ماحول اور آب و ہوا کا تحفظ عالمی معیشت کے لیے انتہائی مفید

ماحولیات اور آب و ہوا کے تحفظ کے عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اگر ہم ماحول کے سدھار اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی چند تدابیر اختیار کرلیں تو اس طرح عالمی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے جن کی مالیت کا اندازہ سالانہ 7 ٹریلین ڈالر (7000 ارب ڈالر) لگایا گیا ہے۔ اس ضمن میں (موسمیاتی) مطابقت پذیری کے عالمی کمیشن (گلوبل کمیشن آن اڈاپٹیشن) نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کی تائید اور حمایت بل گیٹس، عالمی بینک اور اقوامِ متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی کی ہے۔ اس ضمن میں یہ پہلی رپورٹ ہے جس میں آب و ہوا میں تیزی سے بدلتی ہوئی تبدیلیوں کے آگے بند باندھنے کو کسی بوجھ کے بجائے ایک معاشی فائدہ بتایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب عمل کرنے کا وقت آچکا ہے۔ رپورٹ میں بطورِ خاص تمر (مینگروز) کے تحفظ اور سیلاب سے بچاؤ کی تمام تدابیر پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں۔ اس ضمن میں ماہرین نے کہا ہے کہ یہ عمل معیشت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ ماہرین نے رپورٹ میں محتاط اندازے کے بعد کہا ہے کہ اگر ماحولیات اور آب و ہوا میں تبدیلی پر ایک ڈالر خرچ کیا جائے تو اس کے بدلے دو سے دس ڈالر کے معاشی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ اگر اگلے دس برس تک قدرتی آفات سے خبردار کرنے والے نظام بنائے جائیں، یا ان سے نمٹنے کا انفرا اسٹرکچر وضع کیا جائے تو اس پر لگ بھگ دو ٹریلین ڈالر خرچ ہوں گے اور اس کا نتیجہ 7 ارب ڈالرکے فوائد کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اس رپورٹ کے تناظر میں بان کی مون، بل گیٹس اور عالمی بینک کے افسران نے کہا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی رفتار تیز ہے اور اس کے مقابلے میں ہمارے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر کے شہر پانی سے خشک ہورہے ہیں، جنگلات میں آگ بھڑک رہی ہے اور دیگر تباہ کن اثرات سامنے آرہے ہیں۔ کمیشن کے مطابق اگر اس وقت کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا تو عالمی زرعی پیداوار میں ایک تہائی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک جانب تو مضر گیسوں کے اخراج پر قابو پانا ہے، جبکہ دوسری جانب موسمیاتی شدت کے خلاف تدابیر اختیار کرنا ہوں گی، اور یہ دونوں کام ایک ساتھ کرنے ہوں گے۔

طاقتور دواؤں جیسی تاثیر رکھنے والی عام غذائیں

ڈاکٹر ولیم کا خیال ہے کہ غذا خود بطور دوا استعمال کی جاسکتی ہے، کیونکہ پھلوں، سبزیوں اور دیگر سمندری غذاؤں میں دریافت ہونے والے بایو ایکٹو کیمیکلز اور دیگر مرکبات زبردست تاثیر رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر ولیم کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص آنتوں کے کینسر سے شفایاب ہوگیا ہے اور وہ ہفتے میں 14 اخروٹ کھائے تو مرض دوبارہ لوٹنے کا خدشہ 44 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح چھاتی کے سرطان میں سویا کا پروٹین بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔کیوی، گاجریں اور بیریاں جسم میں شکستہ ڈی این اے کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتی ہیں، کیونکہ ڈی این اے کی شکستگی کینسر سمیت کئی امراض کی بنیادی وجہ ہے۔ اسی طرح اگر آپ وٹامن اے، بی، سی، ڈی اور ای حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پالک، سرخ شملہ مرچ، گاجر، دالیں، لوبیا، مشروم، انڈے اور تیل دار مچھلیاں استعمال کریں۔ ان کا استعمال کسی سپلیمنٹ سے کم نہیں۔
کافی اور ہلدی جسم کے حفاظتی جین کو جگاتی ہیں، اور یوں ڈی این اے کی ٹوٹ پھوٹ کو دور کرتی ہیں۔ ڈاکٹر ولیم کہتے ہیں کہ اگر آپ صحت کی نعمت پانا چاہتے ہیں تو ہر سرخ گلابی پھل ضرور کھائیے جن میں انار، تربوز، گلابی امرود اور گریپ فروٹ شامل ہیں۔ اسی طرح سرخ اور گہری رنگت کی بیریاں بھی اپنے اندر شفا کا خزانہ رکھتی ہیں۔ دوسری جانب سپرفوڈ میں شاخ گوبھی یا بروکولی بھی کسی سے کم نہیں، اور اس میں کئی طرح کے انتہائی مفید اجزا پائے جاتے ہیں۔ اگر صرف 10 روز تک ایک پاؤ بروکولی روزانہ کھائی جائے تو ڈی این اے کو ہونے والے نقصان کا ازالہ ہوسکتا ہے۔

ملک کے مختلف علاقوں میں ڈینگی کی صورت حال تشویش ناک

ملک میں بارش کے بعد مچھر کے کاٹنے سے ہونے والے ڈینگی بخار بہت بڑی تعداد میں رپورٹ ہورہے ہیں۔ راولپنڈی میں ڈینگی کی صورت حال خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے اور ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق راولپنڈی کے 3 سرکاری اسپتالوں میں اتوار کے روز 195 مریض لائے گئے، جس سے متاثرہ افراد کی تعداد 543 تک جاپہنچی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سرگودھا میں پچاس سے زائد مقامات پر ڈینگی لاروا کی نشاندہی ہوچکی ہے جس کے باعث ڈسٹرک ہیڈکوارٹر ٹیچنگ اسپتال میں 8 افراد داخل کیے گئے۔میونسپل کارپوریشن کے عملے کے مطابق فنڈز کی کمی کے باعث ڈینگی لاروا کا پھیلاؤ روکنا ممکن نہیں۔ ایک ملازم نے بتایا کہ سیاسی بنیادیوں پر بھرتیوں کے باعث ادارہ دیوالیہ ہوچکا ہے۔ ضلع مانسہرہ میں 89 افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوگئی جس کے باعث محکمہ صحت کے حکام لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مدد سے آگاہی مہم کا آغاز کرنے پر مجبور ہیں۔ کراچی میںر واں سال اب تک 1585 افراد ڈینگی سے متاثر ہوئے ہیں۔خیبر پختون خوا میں ڈینگی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے۔