امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک تازہ ٹویٹر پیغام میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ امریکی صدر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ طالبان سے مذاکرات گزشتہ جمعرات کو ہونے والے کابل حملے کے بعد معطل کیے گئے ہیں جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوگئے تھے، اور جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ اپنے ٹویٹر پیغام میں امریکی صدر نے کہا کہ چھوٹے مفاد کے لیے طالبان نے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کی، وہ مزید کتنی دہائیوں تک لڑنا چاہتے ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہاکہ کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنمائوں سے ہونے والی خفیہ ملاقاتیں بھی منسوخ کردی گئی ہیں۔ امریکی صدر نے اپنی ٹویٹ میں یہ بھی کہا کہ اگر طالبان جنگ بندی نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن میں بامقصد معاہدے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔
واضح رہے کہ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے مابین گزشتہ دس ماہ کے دوران امن مذاکرات کے 9 دور ہوچکے ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے مجوزہ امن معاہدے کے مطابق طالبان کی طرف سے سیکورٹی کی ضمانت کے بدلے تقریباً پانچ ہزار امریکی فوجی 20 ہفتوں میں افغانستان سے چلے جائیں گے۔ اس وقت تقریباً 14 ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ 2001ء میں امریکی حملے کے بعد سے افغانستان میں اب تک بین الاقوامی اتحادی افواج کے تقریباً 3500 ارکان ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے 2300 سے زائد امریکی فوجی ہیں۔ دوسری جانب اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افغان شہریوں، عسکریت پسندوں اور سرکاری افواج کی تعداد کے بارے میں اب تک متضاد اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے فروری 2019ء کی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس جنگ میں اب تک 32 ہزار سے زیادہ افغان شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ ادھر برائون یونیورسٹی میں واٹسن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اس جنگ میں 58 ہزار سیکورٹی اہلکار، جبکہ 42 ہزار مخالف جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں امن معاہدے پر دستخط کے فوراً بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہونا تھے، جن میں جنگ بندی، افغانستان کے مستقبل کے سیاسی نظام، آئینی ترمیم، حکومتی شراکت داری اور طالبان جنگجوئوں کے مستقبل سمیت کئی مسائل پر بات چیت شامل ہے۔
دوسری جانب طالبان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امن مذاکرات معطل کرنے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اور امریکہ کی مذاکراتی ٹیم کے درمیان انتہائی مفید مذاکرات ہونے کے بعد امن معاہدہ مکمل تیار تھا۔ امریکی مذاکراتی ٹیم 7 ستمبر تک ہونے والی پیش رفت سے راضی تھی اور اچھے ماحول میں مذاکرات پایۂ تکمیل کو پہنچ گئے تھے، دونوں فریقین معاہدے کے اعلان اور دستخط کے لیے تیاریوں میں مصروف تھے۔ معاہدے پر دستخط اور باضابطہ اعلان کے بعد23 ستمبر کو بین الافغانی مذاکرات کے لیے تاریخ طے ہوگئی تھی۔ خطے اور دیگر ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے اس مذاکراتی عمل کی حمایت کی تھی۔ اب جبکہ امریکی صدر ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل روک لیا ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو ہوگا، اس پر اعتبار کو نقصان پہنچے گا۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہاکہ امریکہ کا امن کے خلاف مؤقف دنیا پر ظاہر ہوجائے گا، امریکیوں کے جان و مان کے نقصان میں اضافہ اور سیاسی معاملات میں ان کا کر دار متزلزل ہوجائے گا۔ مذاکرات جاری رکھنے سے طالبان نے دنیا پر ثابت کردیا کہ لڑائی ان پر زبردستی تھوپی گئی ہے، اور یہ کہ لڑائی کو سیاسی عمل سے ختم کرنے کا معاملہ ہو تو طالبان اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ معاہد ے کے اعلان سے پہلے کابل میں ایک دھماکے کی بنیاد پر مذاکراتی عمل روکنا غیر منطقی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ بیان میں کہاگیاکہ کابل میں دھماکے سے پہلے امریکہ اور اس کی حمایتی افغان سیکورٹی فورسز نے بہت سے حملوں میں سیکڑوں افغانوں کو شہید کیا ہے اور یہ سلسلہ نہ صرف مذاکرات کے دوران بلکہ اب بھی جاری ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے زلمے خلیل زاد کے ذریعے طالبان کو اگست کے آخر میں امریکہ کے دورے کی دعوت دی گئی تھی، لیکن طالبان نے معاہدے پر دستخط تک یہ دعوت معطل رکھی تھی۔ طالبان کا غیر متزلزل اور پختہ مؤقف ہے کہ ہم نے پہلے بھی مفاہمت کی بات کی تھی اور آج بھی اس مؤقف پر قائم ہیں، ہمیں یقین ہے کہ امریکہ بھی دوبارہ مذاکرات کا راستہ اپنائے گا۔ طالبان نے کہا کہ گزشتہ اٹھارہ سال سے ہماری جدوجہد نے امریکہ پر ثابت کردیا ہے کہ ہم غیر ملکی جارحیت کو ختم کرکے دم لیں گے، اس بڑے مقصد کے لیے ہم نے مسلح جدوجہد جاری رکھی ہے اور اسی راستے پر ہمارا مکمل یقین ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پے درپے تین ٹویٹس کے ذریعے پچھلے دس ماہ سے جاری امن مذاکرات کے خاتمے کا جو اعلان کیا ہے اُس پر ہر جانب سے تعجب اور حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے، البتہ افغان حکومت سمیت وہ تمام قوتیں اس اعلان پر یقیناً خوش ہوں گی جو امریکہ طالبان امن معاہدے پر نہ صرف یہ کہ خوش نہیں تھیں بلکہ انہیں اس معاہدے کی صورت میں اپنا مستقبل بھی مخدوش اور تاریک نظر آرہا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کی معطلی کی وجہ جمعرات کو کابل میں ہونے والے خودکش حملے کو قرار دیا ہے جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ دوسری جانب امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو قریب سے دیکھنے والے مبصرین صدر ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے جانے والے جواز کوتسلیم کرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں ہیں کہ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ مذاکرات اور جنگ ایک ساتھ جاری رہے ہوں، اس ضمن میں طالبان کا مؤقف زیادہ مبنی برحقیقت نظر آتا ہے جس میں ان کاکہنا ہے کہ امریکہ کو اپنے ایک سپاہی کی ہلاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن سیکڑوں افغانوں کو نہیں بھولنا چاہیے جو گزشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکی اور افغان سیکورٹی فورسز کی مختلف کارروائیوں میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ دنوں سی بی ایس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اُنھوں نے پچھلے 10 دن میں 1000 طالبان مارے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے، اور ایسے مزید حملوں کے خدشات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔
افغان امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس اچانک فیصلے کے پیچھے امریکی سیاست میں متحرک وہ لابی ہوسکتی ہے جو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے خلاف ہے اور سمجھتی ہے کہ اس معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں امن ممکن نہیں ہوگا۔ ان کے نزدیک یہ معاہدہ طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے مترادف ہے۔ تاہم بعض تجزیہ کار صدر ٹرمپ کی جانب سے ٹویٹر پر جاری کیے گئے بیان کو کابل میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجی کی ہلاکت کا ردِعمل ہی سمجھتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا استدلال ہے کہ اس پیش رفت کا تعلق امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں امریکیوں، طالبان اور افغان حکومت میں امن معاہدے کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام سے ہے۔ اسی طرح امریکہ میں پینٹاگان، وائٹ ہائوس، سی آئی اے اور کانگریس کے بعض ارکان کو بھی اس معاہدے پر تشویش تھی، اور شاید یہی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے دبائو میں آکر صدر ٹرمپ کو اپنی عادت کے مطابق اس اہم اور نازک مرحلے پر یہ بڑا یوٹرن لینا پڑا ہے۔ اس موقع پر بعض مبصرین امن معاہدے سے متعلق یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ متذکرہ معاہدے پر خود طالبان کی صفوں میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان مبصرین کاکہنا ہے کہ افغان طالبان چونکہ ملّا محمد عمر کی وفات کے بعد اپنا مؤثر چین آف کمانڈ کھو چکے ہیں اور ان میں بعض علاقائی گروپ خاصے مضبوط ہیں، اس لیے ان تمام گروپوں کو کنٹرول میں رکھنا یقیناً ایک بڑا چیلنج ہے، خاص کر ایسے حالات میں جب ان دنوں طالبان کو مختلف غیرملکی قوتوں جن میں روس، چین اور ایران قابلِ ذکر ہیں، کی جانب سے تعاون کی اطلاعات عام ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی معطلی سے سب سے زیادہ فائدہ افغان حکومت کو بظاہر اس لیے ہورہا ہے کہ اُن کی اور امریکہ کی ترجیحات میں واضح فرق ہے۔ امریکہ کی پہلی ترجیح امن معاہدہ، جبکہ افغان حکومت کی پہلی ترجیح آنے والے صدارتی انتخابات ہیں۔
واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کی آئینی مدت 22 مئی کو ختم ہوچکی ہے، لیکن سپریم کورٹ نے اُنھیں ستمبر کے صدارتی انتخابات تک حکومت میں رہنے کی اجازت دی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق طالبان امریکہ کے ساتھ ہونے والے ممکنہ ’امن معاہدے‘ کو اپنی فتح قرار دے رہے تھے اور ایسی اطلاعات تھیں کہ وہ معاہدے کے بعد افغانستان کے مختلف علاقوں میں جشن منانے کی تیاریاں بھی کررہے تھے۔ اس فاتحانہ سوچ کے پیچھے صدر ٹرمپ کا افعانستان سے تمام امریکی افواج نکالنے کے حوالے سے بیان تھا۔ اس کے علاوہ طالبان یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ امریکہ ویسے ہی افغانستان سے نکل رہا ہے اور مذاکرات کرکے وہ خطے سے باعزت طور پر نکلنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے مذاکرات میں دکھائی گئی لچک نے بھی طالبان کو خوش فہمی میں مبتلا کردیا تھا، کیونکہ طالبان آج بھی اپنے اُس مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ حکومت کی حیثیت سے مذاکرات نہیں کریں گے، اور اُن کے بقول سیزفائر پر بین الافغان مذاکرات میں ہی بحث ہوگی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر طالبان واقعی امن مذاکرات کی کامیابی چاہتے تو وہ اپنی اس فاتحانہ سوچ سے باہر نکلتے اور کچھ لچک کا مظاہرہ کرتے۔ طالبان پہلے ہی دن سے لچک دکھانے کی نیت سے نہیں آئے تھے۔ وہ فاتحانہ انداز میں گفتگو کرتے تھے، مذاکرات میں ایسا نہیں ہوتا۔ مذاکرات میں آپ کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر شریک ہوتے ہیں۔
طالبان نے اپنی سرکاری ویب سائٹ امارت الاسلامیہ افغانستان پر ٹرمپ کے مذاکرات کی معطلی کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر ایک کاروباری شخص ہیں۔ انہیں ڈیلنگ اور سودے بازی کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ ہر وقت کسی بھی ٹریک پر چلتے ہوئے یک دم مڑ جانا اور دنیا بھر کو حیران کردینا ان کی عادت ہے۔ یہ الگ بات کہ اس عادت نے انہیں فائدہ کم، نقصان زیادہ پہنچایا ہے۔ وہ ڈیلنگ کے لیے دبائو ڈالتے ہیں۔ دبائو ڈالنے کے لیے مخالف کو زچ اور حیران کرتے ہیں۔ یہ ان کا ’’طریقۂ واردات‘‘ ہے۔ اس طرح مخالف بدحواس ہوکر جلد بازی میں وہ کچھ کر بیٹھتا ہے جو وہ عام حالات میں نہیں کرنا چاہتا۔ افغان امن مذاکرات کے 9طویل مراحل کے دوران ان کے طرح طرح کے بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ وہ چونکاتے ہیں، حیران کرتے اور خدشات میں ڈالتے ہیں، اور پھر واپس پرانے رخ پر چلنے لگتے ہیں۔ یہ ان کا طریقہ واردات تو ہوگا، ناکام یا کامیاب… مگر اس الٹ پھیر نے ان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے امن مذاکرات کے آخری دستخط اور اعلان سے قبل مذاکرات معطل کرنے اور امارتِ اسلامیہ کے رہنمائوں سے ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ گزشتہ ایک سال کی طویل جدوجہد، دماغ سوزی اور ذہنی کشمکش کے بعد امریکی اور امارتِ اسلامیہ کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان جو متفقہ معاہدہ طے ہوا اور پوری باریک بینی سے اس کا متن تیارکیا گیا، ٹرمپ نے حسبِ عادت ایک ٹویٹ سے سب پر پانی پھیر دیا۔ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ، اپنی تاریخ میں سب سے زیادہ فوجی جس جنگ میں امریکہ نے مروائے ہیں اور اپنی تاریخ کا سب سے زیادہ مالی خسارہ جس پر اٹھایا ہے، اس خونیں جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے اہم ترین مذاکرات پر اس قدر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے مذاکرات اچانک معطل کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اُن کے خیال میں وہ اس سے بہتر نتائج حاصل کرپائیں گے۔ اس سے قبل وہ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کے ساتھ بھی ایسا کرچکے ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے امریکی ناراضی کی ڈر سے امارتِ اسلامیہ ٹرمپ کی بلیک میلنگ کا شکار ہوجائے گی، اسے مذاکرات کی ناکامی کا خطرہ لاحق ہوجائے گا اور وہ غیر مشروط جنگ بندی پر راضی ہوجائے گی، جیسا کہ امریکی بیانات سے معلوم ہورہا ہے۔ امریکہ کا یہ خیال غلط اور بے سود ہے۔ 2001ء میں ایک اسامہ بن لادن کی حوالگی کے مطالبے کے جواب میں بھی امارتِ اسلامیہ نے کسی دبائو کا شکار ہوئے بغیر ہمیشہ اصولی انداز میں اپنا مؤقف رکھا، امریکہ سے مذاکرات کے لیے قانونی راستوں کے استعمال کی پیش کش کی، اسامہ بن لادن کے خلاف عدالتی ٹرائل کے ذریعے محکمانہ کارروائی کی دعوت دی۔ انہوں نے بلاکسی معاہدے، بلاکسی قانونی کارروائی، محض امریکی دبائو میں آکر اُس وقت بھی اسامہ بن لادن کی حوالگی کو مسترد کردیا تھا، حالانکہ بڑی قربانیوں کے بعد اس وقت امارتِ اسلامیہ نے اپنی حکومت قائم کی تھی۔ وہ ایک خطہ زمین کے مالک تھے اور افغانستان کے 95 فیصد رقبے پر حاکم تھے۔ اگر اصولی طریقہ کار سے ہٹ کر محض دبائو اور بلیک ملنگ سے فیصلے کرنے ہوتے تو امارتِ اسلامیہ اُس وقت اپنی حکومت بچانے کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہوجاتی۔ اگر اُس وقت عظیم ترین قربانیوں کے لیے ہم نے خود کو پیش کیا تو آج کیا چیز رکاوٹ ہے جہاد کو جاری رکھنے میں، جب امارتِ اسلامیہ کے مجاہدین کے حوصلے آسمانوں کو چھو رہے ہیں! معاہدہ جتنا قریب آرہا ہے مجاہدین تھک ہار کر آرام کرنے کے لیے بیٹھنے کے بجائے مزید جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ محاذوں پر تازہ دم مجاہدین ٹوٹ ٹوٹ کر آرہے ہیں۔ شہید یا غازی بننے کے لیے آخری معرکے میں پورے ملک سے امارتِ اسلامیہ کے نوجوان جوق درجوق آرہے ہیں۔ 32 ہزار فدائی نام لکھوائے اپنی باری کے انتظار میں اب بھی بیٹھے ہیں۔ وہ اس جلدی میں ہیں کہ ان کی باری آنے سے قبل امن معاہدہ طے نہ ہوجائے۔ ایک دوسرے پر سبقت کے لیے جلدی مچی ہوئی ہے۔ ایسے میں ٹرمپ کی بلیک ملنگ ان کے لیے محض ایک مذاق سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ اگر ٹرمپ کو آگے جنگ لڑ کر اپنی کامیابی کا اتنا ہی یقین ہوتا تو بخدا وہ کبھی جنگ چھوڑ کر مذاکرات پر اصرار نہ کرتے۔ 2013ء میں جس دن قطر میں امارتِ اسلامیہ کے سیاسی دفتر کا افتتاح ہوا تھا اُس دن سے امارتِ اسلامیہ کو مذاکرات کے حوالے سے امریکی کوششوں میں سنجیدگی نظر نہیں آئی، اسی لیے ہمیشہ ایسی کوششوں کو ہم نے مسترد کیا۔ امن کے قیام اور افغان عوام کو امن کا تحفہ دینے کے لیے اس بار امارتِ اسلامیہ نے امریکی دعوت کا مثبت جواب دیا۔ امریکہ کے فطری شاطرانہ پن سے پہلے بھی ہمیں خدشات رہتے تھے کہ یہ اتنی آسانی سے کیوں کر امن قائم کرنے پر تیار ہوجائیں گے؟ مگر بہرحال دل کو تسلی دیتے رہے، کہ بالآخر ٹرمپ نے امریکی فطرت آشکارا کرہی دی۔ اب بھی کچھ نہیں گیا، امارتِ اسلامیہ امن کے قیام کے لیے اب بھی آمادہ ہے۔ امریکہ دھوکہ دہی کے اپنے فعل سے باز آجائے اور امن کے قیام میں سنجیدہ ہو۔ دنیا کو یہ باور نہ کرائے کہ امریکہ ایک شدت پسند اور جنگجو ملک ہے۔ وگرنہ یہ گز ہے اور یہ میدان۔ ملّا برادر کا پہلے بھی اعلان یہی تھا کہ خود نہیں نکلو گے تو بزور بازو نکال کے رہیں گے۔ اور کوئی آپشن سرے سے ہے نہیں، لہٰذا جتنا جلدی دوبارہ مذاکرات کی میز پر آئو گے اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے۔
اس حقیقت کو شاید خود امریکہ اور افغان حکومت بھی نہیں جھٹلا سکتے کہ افغانستان کے وسیع علاقے پر اِس وقت بھی امارتِ اسلامیہ کے مجاہدین کا کنٹرول ہے۔ ان میں درجنوں اضلاع مکمل طور پر مجاہدین کے زیرکنٹرول ہیں، جہاں امریکی اور افغان سیکورٹی فورسزکی کوئی موجودگی نظر نہیں آتی، اکثر اضلاع ایسے ہیں جن کے صرف مرکزی بازاروں پرافغان فورسزکا قبضہ ہے، جب کہ ان کے علاوہ تمام بندوبستی علاقے اور راستے مجاہدین کے قبضے میں ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق جن اضلاع کے مراکز پر طالبان قابض ہیں، کابل انتظامیہ نے ان اضلاع کے دفاتر صوبائی دارالحکومتوں میں کھول رکھے ہیں۔ ان میں سے صوبہ فاریاب کے دس اضلاع کے امور صوبائی دارالحکومت میمنہ شہر سے انجام دیئے جارہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سال الفتح آپریشن کے آغاز سے اضلاع کے مراکز کے سقوط کے سلسلے میں بہت تیزی آئی ہے، گزشتہ چند روز کے دوران کابل انتظامیہ کے مربوطہ بلخ، دائی کندی، تخار، غور، لوگر وغیرہ صوبوں کے اعلیٰ حکام نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ مذکورہ صوبوں کے اضلاع کو طالبان کے ہاتھوں سقوط کا سامنا ہے۔ ان اطلاعات سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ طالبان ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہونے کے بجائے مزید طاقتور ہورہے ہیں جس سے امریکہ اور افغان حکومت کا خوف و گھبراہٹ میں مبتلا ہونا فطری امر ہے۔