صوبہ سندھ میں لگ بھگ دو تین برس تک امن و امان کی صورتِ حال کافی بہتر رہنے کے بعد اب گزشتہ کچھ عرصے سے ایک مرتبہ پھر اچانک ہی سماج دشمن عناصر متحرک ہوگئے ہیں، اور اُن کی جانب سے لوٹ مار، چوری اور خصوصاً بھُنگ (اغوا برائے تاوان) کی وارداتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ ضلع جیکب آباد، سکھر اور کشمور ایٹ کندھ کوٹ سے ملحق ضلع شکارپور میں ڈاکو پچھلے تین ماہ کے عرصے میں 15 افراد کو اغوا برائے تاوان کی غرض سے اغوا کرچکے ہیں، جن میں سے چند بذریعہ بھُنگ (تاوان) ڈاکوئوں کے قبضے سے رہا ہوچکے ہیں، جبکہ 10 مغوی تاحال ڈاکوئوں کے شکنجے میں ہیں۔ اسی طرح صوبے کے دیگر اضلاع سے بھی ایک درجن کے قریب مغوی، ڈاکوئوں نے اپنے ہاں اسیر بنا رکھے ہیں۔ اس وقت ضلع شکارپور میں سندھ کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں سب سے زیادہ بدامنی پھیلی ہوئی ہے۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران شاہ بیلو کے علاقے میں (جو شکارپور میں واقع ہے) پولیس آپریشن کے دوران ایک ایس ایچ او غلام مرتضیٰ میرانی، اے ایس آئی لاہوتی ذوالفقار عباسی اور اہلکار سرفراز مہر شہید ہوچکے ہیں، جبکہ چھ اہلکار ڈاکوئوں سے دورانِ مقابلہ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ضلع شکارپور میں اگر حد درجہ زیادہ بدامنی کی وارداتیں ہورہی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ سندھ کے دیگر اضلاع میں امن و امان کی صورتِ حال قابلِ رشک اور مثالی ہے، بلکہ سندھ کے ہر ضلع میں بکثرت چوری، لوٹ مار، اغوا، قتل و غارت گری اور معصوم بچوں، بچیوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد انہیں قتل کرنے کے سانحات رونما ہونے کی اطلاعات بذریعہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سامنے آرہی ہیں۔ ڈاکوئوں نے اب خواتین کی آواز میں مختلف اضلاع کے سادہ لوح افراد کو اپنی طرف راغب کرکے اور اپنے ہاں کچے کے علاقے میں بلوا کر یرغمال بنانے کے بعد ان کے ورثا سے تاوان کی بھاری رقم طلب کرنا معمول بنالیا ہے۔ خصوصاً ضلع گھوٹکی اور ضلع کندھ کوٹ کشمور کے کچے کے علاقے اس حوالے سے اغوا کے بعد تاوان وصول کرنے والے ڈاکوئوں کے بڑے مرکز بن چکے ہیں، لیکن محکمہ پولیس کے افسران اور اہلکار خاموش تماشائی بن کر یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھنے میں لگے رہتے ہیں۔
واقفانِ حال کے مطابق ان اضلاع کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوئوں کے پاس پولیس کے روایتی، فرسودہ اور بوسیدہ ہتھیاروں کے مقابلے میں جدید تر اینٹی ایئر کرافٹ گنیں اور راکٹ لانچر تک موجود ہیں، جس کی وجہ سے پولیس کے ان علاقوں میں جاتے ہوئے پَر جلتے ہیں، کیوں کہ پرانے روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ڈاکوئوں کا مقابلہ کرنا پولیس کے بس سے باہر کی بات ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ سندھ بھر میں پولیس میں موجود کالی بھیڑیں سماج دشمن عناصر اور ڈاکوئوں سے رابطے میں رہتی ہیں، اور پولیس کی ہر موومنٹ کی پیشگی اطلاع ڈاکوئوں تک پہنچا دیتی ہیں، جس کی وجہ سے ڈاکو اپنے خلاف کارروائی سے پیشتر ہی ٹھکانے تبدیل کرلیتے ہیں۔ سندھ پولیس ہمیشہ سے ہی اس الزام کی زد میں رہی ہے کہ اس کے افسران اور اہلکار جرائم کی سرپرستی میں ملوث وڈیروں، سرداروں اور پتھاریداروں کے اندرونِ خانہ دوست ہوتے ہیں، جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جو بھی قبائلی جھگڑے، اغوا برائے تاوان یا دوسری مجرمانہ سرگرمیاں ہوتی ہیں، علاقے کے پولیس افسران ان وارداتوں میں ملوث ذمہ داران کی گرفتاری کے لیے کوئی کارروائی کرنے کے بجائے اپنے علاقے کے بااثر وڈیروں اور بھوتاروں کے توسط سے مطلوبہ ملزمان کو گرفتار کرنے کی سعی کرتے ہیں، یا پھر مغوی کے ورثا اور ڈاکوئوں کے مابین مغوی کی بازیابی کے لیے تاوان کی رقم پر ’’ڈیل‘‘ کرانے میں لگ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اہلِ سندھ بطور طنز محکمہ پولیس کو ’’ڈیل ڈپارٹمنٹ‘‘ بھی کہنے لگے ہیں۔ موجودہ سائنسی دور میں جبکہ ہر طرح کی ٹیکنالوجی دستیاب ہے اور ڈاکوئوں کے فون بآسانی ٹریس کرکے اغوا اور بدامنی کی وارداتوں میں ملوث سماج دشمن عناصر تک پہنچا جاسکتا ہے، پولیس کا اب بھی مقامی بااثر وڈیروں کے ذریعے ان کا احسان مند ہوکر ڈاکوئوں سے ’’ڈیل‘‘ یا ’’منت سماجت‘‘ کے ذریعے مغویوں کو بازیاب کروانا تشویش ناک امر ہے۔
سندھ پولیس ماضی سے اب تک اپنی نااہلی کی وجہ سے بجائے جرائم کو ختم کرنے کے، ان میں بذریعہ ’’سہولت کار‘‘ اضافے کا جو باعث بنی ہوئی ہے اس کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں معروف سندھی مغنی نبی بخش عرف جگر جلال چانڈیو کو بھی مع 5 ساتھیوں کے ڈاکوئوں نے ناپر کوٹ تھانہ شکارپور کی حد سے اغوا کرلیا تھا۔ اسے بھی ڈاکو کچے کے علاقے میں اغوا کرکے لے گئے تھے۔ شکارپور سمیت سندھ کے بیشتر کچے کے علاقے میں دریائے سندھ میں پانی کی سطح بڑھ جانے کے بعد اکثر مقامات پر بہت زیادہ پانی کھڑا ہوا ہے، اس لیے کچے کے علاقے میں کہا یہ جاتا ہے کہ ڈاکوئوں کے خلاف کسی نوع کی کوئی کارروائی کرنا تقریباً ناممکن امر ہے۔ مغوی گلوکار کی بازیابی کے لیے پولیس نے خود پر سخت دبائو پڑنے کے بعد ڈاکوئوں کے خلاف جو آپریشن کیا اُس میں ناقص حکمت عملی اپنائی گئی، جس کی وجہ سے دورانِ آپریشن ایک ڈی ایس پی رائو شفیع اللہ شہید اور ایک اہلکار بابر شاہ زخمی ہوگئے۔ پانچ روز تک ڈاکوئوں کے قبضے میں رہنے کے بعد بالآخر مغوی مغنی جلال شاہ کو ان کے بیٹے، بھتیجے اور دیگر ساتھیوں سمیت ڈاکوئوں نے ہفتۂ رفتہ جمعرات کی شب رہا کردیا، لیکن اس کے باوجود مذکورہ اغوا اور بازیابی کا واقعہ تاحال سندھ میں ایک طرح سے ’’برننگ ایشو‘‘ بنا ہوا ہے۔ اس راز سے حکومتِ سندھ کے ذمہ داران ہر صورت میں پردہ اٹھائیں۔
آج ایک بار پھر اہلِ سندھ سرِشام سفر کرنے سے گھبرانے لگے ہیں، اور وہ خود کو اپنے گھروں میں بھی پولیس کی نااہلی کی وجہ سے غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔ اس وقت بھی گزشتہ کئی برس سے اغوا شدہ نوجوان ساحل کوریجو، اور ٹھل جیکب آباد کی معصوم بچی فضیلہ سرکی سمیت ایک درجن مغوی ڈاکوئوں کے ظالمانہ شکنجے میں ہیں۔ اللہ ان کی فوری بازیابی کے اسباب پیدا کرے۔ (آمین)۔