مولانا حبیب الرحمن ہاشمی
لغوی معنی: جائے نور، چراغ دان، وہ اونچا ستون جس پر مسافروں کے لیے رات کو روشنی کی جائے۔
منذنہ۔ اذان کہنے کی جگہ…… فیروز اللغات ص 442
مینار کی اہمیت: مسجد کے مینار کے دو فائدے ہیں (1) بلند جگہ سے نماز کی اذان دی جائے، چنانچہ امام ابودائود نے اپنی سنن میں الاذان فوق المنارۃ کا مستقل باب باندھا ہے۔ حافظ جمال الدین زیلعی نے نصب الرایہ صفحہ 293، ج 1 میں حضرت ابوبرزہ اسلمیؒ کا قول نقل کیا ہے: من السنۃ الاذان فی المنارۃ والا قامۃ فی المسجد سنت یہ ہے کہ اذان مینار میں ہو اور اقامت مسجد میں۔ (2) مینار دیکھ کر دور ہی سے ناواقف کو پتا چل جاتا ہے کہ یہ مسجد ہے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل۔ صفحہ 133، ج 2)
عہد ِنبویؐ: حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد نبوی کا کوئی مینار نہیں تھا۔ قبیلہ بنو نجار کی ایک انصاریہ خاتون کا گھر مسجد نبوی سے متصل تھا جو مسجد کے قریب تمام گھروں سے اونچا تھا (طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق یہ خاتون زید بن ثابتؓ کی والدہ ماجدہ ہیں۔ محدثین نے ان کا نام ذکر نہیںکیا)، حضرت بلالؓ ان کی چھت پر چڑھ کر فجر کی اذان دیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ مسجد نبوی تعمیر ہوگئی، اور جب مسجد تعمیر ہوگئی تو اس کی چھت پر کوئی چیز رکھ دی جاتی جس پر چڑھ کر یہ اذان دیا کرتے تھے۔ (ردالمختار علیٰ در مختار صفحہ 185، ج 8)
عہدِ صحابہؓ: میناروں کی ابتدا صحابہؓ و تابعینؒ کے زمانے میں ہوئی۔ تب سے مسجد کی ایک خاص علامت جو سب سے نمایاں ہے وہ اس کے مینار ہی ہیں۔
سب سے پہلے حضرت امیر معاویہؓ کے حکم سے مصر میں مسلمہ بن مخلد انصاریؓ نے مینار بنوائے۔ یہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں جو حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں مصر کے گورنر تھے ۔ (الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ۔ ص 418، جلد 3)
مصر میں مینار پر چڑھ کر سب سے پہلے شرحبیل بن عامر المرادی نے اذان دی، اس سے قبل یہاں مینار نہیں تھے۔ (الوسائل فی مسامرۃ الاوائل، لجلال الدین سیوطی صفحہ 15)
عہدِ تابعین: مسجد نبوی (علیٰ صاحبھا الصلوات و التسلیمات) میں سب سے پہلے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے چاروں کونوں میں ایک ایک مینار بنوایا۔
(وفاء الوفا باخبار دارالمصطفیٰ ؐ، صفحہ 526، جلد 1، نورالدین احمد المصری السمہودی 911ہ)
میناروں کی تاریخ میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک (بانی جامع دمشق) کا ذکر ایک ایسے حکمران کے طور پر کیا جاتا ہے جنہوں نے مسجد کی عمارت میں مینار کو مستقل مقام عطا کیا۔ جامع مسجد الاموی دمشق (مسجد بنو امیہ) کی تعمیر انہی کے عہد میں ہوئی۔
دنیائے اسلام کا سب سے پرانا مینار جو آج بھی موجود ہے:
دنیائے اسلام کا سب سے پرانا مینار جو آج بھی موجود ہے مسجد بنو امیہ کا مینار ہے۔ ایک دن دمشق کے ایک بازار میں پھر رہا تھا جس پر خم دار ٹین کی چادروں کی چھت ایسے پڑی ہوئی تھی جیسے ریلوے اسٹیشن کا پلیٹ فارم ہو، ایک جگہ سے دو چادریں غائب تھیں اور اس حصے سے سورج بھی جھانک رہا تھا اور ایک مینار رفعت بھی۔ میں نے اس مینار کی ایک تصویر بنائی، اسے دیکھتا ہوں تو حیرت کی تصویر بن جاتا ہوں۔ مسجد بنوامیہ کا یہ شمالی مینار آج (1968ء) سے پورے 1302 سال قبل بنا تھا۔ یہ ہمارے میناروں کا امام ہے، اس کے پیچھے لاتعداد مینار دست بستہ کھڑے ہیں۔ (آوازِ دوست، ص 21، مختار مسعود صاحب)
جامع اموی کے مینار پر مسیحِ ہدایت کا نزول:
آخری زمانے میں دمشق مسلمانوں کی جائے پناہ اور دجالی فتنے سے محفوظ رہنے کے لیے قلعہ ثابت ہوگا۔ فتنۂ دجال کی آزمائش عمومی شکل اختیار کرلے گی۔ لوگ ہر طرف سے سمٹ کر دمشق میں آجائیں گے اور دجال ان کو دمشق میں گھیر لے گا۔ شہر سے باہر صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جنہوں نے اس کا اتباع کیا ہوگا، یا وہ جن کو اس نے قید کرلیا ہوگا۔ ان کے سوا باقی تمام لوگ شہر میں داخل ہوکر قلعہ بند ہوجائیں گے۔ (البدایہ صفحہ 156، جلد 9)
اسی حالت میں ایک روز دمشق (شام) کی جامع مسجد میں مسلمان صبح صادق کے وقت نماز کے لیے جمع ہوں گے۔ نماز کے لیے اقامت ہورہی ہوگی اور مہدیؒ موعود امامت کے لیے مصلے پر پہنچ چکے ہوں گے کہ اچانک ایک آواز سب کو اپنی طرف متوجہ کرے گی۔ مسلمان آنکھ اٹھا کر دیکھیں گے تو سفید بادل چھایا ہوا نظر آئے گا اور کچھ دیر کے بعد دیکھیں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو زرد حسین چادروں میں لپٹے ہوئے اور فرشتوں کے بازوئوں پر سہارا لیے ہوئے ملاء اعلیٰ سے اتر رہے ہیں۔ فرشتے ان کو مسجد کے مشرقی منارہ پر اتار کر واپس چلے جائیں گے۔ اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تعلق کائناتِ ارضی کے ساتھ دوبارہ قائم ہوجائے گا اور وہ مسلمانوں کے ساتھ نماز کی صفوں میں کھڑے ہوجائیں گے۔ مسلمانوں کے امام (مہدی موعود) بطور تعظیم پیچھے ہٹ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے امامت کی درخواست کریں گے۔ آپ فرمائیں گے کہ اقامت تمہارے لیے کہی گئی ہے اس لیے تم ہی نماز پڑھائو۔ نماز سے فارغ ہوکر حضرت مسیح علیہ السلام نیزہ لے کر دجال کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔ شہر پناہ کے باہر اس کو ’’باب ِلُد‘‘ پر مقابل پائیں گے۔ دجال سمجھ جائے گا کہ اس کے دجل اور زندگی کے خاتمے کا وقت آپہنچا، اس لیے خوف کی وجہ سے رانگ (سیسہ) کی طرح پگھلنے لگے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر اس کو قتل کردیں گے اور پھر جو یہود دجال کی رفاقت میں قتل سے بچ جائیں گے وہ، اور عیسائی سب اسلام قبول کرلیں گے اور مسیح ہدایت کی سچی پیروی میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئیں گے۔ اس کا اثر مشرک جماعتوں پر بھی پڑے گا۔ تب اس زمانے میں اسلام کے سوا کوئی مذہب باقی نہیں رہے گا۔ (مولانا حفیظ الرحمن سیوہارویؒ)
قطب مینار
قطب مینار سنگِ سرخ کا ایک بلند مینار ہے جسے Fergusson Diez (206ء صفحہ 165) نے دنیا کی حسین ترین عمارتوں میں سے ایک بتایا ہے، اور جو موجودہ دہلی شہر سے تقریباً گیارہ میل کے فاصلے پر اس نام کے پہلے شہر کے کھنڈر میں واقع ہے۔ جامع مسجد سے تقریباً 160 فٹ دور، جسے قطب الدین ایبک نے 1193ء میں شہر دہلی کو ہندو راجا پرتھوی راج سے چھین لینے کے فوراً ہی بعد تعمیر کروایا تھا۔ غزنہ اور کوئل (Koel) کے مینارکی طرح یہ مینار بھی ایک الگ تھلگ عمارت ہے جہاں سے مؤذن اذان دیتا تھا، اور جو 238 فٹ بلند ہے۔ یہ مسجد سے ملحق نہیں ہے بلکہ بیرونی جنوبی صحن کے جنوب مشرقی گوشے میں واقع ہے، جس کا اضافہ 1225ء میں التمش نے ایبک کی مسجد میں کیا تھا۔
یہ چوڑائی میں متوازی نہیں بلکہ اوپر کو مخروطی ہوتا چلا گیا ہے اور پانچ منزلوں میں منقسم ہے، جن میں سے ہر ایک (بہ استثنیٰ سب سے اوپر کی منزل کے) خاصے آگے کو نکلے ہوئے جھروکے ہیں جن کے نیچے خوبصورتی سے کندہ کیے ہوئے کتبوں کی پٹیاں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی منزل اُس زمانے میں تعمیر ہوئی تھی جب ایبک نے ابھی تک معزالدین کی سیادت تسلیم کی ہوئی تھی (یعنی 1205ء سے پہلے)۔ دوسری، تیسری اور چوتھی منزلیں التمش نے بنوائی تھیں، لیکن فیروز شاہ کے عہدِ حکومت میں جب مینار پر بجلی گری تو اس بادشاہ نے 1328ء میں اس کی مرمت کروائی اور پانچویں منزل کا اضافہ کردیا۔ سب سے اوپر کی دو منزلوں کی جو اپنی موجودہ شکل میں غالباً فیروز شاہ کی بنوائی ہوئی ہیں، سطح صاف ہے۔ زیادہ تر سفید سنگِ مرمر کی اور بیچ بیچ میں سرخ پتھر کی پٹیاں ہیں، لیکن مینار کی باقی ماندہ سطح کلیتاً سنگِ سرخ کی ہے اور گول نہیں بلکہ پنالی دار ہے، اور یہ پنالیاں نیچے کی منزل میں یکے بعد دیگرے گول اور زاویہ نما ہوتی گئی ہیں۔ دوسری منزل میں محض گول، اور تیسری منزل میں صرف زاویہ نما۔ ہر پنالی کا خط ہر منزل میں اوپر تک غیر منقطع طور پر چلا گیا ہے۔ کتبے کچھ تو تاریخی نوعیت کے ہیں اور کچھ آیاتِ قرآنی پر مشتمل ہیں، ان کی نقل اور ترجمہ Epigraphia indo Moslemied برائے 1911ء ۔ 1912ء میں درج ہے۔
مینار کا نام خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ولی اللہ کے نام پر ہے جن کا التمش بہت احترام کرتا تھا۔ ان کا انتقال 1235ء میں دہلی میں ہوا اور ان کا مزار مینار سے زیادہ فاصلے پر نہیں۔
۔(اردو دائرۃ المعارف،دانش گاہ پنجاب۔ صفحہ 333۔ 334)۔