اردو اور نفاذِ اردو

۔7 ستمبر کو جمعیت الفلاح نے ’’پاکستان میں نفاذِ اردو‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا، جس میں کئی اہلِ علم و ادب حضرات نے خطاب کیا۔ ہم نے صرف سننے پر اکتفا کیا کہ ایسے ماہرینِ لسانیات کے سامنے کیا منہ کھولتے۔ یوں بھی یہ کھٹکا رہتا ہے کہ ہم جو دوسروں کی غلطیاں پکڑتے ہیں ہماری زبان سے کوئی غلط لفظ، کوئی غلط تلفظ نکل گیا تو ’’خود میاں فضیحت‘‘ کا مصداق ٹھیریں گے۔ اس کا تجربہ کئی بار ہوچکا ہے۔ ایک محفل میں اچانک ایک صاحب نے ہمیں ’بابا اردو‘ سمجھ کر پوچھ لیا کہ ’’سبزۂ نورستہ‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے نورستہ کی ’ر‘ کو زبر کے ساتھ کہا جیسے رَستہ۔ اور ہم بھی یہی تلفظ کرتے تھے۔ علامہ اقبال نے اپنی والدہ کی یاد میں جو نظم کہی تھی اُس کے آخر میں یہ دعا ہے ’’سبزۂ نورستہ تیرے در کی دربانی کرے‘‘۔ ہم اس کو نیا رستہ سمجھتے رہے۔ اس سے پہلے کہ ہماری جہالت آشکار ہوتی، ہمارے برابر میں بیٹھے ہوئے محترم منظر ایوبی نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا، اور نہ صرف مطلب بتایا بلکہ ہم پر بھی صحیح تلفظ واضح ہوا کہ یہ ’’نورُستہ‘‘ یعنی ’ر‘ پر پیش ہے۔ جناب عنایت علی خان نے ایک مضمون میں اعتراف کیا ہے کہ وہ ’کیف و کم‘ میں ’کم‘ کو بمعنیٰ کمی کے سمجھتے رہے۔ لیکن یہ ان کا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ اب تو بڑے استاد ہیں۔
پاکستان میں نفاذِ اردو کے لیے جس سطح پر بھی کوئی کوشش ہو قابلِ تحسین ہے، تاہم تقریروں سے بہتر ہے کہ ایسے موضوعات پر مذاکرے کرائے جائیں۔ ایک ہی میز پر بیٹھ کر گفتگو کی جائے، اس طرح کئی افراد کی رائے سامنے آئے گی اور ہم بھی خطاب کی فرمائش سے بچ رہیں گے۔ پاکستان میں اردو کا نفاذ یقیناً بہت ضروری ہے اور آئین کا تقاضہ بھی۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں خود پر اردو نافذ کرنی پڑے گی۔ اس کا آغاز گھر سے کریں اور اپنے بچوں کو پاس بٹھاکر اُن سے اردو سنیں، کوئی اخبار یا رسالہ اُن کو دے کر کہیں کہ وہ پڑھ کر سنائیں۔ اوروں کا تو نہیں کہہ سکتا لیکن خود میرے ’’پڑھے لکھے‘‘ لڑکے صحیح اردو نہیں پڑھ پاتے۔ چنانچہ پہلے اردو کا نفاذ اپنے گھر سے کرنا ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ تو نہیں کہ اردو کا املا ہمارے اخبارات بگاڑ رہے ہیں اور تلفظ ہمارے ٹی وی چینلز۔ کوئی اینکر (مرد یا خاتون) صحیح تلفظ ادا کرتا ہے تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ اب آج (9ستمبر) ہی کے کراچی سے شائع ہونے والے ایک اخبار کی سرخی میں ’’قوائد و ضوابط‘‘ شائع ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ صحافی نے کبھی قاعدہ نہیں پڑھا ہوگا، اور کچھ عجب نہیں کہ قائداعظم کو ’’قاعداعظم‘‘ لکھ دے۔
محترم عطاء الحق قاسمی ایک بہت بڑے کالم نگار، ادیب اور شاعر ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دنوں اپنے کالم میں ’’میری کمر درد‘‘ لکھا ہے۔ چونکہ کمر مونث ہے اس لیے انہوں نے درد کو بھی بے دردی سے مونث کردیا۔ وہ ’’میری کمر میں درد‘‘ بھی لکھ سکتے تھے۔ ہمارے ساتھی زرِ تلافی کو مونث لکھنے کے شوقین ہیں کیونکہ ’تلافی‘ مونث ہے۔ حالانکہ ’زر‘ مذکر ہے۔ ترکیب کو الٹ کر دیکھ لیں ’’تلافی کا زر‘‘۔ ایسے ہی ایک غلطی اشاریے اور اعشاریے میں ہورہی ہے۔ ایک ٹی وی پر چلنے والی پٹی میں بھی اشاریے کی جگہ عشاریہ دیکھا۔ اشاریہ دراصل انڈیکیٹر (INDICATER) کا ترجمہ ہے۔
ایک اور بڑی اور بہت لکھنے والی محترمہ کشور ناہید ہیں۔ ادیب بھی ہیں اور شاعر بھی۔ انہوں نے گزشتہ دنوں اپنے کالم میں کسی خاتون کے لیے لکھا ’’میری عزیزی‘‘۔ انہیں اتنا تو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ جب عربی میں ’ی‘ کا لاحقہ لگائیں تو اس کا مطلب ہی میری یا میرا ہوتا ہے۔ مثلاً کتابی، قلمی۔ یعنی میری کتاب، میرا قلم۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عربی میں کتاب مذکر ہے۔ اسی طرح شجر اور شمس اردو میں تو مذکر ہیں مگر عربی میں مونث۔ کشور ناہید مذکورہ ترکیب میں سے یا تو ’’میری‘‘ نکال دیتیں یا ’’عزیزی‘‘ کی ’ی‘ ہٹا دیتیں۔ ہم جیسے لوگ تو ان بڑے ادیبوں ہی سے سیکھتے ہیں اور نئی نسل انہی کو سند سمجھے گی۔ ہم کو تو یہ پریشانی لاحق ہے کہ ’تشنہ‘ میں ’ت‘ پر زبر ہے یا زیر۔ ایک صاحب تِشنہ کہہ رہے تھے۔
ایک پریشانی یہ لاحق ہے کہ ’تن و توش‘ میں ’توش‘ کیا ہے، اور ’تنومند‘ میں ’مند‘ کا کیا مطلب ہے؟ ویسے تو ’مند‘ بطور لاحقہ کئی الفاظ کو لاحق ہے مثلاً فکرمند، طالع مند، آبرو مند وغیرہ۔ لیکن کیا ’تنومند‘ میں بھی یہ ’مند‘ لاحقہ ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو یہ ’تنو‘ کیا چیز ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ’تن و مند‘ ہو۔ ویسے سنسکرت میں تن کو ’تنو‘ کہتے ہیں۔ ہمیں تو تنو کسی خاتون کا نام لگتا ہے۔ عام طور پر تنویر کو مختصر کرکے تنو کرلیتے ہیں۔ جہاں تک تن و توش کا تعلق ہے تو تلاش کے بعد لغت میں ’توش‘ ملا ہے جس کا مطلب ہے ’توانائی‘۔
فیس بک پر ایک پوسٹ گردش کررہی ہے کہ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘۔ اس میں کتا سے مراد ہمیشہ معروف جانور ہی سمجھا، پڑھا گیا، لیکن اس محاورے میں یہ لفظ کتا ’’کاف کے ضمہ‘‘ کے ساتھ جانور والا نہیں، بلکہ کتا ’’کاف کے زبر‘‘ والا ہے، جس سے مراد کپڑے دھونے کا وہ ڈنڈا ہے جسے دھوبی ساتھ لیے پھرتا ہے۔ تاہم یہ دعویٰ محلِ نظر ہے، کیوں کہ ایک تو میر تقی میرؔ نے اپنی طویل ہجو کے ایک شعر میں دھوبی کا کتا بمعنی سگ ہی باندھا ہے۔ ملاحظہ ہو:

کتوں کی جستجو میں ہوا روڑا باٹ کا
دھوبی کا کتا ہے کہ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا

دوسرا دھلائی کے ڈنڈے کو ’’کاف کے ضمہ اور تا پر تشدید کے ساتھ‘‘ کتک کہا جاتا ہے۔ نوراللغات اور فرہنگ آصفیہ میں ہے کتک کے معنی سونٹا، موسل اور موسلی ہیں۔
ایسے ہی ایک محاورہ عام طور پر یوں مشہور ہے ’’مرا ہاتھی سوا لاکھ کا‘‘۔ اصل محاورے میں ہاتھی مرتا نہیں بلکہ صرف لٹتا ہے، یعنی ’’لٹا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا‘‘۔ ایک محاورہ ہے ’’ننگی کیا نہائے گی کیا نچوڑے گی‘‘۔ جب کہ اصل محاورہ میں ’گنجی‘ ہے۔ جب سر پر بال ہی نہ ہوں تو کیا نچوڑے گی۔ اخبارات میں ’’الفاظوں، مواقعوں‘‘ کا استعمال بہت ہورہا ہے۔ ایک بہت گستاخانہ محاورہ لکھا بھی جاتا ہے اور بولا بھی جاتا ہے کہ ’’نمازیں بخشوانے گئے تھے روزے گلے پڑ گئے‘‘۔ خدا کے واسطے یہ محاورہ استعمال نہ کریں۔ یہ اشارہ معراج کے واقعے کی طرف ہے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازوں کا تحفہ عطا ہوا، اور غیر مصدقہ روایت کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کی تعداد کم کرنے کی درخواست کی تو اللہ نے انہیں روزے عنایت کردیے۔ روزوں کے لیے ’’گلے پڑنا‘‘ لکھنا یا کہنا انتہائی گناہ کی بات ہے۔
’’پاکستان میں نفاذِ اردو‘‘ کی تقریب میں حضرت اعجاز رحمانی نے ایک نظم پیش کی جو نذرِ قارئین ہے، ویسے بھی اس کالم میں کوئی شعر نہیں دیا۔ ان کے بجائے یہ نظم پڑھ لیجیے:

نفاذ اردو کا

کون کھولے گا راز اردو کا
ہوگا کب تک نفاذ اردو کا
اس میں شامل کئی زبانیں ہیں
سلسلہ ہے دراز اردو کا
اردو جیسی نہیں ہے کوئی زباں
کیا یہ کم ہے جواز اردو کا
نغمگی ایسی کس زبان میں ہے
سوز اردو کا ساز اردو کا
آج تک کوئی بند کر نہ سکا
در ہوا جب سے باز اردو کا
حکمرانی فضائوں پر اس کی
اڑ رہا ہے جہاز اردو کا
کوئی شاعر ہو یا ادیب اعجازؔ
سب اٹھاتے ہیں ناز اردو کا