کتاب : شعر، شعریات اور فکشن
شمس الرحمن فاروقی کی تنقید کا مطالعہ
مصنف : صفدر رشید
صفحات : 486 قیمت:500 روپے
ناشر : ڈاکٹر تحسین فراقی، ناظم مجلس ترقیِ ادب۔
2نرسنگھ داس گارڈن، کلب روڈ، لاہور
فون : 042-99200856,99200857
ای میل : majlista2014@gmail.com
ویب گاہ : www.mtalahore.com
زیر نظر کتاب جناب صفدر رشید کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا کتابی روپ ہے۔ یہ مقالہ انہوں نے ڈاکٹر رشید امجد صاحب کی نگرانی میں تحقیق و تحریر کیا۔ ڈاکٹر تحسین فراقی تحریر فرماتے ہیں:
’’شمس الرحمن فاروقی (پ30 ستمبر 1935ء) معاصر اردو ادب کا ایک معتبر نام ہیں۔ انہوں نے عالمی ادب کا گہرا مطالعہ کررکھا ہے جس میں مغربی ادب کے دوش بدوش مشرقی ادب کا بھی، جس کا ایک قابلِ قدر حصہ فارسی شعر و ادب اور کلاسیکی و جدید اردو ادب سے عبارت ہے، فیضان اور روپ رس شامل ہے۔ وہ ایک نقاد کی حیثیت سے تو معروف و ممتاز ہیں ہی، ایک غیر معمولی فکشن نگار کے طور پر بھی پورے برعظیم میں شہرت کے حامل ہیں۔ پھر مجلہ ’’شب خون‘‘ کے ذریعے انہوں نے جدیدیت کے ایک علَم بردار کی حیثیت سے کئی نسلوں کی تربیت کی، فن کے خود مکتفی وجود پر اصرار کیا، اور فنی قدر کو بڑا مرتبہ دیا۔ ان کی تنقید حیرت انگیز تنوع کی حامل ہے۔ ان کا ایک نظریہ ساز نقاد ہونا مسلّم ہے۔ ان کی تنقید کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے کلیشوں کو توڑا اور بعض غلط مسلّمات کا پردہ چاک کیا۔ انہوں نے کلاسیکی اردو ادب پر بھی جم کر لکھا۔ داستان، افسانہ، غزل، لغت، عروض، تبصرہ نگاری، اردو کی ابتدا کے ضمن میں مباحث، نیز میر، غالب اور اقبال جیسے اکابر سے لے کر مابعدِ اقبال تخلیق کاروں اور اپنے معاصرین کی ادبی کاوشوں کو بھی لائقِ اعتنا سمجھا۔ ان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ادب اپنی شعریات سے قائم ہوتا ہے اور اس شعریات کو اُس تہذیبی و ثقافتی منطقے کے خصائص متعین کرتے ہیں جہاں وہ ادب پھلتا پھولتا اور پروان چڑھتا ہے۔ لہٰذا اسے بدیسی تہذیبی و تنقیدی پیمانوں پر پرکھنا ظلم کے مترادف ہے (اجمالاً ہی سہی، یہی مؤقف محمد حسن عسکری کا بھی رہا)۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ فاروقی دیگر تہذیبی مراکز کے تنقیدی تصورات کو لائقِ توجہ نہیں سمجھتے۔ انہوں نے جس توجہ اور شبانہ روز ریاضت سے قدیم و جدید تصوراتِ ادب کو پڑھا اور اپنے وجود میں سمیٹا اور سمویا ہے، اس باب میں کوئی معاصر اردو نقاد اُن کا ہم پلہ نہیں۔ انہوں نے ساختیات سے گہرے اثرات قبول کیے ہیں۔ ہاں مابعد جدیدیت کو وہ ادبی نظریہ نہیں مانتے، محض فکری صورتِ حال سے تعبیر کرتے ہیں، اور اس امر کے شاکی ہیں کہ مابعد جدیدیت نے فن سے امید ختم کردی اور ہر ایک شے کو لایعنی قرار دے ڈالا۔ وہ ادب پاروں کا تجزیہ ایک ماہر منطقی کے طور پر کرتے ہیں۔ پہلے مقدمات قائم کرتے ہیں، پھر خالص منطقی انداز میں ان کا تجزیہ کرتے ہیں، اور آخر میں گہری چھان پھٹک کے بعد اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں جو قاری کے لیے عموماً شرحِ صدر کا باعث ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اردو کے نامور دانشور، نقاد محمد حسن عسکری کے بہت سے تصورات ِ نقد سے فیض حاصل کیا، ان کے بعض تصورات کی توسیع کی، مگر یہ سب کچھ ایک ہوش مند اور بالغ نظر مجتہدانہ نظر رکھنے والے نقاد کے طور پر کیا، ایک جامد مقلّد کے طور پر نہیں۔
فاروقی صاحب کا غیر معمولی تنقیدی سرمایہ متقاضی تھا کہ اس کا ایک سیر حاصل جائزہ مرتب کیا جائے۔ یہ کام نوجوان نقاد صفدر رشید صاحب نے سلیقے سے کیا ہے۔ ’’شعر، شعریات اور فکشن‘‘ میں انہوں نے فاروقی صاحب کے تصوراتِ نقد اور اُن کی عملی تنقید کا احاطہ کرنے کی اچھی کوشش کی ہے اور پانچ ابواب میں ان کو سمیٹنے کی سعی کی ہے۔ انہوں نے فاروقی صاحب کی انفرادیت کو نمایاں کرتے ہوئے ایک جگہ بجا طور پر لکھا ہے کہ فاروقی کسی بھی نظریے یا چیز سے استفادہ اپنی شرائط پر کرتے ہیں، اپنی قیمت پر نہیں‘‘۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر لکھتے ہیں:
’’زیر نظر کتاب، جو صفدر رشید کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا کتابی روپ ہے، بعض اہم خصوصیات کی حامل ہے، جو نئی شائع ہونے والی کتابوں میں خال خال نظر آتی ہیں۔ اس کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مصنف نے فاروقی صاحب کی تنقید کی کلیدی جہات کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ بعض جگہوں پر توضیحی انداز اختیار کیا گیا ہے اور کچھ جگہوں پر تفصیلی تجزیاتی طریقہ۔ کتاب کی ترتیب بھی منطقی ہے۔ پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں آغاز فاروقی صاحب کی ذہنی تشکیل اور ابتدائی علمی و ادبی فضا کے ذکر سے کیا ہے۔ آگے ان کی تنقیدی فکر کے اہم عناصر کا اجمالی جائزہ ہے، اور اگلے تین ابواب میں فاروقی صاحب کی شعری تنقید اور فکشن کی تنقید کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ اس کتاب کے مصنف کا مجموعی رویہ ہمدردانہ اور انصاف پسندانہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں صفدر رشید نے اگرچہ زیادہ تر فاروقی صاحب کے تنقیدی تصورات کی توضیح و تجزیے سے سروکار رکھا ہے، مگر سب جگہوں پر فاروقی صاحب کے خیالات (بشمول تنقید کو تخلیق سے کم تر خیال کرنا) سے اتفاق نہیں کیا۔ صفدر کا نقطہ نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی مصنف سے اختلاف کا مقصد اسے رد کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے مباحث کو وسیع تناظر میں سمجھنا ہوتا ہے۔ اکثر لوگ اختلاف کی آڑ میں دوسروں کی ملامت آمیز اور بعض اوقات توہین آمیز تردید کرتے ہیں، حالانکہ اختلاف کا حقیقی مقصود کسی تصور کی تفہیم میں توسیع کرنا ہوتا ہے۔
کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ درج ذیل مضامین زیر بحث ہیں:
-1 شمس الرحمن فاروقی کی تنقید: تاریخ و ہم عصر منظرنامہ
(1)فاروقی کا ابتدائی ماحول
(2)فاروقی کی فکری تشکیل کے بنیادی عناصر
(3) پیش رو اور ہم عصر نقاد
-2 شمس الرحمن فاروقی کی تنقیدی فکر: اہم مباحث
(1) متن کی شرح و تعبیر کا مسئلہ
(2)ادب کے غیر ادبی معیار اور ہیئتی جمالیات
(3)جدیدیت کے عناصرِ ترکیبی
(4) پس نوآبادیاتی فکر میں فاروقی کا حصہ
(5) شعریات کی بحثیں
-3شاعری کی تنقید: نظری و اطلاقی پہلو
(1) نظم و غزل کا امتیاز اور نثری نظم بطور صنف
(2) شعری آہنگ اور وزن کے مسائل
(3) کلاسیکی غزل کی شعریات
(4)شعر میں ترسیل اور ابلاغ کا مسئلہ
(5) مطالعۂ میر: ’’شعر شور انگیز‘‘ کی تنقیدی منہاج
(6)غالب: آخری بڑا کلاسیکی اور پہلا بڑا جدید شاعر
(7) مطالعۂ اقبال: ادبی تنقید کے تناظر میں
(8) جدید شعری روایت: تنقید و تفہیم
-4اردو داستان کی بازیافت
(1)’’ساحری، شاہی، صاحب قرانی‘‘ بطور داستان تنقید
(2) داستان کے زوال کے اسباب
(3) داستان کی شعریات اور اس کے عناصر
(4) داستان اور ناول کی شعریات میں فرق
(5) داستان اکیسویں صدی میں
-5 فکشن شعریات کی بحثیں
(الف) سلسلۂ مضامین ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ (1تا6) کا جائزہ۔
(ب) فکشن تنقید/شعریات کی بحثیں
(ج) فکشن تنقید/اطلاقی پہلو
کتابیات
ضمیمہ الف: فاروقی کی علمی و تصنیفی زندگی
ضمیمہ ب: سوال نامہ
مصنف نے کتاب کے شروع میں امیر خسرو کا پُر حکمت قول دیا ہے:
’’غوطہ خور اگرچہ خود دریا سے موتی نکال کر لاتا ہے، لیکن جب قیمت طے کی جاتی ہے تو اس کی قیمت جوہری ہی بتاتا ہے‘‘۔