کشمیر پر “سودے بازی “کا راگ

کشمیریوں کو پاکستان سے مایوس کرنے کی خطرناک مہم

خدا جانے ہم سانپ کے ڈسے ہیں کہ رسّی سے بھی ڈرتے ہیں، یا دودھ کے جلے ہیں کہ چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں۔ شاید کوئی خوف ہمارے تحت الشعور میں کہیں پلتا ہے کہ جو ہر موڑ پر ہمارے لفظوں کی صورت چھلک پڑتا ہے۔ سودا ہوجانا ہمارا خوف ہے یا شوق کہ جب بھی کوئی بڑا اور تاریخی قدم اُٹھانے کا وقت آتا ہے ہم سودا ہوجانے کے خوف اور شوق کے ملے جلے جذبات کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ آج ہمارے اندر سے کشمیر کا سودا ہوجانے کی بات اس قدر تیقن کے ساتھ کی جاتی ہے گویا بیتے ہوئے 72 سال سے سری نگر پاکستان کا گرمائی دارالحکومت رہا ہو، اور 5 اگست کے بعد اب ہم اپنا کارِ حکومت وحیات وہاں جاری رکھنے کے قابل نہیں رہے، اور اب ہمیں سرما وگرما میں اسلام آباد پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔ شوق وخوف کے ملے جلے جذبات کی حامل ایسی ہی آواز کشمیر کمیٹی کے سابق چیئرمین مولانا فضل الرحمان کی طرف سے بلند ہوئی ہے، جن کے مطابق بھارت نے کشمیر کو ضم کرلیا ہے، حکومت نے کشمیر کا سودا کرلیا ہے، پہلے ہم کہتے تھے سری نگر چھڑائیں کیسے، اب کہتے ہیں کہ مظفرآباد بچائیں کیسے۔ اب جو کچھ کرنا ہے کشمیریوں کو خود ہی کرنا ہے۔
صرف مولانا ہی نہیں، کئی اور حلقے بھی کشمیر پر سودا ہوجانے کا راگ الاپتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ پوری دیانت داری سے نوازشریف کو ایک نشہ سمجھتے ہیں، اور کچھ کو آصف علی زردای کے ’’مردِحر‘‘ ہونے کا یقین ہے، اور کچھ عمران خان اور جنرل باجوہ سے الرجک ہیں۔ خواہش تو ان کی شاید یہ ہے کہ حکومت کو ناکام اور نااہل ثابت کریں اور پاکستانی عوام کو اس سے مایوس کریں۔ مگر حقیقت میں یہ مایوسی افراد کے بجائے ریاست پاکستان سے کشمیریوں کی مایوسی میں ڈھل جاتی ہے، جہاں آج بھی محاصرے میں پھنسے بہت سے خوش فہم لوگ دروازے کے ساتھ کان لگائے کسی پاکستانی غازی کے منتظر ہیں۔ انہیں آج بھی موہوم امید ہے کہ پاکستان کشمیر کا محاصرہ توڑنے کے لیے حملہ کرسکتا ہے۔ بھارت کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ پاکستان سے کشمیریوں کی مایوسی انہیں سپردگی پر مجبور کرسکتی ہے۔ اسی لیے وہ کشمیریوں کو پاکستان کے اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے اور یہاں بلوچستان، قبائلی علاقوں اور آزادکشمیر میں عوام کے عدم اطمینان اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے دے کر پاکستان سے مایوس کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نریندر مودی نے حال ہی میں ’’من کی بات‘‘ پروگرام میں یہی بات دوسرے انداز سے کی کہ ’’آپ کیا کشمیر کشمیر کرتے ہیں! مشرقی پاکستان کو تو سنبھال نہیں سکے، بلوچستان اور قبائلی علاقوں اورگلگت میں مسائل ہی مسائل ہیں اور بات کشمیر کی کرتے ہیں‘‘۔ عین ممکن ہے کہ کشمیر کے حوالے سے غم وغصے کا جو عالم ہے، حکومتِ پاکستان کی سرگرمیاں اور ردعمل اس سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ حقیقت بھی یہی ہے، ابھی بھارتی اقدامات کا ہمہ جہتی مقابلہ کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پاکستان نے کشمیر کا سودا کرکے کشمیریوں کو بھارت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہو۔ موجودہ حالات میں اس سے سیاسی نمبر اسکورنگ تو ہوسکتی ہے اور کسی کے دل کے پھپھولے بھی پھوٹ سکتے ہیں، مگر یہ بیانیہ کشمیریوں کو کنفیوژ اور مایوس کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
اس وقت کشمیری جن حالات سے دوچار ہیں اس میں اُن کے لیے بیرونی کمک کے صرف دوامکانات ہیں۔ اول یہ کہ پاکستان ان کی عملی مدد کرے۔ دوئم یہ کہ اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے ساتھ کوئی امن فوج وہاں تعینات ہو۔ آخرالذکر بات کا تو سرِدست امکان نہیں، کیونکہ تجارتی مفادات کی اسیر اور بھارت کی منڈیوں کے سحر میں مبتلا دنیا کو ایک مسلمان آبادی کو بچانے کی فکر کیوں دامن گیر ہوسکتی ہے؟ جب کہ دنیا کے مختلف ملکوں لیبیا، عراق، شام، افغانستان، فلسطین میں یہی لہو پانی کی صورت بہتا رہا ہے اور اب تک بہتا چلا گیا ہے۔کشمیر میں یہ لہو بین الاقوامی برادری کے تقدس اور حرمت کا حامل کیوں ٹھیر سکتا ہے؟ اوّل الذکر بات اس لحاظ سے بعید از قیاس نہیں کہ بھارت اپنی چال چل گیا ہے۔ اب اس کا ردعمل ہونا ہے، اور اس جانب پہلے دن ہی پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ’’پلوامہ ٹو‘‘ ہوسکتا ہے اور اس کے جواب میں بھارت پاکستان کی طرف لپک سکتا ہے، اور یہ عمل کسی کھلی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو اسی دن کی امید اور انتظار میں ایف اے ٹی ایف کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ پاکستان کی ریاست ان عالمی قوانین کی زد میں تو آسکتی ہے مگر پلوامہ ٹو کے لیے برہان وانی اور ذاکر موسیٰ کے لاتعداد پیروکار اور اندرونی کردار کشمیر کی بستیوں میں موجود ہیں۔ ان کرداروں کے لیے اسٹیج نریندر مودی نے خود سجا رکھا ہے۔ غصہ، ردعمل، نفرت کشمیر کی وادیوں میں طوفان بن کر اُمڈ آئے ہیں۔ جان دینے اور لینے کا جذبہ تاریخ کے کسی بھی دور سے زیادہ غالب ہے۔ دیر صرف مواصلاتی رابطوں کی بحالی اور نقل وحرکت میں آسانی کی ہے۔ ’’پلوامہ ٹو‘‘ہوتے ہی بھارت کا ردعمل آزادکشمیر میں ظاہر ہوتا ہے تو یہ ایک جنگ کی ابتدا ہوگی۔ اس جنگ میں وادی کشمیر اور وادیٔ چناب (جموں کے مسلم اکثریتی علاقے) کا کردار کلیدی ہوگا۔ ان علاقوں کا پاکستان کے لیے معاون اور مددگار رہنا کامیابی کی شرطِ اوّلین ہے۔
پاکستان اس وقت ہر دفتر سے کشمیر پر متنازع علاقے کی مہر ثبت کروانا چاہتا ہے۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ شملہ معاہدے اور اعلانِ لاہور جیسے میثاق کرکے مسئلے پر ’’اندرونی‘‘ کا لیبل چسپاں کر رکھا ہے۔ پاکستان یہ لیبل اتارنے کے لیے سلامتی کونسل سمیت ہر فورم سے رجوع کررہا ہے تاکہ اس کے لیے مقبوضہ کشمیر میں کسی کارروائی کا جواز باقی رہے۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ دنیا بڑی حد تک کشمیر کے ایک متنازع علاقہ ہونے کے مؤقف کی تجدید کررہی ہے۔ دنیا بھارت کے ساتھ اپنی محبت اور تجارتی مجبوریوں کے باوجود اٹوٹ انگ جیسی باتوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ اس طرح پاکستان وہ واحد ملک ہے جو کشمیریوں کے لیے امید کی کرن ہے، اور مستقبل میں کشمیریوں کے ساتھ مل کر طویل لڑائی لڑ سکتا ہے۔ اس نازک ترین مرحلے پر جب کشمیریوں کو پاکستان سے مایوس کرنا اور انہیں یہ باور کرانا کہ پاکستان نے ان کا سودا کرلیا ہے، تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر کشمیریوں کی تحریک کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ کشمیریوں کو عملی مدد کی چین، ایران، سعودی عرب اور امریکہ سمیت کسی بھی ملک سے توقع نہیں۔ ان کی امید صرف پاکستان سے ہے، اور پاکستان سے کشمیریوں کو مایوس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ موجودہ حالات کو مقدرکا لکھا سمجھ کر قبول کرلیں۔ کشمیریوں کی طویل مزاحمت کی تاریخ میں ستائیس اکتوبر بھارتی قبضہ، پاک بھارت جنگ بندی، شیخ عبداللہ کی برطرفی اور گرفتاری، موئے مقدس کی چوری اور سقوطِ ڈھاکہ سمیت کئی کڑے لمحات آئے۔ پاکستان پر بھی سقوطِ ڈھاکہ سے زیادہ برا وقت کوئی نہیں تھا۔ یہ وقت تھا جب پاکستان شکست اور مجبوری کے عالم میں کشمیر پر سودے بازی کرسکتا تھا۔ ان حالات میں بھی وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو بھارت کے ساتھ ایک معقول معاہدہ کرکے آئے اور کچھ دبائو کو تحریر میں لائے بغیر خوبصورتی سے وعدۂ فردا پر ٹال آئے جن میں کنٹرول لائن کو مستقل سرحد قرار دینا بھی شامل تھا، مگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے جو مایوسی مقبوضہ کشمیر میں پھیل چکی تھی اس نے کشمیریوں کے مقبول لیڈر شیخ عبداللہ کو اندراگاندھی کے ساتھ معاہدے ’’اندرا عبداللہ ایکارڈ‘‘ پر مجبور کیا، جس کے تحت شیخ عبداللہ رائے شماری کے لیے اپنی زوردار مہم، اور جیلوں کی زندگی ختم کرکے کشمیر کے وزیراعلیٰ بننے پر آمادہ ہوئے۔ انہوں نے حالات سے سمجھوتا کرکے یہ مؤقف اپنایا کہ وقت کا بہائو اب مسئلہ کشمیر کو خود حل کردے گا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے دبائو کے ماحول سے پاکستان نکل آیا تو اس نے زورشور سے کشمیریوں کی مدد کی منصوبہ بندی شروع کی، مگر شیخ عبداللہ جیسے قدآور انسان اس نئے سفر میں ساتھ نہیں تھے اور پاکستان سے مایوسی انہیں چاٹ گئی تھی۔ اس کے بعد پاکستان نے مقبول بٹ کی رہائی کی درپردہ کوششوں کا آغاز کیا، تاکہ ایک بڑے دماغ کو واپس لاکر استفادہ کیا جائے۔
کشمیر پر سودے بازی کی صرف ایک ممکنہ صورت ہے، وہ ہے کنٹرول لائن کو مستقل سرحد قرار دینا۔ کنٹرول لائن ایک عارضہ اور مرض ہے جو کبھی شفا نہیں بن سکتا۔ وادیٔ کشمیر اور وادیٔ چناب کے مسلمانوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کا مطلب دو قومی نظریے سے دست برداری ہے۔ پاکستان نے اس حل کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ بھارت نے طاقت کے نشے میں قائداعظم کی زندگی میں ہی جارحانہ اقدامات کیے تھے۔ لیاقت علی خان کے دور میں پاک بھارت جنگ بندی ہوئی جس سے مجاہدین کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے۔ ایوب خان کے دور میں تاشقند اور بھٹو دور میں شملہ معاہدات ہوئے تو اس کا مطلب ہرگز سودے بازی نہیں۔ بھارت نے ہمیشہ مسئلے کو خراب کرنے کے لیے یک طرفہ اقدامات اُٹھائے، چونکہ بھارت زمین پر قابض حقیقت تھا اس لیے پاکستان ردعمل پر مبنی کوششیں کرسکا ہے اور زمینی حقیقت کو بدلنا آسان نہیں۔ گلگت بلتستان پاکستان کے کنٹرول میں ہے، بھارت نے اس علاقے پر اپنا حق جتلاتے ہوئے سی پیک کی مخالفت میں پورا زور لگایا، دنیا میں فرضی تنظیمیں بناکر اس منصوبے کو روکنے کی کوشش کی، مگر وہ زمینی حقیقت تبدیل نہ کرسکا اور پاکستان نے سی پیک سے دست بردار ہونے سے انکار کیا۔ اب بھی بھارت نے یک طرفہ قدم اُٹھایا ہے اور یہ ماضی سے بہت سے حوالوں سے مختلف ہے۔ پاکستان پوری قوت سے بھارت کا مقابلہ کررہا ہے، مگر اس کے لیے آج کے حالات زیادہ فعالیت اور فیصلہ کن اقدامات کا تقاضا کررہے ہیں۔