کشمیر میں کشمکش … حزبِ اختلاف کہاں ہے؟

کشمیر، جسے بانی ٔ پاکستان نے پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ قرار دیا تھا، اور حساس جغرافیائی حیثیت، آبادی کی غالب مسلم اکثریت، اس کی نظریۂ پاکستان سے شعوری وابستگی اور کشمیری عوام کی پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستان سے محبت کی کیفیت دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بانی ٔ پاکستان کا یہ فرمان محض جذباتی نعرہ نہیں تھا بلکہ سو فیصد عملی حقیقت کا اظہار تھا۔ چنانچہ معاملے کی اسی نزاکت اور اہمیت کا احساس تھا جس کے پیشِ نظر قائداعظمؒ نے ایک ایسے عالم میں آزادی ٔ کشمیر کے لیے جہاد کا آغاز کردیا جب کہ خود پاکستان ایک نومولود مملکت تھا۔ اس کے پاس باقاعدہ فوج تھی نہ معاشی استحکام۔ استحکام تو بہت دور کی بات ہے، مملکت کے بنیادی امور چلانے کے لیے سرمایہ بھی دستیاب نہیں تھا۔ بھارت نے پاکستان کے حصے کے واجبات روک رکھے تھے اور سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی تک کے لیے پیسے نہیں تھے، بھارت سے لٹے پٹے اور بے یارو مددگار مہاجرین کے قافلے ہر روز پاکستان میں داخل ہورہے تھے۔ مگر قائداعظم نے ان تمام مسائل اور مصائب کی پروا کیے بغیر محض اللہ کے بھروسے پر اپنی ’’شہ رگ‘‘ کی آزادی کے لیے میدانِ جہاد میں کود پڑنے کا بظاہر ناقابلِ فہم فیصلہ کیا، اور یہ ’آزاد کشمیر‘ کے نام سے جو خطہ ہمارے پاس موجود ہے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور جہادکی برکت کا ثمر ہے، کہ خود رب کائنات کا فرمان ہے جس کی سچائی پر تاریخ نے بار بار مہرِ تصدیق ثبت کی ہے کہ ’’…بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اِذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے…‘‘ (تفہیم القرآن: جلد اول، سورۂ بقرہ، آیت 249)
مگر پھر یہ ہوا کہ مجاہدین کے ہاتھوں شکستِ فاش سے دوچار بھارتی حکمران بھاگے بھاگے ’’اقوام متحدہ‘‘ پہنچے اور عالمی استعمار کے مفادات کے محافظ اقوام متحدہ نامی اس ادارے نے کشمیری عوام کو ’’حقِ خودارادیت‘‘ دلانے اور اُن کے مستقبل کا فیصلہ ’’رائے شماری‘‘ سے کرانے کا ’’لالی پاپ‘‘ دے کر خطے میں جنگ بندی کرادی۔ تب سے اب تک ہم مسلسل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدے جیسے کھلونوں سے جی بہلانے میں مصروف ہیں۔ پون صدی ہونے کو آئی ہے کشمیر کے مسلمان بھارت کے ہر نوع کے ریاستی ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں مگر انہیں حقِ خود ارادیت ملا ہے اور نہ رائے شماری کی نوبت آئی ہے۔ اس کے برعکس سوڈان اور انڈونیشیا کی مسلمان مملکتوں کے عیسائی اکثریت کے علاقوں کی جانب سے خودمختاری کے مطالبے پر برسوں نہیں محض چند ماہ میں رائے شماری کرا کے انہیں آزاد اور خودمختار حیثیت دے دی گئی… مگر کشمیری مسلمان جان و مال اور عزت و آبرو سمیت ہر طرح کی قربانیاں دینے کے باوجود آج بھی حقِ خودارادیت سے محروم اور رائے شماری کے منتظر ہیں۔ سبب اس کا مصورِ پاکستان علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘… اور علاج وہی ہے جو بانیٔ پاکستان محمد علی جناحؒ نے شروع کیا تھا اور پاکستان کو مسجد کی طرح مقدس قرار دینے والے مفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سمیت تمام صاحبانِ فہم و بصیرت تجویز کرتے آئے ہیں، یعنی جہاد، جہاد اور فقط جہاد… کہ لاتوں کے بھوت کو باتوں سے منانے کی تمام کوششیں سعیٔ لاحاصل کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
بھارت نے 5 اگست کو ایک بار پھر کشمیر پر جان لیوا وار کیا ہے۔ ظالم بھارتی فوج نے کم و بیش چالیس روز سے مقبوضہ کشمیر میں سخت ترین کرفیو نافذ کررکھا ہے۔ صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سید علی گیلانی جیسا صابر و شاکر اور جرأت مند رہنما بھی چیخ چیح کر ظلم و ستم کی انتہا اور دنیا کی بے حسی کا نوحہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے… دنیا کی بات تو بعد کی ہے خود پاکستان، جس کی ’شہ رگ‘ دشمن کی دست برد میں ہے، کا معاملہ یہ ہے کہ محسوس ہوتا ہے کشمیر صرف حکومت اور جماعت اسلامی کا مسئلہ ہے، کسی دوسری سیاسی جماعت کو اس کی پروا ہے نہ فکر… پیپلز پارٹی کہ جس کے بانی نے کشمیر کے لیے ہزار سال تک لڑنے کا اعلان کیا تھا، اور جس کے نوجوان چیئرمین آج بھی خود کو اس نعرے کا وارث قرار دیتے نہیں تھکتے… مسلم لیگ (ن) کہ ملک کی سب سے بڑی عوامی اور نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار ہے جس کے قائدین خود کو کشمیری کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں… اور جمعیت علماء اسلام جس کے امیر محترم مولانا فضل الرحمان ایک عشرے تک کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں، اپوزیشن کی یہ تینوں بڑی جماعتیں، خود حکمران جماعت تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت، اور حزبِ اختلاف و حزبِ اقتدار کا حصہ دیگر چھوٹی بڑی جماعتیں… سب آخر کہاں ہیں؟ ذرا ذرا سی بات پر طوفان اٹھا دینے والی نواز لیگ، پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور ایم کیو ایم سمیت، ان سب سیاسی قوتوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے؟ ملک کی شہ رگ پر دشمن نے جان لیوا کاری وار کیا ہے۔ کشمیر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے مگر مجال ہے ان سب جماعتوں کی جانب سے معمولی سا احتجاج بھی کہیں دکھائی دیا ہو۔ ہاں مولانا فضل الرحمان ان نازک ملکی حالات اور حساس لمحات میں بھی اپنے اتحادیوں کے ہمراہ اکتوبر میں اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کی دھمکیاں بلا ناغہ دے رہے ہیں۔ کسی کو ملکی سالمیت کی فکر ہے نہ قومی اتحاد و یک جہتی کی ضرورت کا احساس… گویا حزبِ اختلاف کا کام محض حکومت پر تنقید کرنا ہی رہ گیا ہے، ان کی اپنی کوئی ذمہ داری نہیں۔ کشمیر کا مسئلہ کیا فقط حکومت اور جماعت اسلامی کی ذمہ داری ہے؟ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں؟ انہیں اپنی لہو لہو شہ رگ کی موت و حیات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ کشمیر کی نازک صورت حال کے باوجود ’’ثُمٌ بُکْمٌ، عُمٌ‘‘ کی تصویر بنی بیٹھی ہیں…؟
(حامد ریاض ڈوگر)