص طور پر وزیر قانون فروغ نسیم کی جماعت ایم کیو ایم کا کراچی کو اس حال تک پہنچانے میں کلیدی کردار ہے۔ وہ 1988ء سے 2013ء تک صوبہ سندھ اور وفاق میں بننے والی سول اور فوجی حکومتوں میں نہ صرف شامل رہی ہے بلکہ حکومتیں بنانے اور گرانے میں وہ اسٹیبلشمنٹ کی آلۂ کار رہی ہے۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے 1988ء سے 2013ء تک تمام انتخابات سندھ میں نسلی اور لسانی بنیاد پر نفرت کو ہوا دے کر لڑے اور جیتے ہیں، اور یہ جماعتیں طاقت ور سول اور فوجی حکمرانوں کی ذاتی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنیں۔ کراچی کو طاقت وروں نے اپنی وقتی ضرورتوں اور ذاتی خواہشات کے لیے تجربہ گاہ بنا رکھا ہے۔ ایم کیو ایم کل بھی ان کی سہولت کار تھی اور آج بھی یہی کام کررہی ہے، جس کا لازمی نتیجہ زیادہ کرپشن، زیادہ خراب حکمرانی اور زیادہ قومی وسائل کی بندر بانٹ کی شکل میں سامنے آرہا ہے اور آتا رہے گا۔ مگر اس کا حل اب کسی ’’اتائی‘‘ نما نسخے کو آزمانے میں نہیں ہے۔ اس کا واحد حل آئینِ پاکستان کی طے کردہ اُن حدود و قیود کی پابندی کرنے میں ہے جو آئین نے صوبوں اور وفاق کے درمیان معاملات کو درست رکھنے کے لیے طے کردی ہیں۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ اس کا مقصد اب سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے یا ختم کرنے کے لیے فارورڈ بلاک کی کوششوں میں ناکامی کے بعد 194(4) کا سہارا لے کر پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس راستے سے فارغ کرنے کے تاثر کا ہے، اس تاثر کو تقویت وفاقی حکومت کے ترجمانوں کے متضاد بیانات نے دی ہے۔ البتہ اس سے پیپلزپارٹی کی قیادت کو اپنے آپ کو ان الزامات سے بیل آئوٹ کرانے میں مدد ملی ہے، جن کا سامنا پارٹی کو سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے بعد کرنا پڑرہا تھا۔ اب اندرونِ سندھ کے لوگ نجی محفلوں میں بھی سینیٹ کے چیئرمین کو منتخب کرانے میں آصف علی زرداری کے اعلانیہ کردار کو زیر بحث لا رہے ہیں اور نہ ہی مبینہ طور پر خفیہ اشارے پر لگنے والے اس الزام پر بحث کررہے ہیں۔ آخری لمحوں میں تحریک عدم اعتماد کی ناکامی میں پیپلزپارٹی کے ارکانِ سینیٹ میں سے کس کس نے پارٹی سے غداری کی اور قیادت سے وفاداری نبھائی، یا ’’چمک‘‘ کے عوض ضمیر کا سودا کیا تھا، پیپلز پارٹی کو اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے اور نیب کے کرپشن کے الزامات کو انتقامی کارروائی باور کرانے کا سنہری موقع ہاتھ آگیا ہے۔ اب پیپلزپارٹی کے بڑے سے بڑے مخالف کے لیے بھی 194(4) کی حمایت کرنا ممکن نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ اسمبلی سے اس کے خلاف قرارداد پاس کرانے میں کامیاب بھی ہوگئی ہے۔
اور تو اور، جی ڈی اے کے سربراہ، حروں کے روحانی پیشوا اور مسلم لیگ فنکشنل کے صدر پیر پگارا بھی چیخ پڑے ہیں، اور انہوں نے اس آئیڈیا کو مکمل طور پر مسترد کرکے الٹا فروغ نسیم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسلام آباد سے دارالحکومت کراچی واپس منتقل کرنے کا مطالبہ کریں، کیوں کہ کراچی سے دارالحکومت کسی قانونی جواز کے بغیر 1958ء کے مارشل لا آرڈر کے تحت ماورائے آئین اقدام کے ذریعے منتقل کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ مؤقف موجودہ پیر پگارا کے والدِ محترم (مرحوم) پیر پگارا ’’ہفتم‘‘ پیر مردان علی شاہ کا بھی تھا۔ وہ بھی جب وفاق سے ناراض ہوتے تھے تو دارالحکومت کی منتقلی کے مضمرات کو اپنی میڈیا ٹاک کا موضوع بنایا کرتے تھے۔ اسلام آباد سے کراچی دارالحکومت کی منتقلی تو اب ممکن ہے اور نہ ہی آسان۔ اس پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ مگر سندھ میں دھن، دھونس اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے وفاق جو چال بھی چلے گا اس سے وفاق کو نقصان ہوگا، اور اس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچے گا۔ عین ممکن ہے کہ وفاقی حکومت کے ترجمانوں کے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت تبدیل کرنے کی مکمل تیاری کے عاقبت نااندیش بیانات لاڑکانہ شہر کی صوبائی نشست پی ایس 11 کے ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی کے امیدوار کی پوزیشن مضبوط کردیں۔ واضح رہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد اس نشست پر دوبارہ ضمنی انتخاب ہورہا ہے۔ جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں اس نشست پر پیپلزپارٹی کی امیدوار ندا کھوڑو کو شکست ہوگئی تھی۔ ان کے مقابلے میں لاڑکانہ شہر کے پیپلز پارٹی مخالف اتحاد اور جی ڈی اے کے مشترکہ امیدوار معظم علی عباسی نے کامیابی حاصل کی تھی۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ کی اسی نشست سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ ان کی کامیابی دیہی علاقوں کے ووٹرز کی مرہونِ منت ہے۔ لاڑکانہ کی تمام یونین کونسلوں میں بلاول بھٹو زرداری کے مخالف امیدوار کو سبقت حاصل تھی۔ اب بھی عام تاثر یہی ہے کہ اگر فروغ نسیم 194(4) کے تحت کراچی میں مرکز کے اختیارات استعمال کرنے کا شوروغوغا نہ کرتے تو لاڑکانہ شہر میں پیپلزپارٹی کے امیدوار کو انتخابی مہم چلانے میں دشواری ہوتی اور معظم علی عباسی کو اپنی کامیابی کے لیے سخت محنت نہ کرنا پڑتی۔ اب بھی انتخابی معرکہ تو سخت ہوگا مگر پیپلزپارٹی کو انتخابی مہم میں خراب حکمرانی سے متعلق سوالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، بلکہ مخالف امیدوار کے حامی فروغ نسیم کے بیان کے خلاف زیادہ زور شور کے ساتھ مذمتی بیانات داغ رہے ہوں گے۔
کراچی کے مسئلے کا کوئی قابلِ عمل حل ہے تو وہ صرف اور صرف آئینِ پاکستان کی چھتری تلے ہی ممکن ہے، جس کی راہ میں کوئی رکاوٹ اٹھارہویں آئینی ترمیم بھی نہیں ہے۔ وہ ہے اٹھارہویں آئینی ترمیم پر مکمل عمل درآمد، جس کے تحت وفاق صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ، وسائل کی منصفانہ تقسیم کا پابند ہے، اور صوبے نچلی سطح تک این ایف سی ایوارڈ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مقامی حکومتوں کو وسائل کی منصفانہ تقسیم کے پابند ہیں۔ اس پر وفاق صوبوں سے عمل درآمد کرا سکتا ہے۔
سندھ خصوصاً کراچی میں گزشتہ چار عشروں میں وفاقی حکومت کا کوئی اقدام نتائج کے اعتبار سے قابلِ عمل اور نتیجہ خیز ثابت ہوا اور جس کی ہر مکتبہ فکر کے شہریوں نے حمایت اور تائید کی، وہ ہے 3 ستمبر 2013ء کو کراچی کو بدامنی سے پاک کرنے کا فیصلہ، جس کے بعد سیاسی اور غیر سیاسی کی تمیز کے بغیر ہمہ اقسام کے مسلح گروہوں اور اُن کے سرپرستوں کی سرکوبی کے لیے پولیس اور رینجزر کا مشترکہ آپریشن۔ اس کے کامیاب ہونے کی حکمت یہ ہے کہ وفاق نے اسے شروع کرنے سے پہلے سندھ حکومت کو بھی اعتماد میں لیا تھا اور کراچی کی سیاست میں میٹر کرنے والی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی مشاورت میں شامل کیا تھا، اور اتفاقِ رائے کے بعد سندھ کے وزیراعلیٰ کی کپتانی میں اس کا آغاز کیا تھا۔ اس کا کریڈٹ اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو بھی جاتا ہے اور اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور اُن کے دونوں جانشینوں جنرل راحیل شریف اور موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کو بھی، جنہوں نے اسی اسپرٹ کے ساتھ اسے جاری رکھا۔
آج بڑی حد تک کراچی میں اسلحہ برداروں کی کمر ٹوٹ چکی ہے تو اس کا سہرا ستمبر 2013ء کے فیصلے کو جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہ سندھ حکومت کو اعتماد میں لیں اور باقی تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی۔