ابوسعدی
زندگی کا روحانی پہلو ہو یا معاشرتی، سیاسی ہو یا معاشی، غرض کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایات اور طریق کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہے بلکہ اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے لیے حُسنِ سلوک اور آئینی حقوق کا جو حصہ ہے، اس سے بہتر تصور ناممکن ہے۔
۔(حیاتِ قائداعظم، صفحہ :427)۔
حضرت نوح علیہ السلام
حضرت نوح، حضرت آدم کی نویں پشت میں سے تھے۔ ان کا وطن دجلہ و فرات کا دوآبہ (عراق) تھا۔ حضرت نوح کے زمانے تک انسانی معاشرہ اس قدر ترقی کرچکا تھا کہ اب ایک مستقل شریعت کی ضرورت تھی۔ اس قوم کے افراد کی عمریں بہت طویل تھیں، مگر قومِ نوح کے بارے میں قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ یہ لوگ بڑی قوت والے، سرکش، باغی، نافرمان، مشرک اور بت پرست تھے۔ حضرت نوح نے صدیوں تک ان میں دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھا، مگر چند افراد کے سوا کسی نے اس دعوت کو قبول نہ کیا۔ قومِ نوح کی اس مسلسل نافرمانی کے نتیجے میں ایک زبردست سیلاب نے اس سرکش قوم کو تباہ و برباد کردیا۔
۔(پروفیسر عبدالجبار شاکر)۔
تاریخ کے لحاظ سے سیرۃ طیبہ (3)۔
تحریر: اُم احمد
حضرت ابوطالب کی وفات: نبوت کے دسویں سال
حضرت خدیجہؓکی وفات: نبوت کے دسویں سال۔ حضرت ابوطالب کی وفات کے 3 تا 5 روز یا دو مہینے بعد ہوئی۔
سفرِ طائف: حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد نبوت کے دسویں سال۔
معراجِ نبوی: 27 رجب، نبوت کے دسویں سال۔
نماز کی فرضیت: معراج النبی کے موقع پر۔
معراج کے وقت عمر: 50 سال
اُم المومنین حضرت سودہ بنت ِزمعہ سے نکاح: شوال نبوت کے دسویں سال۔
مدینہ میں اسلام کا آغاز: ذی الحجہ نبوت کے دسویں سال۔
اُم المومنین حضرت عائشہ بنت ِابی بکرؓ سے نکاح: شوال نبوت کے گیارہویں سال۔
مدینہ سے وفد کی آمد: ذی الحجہ نبوت کے گیارہویں سال۔
افراد کی تعداد:6
بیعت ِعقبہ اولیٰ: ذی الحجہ نبوت کے بارہویں سال۔
افراد کی تعداد:75۔
مسجد قرطبہ۔ ایک تاثر
اندلس جسے ہسپانیہ اور اسپین بھی کہا جاتا ہے، یورپ کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں شمال میں فرانس سے اور مغرب میں پرتگال سے ملتی ہیں، اور اس کے مشرق اور جنوب میں بحرِ متوسط بہتا ہے جسے بحرِ روم بھی کہا جاتا ہے۔ جناب حیات رضوی نے اپنے سفرنامے میں قدیم قرطبہ کا ذکر کیا ہے۔ مسجد قرطبہ کے اندر جاتے ہی انسان مبہوت رہ جاتا ہے اور اس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ سیکڑوں عمودیں جن پر دہری محرابیں بنی ہوئی ہیں، نخلستان کا منظر پیش کرتی ہیں۔ ہرچند کہ مسجد قرطبہ کی تعمیر بہت سادگی سے کی گئی ہے مگر پرکاری نے ہر سیاح کو داد و تحسین پر مجبور کردیا ہے۔ اس سیاحتی حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ مسجد اموی شہزادہ امیر عبدالرحمٰن بن معاویہ بن ہشام کی بنوائی ہوئی ہے۔ مسجد کی محرابیں اس انداز میں تعمیر کی گئی ہیں کہ دور سے بالکل کھجور کے پیڑ معلوم ہوتی ہیں۔ نچلی محراب گھڑنال (Horseshoe) شکل کی ہے۔ رقبے کے اعتبار سے یہ مسجد 23400))مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے، یعنی 250000 مربع فٹ۔ محراب پر محراب بنانے سے مسجد کو اونچا بنانے میں مدد ملی ہے، یعنی چھت خاصی اونچی ہوگئی ہے، محراب امام کی اشکال بنانے کا کمال حیرت زدہ کردیتا ہے۔ اقلیدس کی اشکال اور فطرت کے نقوش ایسے ثبت کیے گئے ہیں کہ اپنی جگہ منفرد ہیں۔ مسجد کے فرش میں ایک جگہ چند فٹ کا شیشہ لگا ہوا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ نیچے کی منزل بھی کبھی استعمال کی جاتی تھی، اور اس کا فرش بھی عمدہ آرائش رکھتا تھا۔ یہ جان کر شدید دکھ ہوا کہ مسلمانوں کو مسجد قرطبہ میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ قابلِ سزا جرم ہے۔ اس تاریخی اور بے مثال مسجد میں سے جگہ لے کر عیسائیوں کا چرچ، بدھ اور ہندو مذاہب کے مندر، سکھوں کا گردوارہ اور اسرائیلیوں کا سیناگاگ، وہاں یہ تعمیرات کردی گئی ہیں۔ ان معبدوں میں بت رکھے ہوئے اور چرچ میں حضرت عیسیٰ کی صلیب آویزاں ہے۔ چرچ میں باقاعدہ سروس ہوتی ہے۔ چرچ کی بینچیں آباد رہتی ہیں لیکن مسلمان یہاں نماز پڑھنے سے محروم ہیں۔
۔(اقبال احمد صدیقی۔ ”عمارت کار“)۔
والدین
٭باپ کا کوئی عطیہ بیٹے کے لیے اس سے بڑھ کر نہیں کہ اس کی تعلیم و تربیت اچھی کرے۔ (حضور پاکؐ)۔
٭والدین کے چہروں پر محبت سے نظر کرنا بھی خدا کی خوشنودی کا موجب ہے۔ (معین الدین چشتی)۔
٭تین چیزیں زندگی میں صرف ایک بار ملتی ہیں:
(1)جوانی،2)) حسن،3) (والدین۔
٭تین چیزوں کا احترام کرو:
(1) قانون، (2) استاد، (3) والدین۔
٭ہزار کتب خانہ ایک طرف اور باپ کی نگاہِ ملتفت ایک طرف (علامہ اقبال)۔
٭بیٹا وہی جو باپ کی خدمت کرے۔
٭جس کو والدین ادب نہیں سکھاتے اُس کو زمانہ ادب کرنا سکھاتا ہے۔ (ہربرٹ اسپنسر)۔
(اقوالِ زریں کا انسائیکلو پیڈیا)