چاند اُس رات بھی نکلا تھا مگر اس کا وجود
اتنا خوں رنگ تھا جیسے کسی معصوم کی لاش
(احمد ندیم قاسمی)
۔6 ستمبر 1965ء ہماری تاریخ کا ناقابلِ فراموش دن ہے، جب دفاع وطن کی خاطر پوری قوم متحد ہوگئی تھی، اور ہماری بری، بحری اور فضائی افواج کے جری بہادر جوانوں اور افسروں نے جن میں ہمارے ہم وطن غیر مسلم فوجی جوان اور افسران بھی شامل تھے‘ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنا آج ہمارے کل پر قربان کیا تھا۔
اپنے سے کئی گنا بڑی عددی قوت رکھنے والی فوج اور اس سے کہیں زیادہ سامانِ حرب سے لیس سپاہ کی جارحیت کے آگے بند باندھ کر ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا تھا۔ ہماری فضائیہ کے شہرۂ آفاق پائلٹ ایم ایم عالم (مرحوم) نے ایک منٹ میں دشمن کے پانچ طیارے تباہ کرکے جو ریکارڈ قائم کیا تھا، اسے دنیا کی فضائی تاریخ میں آج تک توڑا نہیں جاسکا ہے۔ ہماری بری فوج کے شیر دل جوانوں اور افسروں نے چونڈہ کے محاذ پر بھارتی ٹینکوں کو اسکریپ کے قبرستان میں تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ دنیا تسلیم کرتی ہے کہ جنگِ عظیم کے بعد ٹینکوں کی یہ سب سے بڑی جنگ تھی جس میں پاکستان نے بھارت کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ ہماری بحریہ نے کراچی کے قریب بھارتی بحریہ کے اڈے ’’دیوارکا‘‘ کو تہس نہس کرکے بھارت کے حوصلے پست کردیے تھے۔ ہماری آبدوز ’’غازی‘‘ نے بھارتی بحریہ کو ممبئی سے باہر نکلنے ہی نہیں دیا تھا۔ 6 ستمبر کئی اعتبار سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ مقبول قومی نغمے ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں‘‘ کے خالق (جنہیں ان کے ہم عصر بلند قامت ادیب اردو طنز و مزاح کی اقلیم کے بے تاج بادشاہ قرار دیتے تھے، ایسے بلند پایہ ادیب و شاعر) سید ضمیر جعفری (مرحوم) نے اسے ’’پہچان کا لمحہ‘‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے اپنی 1965ء کی ڈائری پر مشتمل کتاب کا نام ’’پہچان کا لمحہ‘‘ اور 1971ء کی ڈائری پر مشتمل کتاب کا نام ’’جدائی کا موسم‘‘ رکھا۔ جنہوں نے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوںکا بہ چشمِ خود مشاہدہ نہیں کیا ہے انہیں سید ضمیر جعفری کی دونوں کتابوں اور دیگر اُن کتابوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے جو پاک بھارت جنگ کے تناظر میں عسکری ماہرین اور اُس وقت کے حاضر سروس سول بیوروکریٹ، صحافیوں اور ادیبوں نے لکھی ہیں۔ اس حوالے سے مدیر اردو ڈائجسٹ جناب الطاف حسن قریشی کی کتاب ’’جنگِ ستمبر اور سقوطِ ڈھاکہ سے پردہ اٹھتا ہے‘‘ کے مضامین لائقِ مطالعہ ہیں۔ ان میں فوج کے بہادر جوانوں اور افسروں کی شجاعت و بہادری کی لازوال سچی کہانیوں کی تاریخ بھی ہے اور اُس دور کے سیاسی منظرنامے کا نقشہ بھی۔1965ء میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف نے ذاتی اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر بھارت کی جارحیت کا یک جان دو قالب کے مصداق چٹان بن کر منہ توڑ جواب دیا تھا۔ جب کہ 1971ء میں اس کے برعکس طرزِعمل اختیار کرکے قائداعظم کے پاکستان کو دولخت کرا دیا تھا۔1965ء کی پاک بھارت جنگ میں چین آج کی طرح پاکستان کے ساتھ تھا۔ امریکہ بہادر نے اُس وقت بھی آنکھیں پھیر لی تھیں۔ البتہ پوری امتِ مسلمہ پاکستان کی پشت پر آکھڑی ہوئی تھی۔ سید ضمیر جعفری نے لکھا ہے کہ سعودی عرب کے شاہ فیصل نے تو کہہ دیا تھا کہ فوج کے سوا جو کچھ سعودی عرب کے پاس ہے وہ لے جائیں، پوری مسلم دنیا میں صرف مصر اور افغانستان نے پاک بھارت جنگ میں غیر جانب دار رہنے کا اعلان کیا تھا، اور صرف ایک مسلم ملک ملائشیا نے بھارت کا ساتھ دیا تھا۔ 1965ء کی جنگ میں سعودی عرب کے شاہ فیصل اور ایران کے رضا شاہ نے پاکستان کی حمایت کرتے وقت اپنے اُن اختلافات کوبھی پسِ پشت ڈال دیا تھا جو عرب عجم کی تفریق کی وجہ سے کسی کی حمایت یا مخالفت میں روا رکھتے تھے۔ الجزائر میں پاکستان کے دوست بن باللہ کا تختہ الٹ دیا گیا تھا مگر اس کے باوجود صدر بومدین کی حکومت نے پاکستان کی حمایت کی تھی۔ مشرقِ بعید میں انڈونیشیا کے صدر عبدالرحیم سوئیکارنو نے پاکستان کی حمایت کا اعلان اس پُرجوش انداز میں کیا کہ بھارت کے خلاف نعرہ بھی لگا دیا تھا۔ ترکی کا معاملہ تو پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ سے ہی ایک رہا ہے۔ وہاں حکمران فوجی ہو یا سول، پاکستان سے اس کی محبت لازوال رہی۔ آج تو وہاں طیب اردوان کی شکل میں ایسا حکمران ہے جو دنیا میں مظلوم کشمیریوں کا مقدمہ اس طرح لڑ رہا ہے جیسے یہ اُس کے اپنے ملک کا مسئلہ ہے۔
اس بار ہم نے چھ ستمبر کو یوم دفاع مظلوم کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طور پر منایا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے و الی تمام ہی جماعتوں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف، پیپلزپارٹی کے سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، اور جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے وطن پر قربان ہونے والے شہدا اور ان کے لواحقین کو کھل کر خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اور یہ سب حضرات اپنے اپنے طور پر شہدا کے لواحقین کے گھروں پر بھی گئے۔ جماعت اسلامی نے اتوار یکم ستمبر کو کراچی میں مظلوم کشمیریوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے شدید بارش کے باوجود جو شاندار تاریخی ریلی نکالی، وہ اپنی مثال آپ تھی، جس میں ہزاروں کی تعداد میں جوان، بوڑھے، بزرگ اور خواتین اپنے بچوں سمیت سڑکوں پر نکلے تھے۔
پاکستان کو آج جو چیلنج درپیش ہے اس سے عہدہ برا ہونے کا واحد راستہ وہی ہے جس کا مظاہرہ جنگِ ستمبر1965ء کے موقع پر کیا گیا تھا۔ جنگِ ستمبر سے قبل ملک کا سیاسی منظرنامہ کیا تھا، اس کی ایک جھلک سید ضمیر جعفری کی کتاب ’’پہچان کا لمحہ‘‘ سے۔ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
یکم جنوری 1965ء:
’’افسوس اپنی جگہ، مگر حیرت بھی نہ ہونی چاہیے، لوگ ہمیشہ دولت اور طاقت کی طرف جاتے ہیں۔ چڑھتے سورج کی پرستش ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے، اور جنرل ایوب خان کا سورج تو بہت چڑھا ہوا ہے۔ ملک میں کشیدگی کا یہ حال ہے کہ جیسے بارود کے کسی ڈھیر میں آگ لگ رہی ہو۔ الیکشن کے نتیجے کا قیاس کرنا مشکل نہیں۔ ایک بات واضح ہے کہ جمہوریت اور آمریت کی اس جنگ کے اثرات ملک کے مستقبل پر بہت دوررس ہوں گے۔ ذاتی طور پر مجھے یہ احساس کھائے جارہا ہے کہ بولنے کا ہنگامہ ہے اور میں خاموش ہوں۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے جو سرزد ہوا۔ علامہ اقبال کا یہ مصرع بہت یاد آرہا ہے’’یہ نادان گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا‘‘۔
2 جنوری کی ڈائری ’’برسوں کا ایک دن‘‘
’’وہی ہوا۔ ایوب خان جیت گئے، 80 ہزار ’’بنیادی جمہوروں‘‘ میں سے تقریباً پچاس ہزار نے ایوب خان کو، اور تیس ہزار نے مادرِ ملت کو ووٹ دیے۔ جنرل یہ جنگ جیت گیا، ملک ہار گیا۔ مغربی پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کو صرف دس ہزار ووٹ ملے۔ گویا جمہوریت کی ساکھ اونچی رکھنے میں مشرقی پاکستان بازی لے گیا۔‘‘
3 جنوری کی ڈائری :
انتخابات کا سرکاری ردعمل کچھ بھی ہو، بلکہ کل جشن بھی منایا جائے گا، مگر دلوں میں راکھ اڑ رہی ہے۔ بریگیڈیئر گلزار کو بھی آزردہ پایا۔ اس ’’طائرِ لاہوتی‘‘ کو بھی ’’وردی‘‘ کے قفس میں پھڑپھڑاتے دیکھا۔ آثار اچھے نہیں کہ اوپر کچھ ہے اور نیچے کچھ۔ صدر ایوب بھی غیظ کی دھمک کا انداز کرتے ہیں۔ غالباً اسی لیے وہ جنرل موسیٰ کو اوپر لا رہے ہیں۔ لوگوں نے بدامنی کے ڈر سے تین، تین مہینے کا راشن ذخیرہ کرلیا ہے۔ اندر انبار، باہر قحط۔‘‘
اُس وقت کے سیاسی منظرنامے کا نقشہ کیا تھا، ان اقتباسات سے اس کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے، جو آج کے سیاسی منظرنامے سے مختلف نہیں تھا۔ مگر جیسے ہی بھارت نے جارحیت کا ارتکاب کیا، لمحہ بھر میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف نے تمام سیاسی تنازعات پسِ پشت ڈال دیے اور دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے سیسہ پلائی دیوار کی طرح چٹان بن کر کھڑے ہوگئے۔ جنرل ایوب خان نے جو حزبِ اختلاف کا نام سننے کے روادار نہ تھے، اُس وقت کی پوری حزبِ اختلاف کو خود دعوت دی۔ اور حزبِ اختلاف جس نے جنرل ایوب خان کو دھاندلی شدہ صدر قرار دے کر جائز حکمران تسلیم کرنے سے ہی انکار کر رکھا تھا، اس نے اعلان کردیا تھا کہ جب تک بھارتی جارحیت کا قلع قمع نہیں ہوجاتا، سیاسی تنازعات کا باب بند رہے گا۔ جنگِ ستمبر کے سترہ روز ایسے ہیں جن میں سرکاری ذرائع ابلاغ کے مراکز سے حزبِ اختلاف کے خلاف ’’راگ درباری‘‘ گانے پر مکمل پابندی رہی، جس کا فائدہ حزبِ اقتدار کو زیادہ ہوا تھا۔ آج بھی اس طرزعمل کو بروئے کار لاکر ہی دشمن کے عزائم کے آگے بند باندھا جاسکے گا۔ سید ضمیر جعفری کی ڈائری کے جنگ کے دوران کے چند اقتباسات:
چھ ستمبر کی ڈائری ’’بھرپور جنگ کا پہلا دن‘‘:
’’جنگ آتی نظر آرہی تھی، مگر ہمارے حکمران اس خوش فہمی میں تھے کہ بھارت اپنی کارروائی کشمیر کے متنازع علاقے تک محدود رکھے گا۔ اس سادہ لوحی کے کیا کہنے! آج نمازِ فجر سے قبل صبح کاذب کے اندھیرے میں بھارت کی فوجیں بیک وقت کئی مقامات سے پاکستان کی حدود میں داخل ہوگئیں۔ ان یلغاروں کا رخ واہگہ سے لاہور اور جموں سے سیالکوٹ کی طرف تھا۔ پاکستان کی فوج اگرچہ ہر محاذ پر مزاحمت کے لیے موجود تھی، یا حیرت انگیز عجلت سے اپنی طے شدہ دفاعی پوزیشنوںپر پہنچ گئی۔ مگر ذمے دار حلقوں میں یہ تاثر عام پایا جاتا تھا کہ حملہ اچانک ہوا۔ ہم نے تو سرگوشیوں میں یہ بات بھی سنی کہ کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ کو یہ خبر اُن کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل شیر بہادر نے جو خاصی چھان پھٹک کے عادی تھے، خاصی دیر سے دی۔ دشمن ہماری سرحدوں میں گھس تو آیا ہے مگر جنرل بے انت ناتھ چودھری کی یہ ’’بڑھک‘‘ کہ ہم شام کی شراب کا پیک (جرعہ) لاہور کے جیم خانہ میں پئیں گے، خاک میں مل گئی۔ ملک میں جوش و خروش کی جو بھرپور لہر کراچی سے خیبر تک جاگ اٹھی، اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ زندہ دلانِ لاہور تو لاٹھیاں لے کر واہگہ کی طرف دوڑ پڑے۔
صدر ایوب خان نے دن میں دو مرتبہ ریڈیو سے قوم کو خطاب کیا، پہلے انگریزی میں، پھر اردو میں۔ قوم کا لہو قومی زبان نے ہی گرمایا۔ ایوب خان کوئی اچھے مقرر نہیں، مجھے خود اُن کی چند تقریریں لکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اردو میں ان کو رواں کرنے میں بڑی ریاضت کرنی پڑتی تھی۔ مگر آج تو وہ ایک بپھرا ہوا دریا لگ رہے تھے۔ پوری قوم کے کان اور دل ایوب خان کی آواز پر لگے ہوئے تھے، اور ان کا ایک ایک لفظ لہو میں چنگاریاں بھرتا جارہا تھا، خاص طور پر ایوب خان کا یہ جملہ کہ ’’ہندوستان کو معلوم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ کچھ عجب نہیں کہ یہ ہماری قوم کی تاریخ کا عنوان بن جائے۔ صدیق سالک (بعد میں بریگیڈیئر، صدر ضیا الحق کے پریس سیکرٹری اور یکہ از شہدائے بھاول پور) نے بتایا کہ اس تقریرکا مسودہ الطاف گوہر نے لکھا تھا۔ ہمیں یہ سن کر الطاف گوہر پر بہت رشک آیا۔ نہ جانے اس شخص کے کتنے گناہ دھل گئے۔
جنگ کا چھٹا دن: 11 ستمبر حضرت قائداعظم کا یوم وفات ملک بھر میں اس جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا کہ جیسے جنگ کا کہیں وجود نہ ہو، بلکہ قائداعظم کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے خون کی حرارت کچھ اور تیز ہوگئی۔ سینٹر میں کرنل محمد نواز کی زیر صدارت ایک جلسے میں بابائے قوم کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا اور وطنِ عزیز کی حرمت و آزادی کے لیے ہر قربانی کے عزم کی تجدید کی گئی۔
17 ستمبر کی ڈائری سے اقتباس۔ سیالکوٹ
’’ہمارا دن سیالکوٹ کے محاذ پر ہی گزرا۔ صبح چار بجے گھر سے نکلے، رات کے دس بجے گھر آئے، رات کو بھی دو تین گھنٹے سینٹرل ٹیلی گراف آفس میں غیر ملکی صحافیوں کے مراسلوں کو سنسر کرنے کی ڈیوٹی ادا کی۔ ’’خبریں‘‘ تو ہم سنسر ضرور کررہے ہیں مگر کر کچھ نہیں رہے ہیں۔ بے شک جنگ میں پہلی گولی اخلاق و سچائی کو لگتی ہے، مگر ہمیں سنسر پالیسی میں اوپر سے لبرل رہنے کی ہدایت ہے، اور میں اپنے تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ غیر ملکی صحافیوں کے مراسلے بڑی حد تک حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں اور بفضلِ تعالیٰ حقیقت ہمارے حق میں ہے۔ غیر ملکی صحافی پاکستان کے وسائل کی کمی کا ضرور تذکرہ کرتے ہیں مگر ان کے مراسلے ہمارے جوانوں کی شجاعت و لیاقت اور ایثار وقربانی کے غیر معمولی جذبے سے متاثر ہیں۔ ان کا عمومی تاثر یہ ہے کہ پاکستان نے بھارت کے سیلابِ آتش و آہن کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے۔‘‘
آج بھی بفضلِ تعالیٰ حقیقت اور سچائی مظلوم کشمیریوں کے مؤقف کے حق میں ہے، تب ہی تو پاکستان دنیا بھر کے صحافیوں کو آزاد کشمیر میں آزادانہ دورہ کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کررکھا ہے۔ چالیس دن سے مظلوم کشمیری کرفیو کے باعث اپنے گھروں میں محصور ہیں۔ اس کے باوجود انہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ کرفیو توڑ کر بھارت کی غلامی سے آزادی کا نعرہ لگانے کے لیے گولیوں کی بوچھاڑ کی پروا کیے بغیر باہر نکل پڑتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کسی آزاد میڈیا کو جانے کی اجازت ہی نہیں ہے، اس کے باوجود اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر جو صحافی وہاں جاسکے،دنیا کا آزاد میڈیا اس منظر کو بھی دنیا کو دکھا رہا ہے۔ یہی مظلوم کشمیریوں کے لیے دنیا کے آزاد میڈیا کی طرف سے تائید و حمایت ہے۔ یہ مظلوم کشمیریوں کے لیے وقت کی سب سے بڑی قوت ہے۔
جنرل ایوب خان نے جنگ کے آغاز اور اختتام پر پوری حزبِ اختلاف کو اعتماد میں لینے کا اہتمام کیا تھا۔ کیا آج کی قیادت ایسا کرنے کا حوصلہ پیدا کر پائے گی؟