۔’توجہ مرکز‘ معیشت

جب تم سوشل میڈیا، اسمارٹ فون، اور انٹرنیٹ کی شکایتیں کرتے ہو، تو بنیادی وجہ ایک ہی نظر آتی ہے۔ توجہ کا بحران۔ لوگوں کے پاس اب کسی معقول چیز پر توجہ دینے کے لیے وقت ہی نہیں بچا۔ یہاں تک کہ تمہارے سامنے کیا ہے؟ اس پر توجہ بھی نہیں ہے

مارک مینسن/ترجمہ:ناصر فاروق
آخری بار جب فیس بُک لاگ ان کیا، تو عجیب سرخیوں سے پالا پڑا کہ ’ایک سو سال کی بڑھیا ہے جس نے پہلے کبھی سمندر نہیں دیکھا‘۔ ایک سرخی کچھ اس طرح کی تھی کہ ’ایسی آٹھ نشانیاں جن سے جانا جاسکتا ہے کہ تم ایک نوّے کی دہائی کے بچے ہو‘۔ ایک مضمون یہ دعویٰ کررہا تھا کہ ’ایسے گیارہ اقدامات جو تمہیں ایک اچھا خریدار بناسکتے ہیں‘۔
آج کی یہی زندگی ہے: ایک مسلسل نہ ختم ہونے والا بے ہنگم سا اشتہاری سلسلہ ہے، جو ٹچ اسکرین کے ساتھ ساتھ کسی گندگی کی طرح ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتا رہتا ہے اور ہمارے اذہان پراگندہ کرتا رہتا ہے۔ مثال کے طورپر ہالی وڈ فنکاراؤں کی نیم برہنہ تصاویر اب بڑی خبریں بن چکی ہیں۔
ایسی عورتیں جنھوں نے زندگی میں کچھ غیر معمولی نہیں کیا سوائے اس کے کہ ائیر ٹائم کا بہت سارا وقت برباد کیا اور مال بنایا۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اس بے کار مواد کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنادیا ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے خلاف عموماً تین شکایتیں ہیں۔ پہلی شکایت یہ ہے کہ یہ ہمیں کھوکھلا اور بے معنی بنارہے ہیں۔ دوسری شکایت یہ ہے کہ انسانی تعلقات میں بگاڑ اور آخرکار تنہائی کا شکار کررہے ہیں۔ تیسری شکایت یہ ہے کہ اصل زندگی سے توجہ ہٹارہے ہیں، یوں زندگی برباد ہورہی ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ تینوں شکایتیں بھی تحقیق سے بالکل درست ثابت نہیں ہوتیں ۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ لوگوں کے درمیان تعلقات نہیں بگاڑ رہے بلکہ تعلقات کا دائرہ اتنا بڑھا رہے ہیں کہ معیارگرتا چلا جارہا ہے۔ اسی طرح یہ ہمیں آسان معلومات، روابط کی سہولت، اور دیگر مواصلاتی سہولیات مہیا کرتے ہیں، مگر ہم خود گندگی میں لت پت ہوجاتے ہیں۔
وجوہات جو بھی ہوں، انٹرنیٹ ہمیں برباد کررہا ہے۔ یہ ایک ایسی پریشانی کی طرح ہے جو ہر نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ وارد ہوتی ہے۔ جب ٹی وی، ریڈیو آئے تھے، لوگوں نے شکایت کی تھی کہ ہر کسی کا دماغ ٹی وی میں گُم ہورہا ہے۔ جب پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا تو لوگوں کو اندیشہ لاحق ہوا کہ یہ ہماری بولنے کی صلاحیت ہی نہ چھین لے۔ ’بچوں کے دماغ ٹیکنالوجی سے خراب ہوتے ہیں‘ یہ شکایت اتنی ہی پرانی ہے کہ جتنی خود ٹیکنالوجی ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی بھی ہمیں نہیں بدل رہی بلکہ یہ معاشرہ بدل رہی ہے۔ ان دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے۔ ایک یہ کہ ہم کیسے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہم اردگرد کی دنیا سے روزمرہ معاملات یا ابلاغ کس طرح کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی دنیا ہماری روزمرہ کی زندگی کا معمول بدل رہی ہے۔ یہ ان میں خاصی بنیادی تبدیلیاں لارہی ہے۔ یہ ایسی تبدیلیاں ہیں جن کا ہم نوٹس تک نہیں لیتے۔ حیرت انگیز طور پر ہماری اس معمول کی غفلت کا فائدہ ائیر ٹائم چُرانے والے لوگ اٹھارہے ہیں۔
اگر تم نے کبھی کسی غریب ملک میں کچھ وقت گزارا ہو، یا ایسی کسی غربت میں تم پلے بڑھے ہو، تو یہ ضرور دیکھا ہوگا کہ لوگ کھانے پینے کی باتیں بہت زیادہ کرتے ہیں، پسندیدہ کھانوں کا ذکر ہوتا رہتا ہے، اور یہ کہ اس ویک اینڈ پر وہ کیا کھانے کا پروگرام بنا رہے ہیں؟ انھیں کون سا کھانا پسند ہے؟ اور کون سا نہیں وغیرہ وغیرہ۔
ایسے لوگوں کی زندگی اور گفتگو کھانے پینے کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ اس کی سادہ سی وجہ ہے۔ مکمل خوراک اور اچھے کھانے کی کمی سے ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تم اسٹرابیری کو کینو پر ترجیح دیتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دونوں ہی پھلوں سے ذرا دور رہے ہو۔ مگر امیر معاشروں میں خوراک کوئی معاملہ ہی نہیں ہے۔ ان لوگوں کے درمیان مباحث کے موضوعات کچھ اور ہوتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں سب سے بڑی معاشی ضرورت زمین رہی ہے۔ اُس پر پیداواری زمین کی اہمیت اور بھی زیادہ رہی ہے۔ اور اُس سے بھی زیادہ اہمیت خوراک کی مناسب فراہمی رہی ہے۔ معاش، خوراک، اور زمین کے جھگڑوں پر ساری سیاست کا دارومدار رہا ہے۔ لوگوں کی ساری زندگیاں اسی جدوجہد میں گزر گئی ہیں کہ زمین کیسے حاصل کی جائے اور خوراک کا انتظام کہاں سے کیا جائے۔
جب صنعتی دور آیا، زمین کی حیثیت غالب نہ رہی۔ اب مشینیں خوراک کا کافی بندوبست کررہی تھیں۔ اب مزدوری کی کمی تھی، کیونکہ تربیت یافتہ مزدوروں کی فوری ضرورت آپڑی تھی۔ لوگ پیسے بنارہے تھے، امیر ہورہے تھے۔ یوں دو صدیاں مزدوری اور مہارت پر انحصار میں گزریں۔
بیسویں صدی میں خوراک اور زمین دونوں نایاب نہ رہیں۔ اب معلومات کی طلب بڑھ گئی تھی۔ لوگوں کے پاس انتخاب کی آزادی تھی، مگر صارف پریشان تھا کہ کیا خریدے اور کیا چھوڑے۔ اشیاء کی فراوانی نے نئی مشکل میں ڈال دیا تھا۔ اب لوگوں کا سارا وقت یہ جاننے میں برباد ہونے لگا کہ کون سا ٹوتھ پیسٹ سب سے اچھا ہے؟ کون سے جوتے لینے چاہیئں؟ بونس کی رقم کہاں خرچ کی جائے؟ کس پراجیکٹ میں پیسہ لگایا جائے؟ چھٹیاں کہاں گزاری جائیں؟ ان سب کے بارے میں درست معلومات کہاں سے مل سکتی ہیں؟ مارکیٹنگ اور اشتہاری صنعت کی آمد نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ اب یہ معاشرے پر حکمران ہوگئیں۔ اب لوگوں کی دانش کا سارا انحصار اشتہاری معلومات پر تھا۔
اور اب انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی دنیا ہے، جو برباد ہورہی ہے۔ ہر شے انتشار میں ہے۔ انٹرنیٹ کی آمد نے معلومات اور علم کی کمی کا قضیہ بھی چکادیا۔ اب اتنی زیادہ اور بے ہنگم معلومات کا طوفان امڈ آیا ہے کہ یقین کی کمی واقع ہوگئی ہے۔ ایک پراڈکٹ کے بارے میں دس سیکنڈ کے اندر پانچ سو ذرائع معلومات سامنے آموجود ہوتے ہیں۔
اب یہ ہماری دنیا ہے جہاں زمین، خوراک، اور معلومات کی بھرمار ہے۔ پھر کمی کہاں واقع ہورہی ہے؟ انٹرنیٹ عہد کا بحران ’توجہ‘ کا ہے۔ جی ہاں، ہمیں کسی معاملے میں یکسوئی حاصل نہیں ہو پارہی۔ ہماری معیشت اب ’توجہ مرکز‘ ہوچکی ہے۔ اب لوگوں کی توجہ پر حملے کیے جارہے ہیں۔ ہم میں سے ہر فرد پر یومیہ تین ہزار اشتہاری پیغامات کی بمباری کی جارہی ہے۔ اس کثرت کے سبب اشتہار کا معیار تعداد سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ احمقانہ اور جنسی اشتہارات ہمارے منہ پر چپکائے جارہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا احمقانہ اشتہاری سرخیوں سے پلاسٹر نظر آتا ہے، جیسے ’مجھے لگا کہ بس میں مرنے والا ہوں، تم یقین نہیں کروگے کہ کس طرح اس برفانی ریچھ نے میری جان بچائی‘، اور جب تم اس اشتہار پر کلک کرتے ہو تو یوٹیوب کی ایک ایسی ویڈیو پر پہنچ جاتے ہو جس کا برفانی ریچھ سے دور کا واسطہ نہیں ہوتا، بلکہ آگے سے اشتہارات کا نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب سیاست سنجیدہ پالیسیوں کے بجائے ڈرامائی ہوچکی ہے۔ سیاسی اداکار بس منفی یا مثبت توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ سیاسی جماعتیں کررہی ہیں۔ یہ سیاست بھی اشتہاری اور کمرشل ہورہی ہے، بالکل موسیقی کی ویڈیوز کی طرح یا فلموں کی مانند۔
اس توجہ کا کوئی معیار نہیں۔ اس بات کی اہمیت بھی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ انسانوں کی توجہ حاصل کی جائے۔ خواہ اس کے لیے کتنے ہی گھٹیا طریقے اختیار کیے جائیں، بس توجہ حاصل ہونی چاہیے۔ کم کرداشیاں کی مثال سب سے نمایاں ہے۔ یہ عورت اپنے جسم کی نمائش پر نوبیل پرائز ونرز سے زیادہ کماتی ہے۔ یہ جس نائٹ کلب کے لیے کام کرتی ہے، وہاں کی داخلہ فیس فی شخص ڈھائی ہزار ڈالر ہے۔ فوربزکے مطابق کرداشیاں کی سالانہ کمائی دوکروڑ اسّی لاکھ ڈالرہے۔
احمق اور بے وقوف لوگوں کا امیر ہونا ہماری ثقافت میں کچھ نیا نہیں۔ مگر’توجہ‘ کی معیشت یہ مسئلہ ناقابلِ حل بنا رہی ہے۔ جب ہم اس ’توجہ مرکز‘ معیشت کو زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی اختیار کرتے ہیں تو مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
’توجہ مرکز‘ معیشت کس طرح انتہاپسندی کو فروغ دیتی ہے؟
سوشل نیٹ ورکس ’توجہ مرکز‘ معیشت کا کاروباری نمونہ ہیں۔ اس کے ریونیو کا سارا انحصار آنکھوں کی گردش اور بٹنوں کی کلکس پر ہے۔ اس کے لیے یہ ایلگوریتھم ڈیزائن کرتے ہیں، جو دلچسپ چیزیں اور توجہ حاصل کرنے والی اشیاء تمہارے سوشل نیٹ ورک میں شامل کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر تمہارا نیوزفیڈ بورنگ اور بیکار مواد پر مبنی ہے، تو تم اسے دیکھنا چھوڑ دو گے۔
اسی طرح انتہاپسندی پر مبنی مواد کی تشہیرکی جاتی ہے، کیونکہ یہ انتہائی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ سیاسی طور پر یہ انتہا پسندی گمراہ کُن نظریات پھیلانے کا ذریعہ ہے، یہ انتہا پسند بیانیے بہت زیادہ ائیر ٹائم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ’توجہ مرکز‘ معیشت اُن لوگوں کو خوب نوازتی ہے جو خودغرض اور خودپسند ہوتے ہیں، کیونکہ ایسے لوگ توجہ حاصل کرنے میں بہت تیز ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی خودپسندی میں ڈوب رہا ہے اور باقی لوگوں کو بھی ڈبورہا ہے۔
’توجہ مرکز‘ معیشت نہ صرف معاشرے کے بارے میں ہمارے عمومی تصورات مجروح کرتی ہے بلکہ ذاتی زندگیوں میں بھی چیزوں کو دیکھنے کا زاویہ بدل دیتی ہے۔ اگر ایسا لگتا ہے کہ ہر آدمی شادی کرتا ہے، بچوں کے ساتھ دنیا بھرکی سیر کرتا ہے، اور زندگی کا لطف اٹھاتا ہے، تو یہ صورت حال عام ہرگز نہیں۔ ایسا لگنا صرف اس وجہ سے ہے کہ اشتہار بازی ہمیں ہر وقت ایسا دکھاتی رہتی ہے، جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہر ایک ایسی زندگی بسر نہیں کررہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ہر وقت یہ محسوس کرتے ہیں کہ ’ایسی زندگی‘ ہماری کیوں نہیں؟ ہم کب ایسی پُرلطف زندگی گزار سکیں گے؟
خطرات جیسے کہ ایبولا وائرس اور دہشت گردی بہت زیادہ سنسنی خیز بنائے جاچکے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ واقعی کوئی ’خطرہ‘ ہیں، بلکہ اس لیے کہ یہ انتہا پسند رجحان رکھتے ہیں، اور بھرپور توجہ سمیٹ لیتے ہیں۔ یہ زیادہ آسان ہے کہ تم کڑکتی بجلیوں میں گھِر کر کسی شارک کا تر نوالہ بن جاؤ بہ نسبت اس کے کہ کسی دہشت گرد واقعے میں ہلاک ہوجاؤ۔ تمہارے فلو سے مرجانے کے امکانات ایبولا کے ہاتھوں ہلاک ہونے سے بہت زیادہ ہیں۔ ہماری ثقافت میں مسلسل شدت سے یہ محسوس ہورہا ہے کہ تیزی سے منہدم ہورہی ہے۔
فضول، بے معنی مگر ڈرامائی واقعات تیزی سے اہمیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ فنکار احمقانہ حرکتیں کرکے خود کو ثقافتی نمائندہ ظاہر کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ کل اگر کم کرداشیاں کسی ٹرک کے نیچے آکر مرجائے، توکون اسے یاد کرے گا؟ یا اُس کی موت سے کسی کی زندگی پر کوئی فرق پڑے گا؟ نہیں، غالباً کسی کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ ہم پھر اُس کے شوہر کین کی ایک اور اچھی البم دیکھ رہے ہوں گے۔
جب تم سوشل میڈیا، اسمارٹ فون، اور انٹرنیٹ کی شکایتیں کرتے ہو، تو بنیادی وجہ ایک ہی نظر آتی ہے۔ توجہ کا بحران۔ لوگوں کے پاس اب کسی معقول چیز پر توجہ دینے کے لیے وقت ہی نہیں بچا۔ یہاں تک کہ تمہارے سامنے کیا ہے؟ اس پر توجہ بھی نہیں ہے۔ کھانے کی میز پر بات تک کی فرصت نہیں ہے۔
توجہ مرکز معیشت روزانہ 8 دلچسپیوں کو 23 مختلف نئے دوستوں میں تقسیم کردیتی ہے، ساتھ ساتھ آپ کی توجہ کے بھی ٹکڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح یکسوئی کی مہارتیں دم توڑ رہی ہیں۔ یہی یکسوئی کامیابی کی ضمانت ہے، اور اب یہ ضمانت نہیں رہی۔
’توجہ مرکز‘ معیشت کے خاموش فائدے
’توجہ مرکز‘ معیشت اپنے ساتھ معاشرتی فوائد بھی لاتی ہے۔ ان میں سے بہت سے ہمارے سامنے نمایاں نہیں ہیں۔ یہ تکلیف دہ بھی ہیں۔ مثال کے طور پر بل کاسبی ایک جنسی درندے کے طور پر سامنے لایا جاتا ہے۔ یہ شخص دہائیوں سے مغربی معاشرے کے لیے رول ماڈل رہا ہے، اور اُس نے اس رول کو کافی سنجیدگی سے لیا بھی ہے۔ پورے امریکہ میں گھوم پھر کر اقدار اور ذمے داریوں پر لیکچر دیے ہیں۔ مگر عورتیں اُس پر برسوں سے زنا بالجبر کے الزامات لگا چکی ہیں۔ انٹرنیٹ سے پہلے جنسی حملے اور دیگر سنگین مگر چھپے ہوئے جرائم سامنے نہیں آتے تھے۔ یہ سب باتیں دُور کے قصے معلوم ہوتی تھیں۔ مگر جدید ٹیکنالوجی نے یہ معاملات پے در پے ہمارے منہ پر لاکھڑے کیے ہیں، خواہ ہمیں اچھے لگیں، نہ لگیں۔ اسی طرح منشیات فروشی اور استعمال کی المناک صورت حال بھی ہمارے سامنے آرہی ہے۔ اسی طرح ہیجڑوں کے معاملات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔
سیاست سے قطع نظر، ٹیکنالوجی تعلقات میں بہتری لاسکتی ہے۔ ہم وہ پہلی نسل ہیں جو بہت آسانی سے رابطے میں ہیں۔ یہاں تک کہ اسکول کے پرانے دوستوں سے بھی بات ہوتی رہتی ہے۔ یہ کبھی ممکن نہ تھا کہ زندگی کے تلخ واقعات اور ہنگامی حالات اتنی تیزی سے شیئر کیے جاسکیں۔ سفر اور دور کے تعلقات ہمیشہ سے بہت زیادہ آسان ہیں۔ کوئی بھی مہینوں برسوں دُور اکیلا رہ کر سب سے رابطے میں رہ سکتا ہے۔ تاہم ٹیکنالوجی بالمشافہ تعلق کا بدل نہیں ہوسکتی، مگر خاطر خواہ تعلق قائم رکھ سکتی ہے۔
معلومات تک رسائی میں بھی انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ پہلے لائبریری جاکر گھنٹوں تلاش و تحقیق میں گزارنے پڑتے تھے۔ کتاب کی دکانوں پر مطلوبہ مواد ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ ایک نقشہ خریدنا پڑتا تھا اور پانچ منٹ تک یہ جائزہ لینا پڑتا تھا کہ کہاں جانا ہے۔
مگر جو مسئلہ ہمیں درپیش ہے وہ دو طرح کا ہے۔ ایک یہ کہ اتنی وافر اور بے ہنگم معلومات کہ درست کا انتخاب دشوار ہوجائے، اور دوسرا مسئلہ ہم انسانوں کی قدروقیمت گھٹ جانا ہے۔
یہ اس لیے ہے کہ جب تک تم اپنی توجہ پرقابو نہیں پاتے، جب تک تم اپنے ارادے کی قوت سے اپنی توجہ کی یکسوئی ممکن نہیں بناتے، جب تک تم چمک دمک سے توجہ ہٹانے کے قابل نہیں ہوجاتے، جب تک تم خود اپنے شعور کے سہارے خیال کوآگے نہیں بڑھاتے، تم اور میں ہرکوئی بطور چارہ ہی استعمال ہوتے رہیں گے۔ اور یہ صورت حال اس طرح بہتر نہیں ہوگی بلکہ اور بگڑے گی۔
مستقبل میں تمہاری توجہ بیچی جائے گی۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صرف وہ لوگ ہی اس توجہ پر سرمایہ لگا سکیں جن کی اپنی توجہ اُن کے قابو میں ہو۔