پاکستان بلاتاخیر دوطرفہ معاہدوں اور شملہ معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کرے

آزاد کشمیر کے چیف جسٹس سپریم کورٹ سید منظور حسین گیلانی کا خصوصی انٹرویو

جسٹس سید منظور حسین گیلانی کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے۔ عملی زندگی کا آغاز مقبوضہ علاقے سے کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرکے وکالت کا آغاز کیا۔ بھارت کے نظام حکومت اور مائنڈ سیٹ کو قریب سے دیکھ چکے ہیں اور وہاں کے قانون اور آئین پر گہری دسترس رکھتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی کے وسط میں عزیر واقارب سے ملنے آزادکشمیر آئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے آزادکشمیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب تک پہنچے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں حال ہی میں شائع ہونے والی ان کی خودنوشت ’’میزان ِزیست‘‘بھی شامل ہے۔ جسٹس گیلانی کے مضامین اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی تازہ صورتِ حال بالخصوص 5 اگست کے بعد کی صورتِ حال، بھارتی فیصلے اور اس کی قانونی حیثیت پر ان سے ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔

………٭٭٭………

فرائیڈے اسپیشل: گیلانی صاحب! بھارتی آئین کی جو دفعات کبھی ہمارا موضوع اور مسئلہ ہی نہیں رہیں، اب ایسا کیا ہوگیا کہ ہم ان کا رونا رونے بیٹھ گئے ہیں۔ ہمارے نزدیک تو یہ سری نگر کے حکمران ٹولے اور دہلی کا باہمی مسئلہ تھا؟
سید منظور حسین گیلانی: بھارتیہ جنتا پارٹی کا یہ فیصلہ اچانک نہیں بلکہ گہری منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ آر ایس ایس نے 1950ء میں ہی اپنے انتخابی منشور میں کشمیر کے بھارت میں انضمام کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے بعد یہ نکتہ آر ایس ایس کے ہر انتخابی منشور کا حصہ رہا۔ وہ تو اس بات پر قائم رہے۔ غلطی ہماری ہے، ہم نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی۔ دنیا کو بتایا ہی نہیں کہ وہ اس طرح کے عزائم رکھتے ہیں۔ ہم دنیا کو بتا سکتے تھے کہ ان کے منشور کا یہ نکتہ اقوام متحدہ کی قراردادوں، پاک بھارت معاہدوں، بھارتی لیڈروں کے بیانات کے خلاف ہے جو مسئلے کی نوعیت کو تبدیل کرسکتا ہے۔ اس کے برعکس وہ ہماری چھوٹی چھوٹی چیزوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ 1980ء کی دہائی میں آزادکشمیر حکومت نے کشمیر لبریشن سیل کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ یہ ایک چھوٹا سا ادارہ تھا، یا یوں کہہ لیجیے محکمے کا قیام تھا، مگر دہلی میں بھارتی وزیر خارجہ نے ہمارے وزیر خارجہ سے شکایت کی کہ آپ دونوں ملکوں میں دوستی کی بات کرتے ہیں دوسری جانب آزاد کشمیر میں آپ نے کشمیر لبریشن سیل کے نام سے ادارہ بنایا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہت باریکی سے ہم پر نظر رکھے ہوئے تھے، مگر ہم ان کے عزائم سے بے خبر رہے۔ جب انہیں موقع ملا، وہ یہ واردات کر گزرے۔ پانچ اگست کی واردات کے دوحصے ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے آرٹیکل 370کے تحت ایک صدارتی حکم جاری کیا۔ اس میں چند چیزیں کیں۔ پہلے آرٹیکل 367 انڈین آئین کا ہے جس میں آئین کی تمام تحریفات درج ہوتی ہیں۔ اس دفعہ میں 370 بھی ہے۔ اس طرح جب آپ دونوں کے تعلق کو دیکھتے ہیں تو کشمیر کے آئین کو دفعہ 370 کے تحت دیکھیں گے، جس سے اندازہ ہوگا کہ بھارت نے کشمیر پر کون سی چیزیں لاگو کی ہیں۔ پانچ اگست کے بعد جب کوئی آئین کی بات کرے گا تو اس کا مطلب ازخود ہی بھارتی آئین ہوگا۔ پہلے ایسا نہیں تھا، کشمیر میں بھارت کے وہی قوانین لاگو ہوتے تھے جنہیں کشمیر اسمبلی اڈاپٹ کرتی تھی، یعنی جن کی دوبارہ منظوری دیتی تھی۔ اب بھارت کے سارے قوانین خودبخود کشمیر پر لاگو ہوجائیں گے۔ جب بھارت کا آئین کشمیر پر نافذ ہوا تو کشمیر کا آئین خودبخود ختم ہوگیا۔ بہت چالاکی سے بھارتی حکومت نے اپنا آئین اڈاپٹ کرنے کی بات بھی نہیں کی اور کشمیر کے آئین کو ختم کرنے کا اعلان بھی نہیں کیا، مگر عملی طور پر یہی کیا۔ بھارت کے اس فیصلے سے 1954ء سے بھارتی حکومت نے کشمیر سے متعلق جتنے بھی صدارتی آرڈر جاری کیے تھے یا قوانین بنائے تھے جن میں 35-Aبھی شامل تھی، ختم ہوگئی۔ یوں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا، مگر عملی طور پرسب کچھ کر بھی دیا۔گورنر اسٹیٹ کا نمائندہ ہوتا ہے، مگر اسے حکومت بناکر فراڈ کیا گیا۔ اب کشمیری عوام کی رائے بھی بھارت کے نمائندے کے ذریعے منعکس ہوگی۔گورنر کو عوام کی رائے کا متبادل بناکر پیش کیا گیا۔ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ دفعہ 370کی ایک کلاز میں کہا گیا ہے کہ یہ پروویژن عارضی ہے، اگر اسٹیٹ کی اسمبلی نے اسے ختم نہ کیا تو یہ جاری رہے گی۔ بھارت نے آئین سازاسمبلی کو قانون ساز اسمبلی میں بدل دیا ہے۔ حکومت کا مطلب گورنر بنادیا ہے۔ اس طرح جب نئی اسمبلی کہے گی اس تبدیلی کو ختم کریں تو یہ ختم کرنے کے پابند ہوں گے۔ اسٹیٹ کے دوحصے کیے گئے ہیں، جموں وکشمیر کو ایک حصہ، جبکہ لداخ کو ان سے الگ کیا گیا۔ خود بھارتی آئین کہتا ہے کہ آپ یونین علاقے کو ختم کرکے اسٹیٹ بنا سکتے ہیں، مگر اسٹیٹ ختم کرکے یونین علاقہ نہیں بنا سکتے۔ یہ تو ایسے ہی ہوا کہ آپ ڈویژن کو ختم کرکے یونین کونسل بنادیں۔ اس کوشش سے کشمیر کی ریاست کو ڈی گریڈ کیا گیا تاکہ اس کی شناخت ختم ہو، نام ختم ہو، وحدت ختم ہو، اور حصے بخرے ہوں۔ یہ سراسر فراڈ کیا ہے بھارت نے۔ ایسا کرنے کے لیے بھارت کے آئین میں جو میکینزم تھا اس کو بھی اختیار نہیں کیا گیا۔ ایسا کرنے کے لیے ریاستی اسمبلی کی تجویز اور رائے ضروری ہے۔ صدر اسٹیٹ اسمبلی سے رائے لینے کا پابند ہے۔ یہاں خود اپنے نمائندے گورنر کو اسمبلی کا متبادل قرار دے کر پوچھا گیا۔ یوں نہ صرف بھارت کے آئین بلکہ کشمیر کے آئین کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ یہ بھارتی آئین کی دفعہ 2کی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی آئین کی دفعہ 253میں درج ہے کہ اگر بھارت کسی عالمی معاہدے میں بندھا ہو تو عالمی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ یہاں بھی تو اقوام متحدہ کی قراردادیں عالمی معاہدہ ہیں۔ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ معاہدات ہیں،کشمیری لیڈروں کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کے وعدے ہیں۔ ان سب کو روند دیا گیا، گویاکہ اپنے آئین کی ہی خلاف ورزی کی گئی۔
فرائیڈے اسپیشل: اس سے تو لگتا ہے کہ عدالت میں بھارتی حکومت کا کیس کمزور ہوگا، پھر تو عدالت سے کسی مثبت فیصلے کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟
سید منظور حسین گیلانی: ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 371-A کے تحت بھارت میں مختلف صوبے خصوصی شناخت کے حامل ہیں، انہیں کشمیر سے ملتی جلتی رعایتیں دی گئی ہیں، جن کے تحت آبادی سمیت بہت سی باتوں کو تحفظ دیا گیا ہے، مگر ان کو نہیں چھیڑا گیا۔ یہ بات بھارتی حکومت کے کیس کو مزید کمزور کردیتی ہے۔ بھارتی عدالتوں پر اگر افضل گورو کیس کی طرح نیشنل ازم طاری نہ ہوا تو کوئی عقل مند، حکومت کے اس فیصلے کی تائید نہیں کرسکتا۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ سمجھتے ہیں کہ خصوصی شناخت کی حامل بھارت کی دوسری ریاستوں کو بھی اس فیصلے نے خوف زدہ کردیا ہے؟
سید منظور حسین گیلانی: وہ مہا بھارت کے راستے اور فلسفے پر چل رہے ہیں۔ الگ شناختوں کو دریا برد کرنا ان کی پالیسی ہے۔ گوا کی ریاست میں آپ داخل ہوتے ہیں تو ریاست کا پرچم لہراتا نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے اب وہ اسے کس طرح برداشت کریں گے! گوا کا اسٹیٹس ختم کریں گے، پھر دوسری ریاستوں کی طرف بڑھیں گے۔ یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ بھارت کے کئی علاقے اور طبقات اس سے عدم تحفظ میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ دوسری ریاستوں کو شاید اس لیے نہیں چھیڑا گیا کہ وہ ہندو ہیں، وہاں الگ شناخت سے کوئی مسئلہ نہیں۔ جائداد اور ملازمتوں کا تحفظ حاصل ہے تو اس سے بھارتی حکومت کو فرق نہیں پڑتا۔ کشمیر میں کارروائی اس لیے کی گئی ہے کہ یہ ایک مسلمان اکثریتی ریاست ہے، اور اس کا یہ کردار تبدیل کرنا مقصود ہے۔ پہلے گجرات کے مسلمانوں کو ’’سیدھا‘‘ کیا گیا، اب وہ کشمیر کی طرف مڑ گئے ہیں۔ یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: ہم عالمی عدالتِ انصاف یا کسی دوسرے قانونی فورم پر بھارت کی اس قانونی کمزوری اور حماقت کو کیسے اپنے مؤقف کے حق میں استعمال کرسکتے ہیں؟
سید منظور حسین گیلانی: آرٹیکل 370 اس لحاظ سے کشمیر ایشو سے تعلق رکھتا ہے، اس کے تحت جو قوانین بنائے گئے تھے اُن میں کشمیریوں کے ساتھ یہ کمٹ منٹ تھی کہ بھارت اپنے اختیارات کو مہاراجا ہری سنگھ کے الحاق میں درج تین امور دفاع، خارجہ اور مواصلات سے کشید کرے گا۔ بھارت کے پاس یہی تین امور تھے۔ بعد میں وہ دھاندلی اور تجاوز کرکے آگے بڑھتے رہے۔ آگے بڑھنے میں بھی ریاستی حکومت کی اجازت لازمی تھی۔ اب اس کی حیثیت تو علامتی رہ گئی تھی۔ دفعہ35-Aکے تحت، جس میں ریاست کی شناخت تھی، نام تھا وہ نام جو مہاراجا گلاب سنگھ نے اسے1927ء میں دیا تھا، اسٹیٹ سبجیکٹس تھے۔ یہ سب آرڈر واپس ہوئے تو کشمیر کا علامتی تشخص بھی ختم کردیا گیا۔
فرائیڈے اسپیشل: ریاستی تشخص کی کہانی تو اُسی وقت ختم ہوگئی تھی جب بھارت نے صدر اور وزیراعظم کے عہدے ختم کردئیے تھے۔ اب تو اس میں کچھ بھی باقی نہیں تھا سوائے اسٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کے؟
سید منظور حسین گیلانی: صدر اور وزیراعظم کے عہدے 1965ء میں ختم کیے گئے۔ بھارت نے کشمیر کی لوکل لیڈرشپ کو ساتھ ملایا غلام محمد صادق کی صورت میں۔ مگر غلام محمد صادق کا انجام بھی برا ہوا۔ اِس بار ساری لوکل لیڈرشپ کو بند کرکے یہ واردات کی ہے۔آج تو کوئی لوکل لیڈر ان کے ساتھ نہیں۔ وادی میں دوسال بھی کرفیو رہے مگر کوئی اسے مانے گا نہیں۔ بھارتیوں کا خیال تھا کہ جموں سے انہیں حمایت حاصل ہوگی۔ وہاں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر نے کہا کہ ہم اس بات کے حق میں نہیں کہ باہر سے لوگ آکر یہاں زمینیں خریدیں۔ یوں جموں سے بھی قابلِ ذکر تائید نہیں ملی۔ ہندوستان میں نیشنل ازم کی تحریک چلی ہے اور لوگ ڈر کے مارے کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے ٹھیک کیا ہے مگر طریقہ کار ٹھیک نہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ سارے قانونی نکات تو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں جانے کے لیے اچھا خاصا مواد اور جواز فراہم کرتے ہیں؟
سید منظور حسین گیلانی: میں انٹرنیشنل لا کا طالب علم تو نہیں، مگر شاید عالمی عدالت میں دولتِ مشترکہ کے کسی ملک کے خلاف یک طرفہ طور پر نہیں جا سکتے، اِلّا یہ کہ متعلقہ ملک رضامندی دے کہ وہ مقدمے کا سامنا کرے گا۔ گویا کہ دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔ کسی بھی قانونی فورم میں جائیں، یہ بتایا جاسکتا ہے کہ بھارت نے عالمی معاہدوں جن میں اقوام متحدہ کی قراردادیں شامل ہیں، کشمیر بھارت معاہدوں، بھارت پاکستان معاہدوں اور خود اپنے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ بھارت کے آئین کے چیپٹر 6میں کہا گیا کہ اس کا اطلاق جموں وکشمیر پر نہیں ہوگا۔ اس طرح جموں وکشمیر کو بھارت کے باقی صوبوں سے الگ تسلیم کیا گیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارت نے اس فیصلے سمیت دوطرفہ معاہدات کو ختم کردیا ہے۔ اب شملہ معاہدے کی کیا حیثیت ہے؟
سید منظور حسین گیلانی: بھارت نے تو دوطرفہ معاہدات کو ختم کردیا ہے۔ خدا جانے پاکستان اب اس بات کا اعلان کیوں نہیں کررہا ہے کہ شملہ معاہدہ ختم ہوگیا ہے۔ اب پاکستان دوطرفہ معاہدات سے مبرا ہے، اور یہ کہ کنٹرول لائن دوبارہ سیزفائر لائن بن گئی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس کا اثر کہیں سندھ طاس معاہدے پر تو نہیں پڑے گا؟
سید منظور حسین گیلانی: سندھ طاس معاہدہ اور رن آف کچھ عالمی ثالثی سے ہوئے ہیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت۔ جبکہ چارٹر کے تحت ہی ورلڈ بینک کو سندھ طاس معاہدے کا ضامن بنایا گیا تھا۔ یہ عالمی معاہدہ ہے۔ شملہ معاہدہ دوطرفہ ہے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 51کے تحت صاف لکھا ہے کہ بھارت عالمی تنازعات کو عالمی ثالثی کے ذریعے حل کرنے کے حق میں ہے۔ کشمیر بھی تو عالمی تنازع ہے۔ جب اقوام متحدہ کی قراردادیں منظور ہوئیں تو 130ملک اس عمل میں شریک تھے، اب یہ 142ہوگئے ہیں۔ باقی رہی شملہ معاہدے کی بات، اس میں جن حصوں پر عمل درآمد ہوچکا ہے جیسے فوجوں کی واپسی، قیدیوں کا تبادلہ وغیرہ… وہ باب بند ہوچکا ہے۔ جس حصے پر عمل نہیں ہوا وہ بھارت کے یک طرفہ فیصلے سے ختم ہوگیا ہے۔کنٹرول لائن سیز فائر لائن بن گئی ہے، اور سیز فائر کے لحاظ سے پاکستان اور بھارت واپس 1949ء کی پوزیشن پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ اب سیزفائر ایگریمنٹ کے تحت ریگولیٹ ہوگی۔
فرائیڈے اسپیشل: کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر سلامتی کونسل کے اجلاس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں، کیا یہ مسئلے کے دوبارہ دوطرفہ سے عالمی بننے کا آغاز ہے؟
سید منظور حسین گیلانی: سلامتی کونسل کا اجلاس بلاشبہ ہماری ایک بڑی کامیابی ہے۔ سلامتی کونسل کا غیر تحریری اصول یہ ہے کہ پہلے تین ملک آپس میں مشورہ کرتے ہیں کہ درخواست کا کیا کیا جائے۔ ان میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں۔ اس کے بعد اگر یہ معاملے کو آگے چلانا چاہیں تو دو دوسرے ممالک چین اور روس کو بھی شامل کرلیتے ہیں۔ پانچ کا اتفاق ہوتا ہے تو پھر باقی دس کو بھی بلالیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ بڑی پیش رفت ہے کہ کشمیر پر جائزے کے لیے سلامتی کونسل کے ملکوں کی بیٹھک ہوئی اور مسئلہ زیر غورآیا۔ جو بات چین کے نمائندے نے کی باقی ملکوں میں سے کسی نے اس کی تردید نہیں کی۔ اس طرح ساری دنیا نے موجودہ صورتِ حال پر تشویش ظاہر کی ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ سب یہ تو کہہ رہے ہیں کہ مسئلہ باہمی طور پر حل ہو، مگر مسئلہ باہمی طور پر حل نہیں ہورہا، اور یوں ذمہ داری عالمی برادری اور اداروں کی طرف منتقل ہوتی ہے۔