اسلامی تہذیب کی پہچان

مادہ پرستانہ تہذیب کی مختلف شکلیں رہی ہیں۔ یہ جاگیردارانہ نظام میں بھی تھی اور جدید سرمایہ دارانہ نظام میں بھی ہے۔ اس تہذیب کی بنیاد ’’ذات پرستی‘‘ ہے۔ اس میں انسان صرف اپنے لیے سوچتا ہے۔ اپنی ذات کا نفع، اپنی خواہشات کی تسکین اور اپنے جسم و جان کے لیے راحت کی فکر ہوتی ہے۔ مغربی دنیا ہو یا مشرقی دنیا، جہاں بھی انسان اپنے نفس کا غلام ہے، وہاں وہ اپنے بارے میں ہی سوچتا ہے۔ دوسروں کی اس کو پروا نہیں ہوتی۔ لیکن اسلام جو تہذیب پیدا کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان دوسرے کا خیال رکھے۔ اس میں جذبہ اخوت ہو۔ ہر ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھے۔ یہ بھائی چارہ کیا ہوتا ہے اس کے متعلق حضرت ابوہریرہؓ نے بتایا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا، اس نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے آپ کو اپنا بھائی بنانا چاہتا ہے۔ جناب ابوہریرہؓ نے جواب دیا: بھائی بنانے کا حق جانتا ہے؟ اس شخص نے کہا کہآپ بتایئے؟ آپ نے فرمایا: تُو اپنے درہم و دینار کا مجھ سے زیادہ حق دار نہیں ہوگا۔ اس شخص نے کہا: ابھی میں اس درجے تک نہیں پہنچا۔ تو حضرت ابوہریرہؓ نے کہا: پھر تُو چلا جا۔
اسلام نے بھائی چارے اور مواخات کی مثال مدنی معاشرے میں پیش کی، جہاں انصار نے مہاجرین کو بھائی بناکر اپنا نصف مال دے دیا، اور جس کے پاس دو بیویاں تھیں اس نے دوسرے کے لیے ایک کو طلاق دے دی۔ اس ’’مواخات‘‘ کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔ اب اس درجے کی مواخات اور اخوت تو درکار نہیں ہے نہ ہوسکتی ہے، لیکن ہم اسلامی تہذیب چاہتے ہیں تو اس تہذیب کا انسان وہ ہونا چاہیے جو صرف اپنی ذات کے لیے نہ سوچے، دوسروں کا بھی خیال کرے۔
سورۃ الحشر میں اللہ نے مسلمان کی پہچان یہ بتائی ہے کہ ’’اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو، اور جو نفس کی کنجوسی سے بچائے گئے وہ کامیاب ہیں‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔
سورۃ الفاطر میں ہے ’’اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں، وہ ایک ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہوگی تاکہ اللہ ان کے پورے پورے صلے دے اور اپنا مزید فضل عطا کرے۔ یقیناً وہ بخشنے والا اور قدردان ہے‘‘۔
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم صرف امیروں کے لیے نہیں ہے، غریبوں کے لیے بھی ہے۔ اگر کوئی شخص معاشی تنگی کا شکار ہے تو وہ تجربہ کرکے دیکھ لے کہ جو رقم اس کے پاس آئے اور اس کی ضرورت کے لیے ناکافی ہو وہ اس میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرے، ان شاء اللہ اس طریقے پر عمل کرنے سے اُس کی معاشی تنگی دور ہوجائے گی۔ جب آپ دوسروں کو دیں گے تو اللہ آپ کو دے گا، اور جب آپ ہاتھ روک لیں گے تو اللہ بھی ہاتھ روک لے گا۔
اسلام چاہتا ہے کہ ایسا کلچر پیدا ہو جس میں ہر آدمی دوسرے کے لیے ضرور کچھ کرے۔ اس لیے کہا گیا کہ اگر کچھ نہیں کرسکتے تو اللہ کی راہ میں ایک کھجور دے دو، یہ بھی خدا قبول کرے گا۔ اور اگر کھجور دینے کی توفیق نہیں ہے تو کم از کم اپنے ساتھی کو ایک مسکراہٹ دو، اس سے ہنس کر بات کرو۔ یہ نیکی بھی خدا کے پاس اہم سمجھی جائے گی۔
اپنے آپ پر دوسرے کو ترجیح دینے کی ایک اعلیٰ مثال حذیفہ عدویؓ بیان کرتے ہیں کہ جنگ ِ یرموک کے موقع پر میں اپنے چچیرے بھائی کی تلاش میں زخمیوں کو دیکھ رہا تھا۔ میرے پاس کچھ پانی تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اگر اس میں کچھ جان باقی ہو تو اسے پلادوں۔ وہ مجھے مل گیا۔ میں اسے پانی پلانا چاہتا تھا کہ دوسری طرف سے ایک زخمی کے کراہنے کی آواز آئی۔ اس نے مجھے اُدھر جانے کے لیے کہا، وہ ہشام بن عاصؓ تھے۔ انہیں پانی پیش کررہا تھا کہ ایک اور طرف سے کراہنے کی آواز آئی۔ ہشامؓ نے وہاں جانے کا اشارہ کیا۔ وہاں گیا تو وہ فوت ہوچکا تھا۔ واپس آیا تو وہ دونوں بھی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔
روایت ہے کہ ابوالحسن انطاکیؓ کے پاس تیس مہمان تھے، کھانے کے لیے چند روٹیاں تھیں۔ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا اور چراغ بجھا دیا۔ سب کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔ دسترخوان اٹھایا گیا تو پتا چلا کہ ساری روٹیاں موجود ہیں۔ کسی نے بھی نہیں کھائی، کیونکہ ہر ایک کی تمنا تھی کہ دوسرا کھا لے اور وہ بھوکا رہے۔ اسی طرح ایک صحابی ایک مہمان کو لے کر گھر گئے۔ آگے کھانا رکھ کر چراغ گل کردیا۔ وہ کھانے کے انداز سے ہاتھ بڑھاتے رہے مگر کھایا نہیں۔ مہمان نے کھالیا۔ صبح ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صحابی کے ایثار کی اطلاع دی اور آیت نازل ہوئی کہ ’’اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں چاہے خود محتاج ہوں‘‘۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں پوچھتا ہے کہ تمہیں کیا ہوا ہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے۔
یہ ضروری نہیں کہ ہر مسلمان میں صحابہ کرام کی طرح کا جذبہ ایثار ہو۔ لیکن وہ مسلمان نہیں ہے جس میں دوسروں کے لیے ایثار کا جذبہ نہیں ہے۔ آپ بس یا ریل میں سفر کررہے ہیں، دوسرے کسی ضعیف یا بیمار کو دیکھ کر اپنی نشست اُس کے لیے خالی کردیں، یہ بھی ایثار ہے اور اللہ کو پسند ہے۔ گرمیوں کے موسم میں اپنے گھر کے آگے ٹھنڈے پانی کی سبیل لگادیں تاکہ راہ چلتے اپنی پیاس بجھا سکیں، یا گھر میں کوئی چیز پکی ہو وہ اپنے ہمسائے کو بھیج دیں، یا کھانے کی کوئی چیز ہے وہ آپ اپنی بیوی یا اپنے بچے کے لیے چھوڑ دیں خود نہ کھائیں، اور اس طرح کی بہت سی چیزیں ہوسکتی ہیں جس میں آپ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیں۔ اگر یہ چلن عام ہو تو اخلاقی اور روحانی معاشرہ پیدا ہوگا۔ ہر شخص دوسرے کی مادیت کو کم کرنے اور روحانیت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ ہوگا۔ ورنہ نفسانفسی کا ماحول ہوگا اور اس میں اخلاقی اقدار دم توڑ دیں گی۔ اس لیے آپ ان اقدار کو سربلند اور معاشرے میں جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں تو ایثار کرنا سیکھیے۔ قربانی دینے کی مثالیں قائم کیجیے۔ دوسروں کی ذات کو اپنا نقصان کرکے بھی فائدہ پہنچانے کا طریقہ اختیار کریں اور اس پر خوشی محسوس کریں۔ یہی اسلامی اخلاق اور اسلامی تہذیب ہے۔