افغانستان: مذاکرات سے “امریکی فرار” پس پردہ حقائق کیا ہیں؟۔

گزشتہ ہفتے ہم نے افغان امن کے حوالے سے کچھ خدشات کا ذکر کیا تھا۔ ایک ہفتے پہلے تک تو ایسا لگ رہا تھا کہ گویا امن معاہدے پر دستخط اب چند دنوں کی بات ہے۔ امریکی وفد کے ترجمان زلمے خلیل زاد نے کچھ اسی انداز میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس امن معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں جس سے افغانستان میں پائیدار امن کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔ دوسری طرف طالبان مذاکرات کاروں کے ترجمان ملّا سہیل شاہین نے بتایا کہ ہماری قیادت دستخط سے قبل مسودے کی نوک پلک درست کررہی ہے۔ انھوں نے معاہدے کی راہ میں کچھ رکاوٹوں کا اعتراف کرتے ہوئے پُرامید لہجے میں کہا تھاکہ اگلے چند دنوں میں امن معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔
لیکن 5 ستمبر کو کابل میں خودکش دھماکے کو بنیاد بناکر صدر ٹرمپ نے امن مذاکرات کو یکسر معطل کردیا۔ غیر ملکی فوج کے قافلے پر حملے میں ایک امریکی اور رومانیہ کے ایک سپاہی سمیت 10 افراد مارے گئے جن کی اکثریت کا تعلق کابل انتظامیہ کے خصوصی دستے سے تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ’’کابل حملے میں ہمارے ایک عظیم جنگجو سمیت 10 افراد مارے گئے جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی ہے۔ اگر طالبان جنگ بندی نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب ہے ان میں امن مذاکرات کی صلاحیت ہی نہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو سودے بازی کے لیے لوگوں کو قتل کررہے ہیں‘‘۔ انھوں نے دھمکی آمیز انداز میں دریافت کیا کہ طالبان اور کتنی دہائیوں تک لڑسکتے ہیں؟ صدر ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں یہ انکشاف بھی کیاکہ انھوں نے طالبان کے سینئر رہنمائوں اور افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو امن معاہدے پر بات چیت کے لیے امریکہ آنے کی دعوت دی تھی۔ امریکی صدر کے مطابق طالبان سے ان کی ملاقات کیمپ ڈیوڈ میں ہونی تھی۔ کیمپ ڈیوڈ امریکی دارالحکومت کے مضافات میں ایک پُرتعیش مقام ہے جہاں امریکی صدر ہفتہ وار تعطیل کے دوران قیام کرتے ہیں۔ کسی غیر ملکی مہمان کو کیمپ ڈیوڈ کی دعوت اپنائیت اور اہمیت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے طالبان اور افغان صدر دونوں کے دعوت نامے منسوخ کردیے۔ حالانکہ یہ ملاقاتیں الگ الگ ہونی تھیں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا تھا امن معاہدے کے حوالے سے صدر ٹرمپ کو امریکی فوج، ری پبلکن پارٹی کے قدامت پسند حلقے،اور حزبِ اختلاف کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا تھا۔ ان لوگوں کے خیال میں یک طرفہ انخلا یاWithdrawal دراصل ملاّئوں کے ہاتھوں شکست کا اعتراف ہے۔ اسی دوران یہ خبر بھی امریکی میڈیا پر آئی کہ جب قطر سے مذاکرات کے آخری دور کے بعد زلمے خلیل زاد کابل گئے اور انھوں نے امن معاہدے کے مسودے کی ایک نقل صدر اشرف غنی کو دکھائی تو افغان صدر نے اس پر سخت مایوسی کا اظہار کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق زلمے خلیل زاد نے پشتو میں ڈاکٹر اشرف غنی سے کہا ’’ڈاکٹر صاحب مان جائیں، آپ کو شکست ہوچکی ہے۔ اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود آپ کے سپاہی صدارتی محل کا دفاع بھی نہیں کرسکتے‘‘۔ یہ بات انھوں نے اتنی بلند آواز میں کہی کہ باہر بیٹھے صدارتی عملے نے بھی اسے سنا۔
طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت کا سلسلہ 2018ء کے آغاز سے جاری ہے جب امریکہ کی نائب وزیرخارجہ برائے جنوب اور وسط ایشیا محترمہ ایلس ویلس (Alice Wells) نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان سے ابتدائی ملاقاتیں کیں۔ لبنان میں ایک امریکی فوجی افسر کے گھر جنم لینے والی ایلس اردو، عربی، ہندی اور پشتو روانی سے بولتی ہیں۔ نرم دم گفتگو اور گرم دمِ جستجو ایلس کو بہت ہی مؤثر سفارت کار سمجھا جاتا ہے۔ موصوفہ آج کل لبنان میں امریکہ کی سفیر ہیں۔
امریکہ کی خواہش تھی کہ طالبان ہتھیار رکھ کر کابل انتظامیہ سے براہِ راست مذاکرات کریں تاکہ قیام امن کے بعد افغانستان سے فوجوں کو واپس بلایا جاسکے۔ لیکن طالبان نے پہلی ملاقات میں ہی صاف صاف کہہ دیا کہ امریکیوں نے 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر جب حملہ کیا اُس وقت وہاں امارتِ اسلامی افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی، چنانچہ اس تنازعے کے اصل فریق امریکہ اور طالبان ہیں جبکہ کابل انتظامیہ امریکہ کی نامزد کردہ کٹھ پتلی حکومت ہے جس سے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی ملّائوں نے امریکیوں کو یہ بھی باور کرا دیا کہ مذاکرات صرف ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغانستان سے غیر ملکی فوج کی واپسی پر ہوں گے۔
صدر ٹرمپ نے طالبان کے مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر زلمے خلیل زاد کو افغانستان کی تعمیرِنو کے لیے خصوصی نمائندہ نامزد کرکے انھیں طالبان سے براہِ راست مذاکرات کی ذمہ داری سونپ دی۔ 5 ستمبر 2018ء کو عہدہ سبنھالتے ہی جناب خلیل زاد نے پاکستان، افغانستان، ہندوستان، روس اور چین کا دورہ کیا اور ان ملکوں کی قیادت کو افغان امن کے لیے امریکہ کی حکمت عملی سے آگاہ کیا۔
امن مذاکرات کا پہلا دور گزشتہ سال 12 اکتوبر کو ہوا جو بنیادی طور پر ایک تعارفی اجلاس تھا۔ اجلاس کے بعد جناب زلمے خلیل زاد بہت مطمئن نظر آئے اور اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے گفتگو کو بے حد حوصلہ افزا قرار دیا۔ لیکن جب موصوف کابل پہنچے تو ان کا لہجہ بدل گیا۔ وہاں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں فرمایا کہ اگر طالبان امن مذاکرات پر راضی نہیں تو ہم جنگ کے لیے تیار ہیں۔ اس بیان پر سخت ردعمل سامنے آیا اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ امریکی فوج تیاری کرلے، ہم گزشتہ 40 سال سے جہاد میں مصروف ہیں اور ہمیں کسی تیاری کی ضرورت نہیں۔
پانچ ہفتوں بعد 16 اکتوبر کو ایک اور نشست ہوئی جس میں پسپا ہوتی امریکی فوج کے لیے محفوظ راستے کی فراہمی پر بات ہوئی۔ طالبان نے انخلا کے لیے پُرامن و باوقار راستے کی فراہمی کا وعدہ کیا۔ اسی دوران طالبان کے نائب امیر اور ملّا عمر مرحوم کے دستِ راست ملّا عبدالغنی برادر اخوند کی رہائی پر اتفاق ہوا۔ ملّا برادر کو امریکی سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی مشترکہ ٹیم نے فروری 2010ء میں کراچی سے گرفتار کیا تھا۔ ملّا صاحب 24 اکتوبر کو رہا کردیے گئے۔ اسی دوران حقانی نیٹ ورک کے بانی مولانا جلال الدین حقانی کے صاحبزادے انس حقانی بھی کابل جیل سے رہا کردیے گئے۔ انس حقانی کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔اس کے دوسرے دن ابوظہبی میں طالبان کے ایک وفد اور امریکیوں کے درمیان ملاقات ہوئی۔
ملاقات کا ایک طویل اور انتہائی سنجیدہ دور 19 جنوری سے دوحہ میں شروع ہوا جس میں امریکہ نے افغانستان سے فوجی انخلا پر اصولی اتفاق کرلیا، اور طے پایا کہ اگلے مرحلے میں ملّا عبدالغنی برادر طالبان کے وفد کی قیادت کریں گے۔
مذاکرات کا پانچواں دور اس سال 25 فروری کو شروع ہوا، جس میں ملّا عبدالغنی برادر نے یقین دلایا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغان سرزمین کو امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ طالبان نے امن معاہدے کے بعد کابل انتظامیہ سے مذاکرات پر ہامی بھرلی۔ 16 دن جاری رہنے والا یہ اجلاس نتیجہ خیز رہا، جس کے بعد بعد ایک طویل ٹویٹ میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ’’طویل ملاقات کے اس مرحلے میں قیام امن کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ امریکہ اور طالبان دونوں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے پُرعزم ہیں اور بات چیت کے دوران مختلف امور پر شدید اختلاف کے باوجود ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں‘‘۔ جناب خلیل زاد کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ مرحلہ بے نتیجہ ختم ہوگیا ہے لیکن ترجیحات اور ایجنڈے پر اتفاق ہوچکا ہے، جو کچھ اس طرح ہے:
٭ بعد از امن انسدادِ دہشت گردی کے مؤثر و قابلِ اعتماد اقدامات
٭افغانستان سے غیر ملکی فوج کا انخلا
٭افغان گروہوں کے درمیان بات چیت
٭جنگ بندی
مذاکرات کا نواں دور 22 اگست کو شروع ہوا جو فیصلہ کن ثابت ہوا، اورگفتگو کے اختتام پر جناب زلمے خلیل زاد نے وہ تاریخی اعلان کیا جس کا ذکر ہم ابتدا میں کرچکے ہیں، یعنی افغانستان میں پائیدار امن کے لیے دونوں فریق میں اصولی اتفاق ہوچکا ہے۔
اسی کے ساتھ امریکہ میں اس معاہدے کے خلاف زبردست مہم کا آغاز ہوا۔ سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے رہنما سینیٹر لنڈسے گراہم کا ایک مقالہ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا جس میں انھوں نے متنبہ کیا کہ جلدبازی میں افغانستان سے واپسی 9/11جیسے ایک اور سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔
چند ماہ پہلے سینیٹر لنڈسے گراہم کی تحریک پر امریکی سینیٹ فوری انخلا کے خلاف تحریک 28 کے مقابلے میں 68 ووٹوں سے منظور کرچکی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ داعش اور القاعدہ کی یقینی شکست سے پہلے شام اور افغانستان سے امریکی فوج واپس نہ بلائی جائے۔ صدر ٹرمپ نے قرارداد کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے کہا تھاکہ 18 سال میں پہلی بار اس جانب شاندار پیش رفت ہوتی نظر آرہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ داعش کو شکست ہوچکی ہے اور افغانستان میں بچی کھچی داعش کو طالبان ٹھکانے لگا دیں گے۔ امریکی صدر نے دوٹوک لہجے میں کہا کہ امن کے لیے طالبان کے اخلاص پر شک کی کوئی وجہ نہیں، اور ہم محض ممکنات اور انجانے خوف کی بنا پر اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو ہمیشہ کے لیے میدانِ جنگ میں نہیں چھوڑ سکتے۔
صدر ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک بار جب وہ فیصلہ کرلیں تو کسی مشیر یا وزیر کو خاطر میں نہیں لاتے، لیکن افغان امن کے معاملے میں شدید دبائو کی بنا پرکچھ عرصے سے ان کے لہجے میں تذبذب بڑا واضح تھا۔ فرانس میں G-7سربراہ کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ انھیں افغانستان سے واپسی کی کوئی جلدی نہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنی یہ دھمکی بھی دہرائی کہ ان کے لیے افغانستان پر قبضہ کچھ مشکل نہیں، بس اس کے لیے ایک کروڑ افغانوں کو ہلاک کرنا پڑے گا۔ 29 اگست کو Fox ریڈیو پر گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امن معاہدے پر دستخط ہوتے ہی افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 14000 سے گھٹاکر 8600 کردی جائے گی، جس کے بعد صورتِ حال کے مطابق بقیہ فوج کی واپسی کا فیصلہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ داعش یا القاعدہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے افغانستان میں سراغ رسانی کا ایک مؤثر نظام برقرار رکھا جائے گا۔ صدر ٹرمپ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’فوجی انخلا کے بعد بھی افغانستان پر نظر رکھی جائے گی، معلوم نہیں طالبان اس پر تیار ہوتے ہیں یا نہیں؟‘‘
صدر ٹرمپ کے بدلتے مؤقف پر طالبان نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ ان کا خیال تھا کہ امریکی صدر موذیوں کا منہ بند کرنے کے لیے گل افشانیاں فرما رہے ہیں۔ ایک بار امریکی فوجیوں کا انخلا شروع ہوگیا تو خود امریکہ کی عسکری قیادت بھی مکمل انخلا پر راضی ہوجائے گی۔ دوسری طرف معاہدے کی سُن گن ملتے ہی افغان فوجیوں نے طالبان سے ملاقاتیں شروع کردیں اورخیال تھا کہ معاہدہ ہوتے ہی سرکاری فوج کا بڑا حصہ ملّائوں سے آملے گا۔
اسی بنا پر سب سے زیادہ تشویش کابل انتظامیہ کو تھی جنھیں اپنے پیروں کے نیچے سے زمین سرکتی نظر آئی، چنانچہ قوت کے اظہار کے لیے کئی مقامات پر دہشت گردوں کی ’’تلاش‘‘ میں مدارس و مساجد پر چھاپے کا آغاز ہوا۔ دوسری طرف جب امن معاہدے کا مسودہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو پیش کیا گیا تو انھوں نے اس پر دستخط سے انکارکردیا۔
طالبان نے فوجی دبائو بڑھانے کے لیے صوبے قندوز کے صدر مقام کو حصار میں لے لیا اور یکم ستمبر سے طالبان نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ بڑھاتے ہوئے قندوز کے مغرب میں بلخ، مشرق میں تخار اور بدخشاں صوبوں کے گرد بھی گھیرا تنگ کردیا ہے۔ بغلان کے صدر مقام پل خمری کی فوجی چھائونی کو طالبان نے روند ڈالا تو ایرانی سرحد سے متصل فرح اور ہرات صوبوں کی طرف بھی ملّائوں نے پیش قدمی شروع کردی۔ جیسا کہ صدرٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں خدشہ ظاہر کیا کہ طالبان کی یہ کارروائی امریکیوں کو یہ جتانے کے لیے تھی کہ امن معاہدہ ان کی مجبوری نہیں اور وہ طاقت کے بل پر بھی اپنی بات منوا سکتے ہیں۔
اسی دوران طالبان نے 5 ستمبر کو کابل میں افغان اسپیشل فورس کے ایک تربیتی مرکز کو نشانہ بنایا جو ششدرک کے علاقے میں ہے۔ ششدرک کابل کا انتہائی حساس علاقہ ہے جہاں امریکہ کی اہم فوجی تنصیبات اور دفاتر ہیں۔ ششدرک کے گرد 5 حفاظتی حصار ہیں جن میں سے آخری 2 کی نگرانی نیٹو کے سپاہی کرتے ہیں۔ ہر حفاظتی چوکی پر گاڑیوں سے تمام افراد کو اتار کر اسباب و افراد اور گاڑی کی علیحدہ علیحدہ تلاشی لی جاتی ہے۔ لیکن طالبان کا خودکش بمبار سب کو غچہ دے کر بارود سے لدی گاڑی لے کر تربیت گاہ تک پہنچ گیا۔ اس حملے میں افغان فوجیوں کے ساتھ تربیت دینے والے امریکی اساتذہ بھی زد میں آگئے۔ ایک امریکی فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔
طالبان کے دورۂ امریکہ اور خفیہ ملاقات کے پروگرام پر امریکہ کے قوم پرستوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ ملاقات کی تاریخ اور جگہ کے انتخاب پر امریکہ کے جنگجو بے حد مشتعل ہیں۔ یہ ملاقات 8 ستمبر کو ہونی تھی جس کے 3 دن بعد 9/11 حملے کی اٹھارہویں برسی ہے۔ 2001ء میں امریکہ کے قلب پر کاری ضرب ہی افغانستان کے خلاف اس خوفناک فوجی کارروائی کا سبب بنی تھی جس میں انسانی حقوق کو بے دردی سے پامال کیا گیا۔ ستم ظریفی یہ کہ خود امریکی سی آئی اے کے مطابق 9/11 حملے میں افغانستان کا ایک بھی شہری ملوث نہیں پایا گیا۔ اس حملے کے بعد قومی لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کا اہم ترین اجلاس بھی کیمپ ڈیوڈ ہی میں منعقد ہوا تھا۔ ری پبلکن پارٹی کے قدامت پسندوں کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب قوم9/11 کے ’’شہدا‘‘ کا غم منارہی ہو، اس بھیانک واقعے کے ذمہ دار ’’دہشت گردوں‘‘ کو کیمپ ڈیوڈ بلانا سوگواروں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
ری پبلکن پارٹی کے قدامت پسندوں کے ساتھ ملّائوں کے امریکہ آنے کی خبر سن کر ڈیموکریٹک پارٹی کے لبرل و آزاد خیال عناصر بھی حب الوطنی کے بخار میں مبتلا ہیں اور برنی سینڈرز کے سوا امریکی صدارت کے خواہش مند سارے ہی امیدواروں نے افغانستان کے معاملے پر صدر ٹرمپ کی ’’ٹویٹ ڈپلومیسی‘‘ کی شدید مذمت کی۔
امریکی ایوان ِ نمائندگان (قومی اسمبلی) کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے سربراہ ایلیٹ اینجل (Eliot Engel) نے زلمے خلیل زاد کو سماعت کے لیے طلب کرلیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے نام اپنے ایک خط میں جناب اینجل نے کہا کہ تاخیری حربے یا stonewallingکے بجائے مسٹر خلیل زاد کو وضاحت کے لیے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ کانگریس اور امریکی کانگریس کو ان مذاکرات کی حدود و قیود، خدشات و اندیشے اور (امن و بہتری کے) مواقع کا ادراک ہوسکے۔ خط میں چیئرمین صاحب نے شکوہ کیا کہ زلمے خلیل زاد اس سے پہلے کمیٹی کی جانب سے دو خطوط کو نظرانداز کرچکے ہیں۔
امریکی صدر کی جانب سے مذاکرات کی معطلی پر طالبان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے متنبہ کیا کہ اس کے نتیجے میں امریکیوں کو مزید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ تاہم انھوں نے کہا کہ طالبان اب بھی تمام تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔
ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ صدر ٹرمپ امن مذاکرات کا دروازہ مستقلاً بند کرچکے ہیں، یا یہ وقتی اشتعال کا نتیجہ ہے۔ صدر ٹرمپ ایک سریع الاشتعال شخصیت کے مالک ہیں جنھیں اپنے غصے پر قابو نہیں۔ وہ شمالی کوریا کے سربراہ سے ویت نام میں ملاقات کے دوران اسی طرح اچانک اٹھ کر چلے گئے تھے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد جنوبی کوریا کے دورے میں وہ کم جونگ ان سے ملنے خود چل کر شمالی کوریا کی سرحد تک آئے۔
افغانستان سے واپسی ان کے انتخابی منشور کا اہم نکتہ تھا۔ صدر ٹرمپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ وقت طالبان کے ساتھ ہے۔ سیاہ پگڑی والے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں اور انھیں لڑائی ختم کرنے کی کو ئی جلدی نہیں۔ جبکہ افغانستان میں قیام کا ایک ایک دن امریکی ٹیکس دہندگان کے خون پسینے کی کمائی نچوڑ رہا ہے۔ امریکی عوام نہ صرف اپنی فوج کا خرچہ اٹھا رہے ہیں بلکہ کابل انتظامیہ کا نان نفقہ بھی غریب امریکیوں کے سر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں بے ضرورت امریکی پڑائو کا خرچہ 19 کروڑ 18 لاکھ ڈالر یومیہ یا 70 ارب سالانہ ہے۔
امریکی وزیرخارجہ نے صاف صاف کہا ہے کہ جب تک طالبان ہتھیار رکھ کر کابل انتظامیہ سے مذاکرات پر راضی نہیں ہوتے، ملّائوں سے مزید بات چیت نہیں ہوگی۔ اگر یہ امریکہ کا سرکاری مؤقف ہے تو پھر بات چیت کے دروازے مقفل نظر آرہے ہیں کہ طالبان کے لیے یہ ناقابلِ قبول ہے۔ تاہم مختلف پیرائے میں اس قسم کی باتیں خود زلمے خلیل زاد اس سے پہلے کئی بار کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود مذاکرات اختتامی مرحلے تک پہنچ گئے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ صدر کے ٹویٹ سے امن مذاکرات منسوخ نہیں بلکہ معطل ہوئے ہیں، یا یوں کہیے کہ بات چیت میں تعطل آیا ہے اور گفتگو کے دوبارہ شروع ہونے کے امکانات ابھی باقی ہیں۔ اس ضمن میں ایک مشکل مرحلہ 30 ستمبر کو ہونے والے افغان صدارتی انتخابات ہیں۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے فوج کی مدد سے یہ انتخاب جیتنے کی تیاری کررکھی ہے جس کے بعد وہ افغان عوام کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے سامنے آئیں گے اور طالبان سے مذاکرات کے لیے اُن کے اصرار کو اخلاقی سند حاصل ہوجائے گی۔ اسی بنا پر صدر ٹرمپ اور طالبان دونوں چاہتے تھے کہ 30 ستمبر سے پہلے ہی امن معاہدے پر دستخط ہوجائیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اگلے دو تین ہفتوں میں بات چیت دوبارہ شروع ہوسکے گی یا نہیں۔ اگر اس سمت کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوئی تو پھر خطرہ ہے کہ طالبان ان انتخابات کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گے جس کے نتیجے میں شدید خونریزی کا امکان ہے۔

………٭٭٭………
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر@MasoodAbdali بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔