کشمیر کی سیاست اور پاکستانی ریاستی پالیسی

پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا ایک اہم نکتہ مقبوضہ کشمیر کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک جذباتی مسئلہ بھی ہے اور انتظامی و قانونی مسئلہ بھی… اور پاکستان اس سے خود کو علیحدہ نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں جو بداعتمادی یا سردمہری ہے اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ کشمیر کا مسئلہ بھی ہے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی اکثریت بھی خود کو کشمیر کی سیاست سے علیحدہ نہیں رکھ سکتی۔ لیکن حالیہ ایک ماہ میں جس انداز سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اقدامات اٹھائے ہیں اس کا عملی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اب پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس کی ایک نمایاں جھلک ہمیں عالمی برادری اور عالمی سیاست کے بڑے اور طاقت ور ممالک کی سیاست میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے، جو خود ایک بڑی کامیابی ہے۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ اقدامات نے مسئلہ کشمیر کی عالمی حیثیت کو بہت زیادہ طاقت دی ہے، اور ماضی میں جو ممالک خود کو کشمیر کی سیاست سے علیحدہ رکھتے تھے آج وہ بھی مقبوضہ کشمیر کی صورت ِحال پر خاموش نہیں۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ نریندر مودی کے اقدامات سے مسئلہ کشمیر حل ہوگیا ہے، لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے کہ جو کچھ اب مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے اس پر عالمی برادری کی خاموشی یا محض بیان بازی کی سیاست لمبے عرصے تک نہیں رہ سکے گی۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری پُرامن سیاسی جدوجہد کو داد دینی ہوگی کہ اس تحریک نے خود کو عالمی سطح پر تسلیم کروایا ہے، اور لوگ اعتراف کررہے ہیں کہ کشمیر کی تحریک کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ آج جو کچھ مقبوضہ کشمیر میںکیا جارہا ہے اس نے خود کشمیر کی تحریک کو ایک نئی شدت دی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت کرفیو نافذ ہے، اور بھارت پر کرفیو کے خاتمے کے لیے عالمی دبائو بھی ہے، مگر بھارت کو ڈر اس بات کا ہے کہ کرفیو کے خاتمے کے بعد وہاں جو صورتِ حال پیدا ہوگی اس کو کیسے کنٹرول کیا جاسکے گا! یہاں عالمی میڈیا کو داد دینی ہوگی کہ اس نے پانچ اگست کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی جو صورتِ حال دکھائی ہے اس نے دنیا کے ضمیر کو یقینی طور پر جھنجھوڑا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر بین الاقوامی میڈیا عالمی برادری کو باور کروا رہا ہے کہ ان کی مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر کمزور پالیسی یا خاموشی مجرمانہ غفلت سے کم نہیں۔ انسانی حقوق سے جڑے ادارے بھی تواتر کے ساتھ بھارت کی جارحیت پر سوالات اٹھا رہے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ بھارت کرفیو کے خاتمے سمیت فوری طور پر انسانی حقوق کی بحالی کو یقینی بنائے۔ او آئی سی کی قرارداد اور یورپی یونین کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر تشویش سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو آگ لگی ہوئی ہے اس کے اثرات نمودار ہورہے ہیں۔
بھارت نے پوری کوشش کی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی اور پاکستان کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دے تاکہ دنیا کو یہ باور کروایا جاسکے کہ یہ تحریک دہشت گردی سے جڑی تحریک ہے۔ لیکن اب دنیا کشمیرکی اس تحریک کو ایک نئے انداز سے دیکھ رہی ہے، اور اس میں یہ احساس اجاگر ہورہا ہے کہ ہمیں کشمیر میں جاری تحریک کی حیثیت کو قبول کرنا ہوگا۔ اگرچہ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ وہ عالمی برادری کو یہ باور کروائے کہ کشمیر کا مسئلہ دو ملکوں کا مسئلہ ہے اور اس کے حل میں کسی تیسرے فریق کی ضرورت نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ دو ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت کا مسئلہ ہے تو بھارت نے اس کے حل کے لیے اب تک کیا اقدامات اٹھائے ہیں، اورکیوں وہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان سے بات چیت کے لیے تیار نہیں؟ اگر یہ مسئلہ دو طرفہ ہے تو بھارت نے کیوں آئین کی شق 370 اور 35-Aکا خاتمہ کیا ہے؟ یہاں تک کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی اور وہاں کی قیادت کو بھی نظرانداز کرکے یک طرفہ قدم اٹھاکر دو طرفہ معاملے کو نقصان پہنچایا ہے۔
بھارت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کشمیر کی تحریک حقیقی تحریک ہے، اور وہاں کے لوگ اُس کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں۔ کشمیریوں کا یہ حق ہے کہ انہیں حق خودارادیت دیا جائے جس کا وعدہ عالمی برادری اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے ان کے ساتھ کرچکی ہے۔ دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ کشمیر کا ایک ہی منصفانہ، قانونی اور اخلاقی حل ہے جو اقوام متحدہ نے پیش کیا تھا، جسے پاکستان اور بھارت دونوں ہی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صورت میں قبول کرچکے ہیں۔ اس لیے عالمی برادری کو جھنجھوڑنا ہوگا کہ اس وقت بھارت کی پالیسی دنیا کی پالیسی سے مختلف ہے، اور وہ طاقت اور بندوق کے زور پر مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کی حالیہ پالیسیوں نے اُن کشمیری لیڈروں کو بھی باغی کردیا ہے جو کل تک بھارت کی ریاستی پالیسی کے ساتھ کھڑے تھے، مگر اب وہ بھی ریاستی پالیسی کو چیلنج کررہے ہیں اور ان کو بھی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔
پاکستان کی ریاستی اور حکومتی پالیسی سمیت وزارتِ خارجہ اور بالخصوص وزیراعظم عمران خان کو داد دینی ہوگی کہ انہوں نے پانچ اگست کے بعد سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔ سفارت کاری کے محاذ پر پاکستان عالمی برادری کو جھنجھوڑنے میں بہت حد تک کامیاب ہوا ہے۔ ہمیں فوری طور پر نتائج دیکھنے کے بجائے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عالمی برادری اب آہستہ آہستہ اپنا ردعمل دے رہی ہے، اور یہ ردعمل بھارت کے خلاف ہے۔ بالخصوص انسانی حقوق کی صورت حال پر عالمی برادری نے جو تشویش دکھائی ہے وہ خود بھارت پر دبائو بڑھانے کی اہم حکمت عملی ثابت ہوسکتی ہے۔ جو لوگ یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ حکومت کی کشمیر پالیسی ناکام ہے وہ محض سیاسی مخالفت میں یہ بات کہہ رہے ہیں، وگرنہ حزبِ اختلاف کو یہ ضرور بتانا چاہیے کہ وہ کون سے اقدامات ہیں جو موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے نہیں اٹھائے؟ یقینی طور پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، لیکن جو کچھ ہورہا ہے اس کا بھی اعتراف کیا جانا چاہیے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر فوری طور پر پاکستان کے حق میں کچھ نہیں ہوگا، اور مقبوضہ کشمیر میں بھی زیادہ سے زیادہ کرفیو کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ایک لمبی جنگ ہے اور اس کو ٹی ٹوئنٹی یا ون ڈے میچز کے بجائے مسلسل ٹیسٹ سیریز کے طور پر لینا ہوگا۔ پاکستان کو اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کو پسِ پشت ڈالنے کے بجائے اس تحریک کو شارٹ ٹرم، مڈٹرم اورلانگ ٹرم پالیسی کی بنیاد پر دنیا میں زندہ رکھے۔ پاکستان کی پالیسی محض ردعمل کی پالیسی سے جڑی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہمیں یہ سوچ دینی ہوگی کہ کشمیر کا مسئلہ ہماری قومی پالیسی کا اہم حصہ ہے جسے ہم نظرانداز نہیں کرسکتے۔ دنیا کیونکہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر پریشان ہے، تو ہمیں دنیا کے ساتھ خود کو جوڑنا ہوگا اور یہ باورکروانا ہوگا کہ بھارت کا یک طرفہ عمل خطے کو ایک نئی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے اور اسے پاکستان سمیت سب کو روکنا ہوگا۔
اب وقت ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان اور بھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں ثالث کے طور پر سامنے آئیں، اور مسئلے کے حل کے لیے وہ جو کچھ کرسکتی ہیں ان کو کرنا چاہیے۔ کیونکہ پاکستان نے تعلقات کی بہتری کے لیے جتنے بھی قدم اٹھائے ہیں اس کا جواب بھارت کی طرف سے منفی صورت میں آیا ہے، اور وہ مذاکرات کو پاکستان کی کمزوری سمجھتا ہے۔ صرف وزیراعظم کو ہی نہیں، پاکستان کے ہر فرد کو اس وقت مسئلہ کشمیر پر سفیر کا کردار ادا کرنا ہے، اورجو فریق جو کچھ کرسکتا ہے اسے کرنا چاہیے۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی نظریں بھی پاکستان پر ہیں اورہمیں ان کو کمزور کرنے کے بجائے اور زیادہ سیاسی، سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر طاقت ور بنانا ہے تاکہ وہ اپنی سیاسی جنگ جیت سکیں۔مقبوضہ کشمیر کی تحریک اس وقت ایک زندہ حقیقت ہے اور جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ قانونی اقدامات سے اس کو ختم کرسکتے ہیں وہ غلطی پر ہیں، ن کو سمجھنا ہوگا کہ سیاسی تحریکیں کسی آئینی ترمیم کی محتاج نہیں ہوتیں۔ اس کا حل سیاسی ہوگا اوربات چیت کی مدد سے ہی ممکن ہوگا۔