تحریک غلبۂ اسلام کے ان تھک سپاہی، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے جاں نثار ساتھی محمد یوسف خان اونچے لمبے قد کاٹھ اور دبنگ لہجے کے مالک، پٹھان خاندان کے چشم و چراغ تھے، وہ علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں ؎۔
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
کی چلتی پھرتی تصویر تھے، مگر ان کی یہ ساری دوڑ دھوپ ایک عظیم مقصد کی خاطر تھی، کہ ؎
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
تحریک اسلامی کے یہ دبنگ رہنما اور کارکن 15 ستمبر 2014ء کو دارِفنا سے دارِ بقا کی جانب کوچ کر گئے۔ اِنا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلہٖ راجعون۔ وفات کے وقت ان کی عمر 92 سال تھی۔ زندگی کے آخری چند سال کے سوا جن میں وہ بیماری اور بڑھاپے کے سبب صاحبِ فراش رہے، ان کی پوری زندگی جہدِ مسلسل اور کاوشِ پیہم سے عبارت تھی۔
محمد یوسف خان مرحوم کی زندگی جرأت و بہادری، فی سبیل اللہ خدمت، اور بے ریا عبادت سے عبارت تھی۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے ہی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت سے متاثر ہوچکے تھے، تاہم جماعت اسلامی کی باقاعدہ رکنیت 1950ء میں حاصل کی اور پھر اپنی ذات کو فنا فی الجماعت کردیا۔ ان کا سونا، جاگنا، اُٹھنا، بیٹھا بلکہ جینا مرنا سب کچھ اسلام اور جماعت اسلامی کی خاطر تھا۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں جن کا ترجمہ مولانا نصر اللہ خان عزیز مرحوم نے اس شعر کی صورت میں کیا ؎
مری زندگی کا مقصد، ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں، میں اسی لیے نمازی
محمد یوسف خان نے اپنی ساری زندگی نفاذِ نظام اسلام یا اسلامی انقلاب کے لیے وقف رکھی، انہیں جہاں ذمہ داری سونپی گئی، جس شعبے میں کام کرنے کے لیے کہا گیا، انہوں نے کسی چوں و چرا کے بغیر سر جھکا کر کام شروع کردیا، اور پھر صرف ادائیگیِ فرض ہی کافی نہیں سمجھی بلکہ کام کا حق ادا کیا، قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور سالہا سال تک پنجاب کی مختلف جیلوں میں اس زمانے میں خدا کا نام لینے اور خدا کی زمین پر خدا کا نظام غالب کرنے کی جدوجہد کے جرم میں قید رہے ؎
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
مگر جیل میں بھی اپنے مقصدِ زندگی کو فراموش نہیں کیا، چنانچہ وہاں بھی دیگر قیدیوں کو اسلام اور قرآن کا پیغام پہنچانے کا کسی نہ کسی طرح اہتمام کرتے رہے۔ وہ پولیس میں بھرتی ہوئے تو وہاں بھی حق بات کہنے سے باز نہ آئے اور جیل پہنچا دیئے گئے، پھر نیوی میں ملازمت کی تو وہاں بھی انگریز کے دور میں بغاوت کے مقدمے کا سامنا کیا اور جیل کی ہوا کھائی۔ پاکستان بنا تو انہیں ہر دور میں جیل بھیجنا ضروری سمجھا گیا، ایوب کی آمریت میں بھی، بھٹو کی جمہوریت میں بھی، حتیٰ کہ میاں نوازشریف کے دورِ اقتدار میں بھی انہوں نے حق گوئی کی سزا پائی مگر کبھی پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دورِ استبداد میں جب مولانا نصر اللہ خان عزیز جماعت اسلامی لاہور کے امیر تھے اور مولانا کوثر نیازی قیم، تو یوسف خان ان کے ساتھ نائب قیم تھے۔ انہیں پہلے خدمتِ خلق کا شعبہ سپرد کیا گیا، اور پھر جب ایوب خان کے مارشل لا میں فوجی عدالتوں سے نوجوانوں کو سزائیں سنائی جانے لگیں تو سید مودودی نے محمد یوسف خان کو حصولِ انصاف کے شعبے کی ذمہ داری سونپ دی۔ چنانچہ وہ مسلسل 24 برس تک جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے مصروفِ عمل رہے۔ اس دوران انہوں نے عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرنے کے لیے جماعت اسلامی کی طرف سے انتخابات میں حصہ بھی لیا اور دو بار ایوب خان کے بنیادی جمہوریتوں کے نظام میں بی ڈی ممبر اور دو بار جنرل ضیاء الحق کے دور میں کونسلر منتخب ہوئے، اور عوامی خدمت کی بے مثال تاریخ رقم کی۔ اپنے حلقے میں فری ڈسپنسریوں اور اسلامی لائبریریوں کے قیام کے علاوہ علاقے میں اسکول اور پارک بنوائے اور تجاوزات ختم کرکے قبضہ گروپوں کا قلع قمع کیا۔ ان کے دور میں واگزار کرائے گئے کئی پارک آج بھی ان کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کا ایک سب سے بڑا کارنامہ یہ بھی تھا کہ اپنے علاقے میں انہوں نے کسی بدمعاش کو پنپنے نہیں دیا، ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیا۔ غنڈے اور بدمعاش ان کے نام سے ڈرتے تھے۔
انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ لاہور کے جس اجتماع میں گورنر پنجاب نواب محمد خان کالا باغ نے ایوب خان کے ایما پر فائرنگ کروائی تھی جس کے نتیجے میں جماعت کے رکن اللہ بخش شہید ہوگئے تھے، گولی چلانے والے شخص کو یوسف خان نے نہایت جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موقع پر گرفتار کرلیا تھا۔ وہ شہر کے ایک مشہور بدمعاش ریاض گجر کے گروپ کا آدمی تھا۔ بعد ازاں کئی سال تک اس گروپ کے لوگ یوسف خان صاحب کو دور سے دیکھ کر ہی راستہ بدل لیتے تھے۔ ایسے ہی ایک واقعے کے یوسف خان مرحوم خود راوی ہیں کہ وہ جمعیت کے کارکنوں کی ضمانت کروانے سیشن عدالت لاہور گئے تو وہاں کچھ غنڈے ایک آدمی کی پٹائی کررہے تھے، مگر جب یوسف خان وہاں پہنچے تو غنڈے انہیں دیکھتے ہی وہاں سے فرار ہوگئے۔ ’’اس واقعے کی خبر اخبارات میں بھی شائع ہوئی جسے پڑھ کر میاں طفیل محمد مرحوم نے مجھے دو سو روپے انعام دیا، پھر میں مولانا مودودیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ بھی اخبار میں یہ خبر پڑھ چکے تھے، میں نے انہیں بتایا کہ میاں طفیل محمد صاحب نے مجھے دو سو روپے انعام دیا ہے، ان میں سے ایک سو آپ رکھ لیجیے… یہ سن کر مولانا مسکرا دیئے۔‘‘
خدمت کے شعبے میں یوسف خان صاحب صرف اپنوں ہی نہیں، بیگانوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ مشہور شاعر حبیب جالب ان کے محلے دار تھے اور اپنی باغیانہ شاعری کی وجہ سے اکثر جیل جاتے رہتے تھے۔ وہ اگرچہ بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے اور نظریاتی لحاظ سے جماعت اسلامی اور یوسف خان کے شدید مخالف تھے، مگر اس کے باوجود جب بھی حبیب جالب جیل جاتے تو یوسف خان ان کے گھر والوں کے لیے سامانِ خورو نوش پہنچاتے اور ان کی دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھتے۔
تحریکِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر حکیم عبدالوحید سلیمانی مرحوم بتایا کرتے تھے کہ میری یوسف خان سے پہلی ملاقات 1964ء میں جماعت اسلامی کی مجلسِ شوریٰ کے اجلاس کے موقع پر ہوئی تو میں نے اُن سے اسلامی جمعیت طلبہ کے لیے اعانت کی درخواست کی، انہوں نے جیب میں جو کچھ تھا، نکال کر دے دیا، میں نے کہا، کچھ اپنی ضروریات اور کرایہ وغیرہ کے لیے رکھ لیں مگر انہوں نے سب کچھ دے دیا اور خود پیدل چل کر گھر پہنچے۔ اسی طرح ایک دفعہ منصورہ میں ان سے ملاقات ہو گئی تو وہ مجھے ساتھ لے کر منصورہ سے سنت نگر تک پیدل ہی آ گئے ۔ ان کی ہمت اور جذبہ دیکھ کر نوجوانوں کو بھی حوصلہ ملتا تھا۔
مولانا مودودیؒ سے ان کی محبت بھی مثالی تھی، جو کوئی ان کے بارے میں خصوصاً ان کی بچیوں کے بارے میں نازیبا کلمات کہتا اس سے لڑ پڑتے اور پٹائی سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ سید مودودیؒ سے محبت کے اظہار کے طور پر انہوں نے اپنے بچوں کے نام بھی مولانا کے بچوں کے نام پر ہی رکھے۔ مولانا کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جب کہ یوسف خان صاحب کے بھی چھ بیٹے تھے جن کے نام بالکل مولانا کے بیٹوںکے نام پر رکھے، البتہ خان صاحب کی بیٹیاں بھی چھ تھیں چنانچہ تین بیٹیوں کے نام مولانا کی بیٹیوں پر اور باقی تین کے نئے نام رکھے۔
ایک بہت بڑا اعزاز مولانا محمد یوسف خان کو یہ حاصل ہے کہ عالمی شہرت یافتہ نومسلم اسکالر مریم جمیلہ، مولانا مودودیؒ کی خواہش پر یوسف خان کے نکاح میں آئیں اور کمال یہ ہے کہ مریم جمیلہ کا رشتہ مانگنے، یوسف خان کے پہلے سے عقد میں موجود اہلیہ شفیقہ خود مولانا مودودیؒ کے پاس گئیں… اور یوں خود مانگ کر مریم جمیلہ کو اپنی سوکن کے طور پر اپنے گھر لائیں۔ اسے یوسف خان مرحوم کی شخصیت یا تربیت کے کمال کے سوا کیا نام دیا جائے کہ یہ دونوں سوکنیں یوسف خان کی بیویوں کے طور پر بہنوں کی طرح ساری عمر اکٹھی رہیں اور دونوں میں حقیقی بہنوں سے بھی بڑھ کر الفت و محبت لوگوں نے دیکھی۔ دونوں کے بچے پہلی اہلیہ کو امی، جب کہ دوسری اہلیہ کو ’’آپا‘‘ کہتے تھے، اور ان کے مابین آج تک ناقابلِ یقین حد تک مثالی اتفاق، پیار، محبت اور یگانگت ہے… اور مریم جمیلہ نے وفات کے بعد بھی دفن ہونے کے لیے اپنی آپا شفیقہ کے پہلو میں قبر بنائے جانے کی وصیت کی، چنانچہ آج دونوں سوکنیں پہلو بہ پہلو آرام کررہی ہیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا یہ بے مثال فدائی 15 ستمبر 2014ء کو اپنے خالقِ حقیقی کے پاس پہنچ گیا ؎
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
مگر جس کردار کا مظاہرہ یوسف خان نے اپنی زندگی میں کیا، یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے عظمتِ کردار کی جو شمع اپنی زندگی میں روشن کی، وہ ان کی وفات کے بعد بھی تادیر روشنی بکھیرتی اور راہِ حق کے متلاشیوں کو راستہ دکھاتی رہے گی۔
محمد یوسف خان مرحوم نے مرنے کے بعد بھی تحریکِ اسلامی سے اپنے تعلق کو قائم رکھنے کی خاطر وصیت کی تھی کہ انہیں میاں طفیل محمد مرحوم کے پہلو میں دفن کیا جائے، مگر وہاں جگہ دستیاب نہ ہوسکی، البتہ قریب ہی علامہ اقبال ٹائون کے کریم بلاک کے اسی قبرستان میں ان کے ایک اور دیرینہ ساتھی سید اسعد گیلانی، جن کے ساتھ انہوں نے سالہا سال مل کر حق کی سربلندی کی جدوجہد کی تھی، کے پہلو میں جگہ مل گئی، چنانچہ انہیں وہاں سپردِ خاک کردیا گیا ؎