نوٹ:یہ تقریر مولانا نے یکم محرم1380ھ،26جون، 1960ء کی مجلس میں فرمائی تھی۔ اس تقریر کے سلسلے میں تذکرۂ سیّد مودودیؒ جلد سوم کے صفحہ نمبر 547 پر مرتبین نے مندرجہ ذیل تحریر درج کی ہے:۔
’’حضرت امام حسین ؓ کی شہادت پر مولانا مودوی کی ایک تقریر بارہا شائع ہوچکی ہے۔ اُنہوں نے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے ایک مشترکہ اجلاس منعقدہ لاہور میں یہ تقریر کی تھی۔ تاہم جب اس کی اشاعت کا مرحلہ آیا تو مولانا نے اسے ایک مستقل تحریر کی شکل دی، اور پھر وہ ماہ نامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ (جولائی1960ء، ج 54، عدد4، ص2۔14) میں بطور اشارات شائع ہوئی‘‘۔
مکرّر:اِسی تقریر کے سلسلے میں مدیر ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ لاہور، نے شمارہ 8جولائی1960ء کو مندرجہ ذیل نوٹ تحریر فرمایا تھا:
’’آج کی اشاعت میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ایک تقریر کی ’’رپورتاژ‘‘ دی جارہی ہے۔ مولانا کی تقریر ایک نہایت نازک موضوع پر تھی: ’’مقصدِ حیات‘‘۔ یہ تقریر یکم محرم 1380ھ کو ایک شیعہ ایڈووکیٹ کے مکان پر ہوئی تھی۔ اس موقع پر مولانا نے حسبِ معمول بالکل اچھوتا مگر نہایت محکم نقطہ نگاہ پیش کیا ہے۔ حضرت حسین ؓ کی اصل مظلومیت یہ نہیں کہ انہیں ابن زیاد کی فوجوں نے کربلا کے میدان میں شہید کردیا، بلکہ یہ ہے کہ جس مقصدِ جلیل کے لیے انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا تھا، اس کو دشمنوں نے نہیں، دوستی اور محبت کے مدعیوں نے دُنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا اور نوحہ وبکاء کا ایسا ہنگامہ برپا کیا کہ حسینؓ کا نعرۂ حق اس کے شور میں دب کر رہ گیا۔ حقیقت کے چہرے سے اغماض کے پردوں کو اٹھانے کے لیے پہلے بھی کوششیں کی گئی ہیں، مگر مولانا نے جس تفصیل کے ساتھ مقصدِ حیات کے نقش ونگار کو اجاگر کیا ہے، وہ اسلامی فکر کی تاریخ میں بے مثال ہے‘‘۔ واضح رہے کہ سیّد مرحوم و مغفور نے یہ خطاب محمد علی زیدی ایڈووکیٹ کے مکان واقع ’’ٹمپل روڈ‘‘ لاہور میں ارشاد فرمایا تھا۔ سیّد مودودیؒ کا یہ خطاب راقم الحروف کی مرتبہ ’’خطاباتِ سیّد مودودیؒ ‘‘ (جلد دوم) سے اخذ کرکے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مرتب
……………………٭٭٭……………………
حمد و ثناء کے بعد!۔
ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان، شیعہ بھی اور سنی بھی، امام حسینؓ کی شہادت پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ ان غمگساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لیے امام نے نہ صرف اپنی جانِ عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہلِ خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہار غم کرنا تو ایک فطری بات ہے۔ ایسا رنج وغم دنیا کے ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدروقیمت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ یہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسینؓ کی وہ کیا خصوصیت ہے جس کی وجہ سے ۱۳۲۰ برس گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہوتا رہے؟ اگر یہ شہادت کسی مقصدِ عظیم کے لیے نہ تھی، تو محض ذاتی محبت وتعلق کی بناء پر صدیوں اس کا غم جاری رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں، اور خود امام کی اپنی نگاہ میں اس محض ذاتی و شخصی محبت کی کیا قدر و قیمت ہوسکتی ہے؟ انہیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟ ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس مقصد کے لیے کچھ نہ کریں بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں تو محض ان کی ذات کے لیے گر یہ و زاری کرکے اور ان کے قاتلوں پر لعن طعن کرکے قیامت کے روز نہ تو ہم امامؓ ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔
اب دیکھنا چاہیے کہ وہ مقصد کیا تھا؟
کیا امام تخت وتاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے سردھڑ کی بازی لگائی؟ کوئی شخص بھی جو امام حسینؓ کے گھرانے کی بلند اخلاقی سیرت کو جانتا ہے، یہ بدگمانی نہیں کرسکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خونریزی کرسکتے تھے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے ان لوگوں کا نظریہ ہی صحیح مان لیا جائے جن کی رائے میں یہ خاندان حکومت پر اپنے ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتا تھا، تب بھی حضرت ابوبکرؓ سے لے کر امیر معاویہؓ تک، پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑنا اور کشت وخون کرنا ہرگز ان کا مسلک نہ تھا۔ اس لیے لامحالہ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ امام عالی مقام کی نگاہیں اُس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا، حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آجائے تو وہ اسے نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔
وہ تغیر کیا تھا؟ ظاہر ہے کہ لوگوں نے اپنا دین نہیں بدل دیا تھا۔ حکمرانوں سمیت سب لوگ خدا اور رسولؐ اور قرآن کو اسی طرح مان رہے تھے جس طرح پہلے مانتے تھے، مملکت کا قانون بھی نہیں بدلا تھا۔ عدالتوں میں قرآن اور سنت ہی کے مطابق تمام معاملات کے فیصلے بنی امیہ کی حکومت میں بھی ہو رہے تھے جس طرح ان کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے ہوا کرتے تھے، بلکہ قانون میں تغیر تو انیسویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا کی مسلم حکومتوں میں سے کسی کے دور میں بھی نہیں ہوا۔ بعض لوگ یزید کے شخصی کردار کو بہت نمایاں کر کے پیش کرتے ہیں جس سے یہ عام غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ تغیر جسے روکنے کے لیے امام کھڑے ہوئے تھے، بس یہ تھا کہ ایک برا آدمی برسرِ اقتدار آگیا تھا۔ لیکن یزید کی سیرت وشخصیت کا جو برے سے برا تصور پیش کرنا ممکن ہے، اُسے جوں کا توں مان لینے کے بعد بھی یہ بات قابلِ تسلیم نہیں کہ اگر نظام صحیح بنیادوں پر قائم ہو تو محض ایک برے آدمی کا برسر اقتدار آجانا کوئی ایسی بڑی بات ہو سکتی ہے جس پر امام حسینؓ جیسا دانا و زیرک اور علم شریعت میں گہری نظر رکھنے والا شخص بے صبر ہو جائے۔ اس لیے یہ شخصی معاملہ بھی وہ اصل تغیر نہیں ہے جس نے امام کو بے چین کیا تھا۔ تاریخ کے غائر مطالعے سے جو چیز واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ہورہی تھی وہ اسلامی ریاست کے دستور اور اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی کے پورے نتائج اگرچہ اُس وقت سامنے نہ آئے تھے لیکن ایک صاحبِ نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہا ہے اور جس راہ پر یہ مڑ رہی ہے وہ آخرکار اسے کہاں لے جائے گی۔ یہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امامؓ نے دیکھا اور گاڑی کو پھر سے صحیح پٹڑی پر ڈالنے کے لیے اپنی جان لڑا دینے کا فیصلہ کیا۔
نقطۂ انحراف
اس چیز کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی سربراہی میں ریاست کا جو نظام چالیس سال تک چلتا رہا تھا، اس کے دستور کی بنیادی خصوصیات کیا تھیں اور یزید کی ولی عہدی سے مسلمانوں میں جس دوسرے نظامِ ریاست کا آغاز ہوا، اس کے اندر کیا خصوصیات دولتِ بنی امیہ و بنی عباس اور بعد کی بادشاہیوں میں ظاہر ہوئیں۔ اسی تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ گاڑی پہلے کس لائن پر چل رہی تھی، اور اس نقطہ انحراف پر پہنچ کر آگے وہ کس لائن پر چل پڑی۔ اور اسی تقابل سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدہ فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی آغوش میں تربیت پائی تھی اور جس نے صحابہ کی بہتر سوسائٹی میں بچپن سے بڑھاپے تک کی منزلیں طے کی تھیں ، وہ کیوں اس نقطہ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کو اس نئی لائن پر جانے سے روکنے کے لیے کھڑا ہوگیا، اور کیوں اُس نے اس بات کی بھی پروا نہ کی کہ اس زوردار گاڑی کا رخ موڑنے کے لیے اس کے آگے کھڑے ہوجانے کا کیا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
انسانی بادشاہی کا آغاز
اسلامی ریاست کی اوّلین خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہا جاتا تھا، سچے دل سے یہ مانا بھی جاتا تھا اور عملی رویّے سے اس عقیدے ویقین کا پورا ثبوت بھی دیا جاتا تھا کہ ملک خدا کا ہے، باشندے خدا کی رعیت ہیں، اور حکومت اس رعیت کے معاملے میں خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیں ہے اور رعیت اس کی غلام نہیں ہے۔ حکمرانوں کا کام سب سے پہلے اپنی گردن میں خدا کی بندگی وغلامی کا قلا وہ ڈالنا ہے، پھر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی رعیت پر اس کا قانون نافذ کریں۔ لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا، اس میں خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا، عملاً اُس نے وہی نظریہ اختیار کرلیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے، یعنی ملک بادشاہ اور شاہی خاندان کا ہے، اور وہ رعیت کی جان، مال، آبرو، ہر چیز کا مالک ہے۔ خدا کا قانون ان بادشاہتوں میں نافذ ہوا بھی تو صرف عوام پر ہوا، بادشاہ اور ان کے خاندان اور امراء اور حکام زیادہ تر اس سے مستثنیٰ ہی رہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تعطل
اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا تھا جو خدا کو محبوب ہیں، اور ان برائیوں کو دبانا اور مٹانا تھا جو خدا کو ناپسند ہیں۔ مگر انسانی بادشاہت کا راستہ اختیار کرنے کے بعد حکومت کا مقصد فتح ممالک اور تسخیرِ خلائق اور تحصیلِ باج وخراج اور عیشِ دنیا کے سوا کچھ نہ رہا۔ خدا کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت بادشاہوں نے کم ہی کبھی انجام دی۔ ان کے ہاتھوں اور ان کے امراء اور حکام اور درباریوں کے ہاتھوں بھلائیاں کم اور برائیاں بہت زیادہ پھیلیں۔ بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کی روک تھام اور اشاعتِ دین اور علوم اسلامی کی تحقیق وتدوین کے لیے جن اللہ کے بندوں نے کام کیا، انہیں حکومتوں سے مدد ملنی تو درکنار، اکثر وہ حکمرانوں کے غضب ہی میں گرفتار رہے اور اپنا کام وہ ان کی مزاحمتوں کے علی الرغم ہی کرتے رہے۔ اُن کی کوششوں کے برعکس حکومتوں اور ان کے حکام و متوسلین کی زندگیوں اور پالیسیوں کے اثرات مسلم معاشرے کو پیہم اخلاقی زوال ہی کی طرف لے جاتے رہے۔ حد یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر اسلام کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈالنے سے دریغ نہ کیا، جس کی بدترین مثال بنوامیہ کی حکومت میں نومسلموں پر جزیہ لگانے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
اسلامی ریاست کی روح تقویٰ، خدا ترسی اور پرہیزگاری کی روح تھی، جس کا سب سے بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ ہوتا تھا۔ حکومت کے عمّال اور قاضی اور سپہ سالار سب اس روح سے سرشار ہوتے تھے، اور پھر اسی روح سے وہ پورے معاشرے کو سرشار کرتے تھے۔ لیکن بادشاہی کی راہ پر پڑتے ہی مسلمانوں کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں نے قیصر وکسریٰ کے سے رنگ ڈھنگ اور ٹھاٹھ باٹھ اختیار کرلیے۔ عدل کی جگہ ظلم وجور کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ پرہیزگاری کی جگہ فسق وفجور اور راگ رنگ اور عیش وعشرت کا دور دورہ شروع ہوگیا۔ حرام وحلال کی تمیز سے حکمرانوں کی سیرت وکردار خالی ہوتے چلے گئے۔ سیاست کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹتا چلا گیا۔ خدا سے خود ڈرنے کے بجائے حاکم لوگ بندگانِ خدا کو اپنے آپ سے ڈرانے لگے اور لوگوں کے ایمان وضمیر بیدار کرنے کے بجائے ان کو اپنی بخششوں کے لالچ سے خریدنے لگے۔ یہ تو تھا روح ومزاج اور مقصد اور نظریے کا تغیر۔ ایسا ہی تغیر اسلامی دستور کے بنیادی اصولوں میں بھی رونما ہوا۔ اس دستور کے سات اہم ترین اصول تھے جن میں سے ہر ایک کو بدل ڈالا گیا۔
آزادانہ انتخاب
1۔ دستورِ اسلامی کا سنگِ بنیاد یہ تھا کہ حکومت لوگوں کی آزادانہ رضامندی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوششوں سے اقتدار حاصل نہ کرے، بلکہ لوگ اپنے مشورے سے بہتر آدمی کو چن کر اقتدار اس کے سپرد کردیں۔ بیعت، اقتدار کا نتیجہ نہ ہو بلکہ اس کا سبب ہو۔ بیعت حاصل ہونے میں آدمی کی اپنی کسی کوشش یا سازش کا دخل نہ ہو۔ لوگ بیعت کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں پوری طرح آزاد ہوں۔ جب تک کسی شخص کو بیعت حاصل نہ ہو وہ برسراقتدار نہ آئے، اور جب لوگوں کا اعتماد اس پر سے اٹھ جائے تو وہ اقتدار سے چمٹا نہ رہے۔ خلفائے راشدین میں سے ہر ایک اسی قاعدے کے مطابق برسرِ اقتدار آیا تھا۔ امیر معاویہؓ کے معاملے میں پوزیشن مشتبہ ہوگئی۔ اسی لیے صحابی ہونے کے باوجود ان کا شمار خلفائے راشدین میں نہیں کیا گیا۔ آخرکار یزید کی ولی عہدی وہ انقلابی کارروائی ثابت ہوئی، جس نے اس قاعدے کو الٹ کر رکھ دیا۔ اس سے خاندانوں کی موروثی بادشاہتوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد سے آج تک پھر مسلمانوں کو انتخابی خلافت کی طرف پلٹنا نصیب نہ ہوسکا۔ اب لوگ مسلمانوں کے آزادانہ اور کھلے مشورے سے نہیں بلکہ طاقت سے برسراقتدار آنے لگے۔ اب بیعت سے اقتدار حاصل ہونے کے بجائے اقتدار سے بیعت حاصل کی جانے لگی۔ اب بیعت کرنے یا نہ کرنے میں لوگ آزاد نہ رہے، اور بیعت کا حاصل ہونا اقتدار پر قائم رہنے کے لیے شرط نہ رہا۔ لوگوں کی اول تو یہ مجال نہ تھی کہ جس کے ہاتھ میں اقتدار تھا، اُس کی بیعت نہ کرتے، لیکن اگر وہ بیعت نہ کرتے تو جس کے ہاتھ میں اقتدار آگیا تھا وہ ہٹنے والا نہ تھا۔ اسی جبری بیعت کو کالعدم قرار دینے کا قصور جب منصور عباسی کے زمانے میں امام مالکؒ سے سرزد ہوا تو ان کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے اور ان کے ہاتھ شانوں سے اکھڑوا دیئے گئے۔
شورائی نظام
2۔ دوسرا اہم ترین قاعدہ اس دستور کا یہ تھا کہ حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ اُن لوگوں سے کیا جائے جن کے علم، تقویٰ اور اصابتِ رائے پر عام لوگوں کو اعتماد ہو۔ خلفائے راشدینؓ کے عہد میں جو لوگ شوریٰ کے رکن بنائے گئے، اگرچہ ان کو انتخاب عام کے ذریعے سے منتخب نہیں کرایا گیا تھا، جدید زمانے کے تصور کے لحاظ سے وہ نامزد کردہ لوگ ہی تھے، لیکن خلفاء نے یہ دیکھ کر ان کو مشیر نہیں بنایا تھا کہ یہ ہماری ہاں میں ہاں ملانے اور ہمارے مفاد کی خدمت کرنے کے لیے موزوں ترین لوگ ہیں، بلکہ انہوں نے پورے خلوص اور بے غرضی کے ساتھ قوم کے بہترین عناصر کو چنا تھا جن سے وہ حق گوئی کے سوا کسی چیز کی توقع نہ رکھتے تھے، جن سے یہ امید تھی کہ وہ ہر معاملے میں اپنے علم وضمیر کے مطابق بالکل صحیح ایمان دارانہ رائے دیں گے، جن سے کوئی شخص بھی یہ اندیشہ نہ رکھتا تھا کہ وہ حکومت کو کسی غلط راہ پر جانے دیں گے۔ اگر اُس وقت ملک میں آج کل کے طریقے کے مطابق انتخابات بھی ہوتے تو عام مسلمان انہی لوگوں کو اپنے اعتماد کا مستحق قرار دیتے۔ لیکن شاہی دور کا آغاز ہوتے ہی شوریٰ کا یہ طریقہ بدل گیا۔ اب بادشاہ استبداد اور مطلق العنانی کے ساتھ حکومت کرنے لگے۔ اب شاہزادے اور خوشامدی اہلِ دربار، اور صوبوں کے گورنر اور فوجوں کے سالار ان کی کونسل کے ممبر تھے۔ اب وہ لوگ ان کے مشیر تھے جن کے معاملے میں اگر قوم کی رائے لی جاتی تو اعتماد کے ایک ووٹ کے مقابلے میں لعنت کے ہزار ووٹ آتے۔ اور اس کے برعکس وہ حق شناس وحق گو اہلِ علم و تقویٰ جن پر قوم کو اعتماد تھا، وہ بادشاہوں کی نگاہ تک میں کسی اعتماد کے مستحق نہ تھے، بلکہ الٹے معتوب یا کم از کم مشتبہ تھے۔
اظہارِ رائے کی آزادی
3۔ اس دستور کا تیسرا اصول یہ تھا کہ لوگوں کو اظہار رائے کی پوری آزادی ہو۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو اسلام نے ہر مسلمان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا تھا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کے صحیح راستے پر چلنے کا انحصار اس بات پر تھا کہ لوگوں کے ضمیر اور ان کی زبانیں آزاد ہوں۔ وہ ہر غلط کام پر بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک سکیں اور حق بات برملا کہہ سکیں۔ خلافتِ راشدہ میں صرف یہی نہیں کہ لوگوں کا یہ حق پوری طرح محفوظ تھا، بلکہ خلفائے راشدینؓ اسے ان کا فرض سمجھتے تھے اور اس فرض کے ادا کرنے میں ان کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کی مجلس شوریٰ کے اراکین ہی کو نہیں، قوم کے ہر شخص کو بولنے اور ٹوکنے اور خود خلیفہ سے بازپرس کرنے کی مکمل آزادی تھی، جس کے استعمال پر لوگ ڈانٹ اور دھمکی سے نہیں بلکہ داد اور تعریف سے نوازے جاتے تھے۔ یہ آزادی ان کی طرف سے کوئی عطیہ اور بخشش نہ تھی جس کے لیے وہ قوم پر اپنا احسان جتاتے، بلکہ یہ اسلام کا عطا کردہ ایک دستوری حق تھا جس کا احترام کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے، اور اسے بھلائی کے لیے استعمال کرنا ہر مسلمان پر خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عائد کردہ ایک فریضہ تھا، جس کی ادائیگی کے لیے معاشرے اور ریاست کی فضا کو ہر وقت سازگار رکھنا ان کی نگاہ میں فرائضِ خلافت کا ایک اہم جز تھا۔ لیکن بادشاہی دور کا آغاز ہوتے ہی ضمیروں پر قفل چڑھا دیئے گئے اور منہ بند کردیئے گئے۔ اب قاعدہ یہ ہوگیا کہ زبان کھولو تو تعریف میں کھولو، ورنہ چپ رہو۔ اور اگر تمہارا ضمیر ایسا زور آور ہے کہ حق گوئی سے تم باز نہیں رہ سکتے تو قید یا قتل کے لیے تیار ہوجائو۔ یہ پالیسی رفتہ رفتہ مسلمانوں کو پست ہمت، بزدل اور مصلحت پرست بناتی چلی گئی۔ خطرہ مول لے کر سچی بات کہنے والے ان کے اندر کم سے کم ہوتے چلے گئے۔ خوشامد اور چاپلوسی کی قیمت مارکیٹ میں چڑھتی اور حق پرستی اور راست بازی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اعلیٰ قابلیت رکھنے والے ایمان دار اور آزاد خیال لوگ حکومت سے بے تعلق ہوگئے، اور عوام کا حال یہ ہوگیا کہ کسی شاہی خاندان کی حکومت برقرار رکھنے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی جذبہ باقی نہ رہا۔ ایک کو ہٹانے کے لیے جب دوسرا آیا تو انہوں نے مدافعت میں انگلی تک نہ ہلائی، اور گرنے والا جب گرا تو انہوں نے ایک لات اور رسید کرکے اسے زیادہ گہرے گڑھے میں پھینکا۔ حکومتیں جاتی اور آتی رہیں، مگر لوگوں نے تماشائی سے بڑھ کر اس آمدو رفت کے منظر سے کوئی دلچسپی نہ لی۔
خدا اور خلق کے سامنے جواب دہی
4۔ چوتھا اصول، جو اس تیسرے اصول کے ساتھ لازمی تعلق رکھتا تھا، یہ تھا کہ خلیفہ اور اس کی حکومت خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔ جہاں تک خدا کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے، اس کے شدید احساس سے خلفائے راشدینؓ پر دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہوگیا تھا۔ اور جہاں تک خلق کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے، وہ ہر وقت ہر جگہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے جواب دہ سمجھتے تھے۔ ان کی حکومت کا یہ اصول نہ تھا کہ صرف مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں نوٹس دے کر ہی ان سے سوال کیا جا سکتا ہے۔ وہ ہر روز پانچ مرتبہ نماز کی جماعت میں اپنے عوام کا سامنا کرتے تھے۔ وہ ہر ہفتے جمعہ کی جماعت میں عوام کے سامنے اپنی کہتے اور ان کی سنتے تھے۔ وہ شب و روز بازاروں میں کسی باڈی گارڈ کے بغیر، کسی ہٹو بچو کی آواز کے بغیر عوام کے درمیان چلتے پھرتے تھے۔ ان کے گورنمنٹ ہائوس (یعنی ان کے کچے مکان) کا دروازہ ہر شخص کے لیے کھلا تھا اور ہر ایک ان سے مل سکتا تھا۔ ان سب مواقع پر ہر شخص ان سے سوال کرسکتا تھا اور جواب طلب کرسکتا تھا۔ یہ محدود جواب دہی نہ تھی بلکہ کھلی اور ہمہ وقتی جواب دہی تھی۔ یہ نمائندوں کے واسطے سے نہ تھی بلکہ پوری قوم کے سامنے براہِ راست تھی۔ وہ عوام کی مرضی سے برسرِ اقتدار آئے تھے اور عوام کی مرضی انہیں ہٹاکر دوسرا خلیفہ ہر وقت لا سکتی تھی۔ اس لیے نہ تو انہیں عوام کا سامنا کرنے میں کوئی خطرہ محسوس ہوتا تھا اور نہ اقتدار سے محروم ہونا ان کی نگاہ میں کوئی خطرہ تھا کہ وہ اس سے بچنے کی کبھی فکر کرتے۔ لیکن بادشاہی دور کے آتے ہی جواب دہ حکومت کا تصور ختم ہوگیا۔ خدا کے سامنے جواب دہی کا خیال چاہے زبانوں پر رہ گیا ہو، مگر عمل میں اس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔ رہی خلق کے سامنے جواب دہی، تو کون مائی کا لال تھا جو ان سے جواب طلب کرسکتا! وہ اپنی قوم کے فاتح تھے۔ مفتوحوں کے سامنے کون فاتح جواب دہ ہوتا ہے! وہ طاقت سے برسرِ اقتدار آئے تھے اور ان کا نعرہ یہ تھا کہ جس میں طاقت ہو وہ ہم سے اقتدار چھین لے۔ ایسے لوگ عوام کا سامنا کب کیا کرتے ہیں اور عوام ان کے قریب کہاں پھٹک سکتے ہیں! وہ نماز بھی پڑھتے تھے تو نتھو خیرے کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے محلوں کی محفوظ مسجدوں میں، یا باہر اپنے نہایت قابلِ اعتماد محافظوں کے جھرمٹ میں۔ ان کی سواریاں نکلتی تھیں تو آگے اور پیچھے مسلح دستے ہوتے تھے اور راستے صاف کردیئے جاتے تھے۔ عوام کی اور ان کی مڈبھیڑ کسی جگہ ہوتی ہی نہ تھی۔
بیت المال، ایک امانت
5۔ پانچواں اصول اسلامی دستور کا یہ تھا کہ بیت المال خدا کا مال اور مسلمانوں کی امانت ہے، جس میں کوئی چیز حق کی راہ کے سوا کسی دوسری راہ سے آنی نہ چاہیے۔ اور جس میں سے کوئی چیز حق کے سوا کسی دوسری راہ میں جانی نہ چاہیے۔ خلیفہ کا حق اس مال میں اتنا ہی ہے جتنا قرآن کی رُو سے مالِ یتیم میں اس کے ولی کا ہوتا ہے کہ
من کان غنیًا فلیستعف ومن کان فقیراً فلیا کل بالمعروف
’’جو اپنے ذاتی ذرائع آمدنی اپنی ضرورت بھر رکھتا ہو وہ اس مال سے تنخواہ لیتے ہوئے شرم کرے، اور جو واقعی حاجت مند ہو وہ اتنی تنخواہ لے جسے ہر معقول آدمی مبنی برانصاف مانے‘‘۔
خلیفہ اس کی ایک ایک پائی کے آمد وخرچ پر حساب دینے کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کو اس سے حساب مانگنے کا پورا حق ہے۔ خلفائے راشدین نے اس اصول کو بھی کمال درجہ دیانت اور حق شناسی کے ساتھ برت کر دکھایا۔ ان کے خزانے میں جو کچھ بھی آتا تھا، ٹھیک ٹھیک اسلامی قانون کے مطابق آتا تھا، اور اس میں سے جو کچھ خرچ ہوتا تھا بالکل جائز راستوں میں ہوتا تھا۔ ان میں سے جو غنی تھا اس نے ایک حبہ اپنی ذات کے لیے تنخواہ کے طور پر وصول کیے بغیر مفت خدمت انجام دی، بلکہ اپنی گرہ سے قوم کے لیے خرچ کرنے میں بھی دریغ نہ کیا۔ اور جو تنخواہ کے بغیر ہمہ وقتی خدمت گار نہ بن سکتے تھے، انہوں نے اپنی ضروریاتِ زندگی کے لیے اتنی کم تنخواہ لی کہ ہر معقول آدمی اسے انصاف سے کم ہی مانے گا، زیادہ کہنے کی جرأت ان کا دشمن بھی نہیں کرسکتا۔ پھر اس خزانے کی آمد و خرچ کا حساب ہر وقت ہر شخص مانگ سکتا تھا اور وہ ہر وقت ہر شخص کے سامنے حساب دینے کے لیے تیار تھے۔ ان سے ایک عام آدمی بھرے مجمع میں پوچھ سکتا تھا کہ خزانے میں یمن سے جو چادریں آئی ہیں، اُن کا طول و عرض تو اتنا نہ تھا کہ جناب کا یہ لمبا کرتا بن سکے۔ یہ زائد کپڑا آپ کہاں سے لائے ہیں؟ مگر جب خلافت بادشاہی میں تبدیل ہوئی تو خزانہ خدا اور مسلمانوں کا نہیں بلکہ بادشاہ کا مال تھا۔ ہر جائز وناجائز راستے سے اس میں دولت آتی تھی اور ہر جائز وناجائز راستے میں بے غل وغش صرف ہوتی تھی۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کے حساب کا سوال اٹھا سکے۔ سارا ملک ایک خوانِ یغما تھا، جس پر ایک ہرکارے سے لے کر سربراہِ مملکت تک، حکومت کے سارے کل پرزے حسبِِ توفیق ہاتھ مار رہے تھے۔ اور ذہنوں سے یہ تصور ہی نکل گیا تھا کہ اقتدار کوئی پروانہ اباحت نہیں ہے جس کی بدولت یہ لوٹ مار ان کے لیے حلال ہو، اور پبلک کا مال کوئی شیرِ مادر نہیں ہے جسے وہ ہضم کرتے رہیں اور کسی کے سامنے انہیں اس کا حساب دینا نہ ہو۔
قانون کی حکومت
6۔ چھٹا اصول اس دستور کا یہ تھا کہ ملک میں قانون (یعنی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون) کی حکومت ہونی چاہیے۔ کسی کو قانون سے بالاتر نہ ہونا چاہیے۔ کسی کو قانون کی حدود سے باہر جاکر کام کرنے کا حق نہ ہونا چاہیے۔ ایک عامی سے لے کر سربراہِ مملکت تک سب کے لیے ایک ہی قانون ہونا چاہیے اور سب پر اسے بے لاگ طریقے سے نافذ ہونا چاہیے۔ انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ ہونا چاہیے اور عدالتوں کو انصاف کرنے کے لیے ہر دبائو سے بالکل آزاد ہونا چاہیے۔ خلفائے راشدینؓ نے اس اصول کی پیروی کا بھی بہترین نمونہ پیش کیا تھا۔ بادشاہوں سے بڑھ کر اقتدار رکھنے کے باوجود وہ قانونِ الٰہی کی بندشوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ نہ ان کی دوستی اور رشتہ داری قانون کی حد سے نکل کر کسی کو کچھ نفع پہنچا سکتی تھی، اور نہ ان کی ناراضی کسی کو قانون کے خلاف کوئی نقصان پہنچا سکتی تھی۔ کوئی ان کے اپنے حق پر بھی دست درازی کرتا تو وہ ایک عام آدمی کی طرح مدافعت کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے، اور کسی کو ان کے خلاف شکایت ہوتی تو وہ استغاثہ کرکے انہیں عدالت میں کھینچ لا سکتا تھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنی حکومت کے گورنروں اور سپہ سالاروں کو بھی قانون کی گرفت میں کس رکھا تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ عدالت کے کام میں کسی قاضی پر اثرانداز ہونے کا خیال بھی کرتا۔ کسی کا یہ مرتبہ نہ تھا کہ قانون کی حد سے قدم باہر نکال کر مواخذہ سے بچ جاتا۔ لیکن خلافت سے بادشاہی کی طرف انتقال واقع ہوتے ہی اس قاعدے کے بھی چیتھڑے اڑ گئے۔ اب بادشاہ اور شاہزادے اور امراء اور حکام اور سپہ سالار ہی نہیں، شاہی محلات کے منہ چڑھے لونڈی غلام تک قانون سے بالاتر ہوگئے۔ لوگوں کی گردنیں اور پیٹھیں اور مال اور آبروئیں، سب ان کے لیے مباح ہوگئیں۔ انصاف کے دو معیار بن گئے۔ ایک کمزور کے لیے اور دوسرا طاقتور کے لیے۔ مقدمات میں عدالتوں پر دبائو ڈالے جانے لگے اور بے لاگ انصاف کرنے والے قاضیوں کی شامت آنے لگی۔ حتیٰ کہ خداترس فقہاء نے عدالت کی کرسی پر بیٹھنے کے بجائے کوڑے کھانا اور قید ہوجانا زیادہ قابلِ ترجیح سمجھا، تاکہ وہ ظلم وجور کے آلہ کار بن کر خدا کے عذاب کے مستحق نہ بنیں۔
حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات
7۔ مسلمانوں میں حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات، اسلامی دستور کا ساتواں اصول تھا جسے ابتدائی اسلامی ریاست میں پوری قوت کے ساتھ قائم کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے درمیان نسل، وطن، زبان وغیرہ کا کوئی امتیاز نہ تھا۔ قبیلے اور خاندان اور حسب ونسب کے لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ تھی۔ خدا اور رسول کے ماننے والے سب لوگوں کے حقوق یکساں تھے اور سب کی حیثیت برابر تھی۔ ایک کو دوسرے پر ترجیح اگر تھی تو سیرت واخلاق اور اہلیت وصلاحیت اور خدمات کے لحاظ سے تھی۔ لیکن خلافت کی جگہ جب بادشاہی نظام آیا تو عصبیت کے شیاطین ہر گوشے سے سر اٹھانے لگے۔ شاہی خاندان اور ان کے حامی خاندانوں کا مرتبہ سب سے بلند و برتر ہوگیا۔ ان کے قبیلوں کو دوسرے قبیلوں پر ترجیحی حقوق حاصل ہوگئے۔ عربی اور عجمی کے تعصبات جاگ اٹھے، اور خود عربوں میں قبیلے اور قبیلے کے درمیان کشمکش پیدا ہوگئی۔ ملتِ اسلامیہ کو اس چیز نے جو نقصان پہنچایا، اس پر تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔
امام حسینؓ کا کردار
یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا کہ یزید کی ولی عہدی ان تغیرات کا نقطہ آغاز تھی، اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہوگئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا، اُس وقت یہ خرابیاں اگرچہ بہ تمام وکمال سامنے نہ آئی تھیں، مگر ہر صاحبِ بصیرت آدمی جان سکتا تھا کہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں، اور اس سے اُن اصلاحات پر پانی پھِر جانے والا ہے جو اسلام نے سیاست و ریاست کے نظام میں کی ہیں۔ اسی لیے امام حسینؓ اس پر صبر نہ کرسکے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انہیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں، ان کا خطرہ مول لے کر بھی انہیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کوشش کا جو انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے، مگر امام نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کرکے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امتِ مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جسے بچانے کے لیے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔ اور اِن خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنہیں اوپر نمبروار گنایا گیا ہے، دین اور ملّت کے لیے وہ آفتِ عظمیٰ ہیں جسے روکنے کے لیے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کردینا پڑے تو اس سے دریغ نہ کرنا چاہیے۔
کسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے، مگر حسینؓ ابن علیؓ کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام ہے۔ اسی لیے انہوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی۔
حوالہ: ( ہفت روزہ’’ایشیا‘‘لاہور، 8 جولائی1960ء، بمطابق 13 محرم الحرام 1380ھ۔ ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ لاہور، 2 دسمبر 1979ء)۔