بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات،انسدادِ دہشت گردی محکمے کی کارروائی

بلوچستان کے اندر دہشت گرد گروہ ماضی کی طرح مضبوط نہیں رہے ہیں، اور دہشت گردی کے واقعات میں بھی کمی آچکی ہے، لیکن ایک لمبے عرصے بعد صوبے کے اندر کہیں نہ کہیں کوئی سانحہ رونما ہو ہی جاتا ہے۔ اس نوع کے واقعات صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بھی پیش آتے رہتے ہیں۔ کوئٹہ میں اپریل2019ء سے ستمبر 2019ء تک غالباً آٹھ بم دھماکوں میں 45 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان واقعات میں زخمی ہوئی ہے۔ جاں بحق ہونے والوں میں پانچ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، اسی طرح زخمیوں میں بھی پولیس اہلکار شامل ہیں۔ مساجد کے اندر دھماکے ہوئے۔ محرم الحرام کے دوران دہشت گردی کے خطرات و امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے پیش نظر سیکورٹی کے بڑے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ پچھلے چند سال سے محرم کے دوران، خاص کر عاشورہ کے دن سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار سانحہ پیش نہیں آیا۔ چناں چہ اِس مرتبہ بھی دہشت گردوں کو موقع نہ دیا گیا۔
جیسا کہ کہا گیا دہشت گرد سر اٹھاتے رہتے ہیں۔ چناں چہ4 ستمبر 2019ء کو انسداد ِدہشت گردی کے محکمے سی ٹی ڈی نے حساس ادارے اور پولیس کے ساتھ مل کر کوئٹہ شہر کے نواحی علاقے مشرقی بائی پاس میں دہشت گردوں کی کمین گاہ کو گھیرے میں لے کرکامیاب آپریشن کیا۔ دہشت گرد لیبر کالونی کے قریب ایک مکان میں ہمہ وقت پوری تیاری کے ساتھ مقیم تھے۔ فورسز نے صبح سویرے یعنی فجر ہونے سے قبل کارروائی شروع کی۔ ان کے پہنچنے کے ساتھ ہی مکان کے اندر سے دہشت گردوں نے دستی بم پھینکے اور خودکار اسلحہ سے فائرنگ شروع کردی۔ یوں دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جو دیر تک چلتا رہا۔ پولیس کہتی ہے کہ مقابلہ پانچ گھنٹے تک جاری رہا۔ ایک دہشت گرد نے جسم سے بندھی خودکش جیکٹ کے ذریعے خود کو اڑایا۔ اس طرح اُس سمیت چھ دہشت گرد مارے گئے۔ ان کے ساتھ عورت بھی رہائش پذیر تھی جو ہلاک کردی گئی۔ ایک کی شناخت ابراہیم بڑیچ کے نام سے ہوئی جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ شخص خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ سمیت کئی وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔ ان افراد کا تعلق کالعدم داعش سے تھا۔ مکان سے داعش کے جھنڈے بھی برآمد ہوئے۔ ابراہیم بڑیچ داعش کا مقامی کمانڈر تھا جس کے ساتھ اس کا بھتیجا حمایت بڑیچ اور قریبی رشتے دار سمیع اللہ بڑیچ بھی شامل تھا، اور ہلاک خاتون کا نام آمنہ بتایا گیا ہے جو ابراہیم کی ہمشیرہ بتائی جاتی ہے۔ آپریشن کے دوران حمایت بڑیچ نے خود کو دھماکے سے اڑایا۔ پانچویں دہشت گرد کی شناخت عامر شیخ حسینی کے نام سے ہوئی۔ ابراہیم بڑیچ گزشتہ سال عام انتخابات کے دوران مشرقی بائی پاس پر پولنگ اسٹیشن کے باہر انتخابی کیمپ کے باہر خودکش بم حملے، ہزارگنجی سبزی منڈی بم دھماکے اور میکانگی روڈ پر امام بارگاہ ناصر العزاء اور ایئر پورٹ روڈ پر بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک پر خودکش حملوں سمیت ہدفی قتل کے کئی واقعات میں ملوث تھا۔ اس آپریشن میں بلوچستان کانسٹیبلری کا ڈرائیور قاضی سیف اللہ جاں بحق ہوا جو ڈھاڈر کا رہائشی تھا۔ پانچ اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ ضلع مستونگ میں کابو کے پہاڑوں میں داعش کے بڑے کیمپ فوجی آپریشن کے ذریعے ختم کیے گئے جس میں کمانڈوز نے بھی حصہ لیا۔ اس تنظیم سے وابستہ کئی افراد مارے گئے۔ کچھ لوگ حراست میں لیے گئے۔ ان کے بعض اہم لوگ افغانستان میں موجود تھے۔ اس کیمپ سے وابستہ تمام افراد مقامی تھے، اور مشرقی بائی پاس آپریشن میں مارے جانے والے بھی مقامی لوگ تھے۔ ظاہر ہے کہ واحد جگہ افغانستان ہے جو دہشت گرد تنظیموں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد یقینا کسی گروہ کے لیے یہ سرزمین پناہ گاہ یا تربیت گاہ نہیں رہے گی۔
اس آپریشن کے اگلے روز یعنی پانچ ستمبر کو کوئٹہ کے خیزی چوک کے قریب نجی بس ٹرمینل میں دھماکا ہوا۔ پولیس، رضا کار ٹیمیں اور میڈیا کے لوگ پہنچے تو دوسرا دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں رضاکار تنظیم چھیپا کا ایک نوجوان محمد نعیم جاں بحق ہوا، جبکہ دو ایس ایچ او اور پولیس اہلکاروں سمیت بارہ افراد زخمی ہوئے۔ اس دھماکے میں دنیا ٹی وی کے رپورٹر ابرار احمد اور کیمرا مین سید رحمت علی شدید زخمی ہوئے۔ رپورٹر اور کیمرا مین کو حکومتِ بلوچستان کے تعاون سے مزید علاج کے لیے کراچی منتقل کردیا گیا۔ خودکش بم دھماکوں اور ہدفی قتل کے واقعات میں اب تک بلوچستان کے چالیس کے قریب صحافی جان سے گئے ہیں۔