محمد حسن عسکر ی اردو کی ادبی دنیا کے سب سے باخبر، بابصیرت اور سب سے متنازع نقاد تھے۔ انھوں نے اردو ادب اور ادیبوں پر جو اثرات مرتب کیے، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ کہنے کو وہ مردم بیزار اور کم گو، خود کو لیے دیے رہنے والے ادیب تھے۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں تھا۔ انھوں نے اپنے زمانے کے جن جواں سال ادیبوں کی جس طرح تربیت کی، انھیں اپنا ادبی نقطہ نظر وضع کرنے میں جس طرح فیض پہنچایا، ادب کو کُل وقتی سرگرمی بنانے میں جیسی مدد کی، کوئی شبہ نہیں کہ ایسا ادبی استاد پھر اردو ادب کو میسر نہ آیا۔ ان کے ادبی شاگردوں میں سلیم احمد، انتظار حسین، مظفر علی سید، سجاد باقر رضوی، احمد مشتاق جیسے ادیب شامل تھے، جنھوں نے آگے چل کر ادبی اور تنقیدی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کے شاگردوں اور فیض یافتہ ادیبوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اردو ادب میں ایسے کئی ادیب مل جائیں گے جنھوں نے اپنے حلقۂ اثر پیدا کیا۔ لیکن ان میں اور محمد حسن عسکری میں واضح فرق یہ ہے کہ عسکری صاحب نے اپنے شاگردوں کے ذریعے ادب میں اپنا کوئی گروپ نہیں بنایا، نہ ایسی کوئی گروہ بندی کی کہ جن کے ذریعے وہ اپنی تحسین و تعریف کرائیں، یا اپنی ذات اور ادبی خدمات کا پروپیگنڈہ کرائیں۔ یا اپنے مخالفین کی خبر لینے کے لیے انھیں استعمال کریں۔ وہ اس طرح کے آدمی تھے ہی نہیں۔ ان کے مخالفین تعداد میں کم نہ تھے۔ پوری ترقی پسند تحریک ان کے خلاف تھی، اور انھیں رجعت پسند اور زوال پسند سمجھتی تھی۔ لیکن عسکری صاحب نے ان مخالفتوں کا کبھی کوئی اثر نہیں لیا، اور وہی لکھا اور لکھتے رہے جسے وہ حق اور سچ سمجھتے رہے۔ وہ اپنی لڑائی خود ہی لڑتے تھے اور اپنے حلقۂ اثر کو کبھی استعمال نہ کرتے تھے۔ یہ بھی ان کی خوبی اور انفرادیت ہے کہ انھوں نے اردو ادب اور تنقید میں نت نئے مباحث چھیڑے، مغربی ادب کے ادیبوں اور نقادوں کے ناموں کو اردو ادب میں متعارف کرایا۔ انھوں نے آزادی سے پہلے اور آزادی کے فوراً بعد بہ حیثیت ادیب اپنی قوم اور وطن سے اپنا رشتہ جوڑا۔ ایک نئے وطن کی تخلیق و تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا۔ اردو ادب میں پاکستانی ادب اور اسلامی ادب کی بحثیں بھی انھوں نے ہی چھیڑیں اور چومکھی لڑائی لڑی۔ وہ پہلے نقاد تھے جنھوں نے سن پچاس کی دہائی میں اردو ادب کی موت کا اعلان کردیا تھا، اور آنے والے بیس تیس برسوں میں وقت نے ثابت کیا کہ ان کا اعلان مبنی برحقیقت تھا۔ انھوں نے جن فرانسیسی اور یورپی و امریکی ادیبوں کو اردو میں متعارف کرایا، بعد کے حالات میں ان کے ناموں میں کوئی بہت زیادہ اضافہ نہ کیا جاسکا۔ ان کے لکھے ہوئے تنقیدی مضامین کا ایک اہم وصف ان کے اسلوب کی سادگی اور عام فہم ہونا ہے۔ ان کے مضامین کو نہایت دل چسپی اور آسانی سے پڑھا جاسکتا ہے۔ لیکن اُن کے اسلوبِ تحریر کے اس وصف کو بھی ادبی رپورٹنگ کی پھبتی کس کر اس کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کا تنقیدی مضمون ہو یا رسالہ ساقی کی ’’جھلکیاں‘‘… ادب کا ایک عام قاری بھی انھیں لطف لے کر پڑھ سکتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں شکایت ہے کہ محمد حسن عسکری نے اپنے پیچھے کوئی مستقل تصنیف نہیں چھوڑی۔ اس کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ درست ہے کہ انھوں نے دوسرے نقادوں کی طرح کوئی مستقل تصنیف پیش نہیں کی، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کا ایک ایک مضمون بھی دوسروں کی کتابوں پر بھاری ہے۔ جیسی تازگی اور روشنی ان کے مضامین میں ملتی ہے، وہ بھاری بھرکم کتابوں میں میسر نہیں۔ اپنی تحریروں میں وہ اپنی علمیت اور فضیلت بھگارنے کے بجائے ہمیشہ اس کے لیے کوشاں رہے کہ پڑھنے والوں کے شعور کی سطح کو بلند کردیں۔ ان کی ذہن سازی کریں، تنقید کو نقادوں کا موضوع بننے کے بجائے ادب کے عام قاری کے مطالعے کی چیز بنادیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اردو کے نقادوں میں ان جیسا لکھنے والا پھر سامنے نہیں آیا۔ جن لکھنے والوں میں دل چسپی کا عنصر نظر آتا ہے وہ وہی ہیں جو عسکری ہی کے دامنِ تربیت سے وابستہ رہے، اور جنھوں نے ان ہی سے فیض پایا۔ جنرل ایوب خان کے عہدِ اقتدار میں جب ادیبوں کی تنظیم رائٹرز گلڈ بنی اور اس میں دائیں اور بائیں بازو کے سبھی ادبا و شعرا شامل ہوئے، مگر حسن عسکری یہ کہہ کر اس تنظیم سے بھی الگ تھلگ رہے کہ کہیں پیغمبروں نے بھی گلڈ بنائے ہیں! وہ ادب کو تنہا روح کی سرگرمی سمجھتے تھے، اور ہر قسم کی گروہ بندی اور گروپ بازی کو ادب کے حق میں مضصر جانتے تھے۔
وہ جن ادیبوں کو صحیح معنوں میں ادیب، فنکار اور آرٹسٹ سمجھتے تھے، ان کے حق میں لکھنے، ان کی تحسین و ستائش کرنے میں کبھی پیچھے نہ رہتے تھے۔ چناں چہ اُس زمانے میں جب سعادت حسن منٹو پر فحش نگاری کا الزام لگا کے ترقی پسندوں نے ان کو اپنے رسالوں میںچھاپنے پر پابندی لگادی، عسکری صاحب نے اس زمانے میں منٹو کا دفاع کیا اور یہ بتایا کہ منٹو کا فن دوسرے افسانہ نگاروں سے کتنا بلند اور کس درجہ معنی خیز ہے۔ اسی طرح احمد علی اور غلام عباس کے ناول (دلّی کی شام) اور افسانوں پر نہایت عمدہ مضامین لکھ کر ان کی تخلیقی جہت کی عمدگی اور انفرادیت کو واضح کیا۔
حسن عسکری خود بھی بہت اچھے افسانہ نگار تھے۔ ان کے افسانوں کی دو کتابیں شائع ہوئیں۔ ان میں شامل افسانوں نے تکنیک کے انوکھے پن سے پڑھنے والوں کو چونکایا۔ خصوصاً ان کے افسانے ’’حرامجادی‘‘، ’’کالج سے گھر تک‘‘ اور ’’چائے کی پیالی‘‘ ایسے افسانے ہیں جو اردو افسانہ نگاری کے تذکرے میں کبھی نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔ بلاشبہ انھیں اردو افسانے میں اضافہ کہا جاسکتا ہے۔ عسکری صاحب نے کئی مغربی ناولوں کو اردو میں منتقل کیا۔ اس میدان میں بھی ان کی انفرادیت اور مہارت مسلّم رہی۔ ہرمن میلول کا مشہور اور مشکل ناول ’’موجی ڈک‘‘ ہو، یا فرانسیسی ناول نگار استاں رال کا ناول ’’سرخ و سیاہ‘‘، یا فلوبیئر کا ناول ’’بڈھا گوریو‘‘… یہ تینوں ناول ترجمے کے فن کے شاہکار ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے جیسے یہ ناول اصلاً اردو ہی میں لکھے گئے ہیں۔ خصوصاً ’’موجی ڈک‘‘ جو بیکراں سمندر میں مچھلی کے شکار کی کہانی کے گرد گھومتی ہے، اس کے ترجمے میں عسکری نے انگریزی اور خود اپنی زبان پر گرفت کا جیسا ثبوت دیا ہے، وہ حیران کن ہے۔ اگر عسکری صاحب خود تخلیقی آرٹسٹ نہ ہوتے تو ان ناولوں کا تخلیقی سطح کا ترجمہ ناممکن ہوتا۔ انھیں انگریزی کے علاوہ فرانسیسی زبان پر بھی غیر معمولی عبور حاصل تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے فرانسیسی میں بھی مضامین وغیرہ لکھے تھے جو پیرس کے اخبار و رسائل میں چھپتے رہے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ عسکری صاحب اپنے ادبی قدوقامت اور زبان و ادب کے فہم کے اعتبار سے اس درجہ بلند حیثیت کے حامل ہیں کہ انھیں کسی بھی مغربی ادیب و نقاد کے مقابل لایا جاسکتا ہے۔ یہ ان کی بڑائی ہے کہ انھوں نے اردو ادب میں اور نہ اپنے ادبی شاگردوں میں کبھی اپنا بُت بنانے کی کوشش کی۔ وہ خود بُت شکن تھے اور ادب کے بڑے بڑے بتوں کو اپنے دو ایک جملوں ہی سے مسمار کردینے کی قدرت رکھتے تھے۔ اور یہ بھی ان کا وصف تھا کہ اپنے شاگردوں پر اپنی شخصیت اور اپنی فکر کو مسلط کرنے کے بجائے ان کی صلاحیتوں اور فکری قوتوں کو آزادی کے ساتھ پھلنے پھولنے اور پروان چڑھنے کا موقع فراہم کرتے تھے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے جن شاگردوں کا پیچھے ذکر ہوا، وہ سبھی عسکری نگر سے مسحور ہونے کے باوجود اپنی انفرادی صلاحیت کے حوالے ہی سے پہچانے گئے۔ حالاں کہ عسکری کے چہیتے شاگرد اور ممتاز نقاد و شاعر سلیم احمد نے تو عسکری کو یہ کہہ کر خراجِ تحسین پیش کیا کہ اگر عسکری نہ ہوتے تو میں وہ کچھ بن ہی نہیں سکتا تھا جو ہوں۔
عسکری صاحب جب تک ادب سے جڑے رہے انھوں نے پوری کوشش کی کہ ادب کو معاشرے کی اجتماعی سطح پر ایک ذہنی سرگرمی بنادیں۔ انھوں نے حکومت اور ہر ایسی پارٹی پر کھل کر تنقید کی جن سے انھیں کلچر مخالف ہونے کی بُو محسوس ہوئی۔ انھوں نے ایسے بااثر لوگوں کے خلاف بھی لکھا جو ادیبوں کے بھیس میں ادب کے دھارے کا رُخ موڑنا چاہتے تھے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ وہ اپنی پسند و ناپسند کے معاملے میں شدید تھے بلکہ متشدد… لیکن یہ بھی انھوں نے ہی لکھا ہے کہ جب کسی کی کوئی بات مجھے قائل کردے تو میں نہایت بے شرمی سے اپنی رائے بدل دیتا ہوں۔ عسکری جب تک جیے، اپنی سچائی کے ساتھ جیے۔ دنیا داری، مصلحت پسندی، منافقت اور مداہنت سے انھیں دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ وہ ادب کے ہر اُس طالب علم کو جس میں انھیں صلاحیت نظر آتی، تخلیقی اُپج پاتے، مطالعے اور لکھنے کا ذوق شوق دیکھتے، اسے اپنے سے قریب کرلیتے، اور پھر ادب و آرٹ کو دیکھنے اور پرکھنے کا ایک زاویۂ نظر عطا کردیتے۔ وہ اچھے استاد ہی نہیں، بہت اچھے شاگرد بھی تھے، اور اس حیثیت میں انھوں نے اپنے اساتذہ (مثلاً پروفیسر دیب اور پروفیسر کرار حسین) کا جب بھی تذکرہ کیا، نہایت توصیفی انداز میں اور احسان شناسی اور شکر گزاری کے احساس کے ساتھ۔ اردو تنقید اور شاعری میں وہ فراق گورکھپوری سے متاثر ہی نہیں، ان کے گھائل تھے۔ اور فراق کے تذکرے میں ان کا لب و لہجہ عقیدت مندانہ ہوجاتا تھا۔ اسی طرح نفسیات کے موضوع پر وہ ڈاکٹر محمد اجمل کا ذکر ایسے کرتے تھے جیسے وہ ان کے استاد ہوں۔ جب تک عسکری صاحب ادبی محاذ پر رہے انھوں نے اپنی تحریروں سے ادبی دنیا کو سرگرم اور تازہ رکھا۔ نت نئے مباحث اور موضوعات کو چھیڑ کر انھوں نے ایسی ہلچل مچائی جیسے ٹھیرے ہوئے تالاب میں کسی نے بھاری پتھر لڑھکا دیا ہو۔ اور اس سے جو تلاطم پیدا ہوا، جو چیخ و پکار ہوئی، حمایت و مخالفت کا جو بازار گرم ہوا، ان سب کی ذمہ داری عسکری ہی کے سر آئی۔ اور عسکری نے اس ذمہ داری سے کبھی پہلوتہی نہیں کی، اسے قبول کیا۔
عسکری جب ادب و شعر کو چھوڑ کر مذہب کی طرف مائل ہوئے تو پھر انھوں نے پلٹ کر اپنی پہلی محبت کی طرف نگاہِ التفات نہ کی۔ ادب کی طرح انھوں نے مذہب میں بھی ایک فرانسیسی نومسلم مفکر رینے گینوں اور ان کی فکر کو اردو دنیا سے متعارف کرایا۔ یہ کریڈٹ بھی انھیں ہی جاتا ہے کہ انھوں نے رینے گینوں اور ان کے متاثرین کے ایک باقاعدہ علمی گروہ کی طرف اردو کے اسکالروں کو متوجہ کیا، اور اس حوالے سے ’’روایت‘‘ کی ایک نئی بحث چھیڑی، جو ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہی۔ عسکری کا جھکائو مذہب میں تصوف کی طرف رہا، اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کی مذہبی فکر سے بھی انھوں نے خوشہ چینی کی۔ انتقال سے پہلے وہ اپنے استاد پروفیسر کرار حسین کے ساتھ مل کر مفتی محمد شفیعؒ کے تفسیر قرآن ’’معارف القرآن‘‘ کے انگریزی ترجمے پر کام کرتے رہے۔ مفتی شفیعؒ مرحوم کے صاحبزادے اور نامور مذہبی اسکالر مفتی تقی عثمانی بھی ان کے یکے از شاگرد تھے جو آج بھی عسکری کی شاگردی کا اعتراف فخریہ احساس کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے دارالعلوم کے طلبہ کے لیے انھوں نے مغربی فکر کا ایک خلاصہ بطور نوٹس تیار کیا تھا جو ’’جدیدیت یا مغربی گمراہیوں کا خاکہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مختصر سی کتاب نے جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی، اردو دنیا میں بحث و نزاع کا طوفان برپا کیا۔ خصوصاً وہ لوگ جو جدیدیت کو روشن خیالی سے تعبیر کرتے ہیں، انھیں اس کتاب کی اشاعت کے بعد حسن عسکری کی ’’رجعت پسندی‘‘ پر کوئی شبہ نہ رہا۔ اس کتاب پر ایک تبصرہ فیض احمد فیض نے بھی کیا کہ اس میں مغربی فکر کا ایک نچوڑ ہے۔ یعنی مغرب کی یونان سے جدید یورپ تک جو ایک فکر اپنے تسلسل میں نظر آتی ہے، اس کا خلاصہ اس کتاب میں پیش کردیا گیا ہے۔ مقصد اس کا دارالعلوم کے طلبہ کو مغربی فکر اور اس کی گمراہیوں سے آگاہ کرنا تھا۔ لیکن اسے پڑھ کر دیکھا جاسکتا ہے کہ عسکری صاحب کی نظر مغربی فکر و فلسفے پر کیسی بسیط اور عمیق تھی۔
عسکری صاحب نے زندگی اپنی تجرّد میں گزاری۔ جب تک جیتے رہے، ادب و علم اور تمدن و فنونِ لطیفہ اور مذہب و تصوف ہی سے خود کو جوڑے رکھا۔ افسوس کہ مملکتِ عزیز میں چوں کہ بالعموم جُہلا اور فکر و شعور اور مطالعے اور معلومات سے عاری طبقے ہی کی حکومت رہی جنھیں عسکری کی ادبی، علمی اور تہذیبی خدمات کا علم ہی نہ ہوسکا، اس لیے سرکاری سطح پر ان کی کبھی پذیرائی نہ ہوسکی۔ یہ الگ بات کہ نہ عسکری نے اس کی کبھی تمنا کی اور نہ اُن کے متاثرین نے اس کے لیے کوئی کوشش کی… اور اچھا ہی کیا کہ عسکری ہر اعزاز و انعام اور تمغے سے بلند تھے۔ اور ایسا کچھ ان کی زندگی اور موجودگی میں کیا بھی جاتا تو یہ کہہ کر ہر اعزاز کو ٹھکرا دیتے کہ کیا کبھی پیغمبروں نے کوئی تمغا بھی لیا ہے؟