شُکیب‘ شَکیب یا شِکیب

ایک بہت بزرگ اور عالم شخصیت نے ایک محفل میں بتایا کہ شکیب میں شین پر پیش ہے یعنی شُکیب۔ ہم تو اب تک اسے بالفتح (شین پر زبر کے ساتھ) پڑھتے رہے لیکن شُکیب پہلی بار سنا تو تجسس پیدا ہوا، جسے دور کرنے کے لیے لغات کا جائزہ لیا۔ لغت کے مطابق شین پر پیش ہے نہ زبر بلکہ زیر (بالکسر) ہے یعنی شِکیب۔ فارسی کا لفظ اور مذکر ہے۔ مطلب ہے صبر، تحمل، بردباری۔ اسی سے شکیبائی ہے لیکن یہ مونث ہے۔ داغؔ کا شعر ہے:

ضعف نے ایسا بٹھایا اس کی بزمِ ناز میں
میں نے یہ جانا مجھے حاصل شِکیبائی ہوئی

گزشتہ دنوں ایک صاحبِ علم و قلم کے دلچسپ مضمون میں لفظ ’’شکوا‘‘ پڑھا۔ ممکن ہے کہ یہ سہو ہو۔ یہ لفظ عربی میں ’’شکویٰ‘‘ ہے، شین پر زبر (بالفتح) بروزن دعویٰ۔ فارسیوں نے ’یٰ‘ نکال کر ’ہ‘ کا اضافہ کرکے اسے شِکوہ (بالکسر) بنا لیا۔ گلہ، شکایت (کرنا کے ساتھ)۔ سالک کا شعر ہے:

چاک جگر و دل کا جب شکوہ بجا ہوتا
یوسف کا زلیخا نے دامن تو سیا ہوتا

لیکن دامن سینے کا موقع ہی کہاں تھا۔ دروازے پر تو شوہر کھڑا تھا۔ ماہر لسانیات رشید حسن خان (مرحوم) نے اردو میں عربی الاصل ایسے تمام الفاظ کو جن میں ’یٰ‘ آتا ہے، الف سے بدلنے کی کوشش کی ہے مثلاً اعلیٰ کو اعلا، معلیٰ کو معلا وغیرہ۔ بقول کسے یہ عربی الفاظ کے ہجے بدلنے کی شعوری کوشش ہے۔ شکر ہے کہ موسیٰ اور عیسیٰ کو موسا اور عیسا نہیں کیا۔ ممکن ہے کہ شکوہ بھی اسی لہر میں شکوا ہوگیا ہو۔
شکوہ کے حوالے سے ایک لطیفہ یہ ہے کہ کئی پڑھے لکھے لوگوں سے شُکوہ کو بھی شکوہ سنا جیسے پرشِکوہ۔ لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے، اس میں پہلے اور دوسرے حرف پر پیش ہے یعنی شُکُوہ۔ مطلب ہے دبدبہ، شان۔ اس میں وائو مجہول ہے، جب کہ شِکوہ میں وائو پر زبر ہے۔ میر انیس کا شعر ہے:

ہر جا فرس شُکوہ دکھاتا تھا طور کی
بجلی قدم قدم پر چمکتی تھی نور کی

شُکوہ نام کا حصہ بھی ہوتا ہے جیسے ایک مغل شہزادے کا نام تھا ’’سلیمان شکوہ‘‘۔ اب کیا پتا لوگ اسے بھی ’شِک۔ وہ‘ کہتے ہوں۔ علامہ اقبال کی مشہور نظم ہے ’’شکوہ، جوابِ شکوہ‘‘۔
آزاد کشمیر کے پروفیسر غازی عَلم الدین کو اردو سے اتنی دلچسپی ہے کہ انہوں نے زبان کے موضوع پر کئی مضامین اور کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’’کچھ لسانی مباحث… اور نقطۂ نظر کا اختلاف‘‘ ہے۔ لیکن اسی کتاب میں شفقت رضوی کا ایک مضمون بعنوان ’’الفاظ کے استعمال میں بے احتیاطی‘‘ شامل ہے۔ ان کا مبلغ علم کیا ہے اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ انہوں نے فلسطین کے علاقے ’’رام اللہ‘‘ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جب یہ نام پہلے پہلے اخبارات میں شائع ہوا تو اس پر خوب اعتراض کیا گیا اور خودساختہ محققین نے اسے رملہ یا تشدید کے ساتھ رملّہ قرار دے کر رام اللہ لکھنے والوں کا مذاق اڑایا۔ چنانچہ شوکت رضوی نے بھی اپنے مضمون میں رام اللہ ہی کو نشانہ بنایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ہم نے برسوں بھگوان رام سنا تھا، یہ اسی نعرے کا آزاد ترجمہ ہے جو مسلمان دانشوروں کے قلم سے ’رام اللہ‘ بن کر ظاہر ہوا ہے۔ تاریخ نا آشنائوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ جنوبی ایشیا کے خاص علاقے تک محدود ’’بھگوان‘‘ آخر نبیوں کی سرزمین تک کیسے پہنچ گیا۔ اگر پاکستانی ذرائع ابلاغ کے ترجمہ کرنے والوں کی صلاحیت کا یہی معیار ہے تو یقینا وہ RAMADI کو اردو میں رام عادی اور ماہ رمضان کو رام دان کہنے اور لکھنے پر اصرار کریں گے۔ بھلا ان کی ضد کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کس میں ہے۔‘‘
موصوف نے رام اللہ لکھنے والوں کو تاریخ سے ناآشنا قرار دیا ہے لیکن خود وہ نہ جغرافیے سے آشنا ہیں نہ عربی زبان سے۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ’’رام‘‘ عربی کا لفظ ہے اور اس کا کوئی تعلق ہندوئوں کے رام سے نہیں ہے۔ عربی میں رام کا مطلب ہے THROW یعنی پھینکنا۔ اسی سے رمی اور رما ہے۔ قرآنِ کریم میں آیا ہے ’’ومارمیت‘‘ یعنی کس نے پھینکا۔ حج کے دوران رمی جمار ہوتی ہے یعنی شیطانوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ کوئی خودساختہ دانشور ’’رمی‘‘ کا تعلق بھی تاش کے ایک کھیل سے جوڑ کر ضد کرے گا کہ رمی نہ کہا جائے۔ جہاں تک جغرافیے سے لاعلمی کا تعلق ہے تو وہ کبھی فلسطین تو نہیں گئے ہوں گے لیکن جب ٹی وی پر اسرائیلیوں کی درندگی دکھائی جاتی ہے تو ’’رام اللہ‘‘ شہر کے نام کا بورڈ بھی نظر آجاتا ہے۔ کسی فلسطینی ہی سے پوچھ لیا ہوتا کہ اس شہر کا نام کیا ہے ورنہ کبھی عربی اخبارات ہی پر نظر ڈال لی ہوتی تو ان پر کھل جاتا کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے ترجمہ کرنے والوں کی مشکوک صلاحیت کے ساتھ ساتھ عربوں نے بھی یہی غلطی دُہرائی ہے اور رام اللہ ہی لکھے جارہے ہیں۔
علامہ طاہرالقادری بڑے عالم فاضل شخص ہیں۔ سال کا بیشتر حصہ یورپ میں گزارتے ہیں۔ ان کی انگریزی بھی بڑی رواں ہے لیکن جانے کیوں وہ Bull Doze (بُل ڈوز) کو بِل ڈوز یعنی Bill Doze ہی کہتے ہیں، ممکن ہے کینیڈا میں یہی تلفظ ہو لیکن جب جب وہ پاکستان آئیں، اپنا تلفظ یہاں کے مطابق کرلیا کریں، ورنہ ان کے بے شمار مرید بھی بُل کو بِل ہی کہنے لگیں گے۔
کچھ عرصہ پہلے کے سنڈے میگزین میں ایک صاحب کے مضمون کو بڑے اہتمام سے پسِ ورق شائع کیا گیا ہے جس سے لگتا ہے کہ بڑے کالم نگار ہیں، لیکن اس مختصر سے مضمون میں موصوف نے جتنی غلطیاں کی ہیں کم ہی کسی جگہ نظر آتی ہیں۔ لگتا ہے کہ انہوں نے مضمون جیسا بھیجا بغیر اصلاح کے شائع کردیا گیا۔ غلطیاں تو بہت سی ہیں لیکن خود قارئین کی اصلاح کے لیے مشتے ازخروارے ’’گومگوں، تصویر مشتہر ہوئے، نازیبہ، لاپتہ، نگاہوں میں گرتے، مکتبہ فکر‘‘ وغیرہ۔ اب کون پوچھے کہ یہ گومگوں کیا بلا ہے، حالانکہ اس کے بارے میں انہی صفحات پر لکھا جا چکا ہے کہ یہ ترکیب مہمل ہے۔ نگاہوں میں نہیں گرتے بلکہ نگاہ سے گرتے ہیں، اور مکتبہ فکر نہیں ہوتا ’مکتب فکر‘ ہوتا ہے جو School of thought کا ترجمہ ہے۔ مکتبہ تو کتابوں کی دکان کو کہا جاسکتا ہے۔ لاپتا کے بارے میں بھی لکھا جا چکا ہے کہ اس کے آخر میں الف آتا ہے، لیکن کوئی پڑھے اور پڑھ کر سمجھے تو سہی۔ لوگ ہمیں فون کرکے بور کرتے ہیں کہ آپ دوسروں کی غلطیاں نکالتے ہیں خود آپ کے اخبار میں اور میگزین میں یہ کیا شائع ہورہا ہے۔ نون۔الف صاحب یہ ضرور بتائیں کہ ’’مگوں‘‘ کیا ہوتا ہے؟ ہم نے اس مضمون کے حوالے سے ’’توجہات دلائی جاتی ہے‘‘ کا ذکر نہیں کیا ورنہ تو پورا مضمون ہی شاہکار ہے۔
ہم دوسروں کا تلفظ ٹھیک کرنے کی فکر میں رہتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ خود ہمارا تلفظ ٹھیک نہیں ہوا جیسا کہ شروع میں شکیب کے حوالے سے لکھا کہ ہم اسے بالفتح پڑھتے رہے۔ ایسے ہی بہت سے الفاظ ہیں جو ہم سمیت کئی لوگ غلط ادا کرتے ہیں اور زیر، زبر، پیش میں غلطی کرتے ہیں۔ چلتے چلتے ایک مثال ’’فریفتہ‘‘ کی ہے۔ ہم تو وہ بھی حرفِ اوّل ’ف‘ کو بالفتح (زبر کے ساتھ) پڑھتے ہیں لیکن لغت میں نہ صرف ’ف‘ کے نیچے زیر (بالکسر) ہے بلکہ دوسرے حرف ’ر‘ کے نیچے بھی یعنی یہ فِرِیفتہ ہے لیکن لغت میں یہ پڑھ کر اطمینان ہوا کہ یہ لفظ زبانوں پر بفتح اول اور دوسرا حرف بالکسر ہے۔ ہم تو دونوں ہی حروف کو بالفتح پڑھتے ہیں، اچھا لگتا ہے۔