پی ٹی آئی حکومت کی معاشی پالیسیاں ملک کو کہاں لے جائیں گی؟۔

سندھی تحریر: رفیق چانڈیو/ ترجمہ اسامہ تنولی
معروف ماہرِ معاشیات اور تجزیہ نگار ڈاکٹر رفیق چانڈیو نے سابقہ حکومت، اور موجودہ پی ٹی آئی حکومت کی عوام دشمن معاشی پالیسیوں پر بروز بدھ 14 اگست 2019ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر اپنے تحریر کردہ کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے، اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
……٭٭٭……
’’1990ء کے لگ بھگ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے سرمایہ دار ملکوں کی نجکاری کے ایجنڈے کو مؤثر بنانے کے ساتھ ساتھ یورپ میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاری ریاستی ویلفیئر سسٹم کے بوریا بستر گول ہونے کا کام بھی شروع ہوا تھا۔ سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے ممالک سے سوشلسٹ نظام کے خاتمے کے بعد سرمایہ داری نظام نے غریب ممالک پر قرضوں، جنگی ٹیکنالوجی اور کاروبار کے بدلے ہمہ جہت دبائو ڈالنا شروع کیا۔ پاکستان جیسے کئی ممالک کو نجکاری یا پرائیوٹائزیشن کرنے کے عوض آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرض لینے کی پیشکش کی گئی۔ یاد رہے کہ پاکستان 1988ء میں جنرل ضیا الحق کے طویل مارشل لا کے بعد دوبارہ جمہوری نظام کی طرف لوٹ رہا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں جب ساری دنیا میں معاشی حالات بہتر نتائج دے رہے تھے، اُس وقت بھی پاکستان نہایت بدتر معاشی حالات کا سامنا کررہا تھا۔ آج بھی معاشی ماہرین 1990ء کے عشرے کو پاکستان کے لیے ’’ضائع شدہ دہائی‘‘ (Decade lost) کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
عالمی اداروں کی طرف سے اندھا دھند پرائیوٹائزیشن کرانے کے بارے میں دنیا کے سرمایہ دار کیمپ کے کئی معاشی ماہرین نے لکھا ہے کہ One Size Fits All (ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنا)کی سوچ ترقی پذیر ممالک میں تباہی کا باعث ثابت ہوگی، اس لیے ترقی پذیر ممالک کو اپنی پالیسیاں خود تشکیل دینے کا مکمل اختیار ہونا چاہیے۔ 1990ء میں جوزف اسٹگلٹز (Joseph Stiglitz) نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف Globalization and Its Discontents میں لکھا تھا کہ ورلڈ بینک کی پرائیوٹائزیشن کی پالیسی دنیا کے بیشتر ممالک کی ترقی پذیر صنعتوں پر منفی اثرات مرتب کررہی تھی۔ پاکستان نے بھی اسی نجکاری کے دبائو میں آکر وفاق اور صوبوں کے اداروں اور اثاثوں کو پرائیویٹائزکرنا شروع کردیا۔ پاکستان کے معاشی ماہرین مثلاً ڈاکٹر عشرت حسین، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور دیگر درآمد شدہ ماہرین نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسی نجکاری پاکستان کی ترقی کرتی ہوئی کئی صنعتوں اور سروسز انڈسٹری میں نہایت برے اثرات مرتب کرے گی، نہ صرف اس کی حمایت کی، بلکہ ایسی پالیسیوں کو انہوں نے مزید تقویت بھی بخشی۔ اس طرح سے ان ماہرین نے پاکستانی معیشت کی ڈوبتی ہوئی نیّا کو ڈبونے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ تاریخ کے بے رحم احتساب سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا، اس لیے مجھے کامل یقین ہے کہ وہ سب لوگ جو پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے میں ملوث رہے ہیں، ایک روز قانونِ قدرت کی گرفت میں ضرور آئیں گے۔
پاکستان میں 1990ء کی دہائی سیاسی طور پر حد درجہ گڑبڑ پر مبنی حالات پر مبنی تھی۔ اس دہائی میں چار مرتبہ سیاسی حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے باعث معاملات مزید خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔ پاکستان میں اقتدار کا کھیل رچانے والی قوتوں کو یہ بات شاید مذکورہ بالا ماہرین میں سے کسی نے بھی نہیں بتائی ہے کہ معاشی ترقی کا، جمہوری اور پائیدار سیاسی نظام سے گہرا تعلق ہوا کرتا ہے۔ غیر سیاسی حکومتیں کسی طور بھی پاکستان کی معاشی ترقی کے عمل کو تقویت نہیں پہنچا پائیں گی۔ اس لیے اگر اس خطے میں پاکستان کو اپنا سر اونچا کرکے جینے کی تمنا ہے تو اس کے لیے نہایت ضروری یہ امر بھی ہے کہ سیاسی عمل کو بہتر طریقے سے پروان چڑھنے کا موقع دیا جائے۔ 1990ء میں پاکستان میں پرائیوٹائزیشن اپنے پہلے مرحلے میں داخل ہوچکی تھی۔ پہلے مرحلے میں ہی نفع بخش پیداواری صنعتی یونٹس کو نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا۔ اس کے لیے اکنامکس کی نہایت آسان تھیوری بتائی گئی کہ پیداواری عمل میں حکومتوں کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ ریاست اور حکومت محض نجی شعبے کے لیے ایک لیول پلیئنگ فیلڈ تیار کریں گے۔ نجی پیداواری سیکٹرز کی ترقی کے ذریعے ٹیکس آمدنی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے حکومت انسانی وسائل کی ترقی اور ملک کے مجموعی انفرااسٹرکچر پر خرچ کرسکے گی۔ 1990ء کی دہائی کی سیاسی حکومتوں کو درآمد شدہ معاشی ماہرین نے یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ نجکاری سے ہاتھ آنے والی رقم کے ذریعے ملکی اور بین الاقوامی قرضے بھی ختم کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن قرضوں میں مسلسل اضافہ ہونے کا امکان بھی روشن تھا، کیونکہ 1990ء کی دہائی میں ایٹمی دھماکے کرنے کے باعث پاکستان کو متعدد پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی کاروباری سہولیات چھن جانے کی وجہ سے معیشت مزید خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ نجکاری کی ایک مثال جو مجھے یاد آرہی ہے وہ یہ کہ 1990ء کے قریب میں سندھ یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم ہاسٹل میں رہا کرتا تھا۔ ان دنوں مہران یونیورسٹی، لیاقت میڈیکل کالج، LMC اور سندھ یونیورسٹی کا حیدرآباد سے تعلق SRTC (یعنی سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن) کے ذریعے سے تھا۔ SRTC بے حد ارزاں اور اچھی سواری تھی، جو حکومتِ سندھ کی طرف سے سندھ بھر میں سبسڈائز ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر کے ٹرانسپورٹ سسٹم کے کرایوں میں اضافے کو روکنے کا ایک بڑا ذریعہ تھی۔ میری رائے میں تو ایس آر ٹی سی کو ختم کرکے بھی ہم پورے ملک میں ورلڈ بینک سے قرض لے کر ٹرانسپورٹ سسٹم بنا رہے ہیں۔ پاکستان کی پرائیوٹائزیشن کا اگر جائزہ لیا جائے تو وفاقی حکومتیں مختلف اوقات میں سماجی ترقی کے ان شعبوں میں مداخلت کرتی رہی ہیں جن میں پہلے سے ہی پرائیوٹ سیکٹر بہترانداز سے کام کررہا ہے۔ اس کی ایک مثال ہائوسنگ سیکٹر ہے۔ شہروں میں ہائوسنگ سیکٹر کی ڈیمانڈ کی وجہ سے نجی شعبہ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں گزشتہ کئی عشروں سے ہائوسنگ کے شعبے میں نمایاں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اس صورتِ حال میں پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے گھر تعمیر کرانے کے عمل کو کس طرح سے دیکھا جائے؟ اگر حکومتِ سندھ بحریہ ٹائون کو زرِ تلافی دے کر زمین دیتی ہے تو یہ غلط، لیکن وفاقی حکومت اگر اسی طرح سے کام کرے تو وہ افضل ہے! پاکستان کو معاشی حوالے سے سخت تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جس کا حل دو سمتوں میں صحیح قدم اٹھانے سے مشروط ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان اپنے اخراجات پر کنٹرول کرے۔ ان میں جو بڑے خرچے ہوں سب سے پہلے انہیں شامل کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ فوری طور پر معیشت کی مینوفیکچرنگ اور سروسز سیکٹر کو ترقی دینے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنانے کے لیے ہیومن ریسورسز کے توسط سے لیبر مارکیٹ کے مختلف شعبوں کو اس کے لیے اپنا ہدف بنانا چاہیے، تاکہ گلوبل مارکیٹ (اکانومی) میں اپنا حصہ شامل کیا جاسکے۔ اس کے لیے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں جس لیول کے گریجویٹ پیدا کیے جارہے ہیں، فوری طور پر ان کا معیار بہتر بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے تاکہ اس طرح سے آج نہیں تو کل ملک میں آنے والی سرمایہ کاری کے لیے راہ ہموار کی جا سکے اور پاکستان روایتی طور پر اپنے مسلم ممالک کی لیبر مارکیٹ کا حصہ واپس لے سکے، کیوں کہ بہتر معیار کی وجہ سے ہندوستان پہلے ہی اس مارکیٹ کے بیشتر حصے پر قابض ہوچکا ہے۔ ترکی اور ملائشیا جیسے اسلامی ممالک کی طرح سیاحت کے شعبے میں بہتری لاکر معیشت کے لیے ایک فوری سہارا تلاش کیا جا سکتا ہے۔
1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد نوازشریف حکومت کی جانب سے اکائونٹ منجمد کرنا ایک سنگین غلطی تھی، لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین غلطی کرکے پی ٹی آئی حکومت پاکستان کے فنانشل سیکٹر کو غلط ٹیکسیشن اور کاروبار مخالف پالیسیوں کے ذریعے اس وقت تک سخت ضرب لگا چکی ہے۔ بجائے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے، پہلی مرتبہ سرکاری ملازمین اور نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہوں میں ریکارڈ حد تک ٹیکس کا اضافہ کردیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے پہلے ہی سے تمام عمر ٹیکس بھرنے والے ملازمین کو اور زیادہ پابند اور محصور کردیا گیا ہے۔ اکنامکس میں یہ ممکن نہیں ہے کہ کبھی بھی معاوضے میں کمی کی جائے، اور اس نوع کی کمی یقینا Negative Growth جیسے نتائج ہی دے گی۔ اکنامکس میں کسی بھی معیشت میں دو کوارٹر یا چھ ماہ تک Negative Growth کا مطلب Recession ہوا کرتا ہے۔ اگر کوئی بھی معیشت مستقل قرض ہی پر اپنی بیلنس آف پیمنٹس (Balance of Payments) کو چلاتی آئے اور اپنے بین الاقوامی کاروبار کا توازن بہتر نہ بنا سکے تو ایسی معیشت کو پھر دیوالیہ ہونے سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔ عجیب بات یہ ہے کہ جاری عشرے (دہائی) کو عالمی اداروں کی طرف سے ’’جنوب کی دہائی‘‘ قرار دیا گیا ہے، جس کے مطابق جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش کے لیے اس وقت تک تمام جنوبی ایشیائی معیشتوں سے 7.5 فیصد سالانہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جب کہ ہندوستان کی معیشت بھی لگ بھگ 7 فیصد تک معاشی ترقی کررہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی شرح نمو اس کے برعکس بہت نیچے 3 فیصد کے آس پاس ہورہی ہے۔ افغانستان کی بات تو سمجھ میں آرہی ہے، لیکن پاکستان اتنی کم رفتار سے شرح نمو کو بالکل برداشت نہیں کرسکتا۔ اگر ہم جنوبی ایشیا میں اپنی گردن اونچی کرکے سماجی اور معاشی ترقی کے حصول کے خواہش مند ہیں تو ہمیں اپنے معاشی معاملات کو بہتر کرنے کے لیے انہیں اپنی اولین ترجیح بنانا ہوگا۔ پی ٹی آئی کی حکومت تو پاکستان کو 1975ء میں انڈیا کے اندر لگائی گئی ایمرجنسی صورتِ حال سے بھی کہیں زیادہ خراب معیشت کی طرف لے جارہی ہے۔‘‘