بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے 15 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد خودمختاری پر مبنی شق 370 اور 35-A کو توڑ کر جموں اور کشمیر کو بھارت میں مکمل طور پر ضم کر کے گویا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا جس کے باعث اس کا یہ اقدام اندرون بھارت اور بیرون بھارت غیر مقبول ہو گیا۔ جس کا فائدہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے 30 اگست کو یوم یکجہتی کشمیر کے اعلان سے پاکستان اور کشمیر کی ساری آبادیوں کو متحرک کر کے نریندر مودی کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا، ادھر بھارت میں اس کے مخالفین بالخصوص آل انڈیا نشینل کانگریس کو حالیہ انتخاب میں اپنی خفت آمیز شکست کا بدلہ لینے کا موقع فراہم کر دیا لیکن اس المیے کے دوران سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور خلیجی تلواڑوں کے حکمران خاموش تماشائی بنے رہے جس سے پاکستان کے مسلم عوام کو بڑی مایوسی ہوئی لیکن اگر ہم ایمانداری سے خود احتسابی کریں تو ہمارا رویہ اتنا ہی شرمناک تھا۔ کیونکہ پاکستان نے امارات اسلامیہ افغانستان (طالبان) کے ساتھ جو سلوک کیا وہ انتہائی مذموم تھا کیونکہ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہوا تھا لیکن جب جارج بش نے طالبان پر ننگی جارحیت کا منصوبہ بنایا تو ان تینوں مسلم ریاستوں نے 1961ء کے میثاق ویانا کی تحفظ سفراء کی شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا جب کہ غاصب مشرف نے طالبان کے سفیر برائے پاکستان ملا ضعیف کو مطلوبہ میثاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکی جلاد کے حوالے کر دیا جس نے ان کے سامنے اسی وقت اتنی زور سے تھپڑ مارا کہ وہ زمین پر گر پڑے اس کا اثر یہ ہوا کہ انہوں نے طالبان کو نصیحت کی کہ خدارا حکومت پاکستان پر کبھی بھروسہ نہ کرنا۔ یاد رہے کہ طالبان نے جدید جنگی ٹیکنالوجی اور نسل کش اسلحے سے لیس امریکہ سمیت اس کے چالیس نیٹو حلیفوں کو شکست فاش دے دی اور اس کو مجبوراً پاکستان حکومت سے جھنجلا کر انخلا کی بھیک مانگنا پڑی۔ اگر وزیراعظم عمران خان واقعی کشمیریوں کو آزاد کرانا چاہتے ہیں تو یہ ان کے یلے نادر موقع ہے کہ طالبان کو امریکہ کی پٹھو اور بھارت کی حلیف انتظامیہ سے بات چیت پر مجبور نہ کریں۔ نتیجتاً بالآخر امریکہ خود راہ راست پر آجائے گا۔
دریں اثنا پاکستان پیپلزپارٹی نے یوم یکجہتی کشمیر سے علیحدگی اختیار کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ کشمیری عوام سے لاتعلق ہے جبھی تو بھارت میں بلاول زرداری کی بڑی پزیرائی کی جارہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہو گا کہ یہ سیاسی جماعت مبینہ طور پر نریندر مودی کی ہمسفر معلوم ہوتی ہے ورنہ کیا وجہ تھی کہ 30 اگست کو وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور اس کے رہنما بلاول زرداری نے بظاہر اس تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ اس سے قبل بلاول زرداری نے چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق عمران خان پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے کشمیر کے مسئلہ پر سودے بازی کی ہے۔ اس پر تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان نے ان عناصر کو جذبہ حب الوطنی سے عاری قرار دیا اور ان کی حکومت کی برطرفی کی فضا ہموار ہونے لگی۔ 31 اگست کو جیو ٹیلی وژن پر اس کے اینکر پرسن شہزاد اقبال نے مرتضی وہاب کو یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ آپ کی پارٹی قومی دھارے سے کٹ گئی ہے جس پر مرتضی وہاب نے چپ سادہ لی۔ (جیو ٹی وی 31 اگست) جواباً پیپلزپارتی نے واویلا شروع کر دیا ہے کہ اسے وفاق صوبے سے بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کا پاکستان اور سندھ کے عوام پر کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ وہ اس کی مبینہ بدعنوانی، خیانت، خرد برد اور لوٹ کھسوت کی داستانیں سن سن کر تھک گئے ہیں جیسا کہ بلاول زرداری کی حالیہ انتخاب میں پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری میں شرمناک شکست سے ظاہر ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب سندھ کے عوام حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں کیونکہ وہ موروثی سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔ غضب خدا کا کہ اب آصفہ زرداری بھی لاڑکانہ کی سیاست کا چارج سنبھال رہی ہیں اور پیپلزپارٹی کے قدیم رہنمائوں کی چھٹی ہو گئی ہے۔ اب سابق واپڈا میٹر ریڈر خورشید شاہ، ان کے لڑکوںاور بھتیجوں کے خلاف بھی نیب تفتیش کر رہی ہے۔ جس سے وقتی طو رپر ان کی بولتی بند ہو گئی ہے اور صوبے میں سکونہے۔ اس سے بہتر نوید غریب سندھی ہاریوں کے لیے کیا ہو سکتی ہے کہ ان کے مبینہ لٹیرے اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں۔
ادھر نواز ٹولے کی بھی خیریت نہیں ہے۔ مریم نواز زیرحراست ہیں جب کہ ان کے عمزاد سلمان شہباز (شہباز شریف کے صاحبزادے) اپنی جائیداد ضبط کروا بیٹھے۔ اس کے باوجود شہباز شریف کی اچھل کود میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حیرت ہے کہ ابھی تک ان سے سانحہ ماڈل ٹائون میں چودہ افراد کے قتلِ عام کے سسلسلے میں باقاعدہ پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔ رانا ثناء اللہ صاحب کا ذکر بے سود ہے کیونکہ ان پر منشیات کی اسمگلنگ کا سنگین الزام عائد ہے جس کے ثابت ہونے پر حبسِ دوام یا سزائے موت ہو سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ سے قومی اسمبلی کی رکنیت، کشمیر کمیٹی کی سربراہی نکل چکی ہے اور وہ یوسفِ بے کارواں کی طرح مارے مارے پھر رہے ہیں اور اپنا طیش اتارنے کے لیے حکومت کے خلاف یکم اکتوبر سے لمبی مارچ کا اعلان کر بیٹھے ہیں جس کا مطلب ان کے مخالفین یہ لیتے ہیں کہ موصوف درپردہ نریندر مودی سے ساز باز کر کے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
اس تناظر میں عمران خان نے عالمی رائے عامہ کو انتباہ کیا ہے کہ اگر انہوں نے نریندر مودی کو ان کی نسل کشی کے ارادے سے نہ روکا تو نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں ہمسایہ ممالک میں جنگ ہو سکتی ہے جو نہ صرف برصغیر بلکہ ساری دنیا کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔ انہوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر مسلم حکمرانوں کوبھی آڑے ہاتھوں لیا کہ وہ مسلمان بہن بھائیوں خی نسل کشی کرنے والے شخص کو اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے نوازتے ہیں۔
حزب اختلاف کی مذموم چال یہ ہے کہ کسی عمران خان کو طعن دے کر بھارت سے جنگ کروا دی جائے جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے شرابی کبابی فوجی آمر جنرل یحیٰی خان کو بھارت سے لڑوا کر پاکستان کو دولخت کروا دیا تھا۔ عمران خان ان حرکتوں کو خوب سمجھتے ہیں اور اسی لیے انہوں نے اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر قوم کو مطمئن کر دیا۔ ان کا اب بھی کہنا ہے کہ دراصل دونوں ہمسایہ ملک غربت جہالت بیماری اور علمی حدت کا شکار ہیں لہٰذا انہیں مل کر ان مسائل کے خلاف جنگ کرنی چاہیے نہ کہ اجتماعی خود کشی۔