ذیابیطس (شوگر) کا شمار اُن امراض میں ہوتا ہے جن کے باعث ایک اچھا خاصا صحت مند انسان دیکھتے ہی دیکھتے کئی دیگر وابستہ بیماریوں اور پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتا ہے، جن میں موٹاپا، بلڈ پریشر، کولیسٹرول، امراضِ قلب، امراضِ گردہ، امراضِ جگر، امراضِ چشم اور دانتوں کے امراض قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح شوگر ایک جینیاتی بیماری بھی ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوسکتی ہے۔ گو کہ بعض حفاظتی تدابیر اور علاج میں تسلسل سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے، لیکن شوگر کا مرض تشخیص ہونے کے بعد عمر بھر کا ساتھی بن جاتا ہے۔ احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے سے مندرجہ بالا امراض لاحق ہونے کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی بینائی اور پاؤں کے متاثر ہونے، اور گردوں اور دل کے امراض کے خدشات بھی کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں بالعموم اور خیبر پختو ن خوا میں بالخصوص شوگر کا مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کے کئی اسباب کے ساتھ ساتھ ایک اہم سبب یہاں کے لوگوں کا لائف اسٹائل ہے، جس میں خوراک کی ایسی اشیاء کا استعمال عام ہے جو ذیابیطس کا مرض لگنے میں catalystکا کردار ادا کرتی ہیں۔ اسی طرح زیادہ کھانا، بے وقت کھانا، نشاستے کی حامل اشیاء کا زیادہ استعمال اور ورزش نہ کرنا وہ عوامل ہیں جن کے باعث یہ مرض معاشرے میں ایک بڑی وباء کی صورت میں پھیل رہا ہے۔
خیبر پختون خوا اور خاص کر پشاور کی حد تک شوگر کی روک تھام اور علاج معالجے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اگر کسی بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج کا نام فوراً ذہن میں آتا ہے تو وہ ڈاکٹر ضیاء الحسن کا نام ہے جو پچھلے تقریباً 35 سال سے مسلسل نہ صرف ذیابیطس کے موذی مرض سے نبردآزما ہیں، بلکہ انھوں نے نامساعد حالات کے باوجود اندرون اور بیرونِ ملک ذیابیطس سے بچاؤ اور علاج کے لیے گراں قدر خدمات بھی انجام دی ہیں۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن کی مخلصانہ اور شبانہ روز کاوشوں کا صلہ اور ان کی اِن پیشہ ورانہ خدمات کا اعتراف اعلیٰ سرکاری سطح پر اِس سال آپ کو ستارہ امتیاز کے قومی اعزاز سے نوازا جانا ہے۔ واضح رہے کہ آپ کو یہ منفرد قومی اعزاز صدرِ پاکستان کی جانب سے اس سال 23مارچ کو ایوانِ صدر میں منعقد ہونے والی ایک پُروقار تقریب میں دیا گیا ہے، جو نہ صرف ذیابیطس کی روک تھام کے حوالے سے آپ کی خدمات اور کوششوں کا اعتراف ہے، بلکہ بطور ایک محب وطن پاکستانی آپ پاکستان ایسوسی ایشن دبئی کے پلیٹ فارم سے اہلِ پاکستان کے لیے جو خدمات انجام دے رہے ہیں اس کا بھی اعلیٰ حکومتی سطح پر اعتراف ہے۔ آپ 24 اگست1959ء کو پشاور کے مضافاتی گاؤں موضع پاؤکہ میں محمد حسن خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ موضع پائوکہ کی معروف سماجی اور سیاسی شخصیت محمد اعظم چشتی، حاجی محمد طہماس اور پاکستان کے معروف بینکار محمد اجمل خلیل کے بھتیجے ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم سینٹ میری اسکول پشاور، کیڈٹ کالج کوہاٹ اور ایڈورڈز کالج پشاور سے حاصل کی۔-84 1983ء میں خیبر میڈیکل کالج پشاور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ 1988ء میں آپ مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ تشریف لے گئے جہاں رائل کالج آف فزیشن لندن کے ممبر (MRCP London) بنے، اور برطانیہ ہی میں مزید ٹریننگ کے بعد جنرل میڈیکل کونسل یو کے کے اسپیشلسٹ رجسٹر میں داخلے کے بعد 1996ء میں ذیابیطس اور اینڈوکرنالوجی کے کنسلٹنٹ مقرر ہوئے۔
ہر محب وطن اور وفاشعار پاکستانی کی طرح ڈاکٹر ضیاء الحسن نے بھی جب برطانیہ سے اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی تو آپ اپنی حاصل کی ہوئی علمی اور تحقیقی مہارت سے اپنے ملک اور قوم کے شوگر کے مریضوں کی رہنمائی اور علاج کے عزم اور ارادے کے ساتھ واپس پشاور چلے آئے کہ آپ یہاں بیٹھ کر اپنے صوبے کے با سیوں کو ذیابیطس کے موذی اور خطرناک مرض سے نجات دلانے کی کوشش کریں گے۔ برطانیہ میں ایک سہانے اور خوشگوار مستقبل کو تج کر پشاور واپسی کا فیصلہ خاندان کی ناراضی اور منع کرنے کے باوجود اس ارادے کے ساتھ کیا کہ ان کی ضرورت برطانیہ سے زیادہ پاکستان کو ہے کیونکہ یہاں ذیابیطس کا مرض جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن نے پشاور واپس لوٹ کر ایمز اباسین فاؤنڈیشن کے نام سے اپنے دیگر ڈاکٹر ساتھیوں کے ہمراہ ایک غیر سرکاری فلاحی سماجی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس پلیٹ فارم سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کے تحت جو اُن دنوں پشاور اور صوبے میں اپنی نوعیت کا پہلا ماڈل تھا، کے زیراہتمام پشاور کے نواح میں چارسدہ روڈ پر شاہ عالم پل کے قریب واقع رورل ہیلتھ سینٹر نحقی کو بنیاد بناکر یہاں سے پہلے مرحلے میں پشاور، دوسرے مرحلے میں خیبر پختون خوا، اور تیسرے مرحلے میں پورے ملک میں ذیابیطس کی روک تھام اور علاج کا Bangladesh Institute of Research & Rehabilitation in Diabetes, Endocrine & Metabolic Disorders برڈم (BIRDEM) ماڈل متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں یہ بتانا خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ برڈم ماڈل کی بنیاد ایک مسلمان بنگالی ماہر امراضِ ذیابیطس ڈاکٹر محمد ابراہیم نے 1950ء کی دہائی میں مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ کے نواح میں ایک سرکاری بنگلے کے برآمدے میں رکھی تھی۔ ایک معالج اور ایک اٹنڈنٹ سے شروع ہونے والا یہ ماڈل اب چھ دہائیوں بعد ایک کامیاب تجربہ ثابت ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم ہی نے اپنے چھوٹے سے گائوں میں پاکستان ذیابیطس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی تھی اور وہ اس کے پہلے صدر بنے تھے۔ ایک شیڈ کے نیچے شروع کیا جانے والا یہ کام اب سات سو بستروں پر مشتمل ایک بڑے اور جدید اسپتال کا درجہ پا چکا ہے، جہاں دیگر امراض کا تو کنٹرول ریٹ پر علاج ہوتا ہے البتہ یہاں ذیابیطس کے مر یضوں کا علاج آج بھی مفت ہے جس سے روزانہ او پی ڈی میں ذیابیطس کے سات سے آٹھ ہزار غر یب اور نا دار مریض استفادہ کرتے ہیں۔ برڈم ترقی اور امکانات کے تمام مراحل طے کرتے ہوئے اب ایک مکمل طبی جامعہ کا مقام اور مرتبہ حاصل کرچکا ہے جس کا سارے بنگلہ دیش کے 66 اضلاع میں سو سے زائد چھوٹے بڑے اسپتالوں پر مشتمل نیٹ ورک قائم ہے جہاں شوگر کے 35لاکھ مریض رجسٹرڈ ہیں۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن نے برڈم ماڈل سے متاثر ہوکر ہی اس طرز پر شوگر کے مریضوں کی تشخیص اور علاج پر مبنی ایک ماڈل آر ایچ سی نحقی میں شروع کیا تھا، لیکن اُس وقت کے نامساعد حالات کی وجہ سے وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ ڈاکٹر ضیا ء BIRDEM دیکھنے اور اس کا ماڈل سمجھنے، اور وہاں کے چیئرمین پروفیسر آزاد سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے 1999ء میں ڈھاکہ گئے۔ اس دوران پشاور کے معروف معالج ڈاکٹر سعیدالمجید مرحوم نے جو ذیابیطس ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر تھے، ڈاکٹر ضیاء کو ایسوسی ایشن کا ممبر اور جنرل سیکریٹری بنایا تھا، اور حیات آباد میں ذیابیطس اسپتال اور ریسرچ سینٹر قائم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اسی دوران کراچی میں اینڈوکرنالوجی کی ملکی سطح پر ایک میٹنگ میں پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے قیام کے موقع پر آغا خان اسپتال کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالجبار کو سوسائٹی کا پہلا صدر اور ایمز پاکستان پشاور کے ڈاکٹر ضیاء الحسن کو نائب صدر چنا گیا۔
ڈاکٹر ضیاء الحسن کو اپنی فیملی 2005ء میں برطانیہ واپس منتقل کرنا پڑی اور وہ خود 2007ء میں دبئی منتقل ہوئے۔ اب پچھلے بارہ سال سے وہ دبئی میں مقیم ہیں جہاں اپنا ذیابیطس کلینک چلا رہے ہیں۔ ان کی دبئی منتقلی کا بڑا مقصد اپنے آبائی وطن سے دو ڈھائی گھنٹوں کی فضائی مسافت پر بیٹھ کر اگر ایک طرف وہاں موجود لاکھوں پاکستانیوں اور پختونوں کی خدمت کرنا تھا تو دوسری جانب پشاور میں برڈم ماڈل کو قریب سے مانیٹر کرکے اس کو پاکستان بھر میں متعارف کروانا بھی تھا۔ جب راقم الحروف نے ڈاکٹر ضیاء الحسن سے استفسار کیا کہ وہ اپنے اس آخری مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس پروگرام کو ذیابیطس ایسوسی ایشن خیبر پختون خوا اور ایمز پاکستان کے مشترکہ تعاون سے شوگر اسپتال کے پلیٹ فارم سے نہ صرف عملی روپ دے چکے ہیں بلکہ کارِ خیر پر مبنی اس منصو بے کے ذریعے صوبے کے چھ اضلاع پشاور، چارسدہ، مردان، صوابی، نوشہرہ اور کر ک میں مقامی اسپانسرز کی معاونت اور سرپرستی سے ذیابیطس کی تشخیص اور علاج معالجے کا ایک وسیع اور جامع نیٹ ورک بھی تشکیل دے چکے ہیں جس کے تحت اب تک ہزاروں مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کے ساتھ ساتھ ابتدائی معائنہ اور علاج کا سلسلہ شروع کیا جاچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ذیابیطس ایسوسی ایشن کی جانب سے چارسدہ، بنوں اور مردان کی شاخوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، اور ایسوسی ایشن کی ٹیم مالاکنڈ کے اضلاع، ایبٹ آباد اور ڈیرہ اسماعیل خان کی شاخوں کو فعال کرنے کا عزم و ارادہ بھی کیے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن 2015ء سے ذیابیطس ایسوسی ایشن کے پی کے کے صدر اور شوگر اسپتال کے چیف ایگزیکٹو کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، اس کام کے لیے وہ ہر ماہ تقریباً ایک ہفتے کے لیے اپنی اہلیہ جو خود بھی ماہر امراضِ شوگر ہیں، کے ہمراہ پشاور باقاعدگی سے آکر شوگر اسپتال میں مریضوں کا مفت معائنہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ضیاء الحسن کا کہنا تھا کہ شوگر ایک غیر متعدی بیماری ہے جس کو سرکاری سطح پر ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، لیکن موجودہ حکومت نے اس ضمن میں نہ صرف اس کے لیے پالیسی بنائی ہے بلکہ مفت انسولین کی منظوری بھی دے رکھی ہے، اور چند اضلاع میں بی ایچ یو کی سطح پر بھی اس کا علاج زیرغور ہے۔ ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں کے وبائی شکل اختیار کرنے کی وجہ سے حکومت کو اس مرض اور اس سے وابستہ بیماریوں کے علاج کے لیے مزید وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن نے کہا کہ پشاور حیات آباد کے فیز 5میں قائم کیے جانے والے شوگر اسپتال کو ہم ایک مثالی اسپتال کے طور پر اپ گریڈ کرنے کی کوشش کررہے ہیں جہاں مریضوں کو آٹھ مراحل پر مشتمل تشخیص اور علاج معالجے کی سہولیا ت فراہم کی جارہی ہیں۔ اس منفرد ذیابیطس دیکھ بھال(Diabetes Circle of Care) کے دائرے میں مریض کو مندرجہ ذیل مراحل سے مختصر وقت میں ایک ہی چھت کے نیچے خدمات مہیا کی جاتی ہیں۔ یہ سرکل ان آٹھ مراحل پر مشتمل ہے۔ اول: کمپیوٹرائزڈ رجسٹریشن، دوم: بلڈپریشر، وزن اور باڈی ماس انڈیکس، سوم: لیبارٹری میں شوگر ٹیسٹ، چہارم: تجربہ کار میڈیکل افسر کا معائنہ اور مشورہ، پنجم: ماہر نیوٹریشنسٹ سے خوراک سے متعلق مشورہ اور تبادلہ خیال، ششم: دونوں آنکھوں میں Retina کا معائنہ، ہفتم: پیروں کا چیک اپ، ہشتم: جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دانتوں اور مسوڑھوں کا معائنہ۔ مندرجہ بالا مراحل کے بعد یہ مریض پھر ڈاکٹر سے مشورہ کرتے ہیں اور مزید لیبارٹری ٹیسٹ اور نسخے (ادویہ) تجویز ہونے پر اسپتال میں قائم فارمیسی سے یہ ادویہ رعایتی قیمت پر فراہم کی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر ضیاء الحسن نے کہا کہ اضافی لیبارٹری ٹیسٹ اور دوائیوں کے علاوہ یہ آٹھ مراحل مبلغ 1700روپے کے اوسط خرچ سے مکمل کیے جاتے ہیں جس کے مریض سے صرف 100 روپے وصول کیے جاتے ہیں، حالانکہ اوپن مارکیٹ میں کسی مر یض کے عام معائنے کی فیس ڈیڑھ سے دو ہزار روپے تک ہے، جبکہ ٹیسٹ اور دیگر ماہرین کے معائنے کی فیس اس کے علاوہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اضافی لیبارٹری ٹیسٹ اور فارمیسی کو ملا کر اسپتال کو تقریباً400 روپے کی اوسط بچت ہوتی ہے۔ اس وقت اسپتال میں روزانہ اوسطاً 50 – 60 مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے، جبکہ ہمارا ہدف ہے کہ اس تعداد کو کم از کم دوگنا ہونا چاہیے، صرف اسی صورت میں اسپتال اس رعایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے انتظامی اخراجات کے لیے خودکفیل ہوسکے گا۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن نے بتایا کہ ہمارے پاس بعض ایسے مریض بھی آتے ہیں جن کے پاس ذیابیطس کی دیکھ بھال کے دائرے کی فیس بھی نہیں ہوتی۔ ویسے بھی ہمارے زیادہ تر مریض چونکہ غریب اور متوسط گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ایسے مریضوں کی غربت اور مرض کی شدت کو دیکھتے ہوئے انہیں اکاموڈیٹ کرنا ہماری اخلاقی مجبوری ہوتی ہے، لہٰذا ہم نے ایسے مستحق اور نادار مریضوں کے لیے مفت علاج اور معائنے کے ایک زکوٰۃ اور صدقہ فنڈ کا الگ میکنزم بنا رکھا ہے۔ دراصل ہماری کوشش ہوتی ہے کہ یہاں آئے ہوئے کسی مریض کو بغیر معائنے اور علاج خالی ہاتھ مایوس ہوکر نہ جانا پڑے۔ الحمدللہ اب تک ہم اپنے اس مشن اور ہدف میں کافی حد تک کامیاب ہیں۔ شوگر اسپتال میں جدید آلات سے آراستہ لیبارٹری کی سہولت رعایتی نرخوں، اور اسی طرح فارمیسی کی سہولت بھی بازار سے 10 فیصد رعایت پر دستیاب ہے۔ شوگر اسپتال کی دیگر اسپیشلسٹ سہولیات میں دانتوں کے امراض کا علاج، امراضِ دل، امراضِ چشم اور فیملی فزیشن کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ حال ہی میں شوگر اسپتال اور ایمز نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے تعاون سے صوبے بھر کے ڈاکٹروں کے لیے فیملی فزیشن ٹریننگ کورس بھی شروع کیا ہے۔ اسپتال کو خودکفیل بنانے کے لیے ہم جنرل طبی سہولیات فراہم کرنے کا ایک جامع پروگرام بھی بنارہے ہیں۔
شوگر اسپتال کے کمیونٹی پروگرام کی تفصیل بتاتے ہوئے ڈاکٹر ضیاء الحسن نے کہا کہ ہم ضلعی حکومت کے تعاون سے پشاور کی سابقہ 92 یونین کونسلوں میں سے 64 یونین کونسلوں میں شوگر سے متعلق آگاہی مہمات چلا چکے ہیں جس کے دوران ہزاروں مرد و خواتین کی اسکریننگ کے ذریعے تشخیص کے علاوہ شوگر سے بچاؤ اور علاج سے متعلق ضروری معلومات فراہم کی گئیں۔ کمیونٹی پروگرام کے تحت صوبے کے چھ اضلاع میں ہر ماہ مقامی اسپانسرز کی مالی معاونت اور لاجسٹک سپورٹ سے فری میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں۔ یہ کیمپ بالعموم مقامی بیسک ہیلتھ یونٹ (بی ایچ یو) میں لگائے جاتے ہیں جن میں سرکاری طبی عملے کے ساتھ ایمز پاکستان، ذیابیطس ایسوسی ایشن اور شوگر اسپتال کا طبی اور تکنیکی عملہ مل کر مشترکہ طور پر مریضوں کو مفت تشخیص اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ ان کیمپوں پر فی کیمپ اوسطاً 25 سے 40 ہزار روپے کے اخراجات اٹھتے ہیں۔ ان کیمپوں میں مریضوں کو مفت ادویہ فراہم کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ یہ سارا عمل ایک تکون کی صورت میں تکمیل پذیر ہوتا ہے، جس کے تین بازو ہیں جن میں ایک ایمز اور ایسوسی ایشن کا اشتراک، دوسرا بازو مقامی اسپانسر، جبکہ تیسرا بازو محکمہ صحت کا بی ایچ یو اور اس کے اسٹاف پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر ان کیمپوں کی تعداد 25 تک پہنچ جائے تو ہمارا اگلا ہدف اور منصوبہ ایک ایسی ذیابیطس بس کی خریداری اور تیاری ہے جو ایک چلتا پھرتا موبائل شوگر اسپتال ہوگا جس میں وہ تمام ضروری سہولیات دستیاب ہوں گی جو اس وقت پشاور شوگر اسپتال میں فراہم کی جارہی ہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ ایمز اور ذیابیطس ایسوسی ایشن، خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے پبلک ہیلتھ ڈپارٹمنٹ اور محکمہ صحت کے افسران کے ساتھ مل کر مختلف پراجیکٹس پرکام کررہے ہیں۔ شوگر اسپتال کے تجربے پر مبنی تحقیقی مقالے بھی شائع ہوچکے ہیں اور مزید تحقیقی کام بھی ہورہا ہے۔ ڈاکٹر ضیاء نے آخر میں یہ بھی کہا کہ شوگر اسپتال کے حقیقی مالک شوگر کے مریض ہیں، اس مرض سے متاثرہ افراد کی دیکھ بھال اور کمیونٹی کے صحت مند افراد کے اس مرض سے بچائو کے لیے ہماری یہ کاوش ایک ماڈل اور پائلٹ کی مانند ہے۔ اس کاوش کی کامیابی کا انحصار اس مرض سے متاثرہ افراد پر ہے جن میں مریض، اہلِ خانہ اور دوست احباب شامل ہیں۔ جب تک یہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے اس کی کامیابی اور خودکفالت ایک چیلنج ہے۔ یہ تعاون مریض کی طرف سے یہاں علاج کے لیے رجسٹر ہونا، کسی مریض کو اسپانسر کرنا، اپنے علاقے یا گائوں میں کیمپ کو اسپانسر کرنا، زکوٰۃ اور صدقہ کی صورت میں مالی تعاون کرنا اور پروفیشنل مرد و خواتین، طلبہ اور طالبات اور ہنر مندوں کا اپنا وقت اور صلاحیت رضاکارانہ طور پر پیش کرنا اس میں شامل ہے۔ لہٰذا توقع ہے کہ یہ پروگرام بطور ٹیم ورک ان شاء اللہ جلد ہی کامیابی سے ہم کنار ہوگا۔