کیا حکومت پارلیمنٹ اور اس کے ذریعے قوم کو اعتماد میں لے گی
کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کو عالمی سطح پر ایک اور بڑی سفارتی کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی میں مسئلہ کشمیر اٹھانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی ایشیا ذیلی کمیٹی، جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر جلد سماعت کرے گی، جس میں مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی بحران پر توجہ مرکوز ہوگی۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی ایشیا ذیلی کمیٹی کے ڈیموکریٹ چیئرمین بریڈ شرمن نے کمیٹی کا خود اجلاس بلایا ہے۔
اس ماہ 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر ہوگا۔ جنرل اسمبلی کے لیے وزیراعظم عمران خان کی تقریر تیار کی جارہی ہے۔ وزارتِ خارجہ اور اقوام متحدہ کے علاوہ سلامتی کونسل میں پاکستان کے مندوب جنرل اسمبلی میں کی جانے والی اس تقریر کے لیے اپنی تجاویز بھجوا چکے ہیں، لیکن حکومت نے پارلیمنٹ اور اپوزیشن کو اس بارے میں ابھی تک اعتماد میں نہیں لیا، اور اعتماد میں لینے کا ارادہ بھی نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں ایک کشمیر کمیٹی بھی ہے لیکن اس کی کارروائی بھی محض اجلاس بلانے کی حد تک ہی ہے۔ متعدد بار ایسا ہوچکا ہے کہ اس کے طلب کیے ہوئے متعدد اجلاس اچانک اس طرح ملتوی ہوئے کہ کمیٹی کے ارکان بھی ششدر رہ گئے۔
وزیراعظم کی تقریر میں چار بنیادی نکات ہوں گے: عالمی امن کے لیے پاکستان کا کردار، عالمی معاہدوں کی پاسداری میں پاکستان کی کوشش اور عمل، جنوبی ایشیا میں کشمیر کا مسئلہ، اور مستقبل کے لیے اقوام متحدہ کے فیصلوں میں پاکستان کی جانب سے عمل درآمد کی یقین دہانی۔ دنیا کے سب سے بڑے فورم پر مختصر وقت میں جامع الفاظ کے ساتھ اپنا نکتہ نظر پیش کرنا معمولی کام نہیں۔ دفتر خارجہ میں جنوبی ایشیا ڈیسک مسلسل اس پر کام کررہا ہے، لیکن یہ کام محض دفتر خارجہ کے بابوئوں پر چھوڑ دینے والا نہیں ہے۔ اس کے لیے قومی اتفاقِ رائے بھی چاہیے۔ خارجہ پالیسی کا وزن بڑھانے کے لیے ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کا ایک پیج پر ہونا لازم ہے، تاہم حکومت یہ کام پارلیمنٹ اور اپوزیشن کے بغیر کرنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اگرچہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان، اردن کے بادشاہ عبداللہ بن حسین دوئم، فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان، سری لنکا اور ایران کے صدور سمیت متعدد دیگر عالمی رہنمائوں سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کویت کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سمیت متعدد ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطہ کیا ہے اور ان رہنمائوں کو بتایا ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورت حال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ کی طرز کا کوئی ناٹک رچا سکتا ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے ہمارے مؤقف کے جواب میں بھارت کو جو بھی کہا گیا ہے اُس کے ابھی تک نتائج سامنے نہیں آئے۔
گزشتہ جمعہ کو کشمیری قوم کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے کشمیر آور منایا گیا، اس دوران پاکستان بھر میں کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کیا گیا۔ یہ اقدام کتنا کامیاب رہا اور اس میں کیا خامیاں رہیں اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے، اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ معاملہ آئوٹ آف دی باکس حل کی جانب کس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کیا حکومت پارلیمنٹ اور اس کے ذریعے قوم کو اعتماد میں لے گی؟ مقبوضہ کشمیر میں جوکچھ بھی ہندوستان کررہا ہے، اس پر اُسے پہلی بار دنیا میں دھچکا لگا ہے، لیکن پاکستان میں کارکردگی کا فقدان ہے، اسی وجہ سے اس وقت سارے کارڈز انڈیا کے پاس ہیں اور ہم اپنے گھر میں ہی فتوحات کی باتیں کرکے اپنے آپ کو خوش کررہے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حکومت نے کشمیر آور منایا، مگر اپوزیشن ساتھ کھڑی نہیں تھی۔ اس طرح کے کشمیر آور سے ہمارے جذبات کی تسکین ہوسکتی ہے لیکن کسی اور پر اس کا اثر ہوتا ہے یا نہیں، یہ الگ بات ہے۔ سفارتی حلقوں میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہوتی اور اپوزیشن حکومت کے ساتھ کھڑی ہوتی تو نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ کہا جارہا ہے کہ پاکستان اور بھارت جوہری طاقتیں ہیں لیکن پاکستان کا فیصلہ ہے کہ ایٹم بم جارحیت کے لیے نہیں بلکہ جنگ روکنے اور اپنے دفاع کے لیے ہے، بلاشبہ کشمیر اس وقت فلیش پوائنٹ ہے، لیکن یہی وقت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کا بھی ہے۔ ان جملوں میں بزدلی اور کمزوری نہیں دیکھی جانی چاہیے، بلکہ دشمن کے مقابلے کے لیے بہتر سے بہتر تیاری کی حکمت عملی بنانی ہے۔ یہ کام سوچے سمجھے بغیر نہیں ہوسکتا۔ حکومت حالات کا مکمل تجزیہ کرے اور عالمی برادری اور خصوصاً مسلم دنیا کو اپنے تجزیے کا ہم نوا بنائے۔ کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے حکومت نے بڑا درست فیصلہ کیا اور کشمیری بھائیوں کو یہ پیغام دیا کہ پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اچھا ہوتا کہ اپوزیشن لیڈرشپ اور پاکستان کی دیگر پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاسی جماعتیں بھی ساتھ ہوتیں۔ ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہوئی ہے کہ وزیراعظم کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے رابطوں سے برف پگھلی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم کو خود بھی تین چار ملکوں میں جانا چاہیے، کیونکہ بلاشبہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھ چکا ہے، حکومت جانتی بھی ہے کہ اسے بیرونی اور اندرونی محاذ پر مسائل درپیش ہیں جو اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ عالمی برادری کے سامنے پاکستان کا نکتہ نظر پارلیمنٹ کے فیصلوں اور اتفاقِ رائے سے پیش ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی بھی تسلیم کرتی ہے کہ خارجہ پالیسی میں کمزوری اس لیے نظر آتی ہے کہ ہماری معیشت میں دم خم نہیں ہے۔ متوازن تجزیہ یہ ہے کہ امور خارجہ، معیشت، صنعت اور زراعت چار شعبے ایسے ہیں جن میں حکومت کو اس وقت بحران اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ سی پیک کا منصوبہ ان سب سے الگ ہے۔ اس حکومت نے معاشی پیکیج لینے سے قبل آئی ایم ایف کو سی پیک منصوبوں کی نہیں بلکہ قرضوں کی تفصیلات ضرور دی ہیں، لیکن حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کے مجموعی قرضوں میں سے صرف 10 فیصد قرضہ چین کا ہے۔ آئی ایم ایف حکام قرضوں کی تفصیلات مانگتے تھے۔ امریکی وزیر ِخارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھاکہ آئی ایم ایف کا پیسہ چین کا قرضہ واپس کرنے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ جب تفصیلات آئی ایم ایف کے سامنے رکھیں تو پتا چلا کہ پاکستان کے کُل قرضوں کا صرف دس فیصد چین کا ہے، زیادہ تر قرضے تو مغربی ممالک یا ذرائع سے آئے ہیں، تو پھر آئی ایم ایف خاموش ہوگیا۔ تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی ٹیم کو پرکھنے کا معیار آئی ایم ایف سے چھٹکارے کو قرار دیا گیا ہے۔ اگر ہم واقعی خوددار قوم کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آئی ایم ایف سے نکلنا ہوگا۔ پاکستان کی معیشت اُس وقت درست ہوگی جب ہمارے فیصلے اگلی نسل کے لیے ہوں، اگلے الیکشن کے لیے نہیں۔ ستمبر اور نومبر کے درمیان افراطِ زر بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گا، لیکن مہنگائی کی شرح میں اگلے سال کے ابتدائی مہینوں میں کمی ہوتی نظر آئے گی۔ شرح نمو بھی اگلے سال بہتر ہوگی۔ 2020-21ء کے لیے جو بجٹ آئے گا اس کے بعد شرح نمو میں بتدریج اضافہ ہوگا۔ سی پیک کے پہلے مرحلے میں 27 ارب روپے کے پراجیکٹس مکمل ہوچکے ہیں یا تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں، لیکن دوسرے مرحلے پر کام سست روی کا شکار ہے۔ زراعت اور صنعتی شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر کا کردار بہت بڑا اور حکومت کا کردار محدود ہے، لیکن حکومت اس پر توجہ نہیں دے رہی۔ اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ایف بی آر محصولات کے اہداف کو قرار دیا گیا ہے۔ یہ پہاڑ جیسا چیلنج ہے۔ وزیراعظم کو اب بھی مشورہ دیا جارہا ہے کہ مشکل فیصلوں پر قائم رہیں۔ حکومت کی کور ٹیم اپنی غلطیوں کا جائزہ لے رہی ہے، اسے اب سمجھ میں آیا ہے کہ سب سے بڑی غلطی اپنے اقدامات کو عوام تک درست طریقے سے نہ پہنچانا ہے، اور معاشی ٹیم میں تبدیلیوں کی رفتار کو آہستہ رکھنا ہے۔ اداروں کے اندر ٹیم کو مضبوط کرنا بھی ضروری تھا۔ کئی اداروں کے سربراہان تبدیل کیے، اس کام میں تاخیر کی وجہ سے نتائج ابھی تک نہیں مل سکے ہیں۔
اس وقت کشمیر کے محاذ پر حکومت کو بہت دبائو کا سامنا ہے۔ وزارت خارجہ اس دبائو کو محسوس تو کرتی ہے لیکن وہ اسے سفارت کاری کے اصولوں کے تحت دیکھ رہی ہے۔ وزارت خارجہ کی سینئر ٹیم یہ سمجھتی ہے بلکہ اس کا سفارتی ایمان ہے کہ خارجہ پالیسی میں کبھی یہ ممکن نہیں ہوتا کہ بیک وقت تمام ممالک کے ساتھ یکساں تعلقات رکھے جائیں، لیکن انہیں حکومت اور پارلیمنٹ رہنمائی نہیں دے رہی کہ تعمیری تعلقات بہترین سفارت کاری کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔ خارجہ امور میں اس وقت ظاہری حقائق کچھ بھی ہوں، ترکی، ایران، سعودی عرب اور چین کے ساتھ پاکستان کے بہترین تعلقات ہیں۔ پاکستان کے لیے مشکل محاذ چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا ہے۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات کو قربان کیے بغیر امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانا ہی سفارتی فن ہے۔ اب جہاں تک کشمیر کی بات ہے دنیا کے سامنے پاکستان نے اپنا کیس پیش کیا ہے، سلامتی کونسل تک گئے ہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی یہ معاملہ اٹھایا جائے گا، لیکن اس محاذ پر اب حکومت جہاد کے بجائے صلح حدیبیہ چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ یہی صلح حدیبیہ کا درست وقت ہے۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں پائی جانے والی یہ سوچ اس لیے بہت حیران کن ہے کہ نریندرمودی نے ہر قیمت پر ہندوتوا کے احیاء کی ٹھان رکھی ہے۔ جنگی اور ہندوانتہا پسندانہ جنون نے مقبوضہ کشمیر میں روزمرہ زندگی کی مشکلات بڑھادی ہیں۔
ہماری ملکی معیشت بھی کوئی اچھی خبر نہیں دے رہی جو ماہرین یا ٹیکنوکریٹس کی دانش کے رحم و کرم پر ہے، جن کے نزدیک عام آدمی کے مسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جہاں بھی ایسے معاشی ماہرین ہیں وہاں ہر حکومت عوامی اُمنگوں سے بیگانہ ہوتی ہے۔ ان کے معاشی نسخوں نے ہر ملک میں گنتی کے چند افراد یا خاندانوں کو امیر سے امیر تر بنایا ہے۔ اب یہی امیر خاندان شبر زیدی کے بتائے ہوئے نسخوں پر عمل کرتے ہوئے ٹیکس نہ دینے کے لیے اپنا سرمایہ روک کر بیٹھ گئے ہیں اور نیب نے بھی خوف پیدا کر رکھا ہے، جس سے سرمائے کی مارکیٹ میں منتقلی کا عمل رک گیا ہے، جس کے نتیجے میں ملک میں کساد بازاری شروع ہوگئی ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر بھی اعتراف کرنے لگے ہیں کہ اگلے دو ماہ بہت سخت ہوں گے۔ اس وقت ملک میں اپنی تاریخ کی ریکارڈ کساد بازاری، مہنگائی اور بے روزگاری موجود ہے اور نریندرمودی اور اس کی سرکار پاکستان کے خلاف جنگی جنون کو مزید بڑھا رہی ہے، کیونکہ نریندر مودی مقامی مسائل سے اپنے عوام کی توجہ ہٹانا اور اپنے ملک کے معاشی حالات سے نظریں چرانا چاہتا ہے۔ وزارت خارجہ اس چیلنج کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں پھر سے زندگی ڈالی جائے۔ یہ اہم ترین چیلنج اس وقت پاکستان کو درپیش ہے۔ کشمیر سے متعلق ہمارا یہ قومی کیس اعلانِ لاہور نے خراب کیا، اور اس کے بعد پرویزمشرف نے آئوٹ آف دی باکس فارمولا دے کر ستیاناس کیا ہے۔ اب تلخ حقائق یہ ہیں کہ بے ہنگم پسپائی شروع ہے جس کی وجہ سے کشمیریوں کی جدوجہد کے نتائج نہیں مل رہے۔