پیشکش: ابوسعدی
آپ مجھ سے ایک فضول سوال کررہے ہیں۔ گویا میں اب تک جو کچھ کہتا رہا ہوں، وہ رائیگاں گیا ہے۔ آپ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال پہلے سیکھ لی تھی۔
(جناح، تقریریں اور بیانات۔ از: ایس ایم برک)
تاریخ کے لحاظ سے سیرۃ طیبہ (2)۔
تحریرام احمد
تجارتی سفر: شام
حضرت خدیجہؓ سے شادی: شام کے سفر سے واپسی کے دو مہینے اور چند دن بعد
آپؐ کی عمرِمبارک:25 سال
حضرت خدیجہؓ کی عمرِ مبارک: 40 سال
بیت اللہ کی تعمیر: آپؐ کی عمر اُس وقت 35 سال تھی۔
نبوت کے وقت عمر: 40 سال 6 مہینے 12 دن (قمری سال) 39 سال 3 مہینے 22 دن (شمسی سال)
نبوت کا آغاز:21 رمضان پیر کی رات (10 اگست 610 عیسوی)
پہلی وحی: سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات
دوسری وحی: سورہ مدثر کی ابتدائی تین آیات
پہلے ایمان لانے والے: حضرت خدیجہؓ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت علیؓ، حضرت زید بن حارثہؓ
خفیہ دعوت کی مدت: نبوت کے پہلے 3 برس
اعلانیہ دعوت کا پہلا حکم: وَاَنذِرْ عَشِيرَتَكَ ٱلْأَقْرَبِينَ۔
’’اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈرائو‘‘۔ (الشعرا:214)
جس پہاڑ پر کھڑے ہوکر دعوت دی: کوہِ صفا۔
پہلی ہجرتِ حبشہ: رجب نبوت کے پانچویں سال
افراد کی تعداد:12 مرد 4 عورتیں
دوسری ہجرتِ حبشہ: نبوت کے پانچویں سال
افراد کی تعداد: 82 یا 83 مرد اور 18 یا 19 عورتیں
حضرت حمزہؓ اور عمرؓ کا قبولِ اسلام: نبوت کے چھٹے سال
بنو ہاشم کا مقاطعہ: یکم محرم نبوت کے ساتویں سال
مقاطعہ کا خاتمہ: نبوت کے دسویں سال
(تین سال شعب ابی طالب میں محصور رہے)
شیخ غلام قادر گرامی
مولانا شیخ غلام قادر گرامی جنگِ آزادی (1857ء) سے چند سال قبل جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسجد اور مکتب میں حاصل کی، پھر اورینٹل کالج لاہور سے فارسی اور وکالت کے امتحان پاس کیے۔ بچپن ہی سے شعر موزوں کرنے لگے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد گرامی نے معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ مختلف ملازمتوں کے بعد میر محبوب علی خاں نظام دکن کے دربار میں شاعرِ خاص مقرر ہوئے۔ ان کے بعد میر عثمان علی خاں کا زمانہ بھی دیکھا۔ آخر عمر میں اہلیہ کی فرمائش پر ہوشیارپور میں رہائش اختیار کی اور یہیں پر 27 مئی 1927ء کو انتقال کیا۔ گرامی فارسی کے قدیم رنگ ِ سخن کے دلدادہ تھے۔ حافظہ قوی تھا اور انہیں فارسی کے ہزاروں شعر یاد تھے۔ وہ شعر کو ناقدانہ بصیرت سے دیکھتے اور موزوں ترین مشورے دیتے۔ اقبال نے اپنے فلسفیانہ اور حکیمانہ افکار کے لیے جب اردو کے بجائے فارسی کو ذریعہ اظہار بنایا تو فارسی سخن گوئی کے لیے گرامی سے بہتر انہیں کوئی مشیر نہ ملا۔ اقبال انہیں اصرار سے لاہور بلواتے اور ہفتوں اپنا مہمان رکھتے تھے۔ شعر و سخن میں دونوں شخصیات ایک دوسرے پر اثرانداز ہوئیں۔ اقبال نے فارسی شاعری میں گرامی کی بہت سی ترامیم کو قبول کیا ہے۔ اسی باعث انہوں نے مثنوی کے اس دیباچے میں ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
مغل ماہرین تعمیرات
مشہور اور قابلِ دید مغلیہ تعمیرات ہمارا تاریخی، ثقافتی ورثہ ہیں، اور اس میں بھی شک نہیں کہ قدیم تاریخی آثار اور پُرشکوہ عمارتوں کی ایک اپنی سحر انگیز داستان ہے جو گزرتے زمانے کے ماہرین اور تخلیق کاروں نے اپنے فن اور صلاحیتوں سے زندہ رکھی ہے۔ ان خاموش اور قدیم عالی شان عمارتوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اُس زمانے کی تہذیبی اقدار، جاہ و جلال، حکمرانی کے انداز، دبدبے اور طاقت و جبروت کا اندازہ ہوتا ہے، اور ایک صدی، دو صدی یا اس سے قبل جہانبانی، حکمرانی اور عظیم معرکوں میں فتوحات حاصل کرنے والے سلاطین کا ذوقِ تعمیر اور حسنِ نظر کیا تھا، اسے جاننے میں بھی کچھ کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ مغلیہ طرزِ تعمیر نے عمارتوں کا حسن اور عمارتی تناسب دوبالا کردیا۔ اب کئی خوب صورت عمارتوں کے نام زبان زدِ خاص و عام ہوچکے ہیں۔ مثلاً بادشاہی مسجد، شالامار باغ، لال قلعہ، مقبرہ جہانگیر لاہور، شاہی قلعہ لاہور اور تاج محل آگرہ وغیرہ۔
(اقبال احمد صدیقی۔” عمارت کار“ سے انتخاب)