کشمیر اور افغان امن عمل …غیر معمولی سفارتی سرگرمیاں

جنوبی ایشیا میں کشمیر اور افغان امن عمل اس وقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اس ہفتے اسلام آباد غیر معمولی سفارتی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ سفارتی رابطوں کا بنیادی مقصد27 ستمبر کو ہونے والے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے مؤقف کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ اسلام آباد پہنچے، ان کے بعد چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے اسلام آباد میں قدم رکھا، اگلے ہفتے کسی بھی امریکی عہدیدار کی آمد متوقع ہے۔ کشمیر اور افغانستان ان سفارتی سرگرمیوں کا محور تھے۔ جنوبی ایشیا میں اس وقت ایسا بحران سر اٹھا چکا ہے جسے حل کیے بغیر دنیا میں امن ممکن نہیں رہے گا۔ کشمیر میں بھارت اور افغانستان میں امریکہ کی ہٹ دھرمی تیزی سے دنیا کے امن کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔ اس صورتِ حال سے نکلنا اور کامیاب سفارت کاری کے ذریعے کشمیری عوام اور افغانستان کو امن دینا پاکستان کے لیے اس وقت بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ یہ صورتِ حال حکومت کی صلاحیتوں کا امتحان ہے جس میں وہ اب تک ناکام نظر آئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان تلخ مزاج پلے بوائے ہیں، انہیں صورتِ حال کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں، بلکہ سفارتی آداب، رکھ رکھائو اور سفارتی چالوں کا بھی علم نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے اپوزیشن بھی لاتعلق ہوکر بیٹھ گئی ہے اور حکومت نے تین سال کی توسیع دے کر اب سارا بوجھ آرمی چیف کے کاندھوں پر ڈال دیا ہے کہ وہی معیشت بھی چلائیںاور سفارت کاری بھی کریں۔ پانچ اگست کے بعد سے اب تک حکومت کشمیر آور تو منارہی ہے، لیکن اپنی سفارت کاری کے ذریعے عالمی رائے عامہ کا دبائو پیدا کرکے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ہٹانے پر مجبور نہیں کرسکی۔ وزیراعظم عمران خان نے اگرچہ تین مرتبہ سعودی ولی عہد سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ترکی، ایران اور بنگلہ دیش کے وزرائے خارجہ کو جموں و کشمیر کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کیا، ان رابطوں کے نتیجے میں سعودی و اماراتی وزرائے خارجہ اسلام آباد پہنچے، مگر وہ یہ پیغام لائے کہ پاکستان اور بھارت مل کر مسئلے کا حل تلاش کریں اور کشیدگی کو ہوا نہ دی جائے۔ دوسرے لفظوں میں وہ کشیدگی میں کمی لانے کے مشن پر آئے تھے۔
ان دنوں افغان امن کے حوالے سے سہ فریقی اجلاس چین پاک اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع پر بھی غور کررہا ہے۔ ایک بہت اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات معاہدے کے قریب پہنچ کر طالبان، امریکہ اور افغان حکومت کے باہمی مفادات میں ٹکرائو آجانے سے معطل ہوگئے ہیں۔ اسی پس منظر میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینتھ میکنزی بھی پاکستان کے ذریعے انخلاء کی تفصیلات طے کرنے 17 رکنی دفاعی وفد کے ہمراہ اسلام آباد پہنچے، جنہیں افغانستان میں امن سے زیادہ اپنے انخلاء کی فکر ہے۔
ان تمام سفارتی سرگرمیوں کا نچوڑ یہ ہے کہ پاکستان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ کشمیر کو دو طرفہ مسئلے کی حد تک رکھے، مسلم دنیا کو بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کے لیے ڈکٹیٹ نہ کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں اسے امتِ مسلمہ کا مسئلہ نہ بنایا جائے، اور افغانستان میں امن کے لیے جس طرح مذاکرات شروع کرائے تھے اب انہیں دوبارہ بحال بھی کرایا جائے۔ دراصل امریکی اپنی اس چال سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ طالبان پاکستان کے کنٹرول میں ہیں۔ اگر پاکستان مذاکرات بحال کرادے تو پھر یہ شرط رکھی جائے گی کہ اب کابل میں امن کی ضمانت بھی پاکستان ہی دے۔ صورتِ حال یہ بنی ہوئی ہے کہ مسلم دنیا کے اہم ممالک کشمیر کے مسئلے پر، اور امریکہ افغانستان کے معاملے میں پاکستان کو اپنے تزویراتی مفادات سے ہٹ کر کردار ادا کرنے کے لیے مجبور کررہا ہے۔ اب وزیراعظم، وفاقی حکومت اور وزیر خارجہ کی آئینی اور سیاسی ذمہ داری ہے کہ پارلیمنٹ کو بتائیں کہ سفارتی سرگرمیوں میں اب تک کیا بات چیت ہوئی ہے۔
اسے اتفاق کہیے یا کچھ اور نام دیں، بہرحال جس روز سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ پاکستان پہنچے اسی روزآئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے بھی اہم پریس کانفرنس کی، اس پریس کانفرنس کا فیصلہ بھی دونوں وزرائے خارجہ کی پاکستان آمد سے دو روز قبل ہوچکا تھا۔ اس پریس کانفرنس کا عرق اور جوہری نکتہ یہ تھا کہ:
’’ہندوستان پر نظر ڈالیں تو اس وقت وہاں نازی ازم اور آر ایس ایس کی حکومت ہے۔ بھارت میں بائیس کروڑ مسلمان، سکھ، دلت اور دوسرے لوگ اس مائنڈ سیٹ کے ظلم وستم کا شکار ہیں۔ یہ وہی نظریہ ہے جس نے گاندھی کو قتل کیا، جس نے بابری مسجد کو شہید کیا، جس نے گجرات میں مسلمانوں کو شہید کیا۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو بھارت میں مذہبی اور معاشرتی آزادی نہیں۔ بھارتی اقلیتیں مشکلات کا شکار ہیں۔ سیکولر بھارت انتہا پسندی کی جانب راغب ہوچکا ہے۔ بھارتی سرکار نہرو کے نظریے سے بھی گم ہوچکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے جو اقدام کیا اس سے ایک نئی جنگ شروع ہونے کا خدشہ ہے۔ وہاں کی صورتِ حال خراب ہے، وہاں نسل کُشی جاری ہے، سفارتی سطح پر پاکستان کشمیر کا معاملہ 50 سال بعد سلامتی کونسل میں لے کر گیا جو بڑی کامیابی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے تقریباً 13 ممالک کے سربراہان سے بات چیت کی اور انہیں کشمیر کے بارے میں آگاہ کیا۔ اگر افغان امن عمل کامیاب ہوگیا تو ہماری مغربی سرحد پر فوج کی تعیناتی پہلے کم ہوگی، پھر ختم ہوگی۔ بھارت سوچ رہا ہے کہ اگر ہماری فوج مغربی سرحد سے فارغ ہوجاتی ہے تو کیا یہ بھارت کے لیے خطرہ ہوسکتا ہے؟ اسی لیے بھارت کا یہ خیال ہے کہ مغربی سرحد سے فارغ ہو تو یہ وقت ہے کہ کوئی ایسا کام کردیں کہ پاکستان بھرپور جواب نہ دے سکے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی صرف کشمیر میں ظلم نہیں کررہا بلکہ بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانا چاہتا ہے۔‘‘
ہندوستان کے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانا پاکستان کا نہیں، یہ تو امتِ مسئلہ کے علاوہ عالمی انسانی سیاسی حقوق کا مسئلہ بن چکا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت ان دونوں وزرائے خارجہ کے دورے کی وضاحت کرے۔ وضاحت نہ ہوئی تو ابہام بڑھتا چلا جائے گا۔ او آئی سی جن مقاصد کے حصول کے لیے قائم کی گئی تھی اس میں ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ کوئی ظلم ہوگا تو او آئی سی مشترکہ آواز اٹھائے گی۔ آج اگر کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے تو کیوں ناں اس فورم سے آواز اٹھائی جائے۔ دنیا بھارت کی جتنی چاہے طرف داری کرلے، یہ بات لکھ کر رکھ لی جائے کہ جنہیں فیصلہ کرنا ہے وہ فیصلہ کرچکے ہیں اور جتنا ظلم کشمیری برداشت کررہے ہیں، بھارت کو اس کی دوگنا قیمت چکانا پڑے گی۔ فیصلہ یہ ہے کہ ایٹمی پہل نہ کرنا پالیسی نہیں، ساری کوششیں ناکام ہوجائیں تو جنگ کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا، کشمیر پر ڈیل کے لیے ہماری لاشوں سے گزرنا ہوگا۔ پاکستان اس وقت دو محاذوں پر مصروف ہے، ایک کشمیر اور دوسرا افغانستان۔ بھارت اور امریکہ دونوں اس صورتِ حال میں پاکستان سے بارگین کرنے کی کوشش میں ہیں۔ امریکہ اور بھارت دونوں ہر قیمت پر افغانستان میں اپنا کردار چاہتے ہیں۔
طالبان امریکہ مذاکرات اور معاہدے میں تاخیر اس خطے میں حالیہ بحران کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ امریکہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے یقین کی حد تک سمجھتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مشترکہ مفادات کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک معمولی توقعات کے ساتھ محتاط انداز میں تعلقات برقرار رکھیں۔ امریکی جو بھی سمجھیں، اسلام آباد کو اپنا مفاد مدنظر رکھنا ہے۔ اس خطے میں بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کی وجہ سے ہمیں کابل میں ایک دوست حکومت چاہیے۔ ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے والے سینئر امریکی حکام میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو افغانستان سے امریکی فوج کے فوری انخلاء کے مخالف رہے ہیں۔ سابق سیکریٹری دفاع جیمز میٹس کا بھی یہی نکتہ نظر تھا۔ وہ پاکستان کے ساتھ محتاط تعلقات کے حامی تھے۔ پاکستان کے خلاف ٹرمپ کے ٹویٹ کے پیچھے بھی یہی تھے۔ جس طرح جیمز میٹس سوچتے ہیں ہماری سوچ بھی یہی ہونی چاہیے کہ امریکیوں پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیت، اور پاکستانی معاشرے میں اسلامی رجحان کے غلبے نے امریکیوں کو پریشان کیا ہوا ہے، اسی لیے امریکہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو پر زور دیتا ہے، مگر پاکستان نے بھی ہمیشہ عالمی امن کی ہر کوشش کی حمایت کی۔ امریکی اعتراف بھی کرتے ہیںکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران افغانستان میں نیٹو کے ہلاک فوجیوں کی تعداد سے زیادہ اپنی مغربی سرحد پر دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے پاکستانی فوجی شہید ہوئے، لیکن اس کا کھلے دل سے اعتراف نہیں کرتے۔
امریکہ اور بھارت کے باہمی گٹھ جوڑ نے پاکستان کے لیے پریشان کن صورتِ حال پیدا کررکھی ہے۔ ملک کے حالات تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسی استحکام ہونا چاہیے، اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی بھی ختم ہونی چاہیے۔ سیاسی استحکام کے لیے حالیہ دنوں میں ایک اور کوشش ہوئی۔ نوازشریف اور صلح کار دونوں مشکل میں ہیں، انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو پیغام پہنچا دیا ہے کہ وہ ملک سے باہر نہیں جائیں گے۔ نوازشریف بھی سمجھتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنی زندگی کی سب سے مشکل جنگ لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کو بھی 70 سالہ تاریخ میں ملک کے اندر اور سرحدوں پر بہت زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ نوازشریف اور مریم نواز نے ڈیل سے متعلق ہر طرح کی پیشکش کو مسترد کردیا ہے۔ نوازشریف کے ساتھ ساتھ اب شہبازشریف کو بھی یہی کہا گیا کہ وہ اپنا مؤقف تبدیل کریں اور کچھ ماہ کے لیے بیرونِ ملک چلے جائیں۔ مسلم لیگ(ن) کے دیگر رہنماؤں کا خیال ہے کہ نوازشریف کو اس ڈیل کو قبول کرتے ہوئے اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ بیرونِ ملک چلے جانا چاہیے، بدلے میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نوازشریف کی سزا معطل کردی جائے گی، جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بھی ختم کردیا جائے گا۔ تاہم نوازشریف نہ تو اسٹیبلشمنٹ پر بھروسا کررہے ہیں اور نہ ہی وطن چھوڑنے پر راضی ہیں۔ اب دوسرا آپشن یہ ہے کہ معیشت کو بچانے کے لیے دوست ملکوں سے ڈالرز کی اُمید کرتے رہیں، لیکن یہ کوئی دیرپا حل نہیں ہے۔ اس سے معیشت میں استحکام تو آسکتا ہے لیکن بہتری کی گنجائش نہیں ہوگی۔ آخری آپشن یہی ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ڈوبنے دیں اور نئے عام انتخابات کروا دیے جائیں۔ نیب قوانین میں ترمیم بھی ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کرنے کی ایک خاموش کوشش ہے۔ نیب قوانین میں جو ترمیم ہونے جا رہی ہے، اس سے بڑا این آر او ملکی تاریخ میں نہیں ہوا۔ حکومت نے نیب قانون میں تبدیلی کا فیصلہ کرلیا ہے، ملکی قوانین ویب سائٹ پر شائع بھی کردیئے گئے ہیں، نئے قانون میں نجی کاروباری شخصیات اور کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا اختیار بھی نیب سے واپس لے لیا جائے گا، پلی بارگین سے متعلق بھی ترامیم کی جارہی ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ پلی بارگین کرنے والا کسی بھی عوامی نمائندگی کا اہل نہ رہے۔ ایک بل پیپلزپارٹی نے بھی سینیٹ میں جمع کرا دیا ہے کہ ایسا کرنے والا نااہل قرار نہیں پائے گا۔ اب سینیٹ میں جب دونوں بل آئیں گے تو درمیان کی راہ نکل آئے گی۔ نیب بل ابھی تک متنازع ہے، حکومت چاہتی ہے کہ اس کا کوئی حل نکل آئے، لیکن پیپلزپارٹی اپنی شرائط کے ساتھ ایک الگ بل پیش کرچکی ہے۔
حکومت کو اپنے اندر بھی صف بندی کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، اسی لیے وزیراعظم آفس سے27 وزارتوں کو ناقص کارکردگی پر ریڈ لیٹر جاری کیے گئے ہیں۔ یہ معاملہ اصل میں بیوروکریسی اور وزراء کے مابین عدم توازن کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ وزیراعظم کابینہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسی ٹیم لانا ہوگی جو بیوروکریسی کے ساتھ مل کر کام کرے۔ حکومت اور تحریک انصاف میں وزیراعظم کے سامنے الیکٹ ایبل، کراچی مافیا اور عوام دوست گروپ تین بڑے محاذ ہیں، ان تینوں میں الیکٹ ایبل اور کراچی مافیا حاوی ہیں۔ وزیراعظم کی ان پر کوئی کمانڈ نہیں ہے۔ وہ بری طرح ان تینوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ایک کے لیے کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو دوسرا مافیا ناراض ہوجاتا ہے۔ اس لڑائی میں تحریک انصاف کے اندر عوام دوست گروپ پس رہا ہے۔ حکومت کوئی فیصلہ کرتی ہے، اور چند گھنٹوں میں یہ فیصلہ واپس ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کو علم ہی نہیں کہ روٹی اٹھارہ روپے میں فروخت ہورہی ہے۔ گورننس صرف اعلان کرنے سے بہتر نہیں ہوسکتی، اس کے لیے وزیراعظم کو بنی گالہ کی غار سے باہر نکلنا ہوگا۔ وہ عثمان بزدار کو ایک ایمان دار آدمی سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان سے متعلق ہر شکایت نظراندازکی جارہی ہے۔ وزیراعظم کو مشتعل کیا جاتا ہے کہ سیکریٹریٹ میں نوازشریف کے دور کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اسی لیے کام نہیں ہورہا، جب کہ پنجاب کا ہر وزیر شکایت کررہا ہے کہ وزیراعلیٰ کے سامنے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر پنجاب کے وزیروں کی شکایت ہے تو پھر یہ دلیل تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ سیکریٹریٹ میں نوازشریف کے آدمی بیٹھے ہوئے ہیں۔