افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال…طالبان کا قندوز پر حملہ

امریکہ اب ہر حال میں افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانا چاہتا ہے

افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی صورت میں امریکی فوج پہلے مرحلے میں پانچ فوجی اڈے خالی کرے گی۔ زلمے خلیل زاد یکم ستمبر کو کابل پہنچے ہیں جہاں انھوں نے افغان صدر اشرف غنی سے دو ملاقاتوں کے علاوہ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی ہے۔ افغان صدر کے ترجمان وحید صدیقی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ زلمے خلیل زاد نے افغان صدر کے ساتھ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کا مسودہ شیئر کیا ہے۔ افغان صدر مسودے پر صلاح مشورے کے بعد امریکی حکام کو اپنے مؤقف سے آگاہ کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق زلمے خلیل زاد افغان حکام سے ملاقاتوں کے بعد اسلام آباد جائیںگے جہاں وہ پاکستانی حکام کو بھی امن معاہدے کے متعلق آگاہ کریں گے۔
کابل میں ایک مقامی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد امریکہ پہلے 135 دنوں میں افغانستان کے پانچ فوجی اڈوں سے پانچ ہزار فوجی نکالے گا۔ تاہم اُن کے مطابق اس امن معاہدے پر تب عمل ہوگا جب صدر ٹرمپ اس کی توثیق کریں گے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں اِس وقت 14 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جو امریکہ کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ لڑ رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد بھی 8600 امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے۔ زلمے خلیل زاد کے مطابق امریکی صدر کی تائید کے بعد آئندہ چند دنوں میں بین الافغان مذاکرات کے لیے جگہ اور تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔ اُن کے مطابق اُن علاقوں میں جہاں سے امریکی افواج نکلیں گی، جنگ میں کمی ہوگی۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد جنگ بندی نہیں ہے کیونکہ جنگ بندی پر بحث بین الافغان مذاکرات میں ہوگی۔ زلمے خلیل زاد کے مطابق امریکہ کی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ایک ’ریڈ لائن‘ بھی ہے، اور وہ یہ کہ امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں ’اسلامی امارت‘ کے نام پر کوئی نظام بن جائے، اور کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ زبردستی کوئی ایسا قدم اٹھائے۔ حیرت ہے کہ زلمے خلیل زاد ایک جانب اسلامی امارت کو امریکی ریڈلائن قراردے رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب وہ طالبان سے جو معاہدہ کرنے جارہے ہیں اُس میں طالبان نے واضح طور پر اپنے لیے ’اسلامی امارت‘کا لفظ استعمال کیا ہے، اور طالبان 1996ء سے 2001ء تک افغانستان پر طالبان حکومت کے وقت سے لے کر اب تک اپنی تنظیم کا نام ’اسلامی امارت‘ لکھتے اور استعمال کرتے آئے ہیں۔ زلمے خلیل زاد کے مطابق انھوں نے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ’اسلامی امارت‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان کی جمہوری حکومت کو ہی تسلیم کرتا ہے اور طالبان کو ایک گروپ سمجھتا ہے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ یا تو امریکہ اسلامی امارت کی اصطلاح کو اس کے اصل مفہوم کے ساتھ سمجھنے کی غلطی کررہا ہے، یا پھر وہ افغان حکومت کو اندھیرے میں رکھ کر طالبان کے ساتھ کسی ایسے معاہدے کی جانب بڑھ رہا ہے جس میں نہ صرف طالبان کے وجود کو جائز حیثیت دی جائے گی بلکہ افغانستان میں ان کی کسی بھی شکل میں ایسی کسی حکومت کو تسلیم کیا جائے گا جو اگر ایک طرف عارضی طور پر افغانستان میں امریکی افواج کی محدود تعداد کو قبول کرے گی تو دوسری طرف امریکہ کو یہ یقین دہانی بھی کرائی جائے گی کہ طالبان کی زیر نگرانی افغان سرزمین کی امریکہ کے خلاف استعمال کی اجازت بھی کسی کو نہیں دی جائے گی۔ اگر ان دو شرائط کو درمیان سے نکال دیا جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں جسے ایک تاریخی معاہدے سے تعبیرکیا جارہا ہے، آخر طالبان کے ہاتھ کیا آئے گا؟ دراصل یہی وہ گمبھیر اور الجھتا ہوا سوال ہے جو ہم ان ہی صفحات پر اُس وقت سے اٹھا رہے ہیں جب سے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا ہے۔ اصل میں یہ بات درست ہے کہ امریکہ اب ہر حال میں افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانا چاہتا ہے، لیکن اُس نے پچھلے 18 برسوں کے دوران یہاں کھربوں ڈالر کی جو سرمایہ کاری کررکھی ہے جس کے نتیجے میں یہاں نہ صرف مغربی جمہوری طرز پر آئین تشکیل دیا جاچکا ہے بلکہ اس آئین کے تحت ملک میں جہاں اب تک تین صدارتی انتخابات منعقد ہوچکے ہیں وہاں چوتھا صدارتی انتخاب اس ماہ منعقد ہونا ہے، جس کے لیے اگر ایک جانب امیدواران کی نامزدگیاں ہوچکی ہیں اور اکثر امیدواران بم دھماکوں اور خوف کے سائے میں اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں، وہاں جوں جوں امریکہ طالبان امن معاہدہ اپنے حتمی مراحل میں داخل ہورہا ہے، طالبان زیادہ زورشور سے اپنی سرگرمیوں کو فروغ دے رہے ہیں، جس کا تازہ ثبوت طالبان کی قندوز پر دوبارہ قبضے کے بعد بغلان کی جانب کامیاب پیش رفت ہے۔ دوسری جانب بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق پیر کی شام کو کابل میں ہونے والے خودکش کار بم حملے کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کی ہے۔ اس حملے میں پانچ افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ افغانستان کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کا کہنا ہے کہ اس حملے میں پانچ افراد ہلاک جبکہ 50 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ حملہ کابل کے انتہائی سیکورٹی والے اور حساس علاقے ’گرین ویلی‘ کمپاؤنڈ کے قریب کیا گیا تھا۔ اس علاقے میں بین الاقوامی اداروں کے نمائندے اور حکام رہائش پذیر ہیں۔
واضح رہے کہ کابل کا یہ حملہ اور قندوز وبغلان کے واقعات ایسے وقت میں رونما ہوئے ہیں جب افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد امریکہ اور طالبان کے درمیان مجوزہ امن معاہدے کے مسودے کے اہم نکات پر تبادلہ خیال کے لیے کابل میں موجود ہیں۔
کابل کے آزاد ذرائع سے موصولہ ایک اور اطلا ع کے مطابق کابل میں طالبان سے ایک جھڑپ کے دوران ایک امریکی فوجی ہلاک ہوگیا ہے جس کی تصدیق امریکی افواج کے ذرائع نے کرتے ہوئے کہا ہے کہ 29 اگست کو افغانستان میں آپریشن کے دوران جھڑپ میں ایک امریکی سروس ممبر ہلاک ہوگیا ہے جس سے رواں برس افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 15 ہوگئی ہے۔ دوسری طرف طالبان نے ایک مرتبہ پھر ملک کے شمالی شہر قندوز پر حملے کے بعد ہونے والی لڑائی میں دونوں طرف سے 43 افراد کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے۔ قندوز میں مختلف حملوں کے دوران اہم کمانڈر سمیت 35 طالبان اور 8 افغان فوجیوں کی ہلاکت کے الگ الگ دعوے سامنے آئے ہیں۔ افغان حکام نے طالبان کا حملہ ناکام بنانے اور افغان فورسز کے آپریشن میں طالبان کے اہم کمانڈر سمیت 35 طالبان کے مارے جانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس ضمن میں افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ جھڑپوں میں 8 افغان فوجی مارے گئے ہیں۔ افغان حکام کے مطابق طالبان نے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب شہر پر کئی اطراف سے حملہ کیا، کئی مقامات پر طالبان اور افغان سیکورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں درجنوں شہریوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، جبکہ افغان فورسز کے زمینی اور فضائی آپریشن میں 30 سے زائد طالبان مارے گئے ہیں۔ افغان حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ قندوز میں طالبان کو پسپا کردیا گیا ہے اور شہر افغان فورسز کے کنٹرول میں ہے، جب کہ دوسری جانب طالبان کا دعویٰ ہے کہ قندوز کی کئی اہم سرکاری عمارتوں پر اب بھی ان کا قبضہ برقرار ہے۔ قندوز کے ساتھ ساتھ اتوار کو طالبان نے ایک اور افغان شہر بغلان پر بھی بڑا حملہ کیا ہے۔ بغلان کے دارالحکومت پل خمری پر یہ حملہ امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کے اس بیان کے کئی گھنٹوں بعد کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے دوحہ مذاکرات کے دوران قندوز میں کیے جانے والے بڑے حملے کے خلاف طالبان کو متنبہ کیا تھا۔
دریں اثناء امریکی حکام نے بتایا ہے کہ افغان فضائیہ کو طالبان پر حملوں کے دوران امریکی جنگی طیاروں کی مدد حاصل ہے۔ علاوہ ازیں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان شہر میں خوف کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری بہادر سیکورٹی فورسز نے ان کے حملوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ افغانستان میں تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال کے مطابق صدارتی انتخابات کی مہم کے آغاز کے ساتھ ہی افغان اور امریکی فورسز پر حملوں میں شدت آگئی ہے۔ ایک طرف امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کا عمل جاری ہے جس کے تحت امریکہ افغانستان سے اپنی فوج کو نکالنے کے لیے پر تول رہا ہے، تاہم دوسری جانب بدامنی کے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں اس وقت تقریباً 14 ہزار کے قریب امریکی فوجی موجود ہیں، جبکہ گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ واشنگٹن معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں کم از کم 8 ہزار 600 فوجی رکھے گا۔ ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ معاہدے کے بعد اگر امریکہ پر حملہ کیا گیا تو ہم دوبارہ ایسی طاقت بن کر واپس آئیں گے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملے گی۔
اسی دوران قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ سے سمجھوتے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ افغان طالبان کے نمائندوں اور امریکہ کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات کا 9 واں دور کامیابی سے مکمل ہوچکا ہے، جس میں معاہدے کو حتمی شکل دی جاچکی ہے جس کا اعلان عنقریب کیا جائے گا۔ سہیل شاہین کا اپنی ٹویٹ میں کہنا تھا کہ مسلمان اور آزادی چاہنے والے جلد اچھی خبر سنیں گے۔ تاہم افغان طالبان کے بیان پر کابل میں امریکی سفارت خانے اور افغان حکومت نے تاحال کوئی واضح ردعمل نہیں دیا ہے۔ انٹرویو میں طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں طالبان نے امریکہ کو افغان سرزمین کسی کے خلاف حملے میں استعمال نہ کرنے کی ضمانت دی ہے اور ساتھ ہی غیرملکی افواج کی واپسی کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔
حیران کن طور پر دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ طالبان سے معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم ضرور کریں گے لیکن ہم افغانستان میں ہمیشہ اپنی موجودگی رکھیں گے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 8600 تک کردیں گے لیکن ہم افغانستان میں موجود رہیں گے اور اپنی انٹیلی جنس وہاں رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے امریکہ پر اگر دوبارہ کوئی حملہ ہوا تو ہم بھرپور طاقت کے ساتھ واپس آئیں گے۔ افغانستان میں فی الوقت چودہ ہزار امریکی فوجی اہلکار موجود ہیں، جبکہ نیٹو افواج کے اہلکار اس کے علاوہ ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر افغانستان کو دہشت گردی کی ہارورڈ یونیورسٹی قرار دیا اور کہا کہ اگر میں ایک کروڑ لوگوں کو مار دوں تو امریکہ یہ جنگ منٹوں میں جیت سکتا ہے لیکن میں ایسا نہیں چاہتا۔ دوسری طرف ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے پر دستخطوں کے بعد مکمل فائر بندی ہوگی، امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں اپنے آپریشن روک دیں گی۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ معاہدے کا باضابطہ اعلان جلد متوقع ہے اور اس اعلان کے بعد بین الافغان مذاکرات کاآغاز ہوگا۔